جمعیۃ علماء اسلام پاکستان رکن سازی مہم 2024/۱٤٤٥


جمعیۃ علماء اسلام پاکستان میں شمولیت اختیار کر کے تاریخی تسلسل کے حامل نظریئے سے وابستگی اختیار کیجئے

جمعیتہ علماء اسلام پاکستان کی نئی رکن سازی مہم کا آغاز ہو چکا ہے۔ رکن سازی کا مقصد صرف اور صرف جماعتی انتخاب نہیں، بلکہ اس کا مقصد اپنی دعوت کو پھیلانا، عوام کی صفوں میں جا کر عام آدمی تک جماعت کی دعوت پہنچانا، اور جماعت کے ساتھ لوگوں کو وابستہ کرنا ہے، تاکہ اسلامی اقدار کے احیاء کیلئے رفقائے کار میسر آ سکیں۔ رکن سازی ہماری جماعتی تاریخ کا ایک ایسا تسلسل ہے کہ کبھی کسی مارشل لاء میں بھی نہیں ٹوٹا۔ حتی کہ بعض اوقات جب سیاسی جماعتوں پر پابندی لگتی تھی تب بھی ہم نے اس سلسلے کو کبھی توڑنے نہیں دیا (جیسے مارشل لاء کے دور میں نظام العلماء کے نام سے تنظیمی سرگرمیاں جاری رکھی گئیں) اور آج الحمدللہ ایک بار پھر پورے ملک میں مرکز سے مقامی سطح تک ہمارے کارکنوں نے عزم نو کے ساتھ نئی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں اور پوری خود اعتمادی کے ساتھ عام آدمی کو جمعیۃ علماء اسلام کی صفوں میں شامل ہونے اور اس عظیم قافلے کا ساتھی بننے کیلئے کوشش اور محنت میں مصروف ہو گئے ہیں۔ 

جس طرح ایک فرد کی اصلاح کیلئے ذکر و عبادت ایک موثر عمل ہے، اسی طرح معاشرے کی اصلاح کے لئے سیاست ایک موثر عمل ہے اور اسلام کے سیاسی نظام کا مقصد ہی انسانیت کی تعمیر اور اس کی اصلاح ہے۔ صاحب النھایہ نے سیاست کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے: والسياسة القيام على شيء بما يصلحه (کسی چیز کی درستگی اور اصلاح کی ذمہ داری کو سیاست کہتے ہیں، فقہاء کے نزدیک سیاست کی تعریف ہے مخلوق کی اصلاح کے ساتھ ساتھ دنیا اور آخرت میں راہ نجات کی طرف راہنمائی کرنا سیاست ہے۔ جمعیۃ علماء اسلام اسی سیاست کی قائل اور داعی ہے۔ چنانچہ اسلام کے پاکیزہ نظام کو انسانی معاشرے میں نافذ کرنے اور پورے معاشرے کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کیلئے جمعیۃ علماء اسلام نے سیاست کا راستہ اختیار کیا ہے۔

جنوبی ایشیاء کے طبقۂ علماء میں گزشتہ تقریباً ڈیڑھ سو سال کے عرصے سے حضرت مولانا محمود حسن المعروف شیخ الہند کا مقام و مرتبہ ایک مسلمہ علمی، دینی، سیاسی اور قومی راہنماء کا ہے۔ علمائے کرام کو مخاطب کرتے ہوئے حضرت شیخ الہند نے فرمایا: ”اسلام صرف عبادات کا نام نہیں، بلکہ تمام مذہبی، تمدنی، اخلاقی، سیاسی ضرورتوں کے متعلق ایک کامل و مکمل نظام رکھتا ہے۔ جو لوگ زمانۂ موجودہ کی کشمکش میں حصہ لینے سے کنارہ کشی کرتے ہیں اور صرف حجروں میں بیٹھے رہنے کو اسلامی فرائض کی ادائیگی کیلئے کافی سمجھتے ہیں، وہ اسلام کے پاک و صاف دامن پر ایک بد نما دھبہ لگاتے ہیں۔ دین کے فرائض صرف نماز روزہ میں منحصر نہیں بلکہ اس کے ساتھ ہی اسلامی شوکت کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری بھی ان پر عائد ہوتی ہے۔ وفقنا الله وايا كم لما يحب ويرضى 

