ضلع پشین تاج لالا گراؤنڈ میں قائد جمعیت علماء اسلام حضرت مولانا فضل الرحمان صاحب کا عوامی اسمبلی سے خطاب 20 اپریل 2024


ضلع پشین تاج لالا گراؤنڈ میں قائد جمعیت علماء اسلام حضرت مولانا فضل الرحمان صاحب کا عوامی اسمبلی سے خطاب

 20 اپریل 2024

الحمدلله رب العلمین وصلواة والسلام علی اشرف الانبیاء والمرسلین وعلی آله وصحبه و من تبعھم باحسان الی یوم الدین، اما بعد فاعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم بسم الله الرحمٰن الرحیم

یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِؤُا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ اللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ. صدق اللَّهُ العظیم


میرے دوستو اور بھائیو! یہ عوامی اسمبلی ہے اور اسمبلی کی کرسی صدارت پر بیٹھی ہوئی شخصیت کو جناب سپیکر سے پکارا جاتا ہے تو میں صدارت کی کرسی پر بیٹھے شخص کو جناب سپیکر کی حیثیت سے خطاب کروں گا۔ میرے پشین کے بہت ہی عزیز، گرانقدر اور قدر مند مسلمان بھائیو! میں بہت عرصے سے پشین نہیں آیا ہوں اس حد تک کے گزشتہ الیکشن میں میں پشین کے حلقے سے امیدوار تھا اور میں نے انتخابی مہم میں بھی یہاں حاضر نہیں ہو سکا اور آپ نے غائبانہ طور پر مجھ پر اتنا اعتماد کیا کہ کامیابی کی جو پگڑی آپ نے میرے سر پر سجائی ہے میں دل کی گہرائیوں سے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور آپ کا یہ اعتماد اور اخلاص میں کبھی بھول نہیں پاوں گا ان شاء اللہ العزیز، لیکن میرے بھائیو! ہم تو کہہ رہے تھے کہ 2018 میں دھاندلی ہوئی ہے ہم نے دھاندلی کے خلاف تحریک چلائی، چار سال تک جمعیت علماء اسلام کے کارکن پاکستانی عوام کے تعاؤن سے تحریک میں چل رہے تھے یقینا ہم نے کامیابیاں حاصل کیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایک بار پھر اس سے بھی زیادہ شرمناک دھاندلی 2024 میں ہوئی ہمارے ساتھی تھکے ہوئے تھے اُنہوں نے اپنی اپنی کرسیاں سنبھال لی، جعلی نمائندگی قبول کی لیکن جمعیت علماء اسلام نے کل جس بات کو غلط کہا تھا آج بھی اُسی کو غلط کہہ رہے ہیں، ہم آج بھی میدان پر کھڑے ہیں غلط کو غلط کہہ رہے ہیں کل بھی غلط کو تسلیم نہیں کیا آج بھی غلط کو تسلیم نہیں کر رہا اور پھر بھی غلط کو تسلیم نہیں کروں گا اور میرا کارکن ان شاء اللہ تھکے گا نہیں کیوں کہ اُن کے پاس نبی پاک ﷺ کی یہ تعلیم موجود ہے کہ یہ جہاد تا قیامت جاری رہے گا اور ہم اِس کے لیے مسلسل میدان میں رہیں گے۔

