قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا GNN کے بیورو چیف کاشف الدین سید سے خصوصی گفتگو 18 فروری 2024


قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا GNN کے بیورو چیف کاشف الدین سید سے خصوصی گفتگو

18 فروری 2024


بسم اللہ الرحمن الرحیم

السلام علیکم ناظرین میں ہوں کاشف الدین سید اور آج ہم بات کریں گے جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمٰن صاحب سے اور ان سے موجودہ سیاسی صورتحال پر گفتگو ہوگی مولانا صاحب بہت بہت شکریہ آپ نے وقت دیا مولانا صاحب تیور بدل گئے آپ کے اور آپ جیسے معتدل مزاج سیاستدان اچانک جذبات میں آگئے ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟

مولانا صاحب: میں بالکل بھی جذبات میں نہیں ہوں میں اپنے فطری طبیعت کے ساتھ پورے اعتدال کے مزاج کے ساتھ آپ کے سامنے بیٹھا ہوا ہوں اور یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہے ملک میں جب بھی اس قسم کی کوئی نا ہمواری آتی ہے اور ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں تو بلا روک ٹھوک بے دھڑک ہم نے ہمیشہ اپنا موقف دیا ہے اور اس کی پرواہ نہیں کی کہ عالمی قوتیں ناراض ہوتی ہے ایک حق بات ہے سخت حالات ہیں ہم نے کی بھی ہیں اور ہم کرتے بھی ہیں ہم ہمیشہ اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں آزمائش سے بچائے پھر ہم کس چیز کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں ایک مذہبی جماعت ہونے کے ناطے ایک قومی جماعت ہونے کے ناطے ہم نے روز اول سے پاکستان کی خدمت کی ہے پاکستان کے استحکام کے لیے کام کیا ہے پارلیمنٹ کا حصہ رہے ہیں میرے والد جو ہے وہ سن 1962 کی پارلیمنٹ کے ممبر رہے پھر اس کے بعد 1970 کے الیکشن میں 72 کے الیکشن میں انہوں نے تحریک کی قیادت کی جی اور 77 کی تحریک کی قیادت کس بات پر کی اسی پہ کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی، اب اس وقت ہم طالب علم تھے اور وہاں سے ہمارے اندر ویسے ہمارے مٹھی میں یہ بات آئی ہے کہ جو چیز بھی ہو وہ حقیقت کی بنیاد پر ہو دھوکے کے بنیاد پر نہ ہو نمائش کی بنیاد پر نہ ہو یہاں الیکشن بھی ہوتے ہیں اور لوگوں کے توانائیاں بھی اس پہ صرف ہوتی ہیں امیدواروں کی توانائیاں بھی اس پہ صرف ہوتی ہے دشمنیاں بھی ہو جاتی ہیں پیسہ بھی بے دریغ خرچ ہو جاتا ہے اور تمام تر کچھ کے باوجود عوام کی رائے بھی سامنے ہوتی ہے عوام کا رسپانس بھی سامنے ہوتا ہے اور اس کے باوجود جو نتائج آتے ہیں تو نتائج کا کچھ لوگ کمرے کے اندر طے کر لیتے ہیں یہ سچویشن ہمیں قابل قبول نہیں ہے سیدھی بات ہے اور اس حوالے سے پھر ایسے بھی نہیں کہ ہم نے پھر عجلت سے فیصلہ کیا الیکشن کے بعد لوگوں کا انتظار تھا میرے اوپر بھی دباؤ تھا کہ آپ کیوں خاموش ہیں آپ کیوں خاموش ہیں لیکن میں نے کہا نہیں میں اپنی پارٹی کی رائے لوں گا اس کے بعد چنانچہ ہم نے اپنی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس بلایا دو روز تک یہ اجلاس جاری رہا اور تب جا کر کے ہم نے یہ موقف دیا کہ ہم انتخابی نتائج کو مسترد کرتے ہیں تو وہ موقف ہم نے عوام کے سامنے رکھا ہے اور یہ اصولی موقف ہے جس پر ہم قائم ہیں ان شاءاللہ العزیز اور آگے بڑھیں گے ان شاءاللہ

اینکر: مولانا صاحب تاثر یہ ابھرا کہ ایک تو کچھ حلقوں میں یا کچھ صوبوں میں تحریک انصاف کو مینڈیٹ دیا گیا اور کہیں پر مسلم لیگ ن کو بھی دیا گیا پیپلز پارٹی کو بھی دیا گیا اس پر بھی آپ معترض ہیں؟

