مسلمانوں کا قابل فخر ماضی تحریر : مولانا اسجد محمود


مسلمانوں کا قابل فخر ماضی

تحریر: مولانا اسجد محمود


عہد نبوی میں جو انقلاب برپا ہوا اس نے ہر دور کو قابل فخر تاریخ اور شاندار ماضی بنا دیا۔ پیغمبر اسلام ﷺ نے معاشرے کو جس نظام سے آراستہ کیا یقیناً بدوی زندگی میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، جس خطے میں کوئی روایات تمدن تہذیب معاشی سسٹم نہ ہو وہاں ایک ایسا نظام دینا جو قلیل مدت میں عرب اقوام کو نصف دنیا پر حکومت بخش دے انسانی ذہن وعقل اسے سمجھنے سے قاصر ہے۔عرب قوم میں خود مرکزیت ناپید تھی چہ جائیکہ دنیا ان کے حکم کے تابع ہوتی، لیکن جب اس آفاقی نظام نے عرب قوم میں قدم جمائے تو اہل دنیا نے اس نظام کو ایک قوم کا نظام تصور نہیں کیا بلکہ اپنی فلاح کو اس میں پنہاں سمجھا اور اس نظام زندگی کو پوری دنیا میں غالب کرنے کے لیے جانیں تک قربان کردیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت کے بعد مہاجرین و انصار اور انصار میں پھر اوس و خزرج کو ایسے رشتہ اخوت میں جوڑا کہ آج کے زمانے میں حقیقی بھائی بھی اس بھائی چارے کی مثال پیش نہیں کرسکتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اخوت اور انسانی حقوق پر مشتمل نظام پیش کیا، یقیناً قیامت تک اس نظام کا متبادل نظام پیش نہیں کیا جا سکتا۔ آپ ﷺ نے امن کے قیام کو ترجیح دی معاشی تعلیم و تربیت کی سہولتیں عام کروائیں مذہبی آزادی و رواداری کی تعلیمات دی غریبوں کو سکونت اور ضروریات زندگی فراہم کی یہ اس عالمگیر مملکت کی بنیادی چیزیں ہیں جس کی بنیادیں مدینہ کی گلیوں میں رسول اللہ نے ڈالیں۔ چند سالوں میں اس مملکت کا دائرہ دنیا میں تیزی سے پھیلا اور آپ ﷺ کے بعد شیخین نے اس کو مزید وسعت بخشی۔صحابہ کرام نے اپنے پیشوا کے دی ہوئی تعلیمات پر ایسا عمل کر دکھایا کہ انسانی عقل آج بھی حیریت میں مبتلا ہو جاتی ہے، خلفاء راشدین نے دنیا کے سامنے قابل تقلید حکومتی نمونہ قائم کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر تو بڑی بڑی بادشاہتیں بھی رشک کرتی ہیں اور رہتی دنیا تک کرتی رہیں گی انسانیت کے لیے بنیادی حقوق عدل معیشت معاشرت سماج بلکہ حضور ﷺ کی مراد نے تمام نظام زندگی کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا۔ اسی وجہ سے آج مغرب بھی حضرت عمر کی خلافت سے قوانین مرتب کر رہی ہے اور بطور مثال پیش کرتی ہے۔ آج قوموں کے سامنے صحابہ کرام کی وہ تصویر پیش کی جاتی ہے جس میں تلوار ان کے ہاتھ میں چمک رہی ہوتی ہے حالانکہ اسلام صحابہ کے اخلاق ایمان اور عدل سے پھیلا سب سے بہترین آزادی خلافت راشدہ کے دور میں آئی، انھیں صحابہ کرام کے ذریعے سے آج تک دین اسلام کی صحیح روح سے تمام امت مستفید ہورہی ہے، قرآن کریم نے خود صحابہ کی تعریف کردی ہے جس کے بعد کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ صحابہ کے پاک دامن پر داغ لگانے کی کوشش کرے حضرت امیر معاویہ بن سفیان رضی اللہ عنھما نے اسلام کے پرچم کو تھاما، قریب ایک صدی تک اموی خاندان نے جدوجہد سے فتوحات کا سلسلہ بام عروج تک پہنچا دیا، اس ایک صدی میں ایک اور شخصیت خلافت سنبھالتی ہے اور پھر صحابہ کرام کے دور کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں معیشت کا یہ حال ہوتا ہے صاحب نصاب کو کوئی غریب نہیں ملتا کہ وہ زکوۃ ادا کرلے، اس خلیفہ کا نام عمر بن عبد العزیز ؒ ہے یہ مسلمانوں کا دوسرا سب سے آئیڈیل دور ہے۔تیسرا مثالی دور بنو عباس کا ہے، ۲ صدیوں تک خلافت عروج بخش سکی پھر اس خلافت کو بھی زوال ہوا یقیناً اس دور کے علمی تمدنی کارنامے اور تہذیبی و ثقافتی ترقی سوائے بنو امیہ، اندلس دور کے علاوہ، ہمیں کہیں اسکی مثال نہیں ملتی، یہ دور مذہبی تمدنی اور سیاسی طور پر ہمارے لیے رہنما ہے۔اسلام کا نشات ثانیہ خلافت عثمانیہ کا قیام تھا یورپ ایشیا اور افریقہ تین بر اعظموں پر محیط اسلامی خلافت کا قیام، جس نے پوری دنیا میں اسلام کو عروج بخشا ایک مثالی حکومت کا قیام کیا، پیغمبر ﷺ نے فرمایا، تم ضرور قسطنطنیہ فتح کر لو گے، پس بہتر امیر، اُس کا امیر ہوگا، اور بہترین وہ لشکر ہوگا۔ (مسند امام احمد، جلد نمبر 4، صفحہ نمبر 335) یہی وہ حدیث مبارک ہے جس نے ہر دور میں مسلمانوں کو قسطنطنیہ کو فتح کرنے کے لیے مشتاق بنائے رکھا لیکن بالآخر سلطان محمد فاتح نے شہر کے فصیلوں کو اللہ اکبر کے نعروں کی گونج میں فتح کیا، خلافت کو زوال ہونے کے بعد ترکی سمٹ گیا اور اسلام کے نام لیواؤں پر پابندی لگا دی گئی لیکن ایک بار پھر ترکی میں اسلامی حکومت کی امیدیں جاگ چکی ہیں، مساجد سے اللہ اکبر کے آوازیں پھر سے کانوں کو سرور بخش رہی ہیں، اللہ تعالی ترک قوم کو حریت و استقلال کے ساتھ استقامت نصیب فرمائے، آمین۔

