قائد جمعیتہ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا لاہور میں وکلاء کنونشن سے خطاب 6 مارچ 2024


قائد جمعیتہ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا لاہور میں وکلاء کنونشن سے خطاب

6 مارچ 2024

الحمدلله رب العلمین والصلواة والسلام علی اشرف الانبیاء والمرسلین وعلی آله وصحبه و من تبعھم باحسان الی یوم الدین، اما بعد فاعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم بسم الله الرحمٰن الرحیم

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا (الاحزاب 36) 

جناب صدر محترم، دانشوران قوم، میں خصوصی طور پر جناب شیخ زکریا صاحب کا اور جناب عبد الحمید ڈوگر کا شکریہ ادا کروں گا کہ ان کی محنتوں سے آج ہمیں لاہور میں وکلاء برادری کے ساتھ اور قوم کے دانشوروں کے ساتھ اس مجلس میں بیٹھنے کا شرف نصیب ہوا ہے، میں آپ تمام حضرات کا بھی شکر گزار ہوں کہ آپ نے اس مجلس کو اہمیت دی آپ تشریف لائے اور آپ نے ہماری حوصلہ آفزائی کی، ان شاءاللہ العزیز ہمارا یہ سفر آگے بڑھے گا اور اللہ کی مدد و نصرت سے اپنی منزل کو پائے گا۔

