اکابرین کے سیاسی منہج سے نوخیز علماء کرام اور عوام کی دوری کے اسباب۔ مفتی محمد اسماعیل بٹگرامی

اکابرین کے سیاسی منہج سے نوخیز علماء کرام اور عوام کی دوری کے اسباب
مفتی محمد اسماعیل بٹگرامی 

پہلے زمانے میں جب کوئی درس نظامی سے فراغت حاصل کرتا تو اسکے بعد کسی اللہ والے کے پاس خانقاہ میں سال ،چار مہینے یا کم از کم ایک چلہ گذار کر آتا اس سے اس میں پڑھائی کے دوران پڑھے گئے مضامین یا حالات کی بناء پر جذبات کا جو طوفان اندر بپا ہوچکا ہوتا ان جذبات کو صحیح رخ اور صاحب جذبات کو متانت و سنجیدگی اور اپنے بزرگ سلف وخلف سے جڑے رہنے کی تلقین و تعلیم کا عملی مظاہرہ سکھایا جاتا یہی وجہ تھی کہ آج کے مقابلے میں پہلے نہ اتنے علماء تھے نہ اتنے مدارس اور نہ ہی کتابوں کی اتنی فراوانی مگر اس سب کے باوجود فتنوں کا وہ طوفان نہیں تھا جسکا آج ہم مشاہدہ کررہے ہیں ایک عالم دین پورے علاقے کا رہنما ہوتا چاہے خان ہو یا نواب مسئلے مسائل میں عالم دین کے سامنے چوں چرا نہیں کرتا تھا کیونکہ تمام اسلامی ممالک میں یکساں نصاب تعلیم رائج تھا تمام علوم اسلامی ممالک میں پڑھائے جاتے تھے یورپ اور مغربی دنیا سے فنون کو سیکھنے کے لئے لوگ اسلامی ممالک کا رخ کرتے تھے پھر یہودیوں نے چال چلی اسلامی ممالک کے سربراہان کے خلاف پروپیگنڈہ چلایا عوام کو قیادت سے بدظن کرنے میں کامیاب ہوگئے خلافت جو چھتری کے مانند مسلمانان عالم کے لیے قدرت کا ایک سایہ ہوا کرتی تھی وہ پارہ پارہ ہوگئی پھر جب برصغیر میں بھی وہ اپنی چال میں کامیاب ہوگئے تو انگریز نے دین سے دوری کے لیے بطور بنیاد جو پہلا کام کیا وہ تھا یکساں نصاب تعلیم کو ختم کرکے مختلف نصابوں کو رائج کرنا اور علماء کرام سے عوام کو کاٹنے کے لئے ان علوم کے پڑھنے والوں کو ترجیحی بنیادوں پر اعلی مراعات سے نوازنا جن علوم کے پڑھانے والے یا تو خود انکے مشنری سے تعلق رکھنے والے ہوتے یا انکے گماشتے ہوتے یا وہ لوگ جو دین اسلام سے پھر چکے ہوتے یا اسلامی تعلیمات سے ناواقفیت کی بناء پر اسلامی احکام کو بعد کی پیداوار سمجھتے اس طرح تفریق پیدا ہوگئی کیونکہ لازمی بات تھی کہ جو دین پسند ہوتا اس سے کہاں برداشت ہوتا کہ میری اولاد ان لوگوں کے زیر سایہ رہیں جنکے دل ودماغ اسلام کے خلاف ہے اور جو آزاد خیال یا لالچی طبیعت کے ہوتے تو وہ مراعات کی وجہ سے انگریز کے رائج کردہ نصاب ہی کو کامیابی کا زینہ سمجھتے تھے۔

بہرحال اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے کہ عوام کا رابطہ علماء کرام سے دن بدن منقطع ہورہا ہے اور خود علماء کرام جو حکومت مستبدہ کے جبر کی وجہ سے تتر بتر تھے کسی مسئلے پر وہ موقف نہیں اپنا سکتے تھے جو اپنانا چاہئے اور وہ آواز نہیں بلند کرسکتے تھے جو بلند کرنا چاہئے ۔