میرے بھائیو! آپ کے ہاتھ میں پرچم نبوی ہے اور اس پرچم کو جھکنے نہیں دینا ہاتھ کٹ جائے سینے چھلنی ہو جائے اِس پرچم کو بلند رکھنا ہے یہ ہم پر اور آپ پر جناب رسول اللہ ﷺ کا قرض ہے اس کو سر بلند رکھنا ہے تحریک جاری رکھنی ہے اور اس پرچم کے تلے ان شاء اللہ ہماری یہ تحریک آگے بڑھے گی اور آج جو عوامی اسمبلی یہاں ہے عوام زیادہ ہو گئے ہیں میدان تنگ نظر آرہا ہے۔ بلوچستان کی سرزمین سے اب یہ تحریک اٹھی ہے یہ تحریک بڑھے گی کراچی تک جائے گی خیبر پختونخواہ تک جائے گی پنجاب تک جائے گی ان شاءاللہ العزیز پورے ملک کو اٹھائیں گے اور ان جعلی حکمرانوں کو حکومت نہیں کرنے دیں گے کیونکہ حکومت کرنا ان کا حق نہیں بنتا۔ میں یہ بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ یہ اسمبلیاں پہلے تو کہا گیا بنائی گئی ہے اب تو یہ ہے کہ اسمبلیاں بیچی گئی ہیں اسمبلیاں خریدی گئی ہیں۔ یہ بتاؤ بلوچستان اسمبلی کتنے میں خریدی گئی، کتنے ارب، ایک ارب اور دو ارب کی بات نہیں کر رہا پانچ ارب اور 10 ارب کی بات نہیں کر رہا، بتاؤ 70 ارب پہ خریدی ہے یا 80 ارب پہ خریدی ہے یا 100 ارب پہ خریدی ہے، اتنی بڑی قیمتیں ادا کر کے تم نے یہ اسمبلیاں بنائی تم بتاؤ سندھ اسمبلی کتنے پہ خریدی گئی ہے، تم بتاؤ کے پی اسمبلی کتنے پہ خریدی گئی ہے، تم بتاؤ جمعیت علماء اسلام کو شکست دینے کے لیے اسٹیبلشمنٹ نے کتنا پیسہ سیاستدانوں سے لیا ہے۔ کب تک کٹھ پتلی حکمرانوں کے سامنے جھکتے رہو گے، ان کو آگے رکھ کر نیچے چھپنے کی ضرورت نہیں ہے میں کہنا چاہتا ہوں پاکستان کے بنانے میں فوج کا کوئی کردار نہیں ہے۔ میں کوئی بڑی بات نہیں کہہ رہا اور اگر بڑی بات لگتی ہے تو اللہ پر اعتماد کرکے کہہ رہا ہوں کہ پاکستان میں آج اگر کچھ بھی امن ہے ملک قائم ہے ادارے قائم ہے اس میں فوج کا کردار کم اور جمعیت علماء اسلام کا کردار زیادہ ہے۔ عوام نے اس ملک کو بنانے کے لیے قربانی دی عوام نے اس ملک کو بچانے کے لیے قربانی دی علماء کرام نے قربانیاں دی دینی مدارس نے قربانیاں دی، آج مدارس پاکستان کی حفاظت کر رہے ہیں اور ہماری اسٹیبلشمنٹ مدارس کے خاتمے کی سوچ رہے ہیں، یاد رکھو جب دن پھرے گی تو پھر مستقبل وہ اپنے بارے میں سوچو کہ تم رہو گے یا نہیں رہو گے۔ ہم نے ہمیشہ سنجیدہ سیاست کی ہے ملک کے وقار کو سامنے رکھ کر سیاست کی ہے اندرونی طور پر بھی ملک کو مستحکم کرنے کا کردار ادا کیا ہے بیرونی طور پر بھی ملک کو مستحکم کرنے کا کردار ادا کیا ہے لیکن اگر تم آئین کو اپنے بوٹوں کی تلے روندتے رہو گے اگر تم جمہوریت کو اپنے بوٹوں تلے روندتے رہو گے اگر تم اسمبلیوں کو اپنے گھروں کی لونڈی سمجھتے رہو گے تو پھر آج ہم میدان میں کھڑے ہیں کل یہ سامنے کا پہاڑ بھی ہمارا انتظار کر رہا ہے۔ بزدلی کی سیاست کسی اور نے سیکھی ہوگی میرے آباؤ اجداد نے اور میری تاریخ نے مجھے جرات کی سیاست سکھائی ہے میری گھٹی میں جرات ڈالی گئی ہے میں بزدلی پر لعنت بھیجتا ہوں مسلمان کبھی بزدل نہیں ہوا کرتا۔