سیاسی امور میں جمعیۃ کا موقف یہ ہے کہ ہر اچھے کام اور اقدام کی تائید اور غلط کی مذمت کی جائے، خواہ وہ کام اور اقدام حزب اقتدار کا ہو یا حزب اختلاف کا۔ کسی ایک گروہ کے ہر ایک اقدام کی تعریف اور دوسرے گروہ کے ہر اقدام کی مخالفت کرنا ایک جاہلانہ تعصب ہے، اسلامی سیاست سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ جمعیۃ علماء اسلام کے پیش نظر قرآن کا یہ اصول ہے کہ: نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو گناہ اور سرکشی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کیا کرو۔ جمعیۃ علماء اسلام مملکت پاکستان اور اس کے معاشرے کو قرآن وسنت کے مطابق تعمیر کرنا اپنا بنیادی مقصد سمجھتی ہے اور اسی نصب العین کو مد نظر رکھ کر طریق کار اور پالیسی کا تعین کرتی ہے۔ 

جمعیۃ علماء اسلام یک طرفہ رجحان کی ہرگز تابع نہیں بن سکتی کہ وہ ملک و ملت کے معاملات میں حزب اقتدار یا حزب اختلاف کی ہمیشہ ہم نوائی کرتی رہے۔ بلکہ جہاں دین اور تعبیر دین کے بارے میں اختلاف ہوگا تو جمعیۃ علماء اسلام سلف صالحین کے اختیار کردہ مسلک کتاب وسنت پر خود بھی سختی سے قائم رہے گی اور دوسروں سے بھی اصرار کرے گی کہ وہ اس پر قائم رہیں۔ وہ لوگ جو جمعیۃ سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ہر حال میں دین یا سیاست کے نام پر جائز اور ناجائز کی حمایت کرے، وہ سخت مغالطے کا شکار ہیں، البتہ جہاں کہیں دین وملت کا فائدہ اور وطن کی سرخروئی کا معاملہ ہو، وہاں وہ اپنے مخالف ترین کا ساتھ دینے میں بھی کوئی حرج نہیں سمجھتی۔ اسی بنیادی نکتہ کو سمجھ لیا جائے تو جمعیۃ کی پالیسی کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ الحمدللہ جمعیۃ علماء اسلام کو براہ راست مسلم عوام سے تعلق رکھنے اور ان کی روز مرہ مشکلات میں ساتھ دینے کی وجہ سے عوام میں مقبولیت و اعتماد حاصل ہے۔ جمعیت اور اس کے قائدین اپنی سنہری تاریخ اور بہترین کردار و عمل کی وجہ سے اسلام دشمن طاقتوں کی آنکھوں میں خار بن کر کھٹکتے ہیں۔ ان طاقتوں کو اندیشہ ہے کہ جمعیۃ کی قیادت ان کے اسلام دشمن عزائم کو بھانپتی اور ناکام بنا سکتی ہے اس لیے ان مختلف الخیال لوگوں کا جمعیت اور اس کی قیادت کے خلاف متحد ہو جانا کوئی حیرانگی کی بات نہیں۔

جمعیۃ علماء اسلام کے علاوہ دیگر جماعتیں بھی ہیں جو نفاذ اسلام کے علمبردار ہونے کا دعویٰ رکھتی ہیں۔ اس وقت ایک عام آدمی کیلئے مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ حق کو پہچان کر اس کا ساتھ دے اور اپنی صلاحیتیں اور توانائیاں اس کیلئے وقف کر دے۔ اس سلسلہ میں جمعیۃ علماء اسلام کے متعلق چند حقائق کا معلوم کر لینا ضروری ہے۔