میرے محترم دوستو! ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ریاست کی اہمیت کو سمجھیں، ریاست کے اندر رہنے والی قوم اور اس کے مزاج کو سمجھے اور ہمارے ملک کا آئین جسے ملک کا متفقہ آئین کہا جاتا ہے یہ ہمارے درمیان ایک ملی میثاق کی حیثیت رکھتا ہے، ایسے وقت میں یہ آئین بنایا گیا کہ ملک ٹوٹ چکا ہے اور اس وقت کی سیاسی قیادت میں جس وسیع النظری اور جس فراخ دلی کا مظاہرہ کیا ایک دوسرے کے لیے گنجائش پیدا کی، آپ جانتے ہیں کہ جب فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف سن 1968 میں تحریک شروع ہوئی تو ملک کی سیاست دو حصوں میں بٹی ہوئی تھی، ایک طرف ڈیموکریٹک ایکشن کونسل تھا جس میں پاکستان کی تمام جماعتیں شریک تھی یہاں تک کہ عوامی لیگ کے شیخ مجیب الرحمن صاحب بھی اسی کا حصہ تھے، ایوب خان سے مذاکرات ہوئے اور دو باتوں پہ اتفاق ہو گیا، نمبر ایک کہ قوم کو بالغ راہ دہی کی بنیاد پر وہ ووٹ کا حق دیا جائے اور یہ کہ ملک کے اندر پارلیمانی طرزِ حکومت ہوگی، ذوالفقار علی بھٹو صاحب جو پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی تھے ان کا نعرہ تھا کہ صدارتی طرزِ حکومت ہونی چاہیے، لیکن 1972 میں جب عبوری آئین دیا گیا تو ایک مخلوط قسم کا نظام تھا، وفاق میں صدارتی طرزِ حکومت اور صوبوں میں پارلیمانی طرزِ حکومت تھی لیکن آئین میں اس وقت اس بات کی گنجائش رکھی گئی کہ قومی اسمبلی کا ممبر بھی صوبے کا وزیر اعلیٰ بن سکتا ہے لیکن جس وقت 1973 میں مستقل آئین بنا تو جناب ذوالفقار علی بھٹو بھی پارلیمانی طرزِ حکومت پہ آمادہ ہوئے، اپنا موقف انہوں نے چھوڑ دیا اور یہ اس وقت کی ضرورت تھی، مسئلہ یہ نہیں تھا کہ ان کے پاس دو تہائی اکثریت ہے ہر چند کے ان کے پاس دو تہائی اکثریت تھی لیکن انہوں نے پارلیمنٹ سے آئین کو پاس کرنے کے لیے دو تہائی اکثریت کا سہارا نہیں لیا، انہوں نے سندھ اور پنجاب کے ساتھ بلوچستان اور اس وقت کا صوبہ سرحد ان کو برابر کی حیثیت دی تاکہ کوئی صوبہ ایسا نہ ہو کہ وہ کہے کہ میں نے تو یہ آئین نہیں مانا تھا، پارلیمنٹ کے اندر سب لوگ ہوتے ہیں لیفٹ ایسٹ بھی تھے رائٹ ایسٹ بھی تھے سینٹرلسٹ بھی تھے اور آئین سب کے لیے قابل قبول کیونکہ تمام کے نظریات و خواہشات کو آئین میں گنجائش دی گئی اور یہ ایک نیشنل کمٹمنٹ کہلاتی ہے یہ قومی مفاہمت ہے میثاق ملی ہے جس کی بنیاد پر ہم ایک قوم ہے، اگر آئین بیچ میں نہیں ہے تو کوئی صوبہ اور کوئی قومیت پابند نہیں کہ پھر اس کی پاکستان کے ساتھ کمٹمنٹ رہے، اس لیے آئین کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے، بدقسمتی سے ہمارے ملک میں آئین بھی محفوظ نہیں رہا ہے، سن 1977 میں اس وقت بھی تحریک چلی پاکستان قومی اتحاد، پاکستان نیشنل الائنس پی این اے کی تحریک تھی میرے والد قبلہ گاہ اس کی قیادت کر رہے تھے ہم اس وقت طالب علم تھے، تو دھاندلی کے خلاف یہ میرا آج کا نظریہ نہیں ہے میں جب ابھی چھوٹا تھا تحصیل علم کے مرحلے سے گزر رہا تھا اور اس وقت دھاندلی کے خلاف مفتی صاحب نے تحریک چلائی تو ہماری گُھٹھی میں ہے کہ ہم دھاندلی کا الیکشن تسلیم نہیں کیا کرتے، تحریک چلی جیلے بھر گئی لیکن پھر بھی مذاکرات ہوئے اور مذاکرات بھی ایسے کہ مطالبات بی این اے نے پیش کئیں اور 32 مطالبات پیش کئیں اور ان میں ایک مطالبہ خود پی این اے نے وِدڈرا کیا جس پر اعتراض ہوا کہ اس کا آئین کے ساتھ مطابق ہے یا نہیں انہوں نے تسلیم کیا کہ ہاں یہ آئین سے متصادم نظر آرہا ہے اور تمام کے 31 مطالبات منوا لیے گئے معاہدہ طے ہو گیا معاہدہ لکھا گیا یہ 4 جولائی کا دن تھا اور عشاء کے وقت طے ہوا کہ صبح اس پر دستخط ہوں گے لیکن پھر 5 جولائی آیا اور آئین کو بھی اپنے ساتھ لے گیا الیکشن کو بھی اپنے ساتھ لے گیا جمہوریت کو بھی اپنے ساتھ لے گیا، سن 80 میں حضرت مفتی صاحب کا انتقال ہوا، لوگوں نے اعتراض کیا کہ مفتی صاحب بھٹو صاحب کے ساتھ تو ہم نے بڑے لڑائی لڑی ہے پھر کیسے ہیں ہم ان کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں، مفتی صاحب نے کہا بات ان کے ساتھ بیٹھنے کی نہیں ہے بات کمٹمنٹ کی ہے، ہم نے دستخط کے لیے کاغذ تیار کر دیا تھا صبح دستخط ہونے تھے ہمارے درمیان اتفاق ہو چکا تھا اور یہ اتفاق ہمارا