مولانا صاحب: میرا سوال ہے مسلم لیگ سے اور پیپلز پارٹی سے ہمارے دوست ہیں کہ یہی مینڈیٹ اس الیکشن میں ان کو ملا ہے چند سیٹوں کے اوپر نیچے کو چھوڑ کر، 2018 میں یہی مینڈیٹ تھا ان کے پاس، یہی لارجسٹ پارٹی جو ہے پنجاب میں مسلم لیگ ن تھی، یہی بڑی پارٹی جو ہے وہ سندھ میں پیپلز پارٹی تھی اور اس وقت انہوں نے کہا کہ دھاندلی ہوئی ہے، یہی سوال پی ٹی آئی سے ہے کہ تقریبا وہی مینڈیٹ اب بھی ہے ان کے پاس اور کچھ سیٹوں کے اوپر نیچے کے ساتھ ساتھ جب ان کی حکومت بن رہی تھی تو دھاندلی نہیں تھی اب دھاندلی کیسے ہو گئی لیکن جمعیت علماء اپنے سٹانس پہ کھڑی ہے ہم نے اس وقت بھی کہا تھا کہ دھاندلی ہوئی ہے آج بھی کہتے ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے یہ کوئی ایسی چیزیں نہیں ہیں کہ الیکشن کے حوالے سے ہم سے چھپی رہتی ہے میں خود 1988 سے پارلیمنٹ میں آیا ہوں اس وقت سے انتخابات دیکھ رہا ہوں ہم نے وہ الیکشن بھی کی ہے جس میں ہم جیتے ہیں تب بھی کوئی سوال دھاندلی کا نہیں ہوا ہم ہارے ہیں تب بھی یہ سوال نہیں ہوا کہ ہم ہارے ہیں لیکن جب دھاندلی کی شکایت آئی ہے تو پھر ہم نے ضرور کہا ہے ہمارے رد عمل میں ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے جی کہ عوام کا رسپانس کیا ہوگا ہمارے پاس کتنی قوت ہوگی کہ ہم اس کو چیلنج کر سکیں الحمدللہ ہم نے پچھلے 2018 کے بعد صورتحال کو سنبھالا مجھے افسوس اس بات پر آتا ہے اور مشکل میرے نزدیک یہ ہے یہ دوسرا الیکشن ہے جو متنازع ہو گیا ہے جی اور دو دفعہ اگر الیکشن متنازع ہوں گے تو پھر پاکستان میں جمہوریت کا کیا بنے گا پارلیمانی سسٹم کا کیا بنے گا اس نظام کا کیا بنے گا۔

اینکر: سوال یہ ہے مولانا صاحب کہ اگر جتوایا گیا ہے تو کس کو جتوانے کے لیے، اگر دھاندلی ہوئی ہے یا نتائج تبدیل کیے گئے ہیں تو پھر یہ کس کے لیے؟

مولانا صاحب: یہ ہوتا یہ ہے کہ اس میں میں اگر آپ سے بات کروں پتہ نہیں بعض دفعہ ہم جذبات سے نہیں ہوتے وہ ماحول میں پبلک کے دماغوں میں ایک تصویر ڈال دی جاتی ہے اور گھسا دی جاتی ہے اور وہ پھر اسی تصویر کے اندر گھومتے رہتے ہیں جو جن سے امید ہوتی ہے ان کو لایا جاتا ہے تو ان چیزوں میں بین الاقوامی دنیا بھی کام دیکھتی ہے جس سے پیچھے الیکشن میں انہوں نے ان کا خیال تھا کہ ہم نے سی پیک بھی رکوانا ہے پاکستان کے اندر چائنا کے انویسٹمنٹ بھی ہم جو رکوانی ہے 126 دن کا دھرنے کی صورتحال بھی اسی پہ منتج ہوئی تو یہاں ایک گریٹ گیم کا ہم حصہ بن جاتے ہیں اور پتہ نہیں ہمارے پبلک جو ہے اس کے ذہن میں کب یہ بات اترے گی کہ یہ کوئی لوکل معاملات نہیں ہیں کہ ہم اس حد تک جا کر یہی اپنے گھر میں کنویں کے اندر ہی سوچتے رہیں ہم نے دماغ کو اور فکر کو وہ وسعت دینی ہے جو سمندر کے وسعت رکھے اور جو یہاں تک ہے پوری دنیا کی سیاست ہے۔

اینکر: مولانا صاحب جب آپ گریٹ گیم کی بات کرتے ہیں تو پورے اس ریجن میں اس پختون بیلٹ میں اگر ہم بلوچستان تک کی جائے تو یہاں پر مذہبی قوتیں وہ بھی الیکشن ہار چکی ہیں قوم پرست قوتیں بھی الیکشن ہاری چکی ہے کیا یہ اس گریٹ گیم کا حصہ ہے؟