جمعیۃ کسی ایک فرد کی خود ساختہ سوچ و فکر کی حامل جماعت نہیں ہے بلکہ دین حق کی جدو جہد کا عملی سلسلہ ہے جو ابتدائے اسلام سے ہر زمانے کے علماء کی راہنمائی میں چلا آرہا ہے اور تا قیامت جاری رہے گا۔

جمعیۃ قرآن و سنت کو براہ راست سمجھنے کے دعویٰ اور خود ساختہ تعبیرات و تشریحات کو درست نہیں سمجھتی۔

جمعیۃ کے نزدیک عہد نبوی کے بعد قرآن وسنت کو سمجھنے کیلئے صحابہ کرام اور سلف صالحین رحمہم اللہ کی تعبیرات ہی دین کا محفوظ ترین اور قابل اعتماد طریق ہے۔ اور انہی کے نقش قدم پر چلنے کو جمعیۃ راہ نجات اور کامیابی کا راستہ سمجھتی ہے۔

جمعیۃ کے نزدیک ملکی، بین الاقوامی اور سیاسی و غیر سیاسی معاملات کیلئے مدار صرف اسلام ہے۔ چنانچہ جمعیۃ، اسلام ہی کی بنیاد پر تمام مسائل کا حل امت مسلمہ کے لئے ضروری سمجھتی ہے۔ کسی مصلحت کی بنا پر اسلام کے کسی اصول اور ضابطہ میں تغیر اور تبدل کو قطعاً غلط سمجھتی ہے۔

جمعیۃ افراط و تفریط سے ہٹ کر اعتدال کو پسند کرتی ہے اور ملکی و بین الاقوامی اور سیاسی و غیر سیاسی معاملات میں اعتدال کی پالیسی پر گامزن ہے، جذبات کے بہاؤ میں اعتدال سے ہٹ جانے کو درست نہیں سمجھتی۔

جمعیتہ انسانی آزادی اور اپنے تاریخی ورثے کی بناء پر غلامی سے نفرت کرتی ہے اور ہر حال اور ہر سطح پر آزادی کو برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ اس لئے کسی تعلق اور دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر آزادانہ پالیسی تشکیل دیتی ہے۔

جمعیۃ کا مقصد مسلمان قوم کی صحیح رہنمائی کرنا ہے اسلئے میڈیا یا پروپیگنڈہ کی وجہ سے پیدا ہونے والے عوامی رجحان کی بجائے حقائق کی بنیاد پر اپنی پالیسی تشکیل دیتی ہے جس کی وجہ سے وقتی طور پر تو عوام میں تنقید کا نشانہ بنتی ہے لیکن پروپیگنڈے کا گرد و غبار چھٹتے ہی جمعیۃ کی پالیسی عوام کے سامنے ایک حقیقت کی صورت میں سامنے ہوتی ہے بشرطیکہ تعصب اور تنگ نظری کا چشمہ اتار کر دیکھا جائے۔ جمعیۃ علماء اسلام نے پارلیمانی فورمز، رائے عامہ کی تشکیل اور بین الاقوامی لابیوں کی راہ میں مؤثر حکمت عملی کے ساتھ ثابت قدمی سے ڈٹ کرامت کا مقدمہ لڑا ہے۔

جمعیۃ کا کارکن مغربی حلقوں کے ایجنڈے کے خلاف الگ سے متحرک ہے اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے پھیلتی ہوئی فحاشی، مادیت، مذہب بیزاری کی لہر کے خلاف کم ترین وسائل سے ایک جنگ دباؤ کے اندر لڑ رہا ہے۔ 

جمعیۃ کا کارکن فرقہ وارانہ مزاج، اس مزاج کی ترویج و ترقی کیلئے تیار شدہ تحریری مواد اور تنظیمی نیٹ ورک کے مقابلے میں تحمل و برداشت کی دعوت دے رہا ہے۔ یہ چند نکات ہیں جو جمعیۃ کو دوسری جماعتوں سے الگ اور ممتاز کر دیتے ہیں۔