میرے محترم دوستو! یہ پشین پہلے بھی جمعیت کا قلعہ تھا آج بھی جمعیت کا قلعہ ہے اور آئندہ بھی جمعیت کا رہے گا۔ یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ نے دو سیٹیں کیسی جیتی تو یہ تو میں نے پہلے بھی جیتی تھی اور اس سے پہلے بھی جیتی تھی اور اس سے پہلے بھی جیتی تھی آج آپ نے یہ سوال کیوں پیدا کیا اگر آپ انصاف کی بات کرنا چاہتے ہیں تو پھر یہ بات کرو کہ مولوی کمال الدین سے کس بنیاد پر سیٹ لی گئی یہ انصاف کی بات ہے انصاف کی بات یہ نہیں کہ آپ ظفر آغا پر بات کریں اور افضل ترین پر بات کریں، ہم سنجیدہ لوگ ہیں سنجیدگی اور عزت سے بات کریں گے۔ سیاستدانوں اب اپنے بیچ لڑنے کا وقت نہیں ہے ہماری آپسی لڑائی سے اسٹبلشمنٹ نے بہت فائدے اٹھائیں، سیاستدانوں کو استعمال کیا اور وہ سیاسی قوتیں جو کل ہماری ساتھ بیٹھی تھیں میرے صدارت میں تحریک چلا رہے تھے تو ووٹ تو پہلے بھی اتنے ہی لیے تھے وہاں کیوں کہہ رہے تھے کہ دھاندلی ہوئی ہے اور آج کیوں کہہ رہے ہو کہ دھاندلی نہیں ہے کل جب نتیجہ حوالے کیا تو دھاندلی اور جب کرسی حوالہ کی تو وہ ووٹ ایمانداری کے، سیاستدانوں کرسیوں پر نہ بکوں، میرے پاس آئے تھے میاں شہباز شریف صاحب بھی رہائش گاہ پر آئے تھے دو بار آیا، میاں نواز شریف صاحب بھی تشریف لائے تو میں نے ان سے کہا کہ آپ غلط راستے پر جا رہے ہیں اب بھی میں کہہ رہا ہوں کہ او مشترکہ طور پر اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہیں اور پاکستانی عوام کی حقیقی نمائندگی کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے انہوں نے جو میرے ساتھ ملاقاتیں کی ہے ان سے میں باخبر ہوں کہ مولوی صاحب یہ آپ کی ہمت ہے بات وہی پرانی کی پرانی ہی ہے لیکن ہم مجبور ہیں۔

تو میرے محترم بھائیو! پہلی موضوع اس اسمبلی کی یہی ہے کہ آٹھ فروری 2024 کی الیکشن کے نتائج ہم تسلیم نہیں کرتے اور ہاتھ اٹھا کر قرارداد پاس کرو کہ آٹھ فروری کا الیکشن پشین اور بلوچستان کے عوام مسترد کرتے ہیں۔ اب عوام براہ راست اسمبلیاں کرے گی بلوچستان اسمبلی ہو یا پارلیمنٹ ہو یہ عوامی کے نمائندے نہیں ہے اسٹبلشمنٹ فوج اور جرنیلوں کے نمائندے ہیں عوام کے نمائندے نہیں ہو سکتے۔ مجرم کو اب مجرم کہنا پڑے گا، مجرم کو بے نقاب کرنا پڑے گا اور ان شاءاللہ العزیز ہم نے جو بات کہی ہے ڈنکے کی چوٹ پر کہی ہے مصلحتوں کا شکار ہوکر نہیں کی ہے۔

