مولانا سید شمس الدین شہید
جری و جسور ، یگانہ روزگار شخصیت
(تحریر:محمدزاہدشاہ، مدیرالجمعیۃ)
مارچ ہی کا مہینہ تھا۔ جب شاہراہ عزیمت و استقامت کا عظیم قافلہ سالار مولانا سید شمس الدین ہم سے چھن گیا۔ ان کی شہادت کو نصف صدی ہونے کو ہے۔ لیکن ان کی جرات و استقامت اور عزم و استقلال کے مظاہر اور ان کی متحرک جری و جسور شخصیت ابھی تک نگاہوں کے سامنے پھر رہی ہے۔ دراصل شہید نے اپنی مختصر سی عملی زندگی میں جرات و جسارت اور غیرت و حمیت کے کچھ ایسے نقوش اپنے رفقاء جمعیت کے دلوں پر قائم کئے ہیں کہ بڑے سے بڑے زخم کو مندمل کرنے والا مرہم "وقت" بھی ان کی جدائی کے صدمے کی شدت کو کم کرنےمیں کارگر نہ ہوسکا۔
مولانا سید شمس الدین شہید کا تعلق اس عظیم خاندان سے ہے جسے جناب رسالت مآب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نسبت کا شرف حاصل ہے۔ چنانچہ شہید حریت نے اس عظیم شرف کی لاج رکھنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ بلکہ ان کے آخری خطاب کا یہ جملہ اس کی تابندہ مثال ہے جب انہوں نے رحیم یار خان کے ایک جلسے میں فرمایا تھا کہ : "میں اپنے نانا کے دین پر اس طرح کٹ مروں گا کہ دنیا حیران رہ جائے گی" اور پھر واقعی وہ نوجوان ختم نبوت پر قربان ہو گیا کہ اس نے جو کچھ کہا وہ کر دکھایا ۔
سید شمس الدین شہید کے جد امجد حضرت "سید حریف آل" بخارا سے ہجرت کر کے ژوب (بلوچستان) کے علاقے میں آئے اور دو معزز قبائل کے درمیان صلح کا مقدس فریضہ سر انجام دے کر ہمیشہ کے لیے ان کے دلوں میں اپنا گھر بنا لیا۔ پھر اپنے خاندان کو بسا کر احمد شاہ ابدالی کے ہمراہ جہاد ہندوستان میں شریک ہوئے اور جام شہادت نوش فرمایا۔
برصغیر پر فرنگی تسلط کے بعد بلوچستان میں فرنگی کے قدموں کو آگے بڑھنے سے روکنے میں بھی اس عظیم خاندان سادات نے جراء تمندانہ جدو جہد کی۔ اور جب تک بس چلا فرنگی لشکر کے سامنے مزاحمت کے کی بلند دیوار قائم کئے رکھی۔
تاریخ کا یہ تسلسل بر قرار رہا۔ چنانچہ اسی خاندان کے ایک سپوت مولانا سید شمس الدین کو اللہ تعالی نے جرات و جسارت اور عزیمت و استقامت کی مختصر سی جھلکی لوگوں کے سامنے پیش کر نے کے لیے پیدا فرمایا ۔ سید شمس الدین شہید 1364ھ میں ژوب (بلوچستان) کے محولہ بالا معروف سادات خاندان کے بزرگ مولانا سید محمد زاہد رحمہ اللہ کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے گھر پر حاصل کی اور میٹرک ژوب ہائی سکول سے کیا۔ اس کے بعد دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک ،مدرسہ مخزن العلوم خان پور جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں حضرت مولانا عبداللہ درخواستی ،مولانا محمد یوسف بنوری، مولانا عبد الحق اور مولانا محمد سر فراز خان صفدر رحمہم اللہ جیسے اساطین علم و فضل سے کسب فیض کیا۔
طالبعلمی کے دور میں سید شمس الدین شہید جمعیت طلبہ اسلام سے وابستہ رہے اور کچھ عرصہ کے لیے جے ٹی آئی بلوچستان کے صدر بھی رہے ۔ دورہ حدیث سے فارغ ہو کر واپس گھر گئے تو 1970ء کے انتخابی ہنگاموں کا آغاز ہو چکا تھا۔ ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں لنگر لنگوٹ کس کر انتخابی میدان میں کودنے کی تیاریاں کر رہی تھیں۔