مولانا صاحب: میرے ذہن میں خود یہ ایک بڑا حساس سوال ہے کہ قوم پرست قوتیں بھی اور مذہبی قوتیں بھی وہ کیوں باہر رکھی گئی ہے اور پھر زیادہ تر ان لوگوں کا تعلق جو ہے جو اس سے قبل بلوچستان میں بھی کامیاب ہوتی رہی ہیں اور خیبر پختونخواہ میں بھی کامیاب ہوتے رہی ہیں ہر چند کے یہ لوگ سندھ میں بھی ہیں اور مذہبی طاقت بھی وہاں پر ہے اور قوم پرست بھی وہاں پر ہے لیکن وہاں وہ چونکہ پارلیمانی حوالے سے ہمیشہ کمزور رہے ہیں لیکن یہاں تو ہیں تو اس بیلٹ میں اگر آنے والے مستقبل کو رد عمل آتا ہے تو ظاہر ہے کہ یہاں مذہبی طبقے سے آتا ہے تو یہ بھی دنیا کو سوچنا ہے ہماری عدالتوں کو بھی سوچنا ہے ہمارے عوام کو بھی سوچنا ہے سیاسی جماعتوں کو بھی سوچنا ہے کہیں ایک ایسا آنے والا مستقبل اس قسم کی سوچ تو نہیں پیدا ہوگی تو اس حوالے سے بہت سوچ بچار کے تعلق کی ضرورت ہے اور ہمیں سنجیدگی سے اس ساری صورتحال کو سوچنا چاہیے۔

اینکر: مولانا صاحب الیکشن سے پہلے بھی آپ یہ بیانات بلکہ مطالبات ایک تو لیول پلینگ فیلڈ کے حوالے سے سیکیورٹی کے حوالے سے موسم کا حوالہ بھی آپ نے دیا تھا اور پی ٹی آئی بھی یہی مطالبہ کر رہی تھی اس میں کوئی مطابقت ہے؟

مولانا صاحب: اس میں دیکھیے میں تو ذاتی کسی اور پارٹی کی بات نہیں کر رہا ہوں پی ٹی آئی کے اپنے سوچ ہوگی نہ میں اس کا وکیل ہوں نہ اس سے کوئی لینا دینا ہے میں نے خود زمینی صورتحال دیکھی اور مجھے پورا ادراک تھا کہ ہم الیکشن کمپین نہیں چلا سکے گے اور یہ خطرہ مجھے تھا کہ سیاسی جماعتیں جمیعت علماء اے این پی جو خیبر پختونخواہ اور اس خطے کے لوگ ہیں ہمارے ساتھی شہید ہوتے رہے شمالی وزیرستان میں ہمارے ساتھی شہید ہوتے رہے ہیں ٹانک میں شہید ہوتے رہے ہیں بلوچستان میں ہوتے رہے ہیں تو یہ ساری صورتحال میں ہم چیختے رہے کہ ہم تو ان حالات میں الیکشن نہیں لڑ سکیں گے اب ہم یہاں پر پھنس گئے تھے اب ایسی صورتحال میں جب آپ امیدواروں کو پھنسا دیں گے کہ وہ بیچارا فیلڈ بھی نہیں جا سکے گا تو جو جو آپ پی ٹی آئی کی بات کرتے ہیں وہ ایک الگ کانسپٹ کے ساتھ تھا لیکن یہ ہمارے لوگ جیلوں میں ہیں اور ہمارے ساتھ اور سلوک ہے تو اوروں کے ساتھ اور سلوک ہے ہم تو ان حالات کے تحت مستقل طور پر حقیقت زمینی حقائق کو دنیا کے سامنے رکھنا چاہتے تھے اور ہم نے رکھے ہیں اور وہی ہوا ہمارے ساتھ یعنی آپ کو میں بتاؤں کہ میرے ضلعے میں اور ٹانک میں ایک حلقے پر دوبارہ الیکشن ہو رہے ہیں جی تو یہ ساری صورتحال جو ہے یہ ہمارے سامنے رہی ہے اور اس کو آپ لیول پلینگ فیلڈ کا نام دیں کوئی اور نام دے جو بھی نام دیں تو ہمیں کیوں روکا گیا پبلک بات کرنے کے لیے ہمیں کیوں خطرے میں خوف میں ڈالا گیا یہ بھی باقاعدہ کئی الیکشنوں میں میں نے دیکھا ہے اور خاص طور پر ان الیکشن میں جہاں ہمیں ہروایا جاتا تھا اور پھر آپ نے دیکھا اسی الیکشن میں ہمارے پشین میں دھماکہ ہوا قلعہ سیف اللہ میں دھماکہ ہوا حافظ حمد اللہ پہ حملہ ہوا تو یہ ساری چیزیں اسی دور کی تھی۔

اینکر: مولانا صاحب ایک سوال یہ بھی ہے کہ ایک گروپ نام جو بھی ہے وہ بھی اسلام کا نام لیتے ہیں اور آپ بھی اسلام کے علمبردار ہیں اسلامی نظام کے لیے آپ کوشش کر رہے ہیں سیاست کر رہے ہیں تو پھر ان کا ہدف آپ یا آپ کی جماعت کیوں ہے وجہ کیا ہے؟

