غیروں نے اختلافات اور خاموشی کا فائدہ اٹھایا کل آپ کی باری ہے
بیاد مفتی عبد الشکور صاحب رحمہ اللہ، مولانا مسعود الرحمن عثمانی صاحب رحمہ اللہ، جناب ریحان زیب رحمہ اللہ باجوڑی
بہت پہلے سے قتل وغارت کا سلسلہ شروع ہے جو سب کے سامنے ہے آئے روز کوئی نہ کوئی قتل ہو جاتا ہے مگر چونکہ مقتول کا تعلق خاص گروہ یا پارٹی سے ہوتا ہے اس لیے متعلقہ پارٹی والے سوگ مناتے ہیں یا اکیلے احتجاج کرکے ناکام ہو جاتے ہیں جبکہ مخالف پارٹیاں یا جماعتیں اس کے قتل پہ خوش ہوتے ہیں ورنہ کم از کم شکر ادا کرتے ہیں کہ ہمارے پارٹی کا بندہ نہیں ہے چہ جائیکہ اس کا ساتھ دے دیں۔
لہذا اختلافات کو مخالفتوں اور ذاتیات میں تبدیل کرنے کی وجہ سے ہم سب نے انسانیت کا احترام ، ہمدردی ، ایک دوسرے کے دکھ میں سکھ میں شریک ہونے کے حوالے سے قرآن وحدیث کا درس بھول گئے ہیں
لہذا ذیل احترام انسانیت اور مسلمان کے کچھ آیات مبارکہ اور حدیثیں نقل کر دیتا ہوں لہذا غور سے مطالعہ فرمائیں۔
اسلام میں کسی انسانی جان کی قدر و قیمت اور حرمت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے بغیر کسی وجہ کے ایک فرد کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیاہے۔ اللہ عزوجل نے تکریم انسانیت کے حوالے سے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا:
👈 منْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا
’’جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے کی سزا) کے (بغیر، ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا۔‘‘
المائدة، 5: 32
اس آیت مبارکہ میں انسانی جان کی حرمت کا مطلقاً ذکر کیا گیا ہے جس میں عورت یا مرد، چھوٹے بڑے، امیر و غریب حتی کہ مسلم اور غیر مسلم کسی کی تخصیص نہیں کی گئی۔ مدعا یہ ہے کہ قرآن نے کسی بھی انسان کو بلاوجہ قتل کرنے کی نہ صرف سخت ممانعت فرمائی ہے بلکہ اسے پوری انسانیت کا قتل ٹھہرایا ہے۔ جہاں تک قانونِ قصاص وغیرہ میں قتل کی سزا، سزائے موت (capital punishment) ہے، تو وہ انسانی خون ہی کی حرمت و حفاظت کے لئے مقرر کی گئی ہے۔
👈👈 وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْۤ اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰهُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلْنٰهُمْ عَلٰى كَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا (70) سورت بنی اسرائیل
👈👈👈 3 لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِىٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ. سورت التین
یہاں چار چیزوں پہ قسمیں کھانے کے بعد انسان کی افضلیت بیان کی ہے۔
اس حوالے سے درجنوں آیات ہیں
اب احادیث کی طرف توجّہ کرتے ہیں
👈👈 مومن کی حرمت کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ ہے
صاحبِ شریعت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مومن کی حرمت کو کعبے کی حرمت سے زیادہ محترم قرار دیا ہے۔ امام ابن ماجہ سے مروی حدیثِ مبارکہ ملاحظہ ہو:
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَطُوفُ بِالْکَعْبَةِ، وَيَقُولُ: مَا أَطْيَبَکِ وَأَطْيَبَ رِيحَکِ، مَا أَعْظَمَکِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَکِ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَحُرْمَةُ الْمُوْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللهِ حُرْمَةً مِنْکِ مَالِهِ وَدَمِهِ، وَأَنْ نَظُنَّ بِهِ إِلَّا خَيْرًا
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا: (اے کعبہ!) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! مومن کے جان و مال کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہئے۔‘‘
ابن ماجه، السنن، کتاب الفتن، باب حرمة دم المؤمن وماله، 2: 1297، رقم: 3932
💐💐 مسلمان کی طرف ہتھیار سے محض اشارہ کرنا بھی منع ہے
اَسلحہ کی کھلی نمائش پر بھی پابندی
فولادی اور آتشیں اسلحہ سے لوگوں کو قتل کرنا تو بہت بڑا اِقدام ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہلِ اِسلام کو اپنے مسلمان بھائی کی طرف اسلحہ سے محض اشارہ کرنے والے کو بھی ملعون و مردود قرار دیا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ سے مرو ی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
لَا يُشِيرُ أَحَدُکُمْ إِلَی أَخِيهِ بِالسِّلَاحِ، فَإِنَّهُ لَا يَدْرِي أَحَدُکُمْ لَعَلَّ الشَّيْطَانَ يَنْزِعُ فِي يَدِهِ، فَيَقَعُ فِي حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ
’’تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے، تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ شاید شیطان اس کے ہاتھ کو ڈگمگا دے اور وہ (قتلِ ناحق کے نتیجے میں) جہنم کے گڑھے میں جا گرے۔‘‘
مسلم، الصحيح، کتاب البر والصلة والآداب، باب النهي عن إشارة بالسلاح، 4: 2020، رقم: 2617