میرے محترم دوستو! پاکستان پچھتر سال گزر گئے ہم نے پون صدی گزار دی اس تاریخ میں اگر ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان اسلام کے لیے بنا تو اسلام نظر نہیں آتا، ملک کو ایک سیکولر سٹیٹ بنایا جا رہا ہے، ملک کو ایک غیر محفوظ ریاست بنایا جا رہا ہے، ملک کو غلط پالیسیوں کے نتیجے میں بدامنی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے اور اگر ہم نے یہ ملک جمہوریت کے لیے حاصل کیا تھا تو پچھتر سال میں ہمیں وہ نظر نہیں آرہی ہے، اگر ہم نے یہ ملک معاشی خوشحالی کے لیے حاصل کیا تھا تو پچھتر سال سے ہماری معشیت آج کہاں کھڑی ہے، کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ آج ہم پسماندگی کی حالت میں کھڑے ہیں جس ملک کو اسلام کے لیے حاصل کیا گیا جس ملک کو جمہوریت کے لیے حاصل کیا گیا جس ملک کو خوشحال معشیت کے لیے حاصل کیا گیا پچھتر سالوں میں یہ تینوں مقاصد حاصل نہیں ہو سکے، کس کے ہاتھوں سیاستدانوں کا منہ کالا کیا جاتا ہے لیکن ان تینوں مقاصد میں رکاوٹ ہمیشہ پاکستان کی اسٹبلشمنٹ رہی ہے اور یہی پاکستان کے انحطاط کے ذمہ دار ہیں۔ یہ صرف عیاشیاں جانتے ہیں یہ صرف نظام پر کنٹرول چاہتے ہیں، انتخابات کے نام پر حکومت عوام کی لیکن عوام کو غلام بنایا جاتا ہے اس کو حکمرانی نہیں دی جاتی۔ ہم نے کہا تھا کہ پاکستان میں کچھ چیزیں ایجنڈے کی طور پر لائی گئی اور ہم نے اس ایجنڈے کو ناکام بنانا ہے ہم تو ایک سیاسی جماعت کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے ہم نے ان کے ایجنڈے کو ناکام بنایا لیکن ہم نے اس وقت ایک بات کہی تھی کہ قادیانیوں کو ایک مسلمان کا سٹیٹس دوبارہ دلانے کے لیے کچھ قوتیں کام کر رہی ہے لیکن جس راستے سے ان کو ناکامی ہوئی آج سپریم کورٹ کے ذریعے سے وہ ایجنڈہ پورا کیا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے سپریم کورٹ کا چیف جسٹس وہ آپ کے پشین کا رہنے والا ہے یاد رکھیں ہمارے ہاں قومیت صرف دین کی بنیاد پر ہے نہ بلوچ نہ پٹھان مسلمان مسلمان، رسول اللہ ﷺ‎ نے مکہ کے برادری کو اسلام کے لیے چھوڑا یا نہیں، میں جناب چیف جسٹس فائز عیسی صاحب کو بڑے احترام کے ساتھ اس کے اپنے شہر سے پکارنا چاہتا ہوں کہ آپ نے قادیانیوں کو جو رعایتیں دینے والا فیصلہ کیا ہے آپ کو علمائے کرام نے کہہ دیا کہ آپ کا فیصلہ قرآن و سنت کے خلاف ہے آپ کا فیصلہ ختم نبوت کے عقیدے کو نقصان پہنچانے کا سبب ہے آپ کا فیصلہ قادیانوں کو ریلیف دینے کا فیصلہ ہے اور ان کا متفقہ جواب بھی آگیا ہے لیکن جب آپ کی نیت ٹھیک نہ ہو تو ان لوگوں سے اب فتوے پوچھ رہا ہے جن کے فتووں پر ہمیں کبھی اعتبار نہیں رہا۔ میں پشین کے لوگوں کے سامنے ایک بات کہنا چاہتا ہوں اور آپ میری تائید کریں میں ڈیرہ اسماعیل خان سے آیا ہوں لیکن ختم نبوت کا مسئلہ آئے گا تو مجھے پشین کا تصور کرو اور فائز عیسی کا پشین سے کوئی تعلق نہیں ہو گا، یہاں تعلق عقیدے کی بنیاد پر ہو گی۔