مولانا صاحب: یہ بات تو سمجھنا بہت مشکل ہے کیونکہ ایک ظاہر کی تصویر ہے اور ایک اس کی تہہ میں جا کر حقائق کو معلوم کرنے والے تصویر ہے تو اس قسم کی صورتحال جو ہے وہ اب یہ یہ تمام صورتحال انڈیا میں نہیں ہے یہ سارے صورتحال بنگلہ دیش میں نہیں ہے انڈونیشیا میں نہیں ہے ملائیشیا میں نہیں ہے اور وہاں پر لوگ کام کر رہے ہیں اور صرف قانون سازی تو نہیں ہے دنیا میں، آپ کے جو ادارے ہیں مساجد ہیں مدارس ہیں علماء ہیں درس ہے تبلیغ ہے دعوت ہے ان کے سارے سلسلے چل رہے ہیں اور پھر آپ کے اکابر نے ایک راستہ طے کیا ہے کہ ہم اس راستے سے جدوجہد کرنی ہے اور ہم جدوجہد کی مکلف ہیں نتائج تو اللہ کے ہاتھ میں ہے تو یہاں پر تو سیاست میں ہم نے بہت کچھ حاصل کیا ہے ہم نے آئین حاصل کیا ہم نے آئین کو اسلامی بنیادیں فراہم کئیں ہیں یہ سب کچھ حاصل کیا ہے ختم نبوت کا مسئلہ ہم نے حاصل کیا ہے اسلامی قانون سازی کی بنیادیں ہم نے ڈالی ہیں بہت سے قوانین یہاں تبدیل ہوئے ہیں ہمارے عدالتوں نے بہت سے قوانین تبدیل کیے ہیں اپنے اپنے وقت میں جہاں پر کوئی ایک مذہبی ذہن کا جج آتا ہے تو وہ اپنے طور پر تو فیصلے دیتا ہے تو قرآن و سنت کے تابع دے دیتا ہے تو اس قسم کی کوئی رکاوٹیں یہاں نہیں ہے لیکن پارلیمنٹ کو ایسے لوگوں سے بھر دیا جاتا ہے جس کو قرآن و سنت سے کوئی دلچسپی نہیں ہوا کرتی یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ میں قانون سازی کے حوالے سے جو کردار ہے پارلیمنٹ کا وہ ہمیشہ مایوس کن رہا ہے۔

اینکر: مولانا صاحب یہ جو آپ نے پریس کانفرنس میں جو دو اہم باتیں کی ایک یہ کہ فیصلے اب ایوان میں نہیں میدان میں ہوں گے اور دوسری بات جو آپ نے پارلیمانی سیاست سے دستبرداری کی اس کی ضرورت کیوں پڑی؟

مولانا صاحب: یہی وہ چیز ہے کہ جس کے بارے میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم مسلسل اپنی توانائیاں کس لیے ضائع کر رہے ہیں یہ ایکسرسائز کس لیے ہے یہ اسی لیے ہے کہ بس چند سیٹیں لے کر ہم ایوان میں بیٹھتے رہیں اور ختم بات اور دھاندلی کے ذریعے ہمیں صاف کرتے رہیں اور پھر دنیا سے کہیں کہ یہ تو عوام نے مسلط کیے ہے ہم اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں بڑی آواز کے ساتھ ایک طاقتور آواز کے ساتھ ہم نے سڑکوں پہ آنا ہے میدان میں آنا ہے اور فیصلے میدان میں ہوں گے اب ایوان میں نہیں ہوں گے یہ بات جمیعت علماء نے سوچ سمجھ کر کی ہے کوئی جذبات میں نہیں کی ہے ہم پھر بھی پبلک کے سامنے جائیں گے پبلک کو ساتھ شریک کریں گے بین الاقوامی مداخلت کا راستہ روکیں گے اور ایک شفاف انتخابات کے ماحول کو ہم دوبارہ بحال کرنے کی طرف جائیں گے یہ ایک سنجیدہ فیصلہ ہے جذباتی نہیں ہے۔

اینکر: یہ تصادم کا راستہ نہیں ہے ؟

مولانا صاحب: تصادم ہی سے ترقی آئے گی تصادم کے بغیر دنیا میں کچھ ہے تو اس طرح گھر بیٹھے بیٹھے یہ تو کبھی اللہ نے آپ کو اجازت نہیں دی کہ گھر بیٹھے سوچتے رہو اور فکر کرتے رہو بس اور ذکر اذکار میں وقت گزارتے رہو میدان میں نکلنا اللہ کے راستے میں نکلنا اس کے دین کی سر بلندی کو ذہن میں رکھ کے نکلنا تو اعلائے کلمۃ اللہ واحد وہ چیز ہے کہ جس کے لیے ہر جدوجہد جو ہے جہاد کہا جاتا ہے۔

اینکر: تو مولانا صاحب پھر تمام سیاسی جماعتیں اس الیکشن کے بعد کسی نہ کسی شکل میں دھاندلی ہوئی ہے یا نتائج تبدیل کیے گئے ہیں پھر مطالبہ کیا ہے کیا ری الیکشن ہونا چاہیے ہونا کیا چاہیے؟