سید شمس الدین شہید جو طالبعلمی کے دور میں جمعیت طلبہ اسلام سے وابستہ تھے ۔ اب جمعیت علماء اسلام کا پلیٹ فارم ان کی جولانگاہ بننے والا تھا۔ انہیں نہ عملی سیاست سے کوئی لگاؤ تھا اور نہ انتخابی سیاست کا تجربہ تھا،ویسے بھی یہ بلوچستان اسمبلی کے پہلے انتخابات تھے ۔ نا تجربہ کاری اور بے سر و سامانی کےسوا کچھ نہ تھا۔ لیکن علاقے کے نواب اور بہت بڑے جاگیر دار سردار تیمور شاہ جو گیزئی کو بلا مقابلہ کامیاب ہوتے دیکھ کر سید شمس الدین شہید نے بھی نعرہ مستانہ بلند کیا۔ لوگوں نے ڈرایا، سمجھایا، انجام سے باخبر کیا اور نواب کے غیض و غضب سے بچنے کی تلقین کی مگر جرات و استقلال کی حدت نے تخویف و تحریص کے تمام ہتھیاروں کو پکھلا کر رکھ دیا اور علاقے کے تجربہ کار،با وسائل اور طاقتور نواب کے سامنے ایک بے سر و سامان اور نا تجربہ کار نواجوان ڈٹ گیا۔ جس کی عمر مشکل چھبیس سال تھی۔
مقابلہ ہوا اور خوب ہوا کہ کاروں اور جیپوں کے مقابلے میں سائیکل سوار اور پیدل کارکنوں نے بھر پور انتخابی جنگ لڑی اور جب نتائج کا اعلان ہوا تو کئی نسلوں سے چلے آنے والے اجارہ دار خاندان کی سیاسی اجارہ داری کا بت دھڑام سے زمین پر آرہا۔ اور یوں چھبیس سالہ نوجوان نے ایک نواب کو پہلی مرتبہ ہزاروں ووٹوں سے شکست دیدی حالانکہ سید شہید کے بقول اس الیکشن مہم میں ان کے کل سات سوروپے خرچ ہوئے۔ جبکہ ان کے مد مقابل نواب کے انتخابی اخراجات لاکھوں سے تجاوز تھے۔
سید شمس الدین شہید کو قدرت نے جرات و بے باکی اور بے خوفی کی انمول صلاحیتوں سے نوازا تھا اور بلوچستان کے لوگوں نے اس نواجوان میں چھپے جوہر کو اسی روز دیکھ لیا تھا جب سبی کے سالانہ دربار میں بلوچستان کے مرحوم گورنر لیفٹینٹ جنرل ریاض حسین قبائلی سرداروں کے ساتھ محو گفتگو تھے۔ کہ اچانک دربار میں اذان کی آواز بلند ہوئی۔ گورنر نے لوگوں سے پوچھا: یہ کون دیوانہ ہے؟ جواب ملا کہ یہ دیوانہ نہیں بلکہ بلو چستان اسمبلی کا نو منتخب رکن مولوی شمس الدین ہے، پھر اذان دینے کے بعد سید شہید گورنر کے پاس آئے اور کہا کہ آپ ہمارے حاکم اعلیٰ ہیں اس لیے آج نماز آپ پڑھائیں گے مگر گورنر نے معذرت کر دی۔ بظاہر یہ سیدھا سا واقعہ ہے مگر اس نے سید شمس الدین شہید کے اندر چھپی ہوئی بے باکی اور بسالت کو نمایاں کر دیا۔
بلوچستان اسمبلی کے باقاعدہ آغاز پر آپ کو صوبائی اسمبلی کا ڈپٹی سپیکر چن لیا گیا۔ جبکہ جمعیت علماء اسلام کے تنظیمی انتخابات میں جمعیت کے صوبائی امیر کی حیثیت سے جماعتی قیادت کی ذمہ داری بھی آپ کو سونپ دی گئی اور یہ سب کچھ اتنی پر عجلت میں ہوا۔ کہ خود رشک کو بھی رشک ہونے لگا اور یوں آپ نے 27 سال کی عمر میں صوبائی سیاست میں اہم مقام حاصل کیا۔