میرے محترم دوستو! آج دنیا میں ایک فساد مچا ہوا ہے امریکہ ساری دنیا میں جمہوریت کی بات کرتا ہے لیکن پاکستان میں ہماری اسٹبلشمنٹ کو جمہوریت کی قتل کی اجازت دیتا ہے ہمارے ملک میں مارشل لاؤں کو سپورٹ کرتا ہے ساری دنیا میں وہ انسانی حقوق کی بات کرتا ہے لیکن افغانستان میں اترتا ہے بیس سال تک افغانوں کا قتل عام کرتا ہے اور وہاں پر جب امریکہ کے خلاف جنگ شروع ہوتی ہے تو ایک جرنیل اپنے مسلمان بھائی کے مقابلے میں امریکہ کا اتحادی بن جاتا ہے۔ یاد رکھیں ہمارا رشتہ دنیا میں اسلام کی وجہ سے ہے اسلام کے کوئی حدود نہیں ہوتے، اسلام ساری دنیا کے مسلمانوں کا مشترک ہے ہم نے امریکہ کے ناجائز قبضے اس کی جارحیت کو مسترد کرتے ہوئے افغانستان میں امارت اسلامیہ کا ساتھ دیا تھا اور اگر آج بھی وہ اسلام کے عَلم کو بلند کیے ہوئے ہیں ہمارا مشترک مقصد ہے ہمیں اپنے ساتھ پائیں گے۔ اس موقف پر میں مشرف کے دور میں پانچ چھ مہینے جیل میں بھی رہا ہوں لیکن ہم نے ان باتوں کی پرواہ نہیں کی۔ آج آپ انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں تم نے بیس سال تک افغانوں کا قتل عام کیا، بمباریاں کی، بچوں کا قتل کیا، خواتین کا قتل کیا، تم نے عراق میں جارحیت کی اور جس جرم کا الزام لگا کر تم عراق میں آئے تھے تم نے اعتراف کیا کہ ہمارا الزام غلط تھا اس کے باوجود ان کا خون کیا عقوبت خانے بنائے پھر بھی تم انسانی حقوق کے علمبردار، انسان حقوق کی علمبرداری کس بنیاد پر، تم نے جو لیبیا میں کیا، کیا وہ انسانی حق تھا؟ میرے پاس امریکی آئے مجھے کہا کے افغانستان میں انسانی حقوق کا مسئلہ ہے، برطانیہ والے بھی آئے کہ جی افغانستان میں بچیوں کو تعلیم کی اجازت نہیں ہے، انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں تو میں نے کہا یہ جو ابھی غزہ میں ہو رہا ہے جہاں چھ ماہ کے اندر چالیس ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید کر دیے گئے جس میں سب سے بڑی تعداد معصوم بچوں کی ہے اس کے بعد بڑی تعداد خواتین کی ہے ہمارے ماؤں اور بہنوں کی ہے اور تم اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کی حمایت کر رہے ہو، تم ان کو اسلحہ فراہم کر رہے ہو، میزائیل فراہم کر رہے ہو، لڑاکا جہاز فراہم کر رہے ہو، تمام امداد انسانیت کا حق ذبح کرنے والے، انسانیت کے قتل عام کرنے والے اس کو سپورٹ کر رہے ہو کیا وہ بچیاں نہیں ہے کیا ان کو تعلیم کا حق نہیں تھا کیا وہ چھوٹے بچے انسانی حق نہیں رکھتے کیا وہاں کے بوڑھے، مائیں بہنیں انسانیت کا حق نہیں رکھتی، تمہیں شرم نہیں آتی انسانی حقوق کی بات کرتے ہو، تمہیں شرم نہیں آتی عورتوں کی تعلیم کی بات کرتے ہو، تعلیمی ادارے تو تم نے تباہ کیے، انسانیت کا قتل عام تو آپ نے کیا اور آج پاکستان میں اگر جمہوریت کا قتل ہو رہا ہے اس کی سرپرستی بھی تو آپ ہی کر رہے ہیں۔ کس چیز کی جمہوریت؟