مولانا صاحب: اب ری الیکشن کا اور ان کا جو سوچنا ہے جنہوں نے سوچنا ہے وہ سوچتے رہے۔

اینکر: یہ تو مولانا صاحب پھر یہ جو آپ کی پریس کانفرنس ہوئی اس کے بعد جو ایک ماحول بنا کر پی ٹی آئی کے ساتھ آپ کے رابطے ہوئے وہ آپ کے گھر آئے یا کوئی اتحاد کوئی ایک ساتھ چلنے کا ماحول ڈیولپ ہو رہا ہے کوئی اتحاد ہوگا؟

مولانا صاحب: اچھا سوال کیا آپ نے، میں اس بارے میں بتا دوں مشکل ہوتی ہے جی کہ ہم یہاں کھڑے ہیں یہاں سے اگر ایک پہلا قدم اٹھاتے ہیں ہماری منزل جو ہے وہ ایک ہزار میل دور ہے لیکن جب پہلا قدم آگے اٹھایا تو آپ نے سیدھا چھلانگ لگا کر ہمیں اس منزل پہ پہنچا دیا یہ غلط تصور ہے اب ایک پارٹی کا وفد ہے وہ میرے گھر آیا کوئی میں نے دعوت نہیں دی کوئی میں نے خواہش ظاہر نہیں کی اور یہ پہلے بھی آتے رہے ہیں میں نے تو کبھی کسی کا راستہ نہیں روکا میں تو وضع دار آدمی ہوں ان کو خوش آمدید بھی کہتا ہوں ان کے ساتھ بیٹھتا بھی ہوں تو یہ حضرات میرے پاس تشریف لائے ہیں اور انہوں نے کہا جی کہ آپ بھی دھاندلی کہتے ہیں ہم بھی دھاندلی کہتے ہیں تو یہ میں نے ان سے کہا جی کہ آپ کا آنا جو ہے خوش آمدید کوئی ایسی بات نہیں ہے ایک ہے آپ کا اور ہمارا اختلاف وہ ہمارے اور آپ کے تعلقات کے درمیان کوئی ایک چھوٹی سی دیوار نہیں کھڑی ہے ایک پہاڑ ہے اور گزشتہ بارہ تیرہ سالوں پر محیط ایک انتہائی تلخ اختلاف ہے ہم تو پھر بھی تنقید سخت کرتے تھے لیکن نظریاتی حوالوں سے کرتے تھے اس کو آپ الزام کہتے تھے لیکن ہمیں تو گالیاں ملتی تھی اور ہم نے کبھی گالی کا جواب گالی سے نہیں دیا اپنے موقف سے دیا ہے اب اس موقع سے کوئی بھی اختلاف بھی کر سکتا ہے کوئی اتفاق بھی کر سکتا ہے لیکن اس پہاڑ کو سر کرنا اس کو پلانگنا اگر آپ کی یہ آج کی مجلس اس کے لیے ایک ماحول کا سبب بن سکتا ہے تو ہم سیاسی لوگ ہیں ہم مذاکرات پر بھی یقین رکھتے ہیں اور مذاکرات کے ذریعے مسئلے کے حل پہ بھی یقین رکھتے ہے یعنی یہ اصولی چیز ہوتی ہے سیاسی جماعت جو ہے وہ کبھی یہ نہیں کہہ سکتی کہ میں بات نہیں کروں گا میں مسئلے کا حل نہیں نکالوں گا اگر آپ کا یہ آنا ماحول کے لیے سبب بن سکتا ہے تو یہ مثبت چیز ہوگی ہم اس کو رد نہیں کرتے لیکن یہ کہ اس مجلس کو اتحاد کہا جائے یہ جذباتی بات ہے کہ جس طرح ہمارے لوگ ہر چیز کو اپنے الفاظ کا لباس پہنا دیتے ہیں۔

اینکر: یعنی کسی اتحاد کا امکان نہیں ہے؟

مولانا صاحب: نہ ان کی پوزیشن تبدیل ہوئی ہے نہ ہماری پوزیشن تبدیل ہوئی ہے اور اپنی پوزیشن کی تبدیل کرنے یا اس اختلاف کی تحلیل میں اگر کوئی ماحول بنتا ہے اور بات آگے بڑھتی ہے تو ایک سیاسی آدمی کب اس کا انکار کیا کرتا ہے لیکن پوزیشن ابھی اپنی اپنی جگہ پر ابھی تک ہیں اور اگر ہم اسی وقت ان اختلافات کے خاتمے پر پہنچتے ہیں ظاہر ہے جی کہ اپنی پوزیشن فوری طور پر نہ ہم تبدیل کر سکتے ہیں نہ شاید وہ تبدیل کر سکیں گے تو یہ ایک پوزیشن ہے کہ اس میں ہم نے آگے جانا ہے اس کو فور اتحاد کہہ دینا اس کو یہ کہہ دیں کہ فوراً جھگڑا ختم ہو گیا ہے اختلاف ہو گیا ہے ہمارا تو اپنے صوبے میں جس میں آپ بیٹھے ہوئے ہیں دعوی یہ ہے کہ ان کے لیے دھاندلی کی گئی ہے اور یہ ہم نے وہاں بھی ہلکی پھلکے انداز کے ساتھ ان کے ساتھ بات کی ہے۔