بر صغیر میں مسلمان بادشاہوں نے سلطنت کی بنیاد ڈالی جسے سلطنت مغلیہ کہا جاتا ہے اس بادشاہت میں برصغیر کے تمام قومیں اپنی سلطنت سے انتہائی خوشحال تھی یہاں بھوک افلاس کا تصور مٹ چکا تھا۔ یہاں کی تہذیب وتمدن عروج پر تھی ہر شہر اور گلی میں تعلیم عام ہوچکا تھا یہی وہ وجہ تھی جسے برطانیہ ہندوستان کھینچ لائی اور لوٹ کھسوٹ سے ہر چیز یہاں کے قوم سے غصب کر گئی یہاں تک کہ آزادی کا تصور مٹا دیا گیا۔

آج ہم اگر اپنی شاندار ماضی پر فخر کرتے ہیں تو اس میں ہم حق بجانب ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے آج ہمارے نوجوان اپنی تاریخ سے ناواقف ہیں اسلام کا عالمی تصور نوجوانوں کے ذہن سے مٹ چکا ہے اسلام کو ایک خاص قوم کے لیے تصور کرلیا گیا ہے۔

محبوب خدا ﷺ نے ہمیں المسلم اخو المسلم کا پیغام دیا ہے۔ آج وہ وقت ہے کہ اسلامی پرچم تلے ساری امت یکجا ہوجائے اور اسلام کا پرچم پوری دنیا پر لہرا دے تاکہ ہمارا ذکر بھی شاندار ماضی میں ہوسکے۔



0/Post a Comment/Comments