تو میرے محترم دوستو! جب الیکشن گزرا تو ضمنی الیکشن آیا جمعیت علما اسلام نے ضمنی الیکشن کا بائیکاٹ کیا، ایک سیٹ ایسی تھی کہ جہاں کوئی فوت نہیں ہوا تھا، جہاں کوئی حادثہ نہیں ہوا تھا بعض دفعہ حادثات کی وجہ سے الیکشن نہیں ہو پاتے وہاں ہمارے ساتھی نے الیکشن کمیشن میں درخواست دی کہ نتیجہ غلط ہے اور اس نے ثابت کیا کہ نتیجہ غلط ہے دوبارہ الیکشن کے لیے اس کو اجازت دی تو ہم نے کہا یہ ضمنی الیکشن کے زمرے میں نہیں آتا تو اس امیدوار کو اجازت دی جائے ہم نے یہاں قلعہ عبداللہ میں حاجی محمد نواز صاحب کو اجازت دے دی اور ہم نے سوچا اب شائد ان کو عقل آگئی ہو شائد اب وہ حربے نہیں استعمال کر رہے ہو شائد وہ دھاندلی کے حربے استعمال نہیں کر رہے ہو مجھے بھی لوگوں نے کہا کہ آپ بائیکاٹ کریں گے تو آپ کا ڈی آئی خان کا اپنا حلقہ وہ بھی رہ جائے گا میں نے کہا اگر اسٹبلشمنٹ کی پیٹ میں کوئی جگہ خالی ہے تو ہماری ایک سیٹ سے وہ خالی جگہ بھر دے کوئی مسئلہ نہیں۔ آج میں اعلان کرتا ہوں کہ تمہارے رویوں سے صاف نظر آرہا ہے کہ قلعہ عبداللہ کی الیکشن میں بھی تم نے بدترین دھاندلی کرنی ہے اگر دھاندلی کا الیکشن کرکے ہم نے اس کو تسلیم کرنا ہے تو بہتر یہ ہے کہ آج اس جلسے میں ہم اس حلقے کے الیکشن کا بھی بائیکاٹ کر دے ایسے الیکشنوں کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں، اس طرح کے کٹھ پتلی پارلیمنٹ میں بخدا میں جانا بھی نہیں چاہتا لیکن پھر میں نے سوچا کہ پشین کے عوام نے مجھ پر اعتماد کیا ہے کہیں وہ یہ نہ سمجھے کہ ہماری ووٹ کی بے قدری ہو گئی، میں نے آپ کی ووٹ کی قدر کرتے ہوئے اسمبلی میں حلف اٹھایا۔

میرے دوستو! انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں آج غزہ کے مسلمانوں پر کیا گزر رہی ہے، ان کا قتل عام ہو رہا ہے اسلامی دنیا خاموش، مسلم دنیا زبانی مذمت سے آگے نہیں بڑھ رہی، جنگ بہت لمبی ہو گئی، بمباری لڑنے والوں پر نہیں ہو رہی، اسرائیلی فوج حماس کے مجا ہد ین کا سامنا نہیں کر سکتے تو عوام پر بمباری کر رہے ہیں شہروں کے شہر ملبے میں بدل گئے ہیں، کتنے ہزار ملبوں کے نیچے پڑے ہیں، چالیس ہزار سے زیادہ وہ جنازے پڑھ چکے ہیں آپ بتائے کہ اس فلسطینی بھائی کا ہم پر حق ہے کہ نہیں، بحیثیت مسلمان ہم ان کے شانہ بشانہ کھڑے رہیں گے۔ لہذا ہم آج اس اجتماع سے یہ بھی قرارداد پاس کر رہے ہیں کہ جمعیت علماء اسلام پاکستانی عوام کو ساتھ لے کر ان شاءاللہ اپنے فلسطینی بھائیوں کے شانہ بشانہ لڑتی رہے گی۔ ہمارے مجاہدین وہاں جانے کے لیے بھی تیار ہیں اگر کوئی بین الاقوامی راستہ ملتا ہے اور کوئی وہاں جانے کی اجازت دیتا ہے ۔ اسرائیل کوئی چیز نہیں وہ عربوں کی پیٹھ میں گھونپا گیا خنجر ہے اور یہ خنجر ہمیں اپنے جسموں سے نکالنا ہو گا ورنہ ہم بحیثیت مسلمان بحیثیت عرب کبھی بھی صحت مند زندگی نہیں گزار سکیں گے تو اس پر بھی ہماری قرارداد واضح ہونی چاہیے۔ ختم نبوت کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر آپ قرارداد پاس کریں کہ ہم چیف جسٹس کے فیصلے کو مسترد کرتے ہیں اور جو بھی ختم نبوت کے حوالے سے آئین کہتا ہے جو قانون کہتا ہے اس کو اور مضبوط کرنا ہے اس میں نرمی کی اجازت کسی حکمران کو کسی جج کو نہیں دی جا سکتی۔