اینکر: مولانا صاحب اگر صورت بن جائے یا ساتھ چلنے کا تو ممکن ہے کوئی؟

مولانا صاحب: دیکھیے میں نے آپ کو ساری بات اسی جواب اسی کا جواب دیا جو آپ پھر دوبارہ پوچھ رہے ہیں۔

اینکر: اچھا مولانا صاحب یہ کہ جو دھاندلی کی بات ہے وہ سیاسی حلقوں سے نکل کر اب بیوروکریسی میں بھی چلی گئی ہے کمشنر راولپنڈی کا جو بیان آیا ہے اور وہ تو خود کو سزا کے لیے بھی پیش کر رہا ہے ان کو کیسے دیکھتے ہیں؟

مولانا صاحب: بات آگئی ہے لیکن اب یہ دیکھنا ہے کہ آگے کچھ ذرا حقائق مزید سامنے آئیں گے ہاں ہوتے ہیں جب حکومتیں بنتی ہیں تو پھر اس میں اپنا انپٹ دیتے ہیں اپنی رائے دیتی ہے اپنا تجزیہ دیتی ہے ان سے رپورٹیں دی جاتی ہیں ان کو مختلف کاموں پہ مہارت حاصل ہوتی ہے ان کو مہارت کا استفادہ کیا جاتا ہے ملک کے لیے قوم کے لیے اور وہ ساری چیزیں ہوتی ہیں تو یہ حالات کب تک بنیں گے اور ہم کب کس پر اعتماد کریں گے۔

اینکر: کمشنر صاحب کی اس اعتراف کو باتوں کو آپ کتنی وقعت دیتے ہیں؟

مولانا صاحب: میرے لیے پہلی خبر ہے میں اتنا زیادہ تیز ایک دم ردعمل نہیں دیا کرتا، تھوڑا انتظار بھی کروں گا کہ مزید کیا معلومات سامنے آرہی ہے ان کے حقائق سامنے آرہے ہیں۔

اینکر: اچھا مولانا صاحب ذرا واپس چلتے ہیں سیکیورٹی کی بات ہوئی تو اس سے پہلے آپ نے ایک کوشش کی آپ وفد لے کر گئے افغانستان وہاں کے حکام سے باتیں ہوئی تو پھر وہاں سے بھی آپ بہت کچھ لے کر آئے ہوں گے تو یہاں پر ملاقات ہوئی یا اس کا کوئی نتیجہ نکلا ہے؟