بھی مسئلہ نہیں تھا یہ قوم کی امانت تھی، کچھ وقت ہم نے تعاون کیا اس مقصد کے لیے کہ یہ معاہدہ ہمارا امپلیمنٹ ہو جائے لیکن وہ مایوس ہوئے تو میدان میں نکل آئے، سن 80 میں ان کا انتقال ہوا اور 81 سے میرے جیلیں شروع ہوئی اور 85 ، 86 تک میں جیلوں میں رہا اس جمہوریت کے لیے آئین کی بحالی کے لیے، ایم آر ڈی بنی (موومنٹ فار دی ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی)، تو بات بنیادی یہ ہے کہ اس آئین کی اہمیت ہے، اب بھی جب ہم سیاسی لوگ آپس میں بیٹھے ہیں تو میں ان قائدین کی خدمت میں ایک سوال کرتا ہوں ان سے کہ ہم نے جمہوریت کے لیے بہت قربانیاں دی، آمریت کے خلاف ہم لڑے، لڑائیاں تو ایوب خان کے زمانے سے تھی لیکن براہ راست جو اس میں میری ذاتی شمولیت ہے وہ سن 81 سے ہے، آپ حضرات بھی اس وقت سے جمہوریت کی جنگ لڑ رہے ہیں، آج ذرا بتائیں تو صحیح مجھے کہ اس وقت ہم جہاں کھڑے ہیں وہاں جمہوریت طاقتور ہے یا آمرانہ فکر طاقتور ہے؟ (وکلاء کا جواب: آمرانہ فکر) تو کیوں؟ صرف آمروں سے شکایت ہونی چاہیے؟ ہمارے اندر کیا کمزوریاں ہیں اس کو بھی تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم کیوں کمزوری دکھا رہے ہیں، آج بھی میں یہی سوال کر رہا ہوں پاکستان مسلم لیگ سے بھی اور پاکستان پیپلز پارٹی سے بھی کہ جو آپ کا مینڈیٹ 2018 میں تھا تقریباً کچھ اوپر نیچے آج بھی وہی ہے، آپ کی اسی مینڈیٹ کے ساتھ اس وقت کا الیکشن کیوں دھاندلی تھا اور اج کا الیکشن کیوں دھاندلی نہیں ہے اور یہی سوال میں تحریک انصاف سے بھی کرتا ہوں کہ آپ کبھی تقریباً وہی مینڈیٹ ہے کچھ اوپر نیچے اس وقت دھاندلی کیوں نہیں تھی اور آج دھاندلی کیوں ہے، جمعیت علماء اپنے اصول پہ کھڑی ہے اس وقت بھی دھاندلی ہوئی تھی آج بھی دھاندلی ہے اس سے بدتر دھاندلی ہے نہ اس وقت تسلیم کیا تھا نہ آج تسلیم کرنے کو تیار ہیں، ذاتی دشمنی کوئی بھی نہیں ہوتی اصول کا معاملہ ہوتا ہے اور ہم اختلاف کے باوجود سیاسی رہنماؤں کا احترام کرتے ہیں، اگر معاشرے میں پانچ آدمی کسی کی عزت کرتے ہو تو میرا اور آپ کا بھی فرض ہوتا ہے کہ اس کو بھی عزت کے ساتھ ملے گا عزت کے ساتھ سلام کریں توہین آمیز رویے جو ہمارے معاشرے میں گھس آئے ہیں اس نے معاشرے کو اس کے ڈھانچے کو بٹھا دیا ہے، بڑے چھوٹے کا فرق ختم ہو گیا ہے، آوازیں کَسی جا رہی ہیں، ہم جب پارلیمنٹ میں جاتے ہیں تو پھر ہم وی آئی پیز کہلاتے ہیں یہ وی آئی پیز کی علامت ہے جو ہمارے پارلیمنٹ کے اندر ہو رہا ہے؟ وی آئی پیز اس طرح کرتے ہیں، اگر آپ کی خواہش ہے کہ میں پارلیمنٹ کا ممبر ہونے کے بعد جہاں جاؤں مجھے عزت کی نظر سے دیکھا جائے تو جس وقت آپ سب اکٹھے ہوں وہاں اختلاف بھی ہوتا ہے کبھی شور شرابہ بھی ہو جاتا ہے مسئلے پر شدت بھی آجاتی ہے لیکن بہت عارضی اور حدود کے اندر اندر، حدود سے باہر پھر بھی نہیں جاتی، یہاں تو ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں کاغذ پھینکے جاتے ہیں پتہ نہیں کیا کیا کچھ ہوتا ہے کسی کو اس پر بات کرتے ہوئے بھی انسان کو شرم و حیا آتی ہے، تو یہ رویہ بھی ہمارے ٹھیک نہیں ہے لیکن یہ ضرور ہمیں سوچنا ہے کہ آج جمہوریت کیوں کمزور ہو گئی ہے، میرے پاس جتنے بھی اکابرین تشریف لائے، ابھی میرے سیکرٹری صاحب کہہ رہے تھے کہ بھیک مانگنے آئے یہ لفظ بھی ٹھیک نہیں ہے میرے پاس آئے ہیں احترام سے باعزت طریقے سے کوئی بھیک نہیں مانگا جاتا، سیاسی مسائل ہیں لوگ ملتے ہیں ایک دوسرے کو اپنی بات پر آمادہ کرتے ہیں یہ ان کا حق ہے، ہم نے تو پی ٹی آئی کے ساتھ بڑی سخت جنگ لڑی ہے انتہائی تلخیاں اس کے باوجود جب وہ تشریف لائے ہیں ہم نے کہا ویلکم، ہم نے ان کو عزت دی ہے، تو اس اعتبار سے ہمارا اپنا ایک سیاسی کلچر ہے، ہمارے اپنے اقدار ہیں اور ہم نے ہی ان اقدار کو زندہ رکھنا ہے، کیونکر ہم اپنے اقدار کے قاتل بنیں، کیوں، یہ تو بہت بڑا جرم ہوگا، آنے والی نسلیں وہ آپ کے بارے میں کیا سوچیں گی جب وہ اپنا تاریخ پڑھیں گی اس میں اس قسم کے واقعات وہ پڑھیں گے، یہ تھے ہمارے بڑے لوگ، پھر وہی ہم سے سیکھتے ہیں، وہ کہتے ہیں نا یہ کہ بچوں کے سامنے ایسا کام نہ کرو کیونکہ وہ فوراً نقالی کرتے ہیں۔ تو اس اعتبار سے یہ آئین ہے اور آئین کی بالادستی ہونی چاہیے۔ 