بلو چستان اور صوبہ سرحد میں نیپ اور جمعیت کی مخلوط حکومتیں جب قائم ہوئیں تو آپ نے حکومت کے دوران بھی اپنی بے باکی کا جراتمندانہ مظاہرہ فرمایا ۔ اور بعد ازاں جب مخلوط حکومت ختم کر دی گئی تو آپ کو وزارت علیا کا لالچ دیا گیا۔ انہی دنوں قادیانیت کے خلاف سرگرم اور فیصلہ کن جد و جہد کر کے آپ نے اس مسئلے کو از سر نو زندہ کیا۔ اسی دوران آپ گرفتار بلکہ اغواء بھی ہوئے۔ مسلح دستوں کے محاصرے میں رہے اور دنیا میں کسی کو پتہ بھی نہ چل سکا کہ سید شمس الدین کہاں ہیں؟
آپ کے لیے ہڑتالیں ہوئیں جلوس نکالے گئے، احتجاجی جلسے ہوئے نوجوانوں نے بھوک ہڑتال کی۔ قومی اسمبلی میں واویلا کیا گیا۔ ہائی کورٹ کے دروازے پر دستک دی گئی تب جا کر انہیں ظلم و استبداد کے پنجے سے نجات ملی۔ اور پتہ چلا کہ اس نوجوان کو اسلحے اور ہتھیار ہے کے حصار میں بٹھا کر وزارت اعلیٰ کی پیشکش کی جاتی رہی، بینک چیک پیش کئے جاتے رہے مگر اقتدار اور دولت اس نوجوان کے سامنے آکر اپنی کشش اور سکت سے محروم ہو چکی تھی۔
قید ہی دنوں کے میں نام نہاد و زیر اعلی جام غلام قادر بھی انہیں رام کرنے کے لیے آئے مگر کوئی حربہ کارگر نہ ہوا۔ اور ان کی طرف سے وزارت علیا کی پیشکش کو اس درویش نے یوں مضحکہ میں ٹال دیا کہ سے ایک قیدی وزیر اعلی کیسے بن سکتا ہے؟ پھر وہ منظر کہ جب پیپلز پارٹی کی حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے سید شہید کو بلایا۔ ہر غم خود سمجھایا اور ایک چیک ہاتھ میں تھما دیا۔ جس پر دستخط تو کئے گئے تھے۔ مگر رقم کا اندراج نہیں تھا اور کہا گیا کہ تم بھٹو کی حمایت کرو ہم تم کو بلو چستان کا وزیر اعلیٰ بناد یں گے اور چیک پر جتنی رقم تم چاہو لکھ لو، مگر سید شہید نے چیک پرزہ پرزہ کر کے پھینک دیا اور یہ کہہ کر نکل گئے کہ جو شخص خدا کے آگے بک چکا ہوا اسے اور کوئی نہیں خرید سکتا۔
وقت کے سب سے بڑے شاطر اور فنکار ڈپلومیٹ ذوالفقار علی بھٹو نے ایوان اقتدار میں انہیں طلب کیا اور ڈپلومیسی کے جال میں انہیں پھنسانا چاہا، مگر بھٹو کی عیاری اور ڈپلو میسی بھی اس نوجوان کے ایمان میں نقب نہ لگا سکی۔ چنانچہ ایشیاء بلکہ تیسری دنیا کی قیادت کا دعویدار بھٹو ایک نا تجربہ کار اور نو عمر سیاستدان کو طلب کر کے جب کہتا ہے کہ "مولوی صاحب آپ لوگ بڑے اچھے ہیں، دیانت دار ہیں با اصول ہیں صاحب کردار ہیں۔ میں ملک میں بہت کچھ کرنا چاہتا ہوں مگر مجھے اچھے ساتھی نہیں ملتے اگر آپ لوگ نیپ کا ساتھ چھوڑ کر میرے ساتھ آ جائیں۔ تو ملک اور قوم کے لیے بہت کچھ کر سکتا ہوں" ملاحظہ کیجئے! مولانا شمس الدین شہید کیا جواب دیتے ہیں۔ "بھٹو صاحب! یہ ٹھیک ہے کہ ہم با اصول ہیں لیکن فرمائیے کہ اقتدار کیلئے نیپ کا ساتھ چھوڑنے کے بعد بھی ہم با اصول رہیں گے"؟ یہ الفاظ سن کر ذوالفقار علی بھٹو کی زبان گنگ ہو جاتی ہے اور اہل حق کے قافلے کا ایک نوجوان اپنے ایمان اور کردار کی دولت کو صحیح سلامت بچاتے ہوئے کامیاب و کامران واپس پلٹ آتا ہے۔