مولانا صاحب: وہ مسئلہ بھی بالکل ایسا ہی ہے جیسے میں نے پہلے آپ کو جواب دیا دیکھیں ایک بات تو طے ہے کہ امریکہ جس طرح نکلا ہے 20 سال کے بعد افغانستان سے ہر چند کے ایک دو سال تک دوحہ میں بات چیت بھی ان کی چلتی رہی اور کچھ تحریر میں بھی معاہدات آئے ہیں وغیرہ وغیرہ لیکن معاہدات کے تحت جس طرح نکلا جاتا ہے اس طرح نہیں نکلے بالکل حالت جنگ میں نکلے ہیں اور شہروں کو چھوڑ دیا اور اس حالت میں جو ہے امارت اسلامیہ کے لوگ شہروں میں آئے اور کنٹرول سنبھال لیے اور جو تھے وہ فرار ہو گئے بھاگ گئے لیکن ہمارا امارت اسلاميہ نے کہا کہ عام معافی، کوئی بھی جانے کی ضرورت ہے سب کا احترام کیا جائے گا لیکن جس نے جانا تھا وہ چلے گئے عوام میں بھی چلے گئے تو یہ ساری چیزیں جب ہوئی ہیں تو اس سے ہم نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ امریکہ کی نیت اب بھی افغانستان اور امارت اسلاميہ کے لیے اچھی نہیں ہے اور وہ نہیں چاہیں گے کہ امارت اسلامیہ مستحکم ہو یہاں یہ ہوا کہ پاکستان میں کچھ واقعات ہو گئے اور ان واقعات میں کچھ جو لوگ پکڑے گئے یا مارے گئے تو افغان نیشنل لوگ بھی تھے نوجوان، جس سے ہمیں شکایتیں پیدا ہو گئی کہ بھئی یہ تو معاہدہ یہ ہے کہ ہمارے سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہوگی اور یوں کہ یہ تو فلاں پکڑا گیا تو فلاں پکڑا گیا جب ہمیں اس کا تھوڑا سا ادراک ہوا کہ یہ تو حالات واقعی بدمزگی کی طرف جا رہے ہیں اور افغانستان کا استقلال پاکستان کی ضرورت ہے جب کہ پاکستان کا استحکام اور استقلال وہ افغانستان کی ضرورت ہے دو برادر اسلامی ملک جو ہے وہ آپس میں ایک بہتر تعلقات کی طرف آگے جائیں وہ اسی امارت اسلامی کی صورت جب اس میں ہم نے خطرہ دیکھا تو ہم نے اپنی خدمات پیش کی کہ ہمیں اس میں کردار ادا کرنا چاہیے چنانچہ جب میں نے افغانستان سے رابطہ کیا تو انہوں نے مجھے دعوت دی تھی باقاعدہ سے بات کی اور اپنے ملک کے جو اداروں سے رابطہ کیا انہوں نے بھی ان کو سراہا اور کہاں ٹھیک ہے مناسب بات ہے چنانچہ میں وہاں گیا اور وہاں سے میں بہت اچھا پیغام لے کر آیا بہت اچھی باتیں وہاں سے ہوئی ہے اور میں نے ساری یہاں پر رپورٹ کی اور انہوں نے بھی سراہا ان کو آپ بہت بہتر انداز کے ساتھ گئے ہیں اور بہت اچھا آپ اچیو کر کے آئے ہیں سو وہ جو کامیابی ہم لے کر آئے تھے تو اب ظاہر ہے جی کہ فضل الرحمن اپنی ذات کوئی چیز نہیں ہے یہ تو فضل الرحمن ہے اکیلا ہے دیکھیں اگر کوئی جماعتی قوت ہے کوئی جماعت کا کردار ہے تو وہ سیاسی کردار ہوتا ہے آج ہمارے پارلیمانی قوت کو اور ہمارے سیاسی حیثیت کو ایسی گزند پہنچائی گئی اس طرح اس کے کمر توڑی گئی کہ ہم پاکستان کی اتنی بڑی خدمت کا فرض بھی شاید اب ادا نہ کر سکے آج بھی کتنے یورپین ممالک بشمول امریکہ کے فوجی جو ہے وہ اسرائیل میں اتر کر اسرائیل کا دفاع کر رہے ہیں فلسطینیوں کے خلاف لڑ رہے ہیں اس جنگ میں بھی ہم نے جرات کی اور ہم نے حماس کے اور فلسطین کی موقف کی حمایت کی سو وہ بھی ان کی نظر میں ہمارا جرم ٹھہرا اب بین الاقوامی سطح پر فلسطین کے حوالے سے جمعیت کا موقف ہو یا امارت اسلامیہ کے حوالے سے جمیعت کا کردار ہو دونوں ان کی نظر میں جرم ہیں تو ظاہر ہے اس جرم کو سزا ملے گی اور مل رہی ہے اور یہ دے دی گئی۔

اینکر: آپ نے بات کی تھی کہ نو مئی کا بیانیہ دفن ہو گیا ہے اس اسکا کیا مطلب؟

مولانا صاحب: اگر یہ لوگ سمجھتے ہیں نو مئی کا جو باغیانہ کردار تھا اس روز کا وہ تو آج بھی یہاں پر حکومتیں بنانے کا سوچ رہے ہیں اور ان پر مقدمات بھی ہیں بغاوت کے مقدمات کے باوجود سرکاری افسروں کے بیچ میں کھڑے ہیں پولیس افسروں کے بیچ میں کھڑے ہیں مقدمے ان کے اوپر ہیں روپوش رہے ہیں ضمانتیں نہیں ہوئی ہیں ان کی اور ابھی تک جو ہے وہ حکومت بنانے کے لے کوشش کر رہے ہیں اور خیر خیریت ہے یہ کیا چیز ہے پھر اس کو سوچنا ہے انہوں نے، میں کسی کا دشمن نہیں ہوں میں پاکستان کا انتہائی مضبوط قسم کا وفادار اور خدمت گزار ہوں میں نے نواز شریف کو دعوت دی ہے کہ حکومت لینا آپ کے فائدے میں نہیں جا رہا ہے۔