ہمارا آئین کچھ اصول طے کرتا ہے میرے نزدیک چند باتیں ایسی ہیں اور صرف میرے نزدیک نہیں پارلیمنٹ کی کمیٹیوں میں متفقہ طور پر یہ رائے قائم کی گئی تھی اور شاید آئین بھی کہتا ہے آپ خود مجھ سے زیادہ بہتر سمجھتے ہیں کہ ایک آئین کا بنیادی ڈھانچہ ہوتا ہے، آئین کے اساسی ستون ہوتے ہیں اگر کوئی ستون گرتا ہے تو آئین گرتا ہے سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہمارے آئین کا اولین ستون وہ اسلام ہے کہ آئین کہتا ہے اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا یعنی یہ ایک سیکولر سٹیٹ نہیں ہے یہ ایک مذہبی سٹیٹ ہے اور پھر اس کا مذہب اسلام ہے یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں یہ آئین کہتا ہے، دوسری چیز کہ یہ ملک جمہوری ہے جمہوریت اس کی دوسری اساس ہے یعنی یہاں پر آمریت کی کوئی گنجائش نہیں مارشل لاء کی کوئی گنجائش نہیں ہے یہ دوسرا بڑا ستون ہے اور تیسرا ستون پارلیمانی طرزِ حکومت ہے یعنی یہاں پر نہ صدارتی طرزِ حکومت کے لیے گنجائش رکھی گئی ہے نہ مارشل لاء کے لیے کوئی گنجائش ہے یہاں پر اگر مملکت کا نظام چلے گا تو پارلیمان کے وساطت سے چلے گا اور پارلیمنٹ وِل بی دَ سپریم، چوتھی چیز وہ ہے ہمارا وفاقی نظام، آئین میں اس وقت ایک وفاق کے نیچے چار یونٹس ہیں چار وحدتیں ہیں دو تہائی اکثریت سے کل اگر کوئی اور صوبہ بنتا ہے تو اضافہ کیا جا سکتا ہے لیکن ایک وفاقی نظام ہے ملک کے اندر، اب اگر آئین میں اسلام جمہوریت ہو پارلیمانی طرزِ حکومت ہو وفاقی نظام ہو یہ چار چیزیں اگر چھیڑی جاتی ہیں اور یہ منہدم ہوتی ہے تو آئین منہدم ہو جاتا ہے اور پھر آپ کو ازسر نو آئین ساز اسمبلی کا انتخاب کرنا ہوگا، آپ بتائیں کہ کیا آپ کے ملک کے حالات اور آپ کی سوسائٹی آج اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ ہم یہ رِسک لے لیں کہ ہم دوبارہ نیا آئین بنائیں، بچا کچھا بھی کچھ نہیں رہے گا، جو پہلے آئین نہیں تھا تو بنگال چلا گیا جب اب آئین نہیں ہوگا تو پتہ نہیں کون کون سا علاقہ جائے گا، یہ کوئی سادہ باتیں نہیں ہیں سطحی باتیں نہیں ہیں ان کو بڑے گہرائی کے ساتھ ہمیں سوچنا پڑے گا کہ ہم کس پگڈنڈی پہ سفر کر رہے ہیں اور ہمیں احساس ہی نہیں ہے، پگڈنڈی کے اوپر اس طرح چل رہے ہیں جیسے کہ موٹروے پہ جا رہا ہوں، یہی ہمارا آج اختلاف رائے ہے کہ فیصلے عوام نے کرنے ہیں یعنی انتخاب عوام نے کرنا ہے یا ہماری اسٹیبلشمنٹ نے کرنے ہیں، قانون سازی ایوان نے کرنی ہے یا پیچھے سے ڈکٹیٹروں نے، اور یہ بات جو میں کہہ رہا ہوں کوئی جذباتی یا سادگی کے ساتھ نہیں کر رہا ہوں میں گواہ ہوں ان چیزوں کا میں آپ کے سامنے اپنی آنکھوں دیکھا حال اور زندگی بھر کا تجربہ آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں، ہم تو بڑے گزارے والے لوگ ہیں، مجھ سے کسی نے کہا جی کہ آپ کیسی سیاست کریں گے میں نے کہا گزارے والی سیاست کریں گے، میں شدت والی سیاست کا قائل نہیں ہوں، لوگوں نے بندوق اٹھا لی ہے شریعت کے لیے ہم نے کہا نہیں ہمارا ملک اسلامی ملک ہے اس کے عقیدے کا تعین میرا آئین کرتا ہے اس پر عمل نہیں ہو رہا تو عمل کرنے کے لیے جدوجہد ہوتی ہے سیاسی جدوجہد ہوتی ہے۔