نیپ اور جمعیت کی مخلوط حکومت کو ختم کرنےکے بعد نو اور تیرہ کا جھگڑا چلا نیپ اور جمعیت کے تیرہ ارکان تھے اور نام نہاد صوبائی حکومت کے نو (9) ارکان تھے۔ لیکن پھر بھی نام نہاد وزیر اعلیٰ جام غلام قادر (جام کمال کے دادا) صوبے کا حکمران بنا رہا۔ عجیب ریاضی تھی عجیب حساب تھا کہ نو تیرہ سے زائد تھے۔ اس نئے حساب کا چرچا ہوا، پہلے 9 میں اضافہ کی کوشش کی گئی اور جب 9 میں اضافہ نہ ہو سکا تو پھر 13 میں کمی کی گئی اور اسکا پہلا نشانہ مولانا سید شمس الدین بنے۔ یہ خبر اہل بلوچستان پر بجلی بن کر گری، لوگ سڑکوں پر نکل آئے دفعہ 144 نافذ کی گئی لوگ اس ظلم اور بربریت کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ کوئٹہ شہر کے وسط میں 14مارچ 1974 کی صبح کو پولیس نے غمزدہ ہجوم کو گھیرے میں لے لیا پولیس نے قندھاری بازار کو "لاک" کیا مگر ہجوم آگے بڑھتا رہا۔ آنسو گیس کی شیلنگ ہوئی اور پھر بے تحاشا فائرنگ کی گئی، کسی محاذ جنگ پر تو ممکن ہے لیکن شہر کے وسط میں اتنی فائرنگ اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ عوام کو مرعوب کیا جائے۔ بی بی سی کے مطابق چھ افراد اس سانحہ میں مارے گئے اور کئی کو گرفتار کر لیا گیا۔ اور پھر دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر مقدمہ چلا۔ وکلاء میدان میں کو دے اور تیرہ تیرہ وکلاء ایک ایک مقدمہ میں پیش ہونے کے لیے تیار ہوئے۔ جمعیت کی مقبولیت اور سید شمس الدین شہید کی اصول پرستی نے وکلاء میں ایک عجیب سا جذبہ پیدا کیا۔ انتظامیہ نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی میں اقدام قتل اور ڈکیتی کے نو (۹) نو (۹) مقدمات بنائے۔ مگر وکلاء کے ہجوم کو دیکھ کر سرکاری وکیل ایف آئی آر بھی نہ پڑھ سکے ۔اور حکومت کو مقدمات واپس لینے پڑے۔یہ سید شمس الدین شہید کی مجاہدانہ زندگی کی چند جھلکیاں تھیں۔ اور انہی کارناموں کے باعث قافلہ ولی للہی کے ہر فرد نے مولانا شمس الدین کی شہادت کو اپنے گھر کا غم سمجھا۔
13 مارچ 1974 کوایک شقی القلب کے ہاتھوں گولی کا نشانہ بنتے وقت ان کی عمر بمشکل تیس (30) برس تھی۔ لیکن اس مختصر عرصے میں انہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کے باعث ملی سیاست اور کاروان دعوت و عزیمت میں جو مقام حاصل کیا تھا وہ یقینا قابل رشک ہے۔
آج سید شمس الدین شہید ہم میں نہیں ہیں۔ وہ کامیاب و کامران اپنے رب کے حضور پہنچ چکے ہیں لیکن ان کی خدمات ، جدو جہد ، کردار ، روایات اور جرات و جسارت کے ناقابل فراموش مظاہرے ایک کھلی کتاب کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔
آئیے! عہد کریں کہ سید شمس الدین شہید کی یاد کو اپنے عمل میں ہمیشہ زندہ رکھیں گے۔ اور اس عظیم مرد قلندر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حق و صداقت اور عدل و انصاف کی جدوجہد کو اپنی صلاحیتوں توانائیوں اور وسائل کا خراج پیش کرتے رہیں گےکہ زندہ قومیں اپنے شہیدوں کی یاد میں اسی طرح تازہ رکھتی ہیں۔
(واضح رہے کہ قومی اسمبلی حلقہ این اے 251 ژوب/قلعہ سیف اللہ سے نو منتخب ایم این اے مولاناسمیع اللہ معروف بہ سمیع الدین مولانا شمس الدین شہید" کے چھوٹے بھائی ہیں)
ایک تبصرہ شائع کریں