💫💫 دورانِ جنگ کسی شخص کے اِظہارِ اسلام کے بعد اُس کے قتل کی ممانعت
حضرت اُسامہ بن زید بن حارثہ رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں:
بَعَثَنَا رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم إِلَی الْحُرَقَةِ مِنْ جُهَيْنَةَ، فَصَبَّحْنَا الْقَوْمَ، فَهَزَمْنَاهُمْ، وَلَحِقْتُ أَنَا وَرَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ رَجُـلًا مِنْهُمْ، فَلَمَّا غَشِيْنَا قَالَ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ. فَکَفَّ عَنْهُ الأَنْصَارِيُّ، وَطَعَنْتُهُ بِرُمْحِي حَتَّی قَتَلْتُهُ. قَالَ: فَلَمَّا قَدِمْنَا، بَلَغَ ذَالِکَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ لِي: يَا أُسَامَةُ، أَقَتَلْتَهُ بَعْدَ مَا قَالَ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ؟ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّمَا کَانَ مُتَعَوِّذًا. قَالَ: فَقَالَ: أَقَتَلْتَهُ بَعْدَ مَا قَالَ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ؟ قَالَ: فَمَا زَالَ يُکَرِّرُهَا عَلَيَّ حَتَّی تَمَنَّيْتُ أَنِّي لَمْ أَکُنْ أَسْلَمْتُ قَبْلَ ذَالِکَ الْيَوْمِ
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں جہاد کے لیے مقام حُرقہ کی طرف روانہ کیا جو قبیلہ جُہینہ کی ایک شاخ ہے۔ ہم صبح وہاں پہنچ گئے اور (شدید لڑائی کے بعد) انہیں شکست دے دی۔ میں نے اور ایک انصاری صحابی نے مل کر اس قبیلہ کے ایک شخص کو گھیر لیا، جب ہم اس پر غالب آگئے تو اس نے کہا: لَا إِلٰهَ اِلَّا اللهُ۔ انصاری تو (اس کی زبان سے) کلمہ سن کر الگ ہو گیا لیکن میں نے نیزہ مار کر اسے ہلاک کر ڈالا۔ جب ہم واپس آئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی اس واقعہ کی خبر ہو چکی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا:اے اسامہ! تم نے اسے کلمہ پڑھنے کے باوجود قتل کیا؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس نے جان بچانے کے لئے کلمہ پڑھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا: تم نے اسے کلمہ پڑھنے کے باوجود قتل کیا؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلسل یہ کلمات دہرا رہے تھے اور میں افسوس کر رہا تھا کہ کاش آج سے پہلے میں اِسلام نہ لایا ہوتا۔‘‘
بخاری، الصحيح، کتاب المغازي، باب بعث النّبيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أسامة بن زيد إلی الحرقات من جهينة، 4: 1555، رقم:
اس حوالے سے سینکڑوں احادیث ہیں مگر طوالت کی وجہ سے اس پہ اکتفاء کرتے ہیں۔
فتنہ پروروں سے ہمدردی اور تعاون کی ممانعت
دہشت گردوں اور قاتلوں کو معاشرے میں سے افرادی، مالی اور اخلاقی قوت کے حصول سے محروم کرنے اور انہیں isolate کرنے کے لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی ہر قسم کی مدد و اعانت سے کلیتاً منع فرمایا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی مومن کے قتل میں معاونت کرے گا وہ رحمت الٰہی سے محروم ہو جائے گا۔ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے:
مَنْ أَعَانَ عَلَی قَتْلِ مُؤمِنٍ بِشَطْرِ کَلِمَةٍ، لَقِيَ اللهَ عزوجل مَکْتُوْبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ: آيِسٌ مِنْ رَحْمَةِ اللهِ.
’’جس شخص نے چند کلمات کے ذریعہ بھی کسی مومن کے قتل میں کسی کی مدد کی تو وہ اللہ عزوجل سے اس حال میں ملے گا کہ اس کی آنکھوں کے درمیان پیشانی پر لکھا ہوگا: آیِسٌ مِنْ رَحْمَۃِ اللهِ (اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس شخص)۔‘‘
ابن ماجه، السنن، کتاب الديات، باب التغليظ في قتل مسلم ظلمًا، 2: 874، رقم: 2620
اس حدیث کے مضمون میں یہ صراحت موجود ہے کہ نہ صرف ایسے ظالموں کی ہر طرح کی مالی و جانی معاونت منع ہے بلکہ بِشَطْرِ کَلِمَۃٍ (چند کلمات) کے الفاظ یہ بھی واضح کر رہے ہیں کہ تقریر یا تحریر کے ذریعے ایسے امن دشمن عناصر کی مدد یا حوصلہ افزائی کرنا بھی سخت مذموم ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش سے محرومی کا سبب ہے۔ اس میں دہشت گردوں کے ماسٹر مائنڈ طبقات کے لئے سخت تنبیہ ہے جو کم فہم لوگوں کو آیات و احادیث کی غلط تاویلیں کرکے انہیں ’’جنت کی بشارت‘‘ دے کر سول آبادیوں کے قتل پر آمادہ کرتے ہیں۔
لہذا ہماری خاموشی بھی ایک قسم ان کی تعاؤن اور حوصلہ افزائی ہے۔
🤝🤝👏👏🤝🤝🌏🌍
اس لئے ہم سب نے متحد ہوکر ہر مسلمان کے لئے آواز اٹھانی ہے چائیے ان کا تعلق کسی بھی پارٹی یا جماعت کے ساتھ ہو بس یہ دیکھنا ہے کہ ہمارا مسلمان بھائی ہے سب اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کریں گے تو یہ قتل وغارت کا سلسلہ ختم ہوگا ورنہ نہیں۔
عرض کنندہ
✍️ بندہ حبیب اللہ سواتی
فاضل جامعہ دارالعلوم کراچی
متخصص جامعہ الشیخ یحیی المدنی بہادر آباد کراچی
ایک تبصرہ شائع کریں