 ہمیں بیرونی دنیا کے اثر و رسوخ سے نکلنا چاہیے ویسے تو کہتے ہیں جی کالونِ ازم ختم ہو چکا ہے جنگ عظیم دوم کے بعد کالونیاں ختم، حد تک کے ابھی کچھ ہیں دنیا میں لیکن پسماندہ ممالک ہو یا ترقی پذیر ممالک ہو انہیں براہ راست ان ملکوں میں جا کر اور اقتدار ہاتھ میں لے کر اب کنٹرول نہیں کیا جا رہا، دو ذریعوں سے اس پسماندہ اور ترقی پذیر دنیا کو کنٹرول کیا جاتا ہے ایک بین الاقوامی ادارے اور ایک بین الاقوامی معاہدات اور تین چیزوں کو کنٹرول کیا جاتا ہے آپ کی سیاست کو آپ کی معیشت کو اور آپ کے دفاع کو، ان تین چیزوں کو بین الاقوامی اداروں اور معاہدات کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے، ملک ہمارا ہے ہم اپنی خود بخاری کی دعویدار ہیں، ہمارا آئین پاکستان کو ایک خود مختار ریاست قرار دیتا ہے لیکن اگر اقوامِ متحدہ یا سلامتی کونسل یا جینیوا کا انسانی حقوق کنونشن ہے یا اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا ادارہ ایک قانون پاس کر لے اور وہ آپ کے ملک کے اندر کے قانون سے متصادم ہو تو پھر آپ کے ملک میں آپ کا قانون مؤثر نہیں ہے وہی بین الاقوامی قانون مؤثر ہو جاتا ہے تو آزادی کہاں رہی قوموں کی! تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہماری سیاست ان کے کنٹرول میں چلی گئی ہے، معیشت ان کے کنٹرول میں ہے، معیشت ورلڈ بینک کے ہاتھوں چلی گئی، آئی ایم ایف کے ہاتھوں چلی گئی، ایف اے ٹی ایف کے ہاتھوں میں چلی گئی، بین الاقوامی ادارے آپ کو کنٹرول کر رہے ہیں، آپ کا بجٹ پاکستان میں بیٹھ کر وہ بناتے ہیں اور آپ اسمبلی میں پڑھ رہے ہوتے ہیں، آئے روز آپ کو آئی ایم ایف کو جواب دینا ہوتا ہے، آپ ان کے شرائط پر پورا اتر رہے ہیں یا نہیں اتر رہے، آپ کو قرضے کی نئی قسط ملے گی یا نہیں ملے گی اور اس کی حیثیت ایک کلیگ کی ہے کہ جب تک وہ ہاں نہیں کرے گا دنیا کا کوئی ملک آپ کو نہ مدد دے سکتا ہے نہ آپ کو قرضہ دے سکتا ہے، تو آپ کی معیشت تو پہلے دن سے قرضوں پہ ہیں، جب سے مرحوم شہید لیاقت علی خان وزیراعظم کی حیثیت سے امریکہ میں گئے اور اس وقت سے جو ہمیں پیسہ ملا اور باہر کے پیسے کے ہم عادی ہوئے ہمارے منہ کو لگا ہے آج تک ہم باہر کے قرضے کے بغیر اپنے وسائل پر ملک کو چلانے کے قابل نہیں ہوئے، تو آج بھی یہی صورتحال ہے، آپ کی پوری معیشت کو وہ کنٹرول کر رہے ہیں، آپ کے پڑوس میں چائنا آپ کے بعد آزاد ہوا، ہندوستان آپ کے ساتھ آزاد ہوا، آپ کے پڑوس میں ملائشیا ہے انڈونیشیا ہے جنوبی ایشیا اور مشرقی ایشیا کے ممالک ہیں ان کا سالانہ جی ڈی پی گروتھ وہ کبھی چھ اور سات سے نیچے نہیں آیا، چائنا تو کسی وقت گیارہ پہ بھی پہنچ گیا تھا ان کو خود نیچے کرنا پڑا کہ برتن سے پانی چھڑک رہا ہے اب کیا کریں، لیکن پاکستان وہ دن بھی ہم نے دیکھا جو ملک میں بجٹ پیش ہوا اور سالانہ جی ڈی پی گروتھ زیرو سے نیچے چلا گیا منفی ہو گیا یہ ہم نے اور آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں، معیشت کے ہزار بڑے بڑے دعوے کے باوجود اس وقت بھی ہم نہیں سنبھل رہے، تو ملکوں کی تباہی کے لیے کیا چاہیے سب سے پہلے سیاسی عدم استحکام اس کے بعد معاشی عدم استحکام اور اس کے بعد دفاعی عدم استحکام، سو آپ دفاع کے لیے بھی ایٹم بم کے مالک ہیں لیکن اپنا ایٹم بم سنبھالنا آپ کے لیے مشکل ہورہا ہے، امریکہ خود آج تک سی ٹی بی ٹی پہ دستخط نہیں کر چکا لیکن آپ پر دباؤ ہے کہ دستخط کرو، ہر طرف سے شرائط آرہی ہوگی پاکستان پہ دباؤ بڑھا رہے ہیں اور حالت ہماری یہ ہے کہ یہ اسلامی دنیا کا ایٹم بم ہے اور اسلامی دنیا کا ایٹم بم ہوتے ہوئے آج میرے مسلمان بھائی فلسطینی پر جو گزر رہی ہے اور اکتوبر سے لے کر اب فروری تک 31 ہزار وہاں کے مسلمان شہید ہو چکے ہیں، سر چھپانے کی جگہ ختم ہو چکی ہے، بارشیں برس رہی ہے اور مائیں کیچڑ میں بیٹھ کر اپنا سر جھکا کر اپنے بچوں کو سایہ دے رہے ہیں، گھاس کھا رہے ہیں بچے چھوٹے بچے جب گھاس کھائیں گے تو فوڈ پوائزنگ نہیں ہوگی اور اس سے وہ شہید ہو جاتے ہیں، وہ چھوٹے چھوٹے بچے جو شیر خوار تھے آج وہ زندہ ہیں وہ جب جوان ہوں گے ان کو پتہ نہیں ہوگا ہم کس کی اولاد ہیں، نہ اس کی ماں رہ گئی نہ اس کا باپ رہ گیا نہ اس جا خاندان، اب کہاں گیا انسانی حقوق اور امریکہ کی خارجہ پالیسی کی اساس وہ انسانی حقوق ہے، کسی بھی ملک میں انسانی حقوق کا مسئلہ کھڑا کر دے گا براہ راست اپنی فوجیں داخل کرے گا۔ میرے پاس آئے تھے امریکی سفارت خانے سے کچھ لوگ مجھے کہا میں افغانستان میں تشویش سے اس بات پر کہ وہاں انسانی حقوق محفوظ نہیں ہے، میں نے کہا کون سے انسانی حقوق محفوظ نہیں ہیں کہتے ہیں بچیوں کی تعلیم پر پابندی ہے تو میں نے کہا کہ وہ جو گوانتانامو میں جو آپ لوگ کر رہے تھے انسانیت کے ساتھ وہ کس انسانی حق کے ذمرے میں آتا تھا، وہ جو شبرغان جیل میں اور بگرام کے قید خانوں میں عقوبت خانوں میں اور تمہارے سمندروں کے اندر بحری بیڑوں کے اندر کے عقوبت خانوں میں جو انسانیت کے ساتھ ہو رہا تھا وہ کس انسانی حق کے ذمرے میں آرہا تھا اور آج چار پانچ مہینے کے اندر 31 ہزار مسلمان بچے مائیں بہنیں عام شہری شہید ہو چکے ہیں اور اس کے باوجود بھی امریکہ اور یورپ اسرائیل کو مدد دے رہے ہیں ان کی پشت پہ کھڑے ہیں ان کی فوجیں لڑ رہی ہیں ان کے ساتھ، کس انصاف کی بات کرتے ہیں یہ لوگ اور مجھے ان پر کوئی تعجب نہیں کوئی اور اس کا ادراک کرے یا نہ کرے میں جس سلسلے نسب سے تعلق رکھتا ہوں میرے اکابر و اسلاف انہوں نے انگریز کے خلاف ڈیڑھ سو سال جنگ لڑی ان کو پتہ ہے کہ مغرب کتنا درندہ ہے اور وہ کتنا انسانیت کا قاتل ہے، کروڑوں انسانوں کو انہوں نے جنگ عظیم اول اور دوم میں تہس نہس کر دیا ایٹمی بم انہوں نے گرائے اور آج وہ انسانی حق کی بات کرتے ہیں، اس ظلم کی پشت پہ کھڑے ہیں اور ہم سے کہیں گے کہ آپ کے ہاں انسانی حق محفوظ نہیں ہیں لیکن اس سے زیادہ تعجب مجھے اسلامی دنیا پر ہے ان کے حکمرانوں پہ ہیں، کہاں گئی ان کی حمیت اور غیرت، کہاں گئی وہ مسلم یونیٹی، وحدت امہ جس کا درس جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا

مَثَلُ المُؤْمِنينَ في تَوَادِّهِمْ وَتَعَاطُفِهمْ وتَرَاحُمِهمْ كمَثَلُ الجَسَدِ الواحد إذ اشْتَكَى عَيْنُهُ اشْتَكَى كُلُّهُ وإذ اشْتَكَى رَأْسُهُ اشْتَكَى كُلُّهُ وإِذَا اشْتَكَى عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الجَسَدِ بِالسَّهَرِ والحُمَّی۔

 ایمان والوں کی مثال ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کرنے میں، اس پر مہربان ہونے میں، ایک دوسرے کے ساتھ دوست دوستی کرنے میں ایسی ہے جیسے ایک جسم اور جسم کے اگر آنکھ پہ درد ہے تو پورا جسم بےقرار سر میں درد ہے تو پورا جسم بے قرار، کہاں گئی وہ بے قراری! اس کا معنی یہ ہے کہ ایمان کا رشتہ ختم ہو چکا ہے اور ہم اس وقت وہ لوگ بن گئے ہیں جس کا قرآن کریم ذکر کرتا ہے

قَالَتِ الأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ وَإِنْ تُطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ لاَ يَلِتْكُمْ مِنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (الحجرات)

جس طرح دیہاتی لوگ کہتے تھے ہم ایمان لائے، اللہ تعالی نے فرمایا ان کو بتا دو کہ ابھی تمہارے دلوں میں ایمان پختہ نہیں ہے ابھی تم صرف اتنا کہو کہ ہم اسلام لائے تم صرف مسلمان ہو بس، ایمان کے مقام تک نہیں پہنچے تم لوگ، ایمان کا رشتہ ہوتا تو کم از کم اسلامی دنیا کے حکمرانوں میں کچھ تو غیرت ہوتی، کچھ تو حمیت ہوتی، الفاظ کی حد تک تو ہم بھی قراردادیں پاس کر لیتے ہیں، ایک دفعہ نہیں بار بار پاس کر لیتے ہیں، تو میں آج بھی سمجھتا ہوں کہ امت مسلمہ ان کی مدد کو پہنچے ورنہ کل آپ دیکھیں گے پوری دنیا جو ہے ان کے اوپر حملہ اور ہونگی اور کچھ بھی نہیں کرسکیں گے۔ 