ظالموں کے جبر کے آگے بند باندھنے اور علماء کرام کے بکھرے شیرازے کو مجتمع کرنے مظلوم طبقے کی داد رسی کے لئے مختلف علماء کرام جو مختلف مسالک سے تھے باقاعدہ مشوروں اور استخاروں کے بعد ایک جماعت کے لئے متفق ہوگئے اور عوام کو ایک جھنڈے تلے جمع کرنے کے لئے جمعیت علماء کی داغ بیل ڈالی گئی اس کے بعد عوام اور علماء کو جوڑنے کے لئے کسی نے تصنیف و تالیف کے ذریعے اس رابطے کو جوڑنے کی کوشش کی کسی نے عملی طور پر نکل کر عوام میں جا کر انہیں سمجھانے کی کوشش کی اور اس عملی کوشش میں کئی سارے نامور شخصیات نے کردار ادا کیا مگر جو نام اللہ رب العزت نے مولانا الیاس رحمہ اللہ تعالٰی کو بخشا وہ اپنی مثال آپ ہے بہرحال عوام کے لئے تو یہ تحریک بہت مفید ثابت ہوئی اور اس تحریک کی برکت سے توقع سے بھی زیادہ عوام الناس کا رابطہ دین و اہل دین یعنی علماء کرام کے ساتھ جڑا مگر بات چلی تھی مدارس سے فارغ التحصیل علماء کرام کو اپنے سلف و خلف کے نظریہ کے مطابق انکے منہج پر چلنا جو سراسر حکمت سے بھرا ہوا منہج ہے اس کے لئے تبلیغی جماعت نے علماء کرام کے لئے ایک سال لگانا شرط قرار دیدیا تاکہ وہ عوام میں گھل مل کر مسائل و مشکلات کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور پھر سنجیدگی کے ساتھ اسکے تدارک کے لئے کسی رہبر کی رہنمائی میں آگے بڑھیں مگر بزرگوں سے سنا ہے کہ اصل نظریاتی عالم دین جو صحیح معنوں میں عوام کی مشکلات کو سمجھ سکتا ہے اور جذبات وشدت پسندی کے بجائے متانت سے ان مشکلات کے لیے سینہ تان کر کھڑا ہوسکتا ہے وہ وہی عالم دین ہوسکتا ہے جو سب سے پہلے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالٰی کے سیاسی حالات کا مطالعہ کریں۔

 پھر مجدد الف ثانی کے زندگی پر نظر ڈالیں ۔

پھر امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے افکار کو پرکھیں اور ان افکار پر عملی مظاہرہ کے لئے سید احمد شہید ، قاسم نانوتوی رشید احمد گنگوہی رحمہم اللہ تعالٰی علیہ کا طریقہ کار اور حکمت عملی کیا تھی اس کے لئے اسیر مالٹا حضرت شیخ الہند رحمہ کے زندگی کو خوب ہر زاوئے سے مطالعہ کریں ۔

شیخ الہند رحمہ اللہ تعالٰی کا سیاسی منہج ،سوچ و فکر اور طریقہ کار یہ سب ماقبل ذکر کئے گئے بزرگوں کی زندگی کا نچوڑ تھا تھا ۔اور حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ تعالٰی کے منہج سوچ اور طریقہ کار او نکے زندگی کے سیاسی نشیب وفراز کے شارحین اسیر مالٹا شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی صاحب، مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب ،سحبان الہند حضرت مولانا احمد سعید دہلوی صاحب، مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی صاحب ،مورخ اسلام حضرت علامہ محمد میاں صاحب، امام الاولیا حضرت مولانا احمد علی لاہوری صاحب وغیرہ بزرگ ہیں جو ان بزرگوں کی زندگی ،طریقہ کار اور منہج کو مطالعہ کرے گا وہ کبھی بھی گمراہ نہیں ہوگا وہ اپنے بزرگوں پر اعتماد کے ساتھ آگے بڑھے اور فتنوں کے لئے سد باب بنے گا اور درس نظامی سے فراغت کے بعد جس بھی عالم نے ان بزرگوں میں سے کسی کو بھی مطالعے میں نہیں رکھا وہ اپنی جذبات کی تسکین کے لیے یا تو کسی مسلح تنظیم کے ساتھ وابستہ ہوگا یا کسی متشدد فرقہ وارانہ نعروں کے حامل جماعت کے ساتھ لگ کر قوم کو غلط راستے پر ڈال رہا ہوگا اور یا آخر میں سب کچھ سے ہاتھ دھو کر مودودی، مرزا جہلمی، غامدی یا دوسرے سلف بیزار گمراہ لوگوں کے ساتھ وابستہ ہوگا

اللہ رب العزت ہم سب کو فکری و نظریاتی ہر قسم کی گمراہی سے بچا کر اپنے صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق نصیب فرمائیں اور اہل حق علماء کرام کے دامن کے ساتھ وابستہ رہنے کی توفیق۔

ان علماء کرام نے جو مشترکہ میراث امت کے علماء کے ہاتھوں تھمایا ہے وہ ایک ہے مدرسہ جسکے نظم وضبط کے لئے بزرگوں نے وفاق المدارس العربیہ کی داغ بیل ڈالی اور سیاسی و فکری سوچ کو مجتمع رکھنے کے لیے جمعیت علماء اسلام ہے ۔

ان دونوں کی حفاظت ایسا ہی ضروری ہے جیسے مسجد اور خانقاہ کی یہ دونوں محفوظ اور مضبوط ہوں گے تو ہمارا مسجد وخانقاہ بھی محفوظ ہوگا ہماری دینی تحریکات بھی زندہ وتابندہ ہوں گے خدا نخواستہ اگر کسی دن یہ دونوں کمزور ہوگئے تو نہ مسجد رہے گی نہ کسی خانقاہ کا وجود ہوگا اور نہ ہی دینی تحریکات آزادی سے کام کی قدرت پائیں گے۔

لہذا علماء کرام اور انکے نشان کتاب کو یاد رکھئے

محمد اسماعیل بٹگرامی سابق صدر جمعیت علماء اسلام القصیم 




0/Post a Comment/Comments