اینکر: یہ آپ کا مشورہ ہے؟

مولانا صاحب: میرا مشورہ ہے میں نے پبلکلی دیا ہے میں آپ سے آپ سے بات کر رہا ہوں میں نے نواز شریف صاحب کو گھر میں کہا کہ یہ اب جو حکومت آپ لے رہے ہیں یہ قطعاً آپ کے فائدے میں نہیں جائے گا یہ اور تباہی کرے گا سیاسی لحاظ سے آپ کے لیے تو خوش نہ ہو ان چیزوں کا یہ ساری چیزیں کاغذی پھول کی طرح ہے جس میں کوئی خوشبو نہیں ہے یہ ریت کی دیوار ہیں یہ گریں گے ریت کی دیوار کو آپ سہارا نہ دیں آپ نہیں دے سکیں گے ان چیزوں کو، یہ میرے مشورے ہیں خیر خواہی کی بنیاد پر میں نے دی ہے اور میں آج بھی دے رہا ہوں کیا ضرورت تھی کہ مسلم لیگ کا آدمی آکر میرے خلاف پریس کانفرنس کرتا ہے پیپلز پارٹی کا آدمی اسی مینڈیٹ کے ساتھ 2018 میں انہوں نے کہا دھاندلی ہوئی ہے اور اسی مینڈیٹ کے ساتھ آج کہتے ہیں کہ صحیح ہوئے ہیں ان کے لوگ بھی پریس کانفرنس کر رہے ہیں میرے خلاف، مجھ پہ کیا اثر پڑتا ہے ان چیزوں کا، میں اتنا کمزور اعصاب کا آدمی ہوں کہ ان پریس کانفرنسوں سے میرے عزائم اور میرے ارادے جو ہیں وہ زمین بو ہو جائیں گے ایسے میں نے بہت ہی مراحل دیکھیں میں ان سے گزرا ہوں یہ کیا چیز ہے۔

اینکر: اگر مسلم لیگ نون حکومت نہ بنائیں دوسری طرف بھی اکثریت نہیں ہے تو پھر حکومت

مولانا صاحب: تو ان سے پوچھو کہ یہ سوال مجھ سے مت پوچھو یہ ان سے پوچھو جنہوں نے یہ حرکتیں کی ہے۔

اینکر: تو یہ تو اس وقت جو ملک کو جس صورتحال کا سامنا ہے معاشی بحران ہے اور تسلسل کے ساتھ کیا یہ ملک پھر ایک اور امتحان سے دوچار نہیں ہوگا؟

مولانا صاحب: میرے خیال میں ابھی یہ ممکن نہیں ہے کہ اس گھتی کو سلجھایا جا سکے اہل دانش نے بہت سوچ کے الجھائی ہے۔

اینکر: پھر مستقبل کیا ہے اس ملک کا؟

مولانا صاحب: یہ تو ان لوگوں کو سوچنا چاہیے میں نے موقف دے دیا ہے میں ملک کے مستقبل کو داؤ پر نہیں لگانا چاہتا میں اس کے لیے لڑنا چاہتا ہوں میدان میں آؤں گا فیصلے اب میدان میں ہوں گے اتنا کمزور فیصلہ ہم نے نہیں دیا ہے کہ ہم کسی سودے بازی کے لیے کر رہے ہیں کوئی کہتا ہے اپنی قیمت بڑھا رہا ہے میری قیمت پہلے بھی کوئی کم نہیں ہے الحمدللہ میں اللہ کا شکر گزار ہوں شاید میں ذاتی حیثیت میں ذاتی کمالات میں صلاحیتوں میں کچھ بھی نہیں ہو اور جو کچھ ہے اللہ کا کرم ہے اس وقت مجھے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے مجھے اس کا کوئی مسئلہ نہیں ہے میرے لیے۔

اینکر: مولا صاحب آخری سوال میکینزم کیا ہے کیا آپ یہ بیڑا اٹھانے کو تیار ہیں کہ ایک بار پھر تمام سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کرے بجائے اس کے کہ وہ ہاتھ اٹھائے؟

مولانا صاحب: یہ ماحول بن سکتا ہے لیکن تھوڑا سا ان کو جو اقتدار کی لالچ ہے دیکھیے پاکستان میں کیا میں آپ کو کیا بتاؤں یہ صرف ہماری اسمبلی کی سیٹیں نہیں بیچی گئی ہیں اسمبلیاں بیچی گئی ہے اب جنہوں نے اسمبلیاں خریدی ہے وہ میرے ساتھ کیسے بیٹھے گے جنہوں نے اپنے سیٹیں خریدی ہے پیسوں سے وہ میرے ساتھ کیسے بیٹھیں گے۔

بہت بہت شکریہ مولانا صاحب یقینا آپ نے وقت دیا اور ناظرین آپ نے باتیں سنی مولانا فضل الرحمن صاحب کی اور انہوں نے اپنا تمام تر موقف سامنے رکھ دیا ہے اب دیکھتے ہیں کہ آئندہ کے حالات کیا بنتے ہیں اب اجازت دیجیے اللہ حافظ


ضبط تحریر: #محمدریاض 

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات

تصحیح و ترتیب: #سہیل_سہراب

ممبر مرکزی ڈیجیٹل میڈیا کونٹنٹ جنریٹرز/ رائٹرز ممبر ٹیم جے یو آئی سوات

#TeamJuiSwat


قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن کا جی این این کو خصوصی انٹرویو ۔

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Sunday, February 18, 2024


0/Post a Comment/Comments