تو میں آج کی اس اجتماع میں آپ کے پاس یہی ایجنڈہ لے کر آیا کہ ہم الیکشن کو مسترد کرتے ہیں اس کے نتیجے کو مسترد کرتے ہیں، ختم نبوت کے حوالے سے کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہیں اور اسرائیل کے مظالم کے خلاف ہم فلسطینی بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور امریکہ اور مغرب کی اس جارحانہ سیاست کے خلاف عَلم بغاوت بلند کر رہے ہیں۔ ان شاءاللہ جنگ ہے تو جاری رہے گی اور آگے بڑھیں گے اور ان شاءاللہ منزل کو پائیں گے۔

اللہ تعالی ہماری اس تحریک کو کامیاب بنائے اور عوام کو حوصلہ دے ان شاءاللہ جمعیت علماء اسلام قوم کو حوصلہ دے گی قوم کا حوصلہ بنے گی، کارکن جرات کے ساتھ میدان میں رہے کوئی خوف کو قریب نہ لائے کسی گھبرانے کی بات نہیں ہے ان شاءاللہ مدارس بھی رہیں گے اور میں اپ کو ایک بات کہہ دینا چاہتا ہوں کہ آج کل یہ جو امن و امان کے حوالے سے د ہ شت گردی کے خلاف جنگ ہے تو کبھی کسی کو پکڑ لیتے ہیں کیوں پکڑا ہے بھئی، یہ دہشت گردوں کو پناہ دیتا ہے اس کو کھانا کھلایا ہے بھئی میں بتاتا ہوں ایک غریب ادمی کے گھر میں اگر مسلح لوگ چلے جائے وہ کھانا نہیں کھلائے گا تو کیا کرے گا لیکن اپ بتائیں کیا میری ریاست کیا میرے ملک کا حکمران کیا میرے ادارے پاکستان کی ترقیاتی منصوبوں کے لیے جو فنڈ منظور کرتے ہیں جو ٹینڈر کرتے ہیں ان میں پانچ یا دس فیصد ان مسلح گروپوں کا نہیں ہوا کرتا، تم اپنے بجٹ میں ان کو دس فیصد حصہ دیتے رہو تم مجرم نہیں ہو اور اگر ہمارے کسی کارکن نے کسی کو چائے پلا دی تو وہ مجرم، پہلے اپنے اپ کو ٹھیک کرو تم دہش ت گردوں کو پال رہے ہو، تم مسلح گروپوں کو پال رہے ہو، تم ان کو حرکت میں لاتے ہو، بظاہر ان کے ساتھ لڑائی اور اندر سے اپ انہی کو ہمارے خلاف استعمال کر رہے ہیں یہ سیاست اب ان شاءاللہ نہیں چلے گی۔

اللہ تعالی ہمارا حامی و ناصر ہو

وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔


ضبط تحریر: #سہیل_سہراب

ممبر مرکزی ڈیجیٹل میڈیا کونٹنٹ جنریٹرز/ رائٹرز ممبر ٹیم جے یو آئی سوات

#teamJUIswat


0/Post a Comment/Comments