آپ حضرات عدالتوں میں جاتے ہیں مقدمات کی پیروی کرتے ہیں ججز کی رہنمائی کرتے ہیں قانون کے حوالے سے اگر میں غلط ہوں آپ میری تصحیح کریں، پاکستان کی عدلیہ کا کوئی فیصلہ دنیا کے کسی عدالت میں بطور نظیر پیش کیا جاتا ہے؟ یہ ہے آپ کے عدلیہ کا مقام، یہ ہے ان کے فیصلوں کا معیار اور آپ حضرات جب بھی عدالت میں کھڑے ہوتے ہیں کتاب کھولتے ہیں فلانے ملک کے عدالت کا فیصلہ یہ تھا فلانے کا یہ تھا فلانا قانون یہ کہتا ہے آپ کے نہ قانون کی وہاں پر کوئی نظیر پیش کی جاتی ہے اور نہ عدلیہ کے فیصلے کی اور کیسے پیش کیا جائے، ذوالفقار علی بھٹو کو اسی سپریم کورٹ نے پھانسی دی اور آج آپ کی عدالت عظمی کہتی ہے کہ ٹرائل صحیح نہیں ہوا، اب بتاؤ اب نہ اس زمانے کے جج زندہ ہیں اور نہ بھٹو زندہ ہو سکتے ہیں اور قانونی طور پر وہ زندہ ہے، اب اس عدلیہ کے فیصلوں کے لیے ہم منتظر رہیں گے کہ ہمیں عدل و انصاف ملے گا! تو عدلیہ جو ہے اس کو بھی ہمیں جھنجھوڑنا ہوگا کہ بندے دے پتر بن جاؤ، اپنی قدر و قیمت خود پیدا کرو اور تم نے تو آپ لوگوں کو گنوایا ہے ہماری عزت تمہاری وجہ سے گئی دنیا میں، بحیثیت قوم ہمارے بارے میں کیا سوچا جاتا ہے، عدلیہ نے فیصلہ دے دیا اور عدلیہ نے فیصلہ دیا، ہمارے ہاں مقدمہ اس وقت سیاستدان کے خلاف ظاہر ہوتا ہے جب وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں، تو پھر محمود خان صاحب کے گھر پہ بھی چھاپے لگیں گے، ان کے بیٹے کے خلاف بھی ایف آئی آر ہو گا میں مذمت کرتا ہوں ایسے اقدامات کے، جب کسی کو اقتدار میں لانا ہو تو ایک سو مقدمات ایک ہفتے میں ختم اور جس کو اقتدار سے نکالنا ہو تو ایک ہفتے میں ایک سو مقدمات، یہ ہمارا معیار ہے، ہمارے انصاف کا معیار ہے، طاقتور قوتیں ذرا سوچیں اس بات پر، میں تو کہتا ہوں ہمارے دل میں فوج کی قدر ہونی چاہیے یہ ہماری دفاعی قوت ہے لیکن اگر وہ سیاست میں اترتی ہے، وہ میرے الیکشن کو سبوتاژ کرتی ہے، عوام کی رائے کو سبوتاژ کرتی ہے، سیاست میں مداخلت کرتی ہے، دفاعی قوت ہونے کے ناطے مجھے حق نہیں پہنچتا کہ میں دفاعی ادارے کے اوپر تنقید کروں لیکن اگر وہ سیاسی ادارہ بننے کی کوشش کرتا ہے تو کوئی کور کمانڈر کانفرنس کی قرارداد مجھے تنقید سے نہیں روک سکتی!

یہ جو آپ کہتے تھے نا کھیل نواز شریف صاحب آرہے ہیں امید پاکستان، اسحاق ڈار صاحب آئیں گے تو ڈالر کی ایسی تیسی پھیر دیں گے، یہ نعرے مت لگاؤ کوئی فضل الرحمن جو ہے نہیں بچا سکتا پاکستان کو، مفتی محمود نہیں بچا سکا پاکستان کو، جب کہا گیا کہ اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردو، تو مفتی صاحب چلے گئے اجلاس میں، جب کہا گیا جو جائے گا ٹانگیں توڑ دیں گے تو چلے گئے، جب کہا گیا ایک طرف کا ٹکٹ لے کر جائے تو وہ سب دو طرف کا ٹکٹ لے کر گئے بھی اور آئے بھی لیکن اجلاس تو نہیں ہوا، تو یہ وہ چیزیں ہیں اب ہماری عدلیہ کو ہم کیا کہیں گے کس نے آپ کو بتایا ہے کیا بغیر رہنمائی کے آپ ختم نبوت کے کیس کو چھیڑیں جب آپ کو عبور نہیں ہے اس مسئلے کے اوپر اور آپ نے اپنے مدعی سے سے کہا کہ آپ کو میں سننا نہیں چاہتا جی عدالت سے باہر کردیا ان کو، سننے کے لیے آپ تیار نہیں ہوئے پھر کہتے ہیں جی عدالت فیصلہ ماننا پڑے گا نہیں مانتے ہم آپ کے فیصلے کو، آپ کے فیصلے کے خلاف ہم میدان میں آئے اور اب تو ویسے بھی میں نے کہا ہے کہ فیصلے اب ایوانوں میں نہیں میدان میں ہونگے۔

یہ جو آج تم علماء کرام کو ہر طرف مختلف مکاتب فکر کو خط لکھ رہے ہو کہ اس مسئلے پر ہمارے فیصلے کے اوپر رائے دو یہ پہلے کر لیتے تو اچھا ہوتا نا اب بارڈر ٹوٹ گیا ذوالفقار بھٹو پھانسی چڑھ گیا اب کہتے ہیں جی وہ غلط تھا، تو یہ چیزیں جو ہیں وہ ملک میں نہیں چل سکتی، اب ہم نے ریویو پٹیشن کی ہے اور دوسرے دوستوں نے بھی کی ہے آپ حضرات کا فرض بنتا ہے کہ ختم نبوت کے اس مسئلے پر پورا آپ اس پر مطالعہ بھی کریں اور ٹھیک ٹھاک ہم نے آئین بنوانا ہے آئین، امریکہ میں جو شخص آئین کو نہیں مانتا یا ان کے کسی حصے کو نہیں مانتا وہ شہری نہیں کہلاتا، میرے ملک کے اندر اگر قادیانی آئین کو نہیں مانتا اس کے فیصلے کو تسلیم نہیں کرتا اور پھر آپ جانتے ہیں کہ یک طرفہ فیصلہ تو نہیں ہوا تھا ان کا لیڈر باقاعدہ آئے روز آتا تھا بحث و مباحثہ میں شرکت کرتا تھا سوال جواب ہوتے تھے جرح ہوتی تھی آخر وقت تک بیٹھے رہے اس میں اگر یہ پارلیمان جو اس وقت ایک جج کی حیثیت میں تبدیل ہو گیا تھا اور اس نے آپ کو سنا اور آپ آئے آپ نے اس کو جج کمیٹی تسلیم کیا اور آپ نے اس میں حاضری دے کر جرح بھی دس دن قادیانیوں کی خلاف اور تین دن لاہوریوں کے خلاف یہ جرح ہوتی رہی، پھر اب فیصلہ کیوں قبول نہیں کرو گے اور یہ فیصلہ آپ کے خلاف صرف پارلیمنٹ نے نہیں کیا مقدمہ بہاولپور میں بہاولپور کے جج نے بھی کیا ہے، یہ فیصلہ جنوبی افریقہ کی عدالت نے بھی آپ کے خلاف کیا ہے، مالدیپ نے بھی کیا آپ کے خلاف، تو جو وہاں مقدمے لڑے گئے ہیں عدالتوں میں لڑے گئے ہیں فورم پہ لڑے گئے ہیں تو ہر جگہ ہارے ہو اور مسلمانوں نے ثابت کیا ہے کہ آپ اس عقیدے کے ساتھ مسلمان نہیں رہے، اب ان کی کتابیں بھی تقسیم ہوں گی وہ لوگوں کو تبلیغ و دعوت بھی کریں گے اور قانون میں پابندی ہوگی اور وہ کبھی کہیں گے کہ فلاں زمانے میں تو یہ قانون نہیں تھا، تو اس قسم کی چیزیں جو ہیں وہ ملک میں انتشار پھیلاتی ہے اور وہ جو ہم کہا کرتے تھے کہ ایجنڈے کے تحت کام ہو رہا ہے کہ قادیانیوں کو دوبارہ مسلمان کی حیثیت پاکستان میں دی جائے ان کے اثرات نما ہوئے نا، وہی بات ہے جو ہم کہا کرتے تھے کہ یہ وہ چیزیں ہیں جو حساس ہیں اور میں بہت خوش ہوا ہوں کہ جمعیت لائرز فورم وجود میں آئی ہے اور ڈوگر صاحب شیخ زکریا صاحب باقی آپ سینیئر لوگ ہیں بہت سارے میں دیکھ رہا ہوں وہ آپ ہماری رہنمائی کریں ان شاءاللہ العزیز میں سمجھتا ہوں کہ اس محاذ پر بھی ہم بھرپور کردار ادا کریں گے اور قوم کی صحیح رہنمائی ہو سکے گی، ہم ایک صحیح منزل کی طرف آگے بڑھ سکیں گے، آپ کی قانون و آئین کی بالادستی کے لیے ماضی کی قربانیوں کو بھی میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور آئندہ کے لیے بھی قربانیوں کی امید رکھتا ہوں اللہ تعالی ہمارا حامی و ناصر ہو

واٰخر دعوانا ان الحمدلله رب العالمین


ضبط تحریر: #محمدریاض

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات

#teamJUIswat

لاہور : قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا وکلاء کنونشن سے مکمل خطاب

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Wednesday, March 6, 2024



0/Post a Comment/Comments