وہ شخص جو حق کیلئے جد و جہد کا جذبہ رکھتا ہو اور اپنی صلاحیتیں اور توانائیاں اس راہ میں خرچ کرنا چاہتا ہوا اپنے رب کو راضی کرنے کیلئے دین متین کی عالی جد و جہد میں شامل ہونا چاہتا ہو تو جمعیۃ اس کیلئے ایک بہترین میدان عمل ہے۔

مصنوعی روشن خیالی اور ترقی پسندی کی جگہ حقیقی روشن خیالی اور ترقی پسندی کا اصلی وژن عام کرنے کے لئے شعوری جد و جہد کی تکمیل جمعیۃ علماء اسلام کے پلیٹ فارم سے ہی ممکن ہے، جس کی بنیادی فکر خدا پرستی، انسان دوستی اور معاشی مساوات کے آفاقی اصولوں پر قائم ہے اور یہی وہ اصول ہیں جن کے ذریعے ایک پر امن، خوشحال اور اعلیٰ انسانی اقدار کا حامل نیا عالمی معاشرہ تعمیر کرنا ممکن ہے۔ آئیے! جدید دور کے ان تقاضوں کا شعور حاصل کر کے بین الاقوامی انقلاب پر اپنی نظریں جمائیں۔ اس عظیم مشن کی تکمیل کیلئے جمعیۃ علمائے اسلام کا دامن آپ کیلئے واہ ہے۔ کوئی شرط نہیں کوئی قید نہیں، آپ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہیں، بس یہی شرط کافی ہے۔

جمعیۃ علماء اسلام کا "رکن" بننا ایک اعتبار سے زندگی کا احساس کرنا اور احساس دلانا ہے، رکن بننے میں ایک زندہ فرد کی حیثیت سے باور کرانا مقصود ہوتا ہے کہ کفر کی قوتو! بے دینی والحاد کی ہواؤ! مغربیت کی بڑھتی ہوئی تدبیرو! اور حق کے پروگرام کے خلاف پنجہ آزمائی کرنے والی تنظیمو! میرا بھی ایک وجود ہے، میرا بھی ایک پروگرام ہے، میری بھی ایک تنظیم ہے، میرا بھی ایک قائد و رہنما ہے جس کی قیادت میں ایک تنظیم کے تحت میں زندہ ہوں، تیار ہوں میں ہر باطل قوت کا راستہ روکنے کے لئے۔ میں غافل نہیں باطل کی تدبیروں سے، میں مستعد ہوں اپنا پروگرام آگے بڑھانے کیلئے، میرا عزم جواں ہے، میری تمنائیں محو پرواز ہیں دین اسلام کے غلبے کیلئے۔ میری رگوں میں دوڑتا ہوا خون میری زندگی کیلئے ہی نہیں بلکہ اس جماعت کیلئے بھی ہے جس کا فارم پر کر رہا ہوں اور جو اسلام کی مقدس امانت کو سینے سے لگائے ہوئے اسوۂ صحابہ کی امین اور حق کی علمبردار ہے۔

رکن بننا تجدید عہد ہے کہ پانچ سال قبل رکنیت فارم پر کر کے جو عہد باندھا تھا آج پھر اس مرحلے پر میں یہ عہد دہرا رہا ہوں کہ جمعیۃ علماء اسلام، جسے میں نے حق پر قائم سمجھا آج بھی اسے حق سمجھتا ہوں، اس کے دستور و منشور سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔ اس کے اغراض و مقاصد کی تکمیل کیلئے جیسے پہلے حاضر تھا آج بھی حاضر ہوں۔ آج پانچ برس بعد بھی جمعیۃ کی پالیسیوں سے متفق ہوں، اس کی کارکردگی سے مطمئن ہوں اور اس کی قیادت پر اعتماد کرتا ہوں۔ اس کے سچے مشن، پروگرام، اغراض و مقاصد اور اس کی نظم کے لئے اپنی توانائیاں خرچ کرنے کے لئے تیار و مستعد ہوں۔

جمعیۃ علماء اسلام کا رکن بننا ایک یقین دہانی ہے کہ لوگ مغرب کی تقلید کریں، معیشت میں امریکہ و یورپ کے مکروہ اور شیطانی ضابطے اپنائیں، عقائد میں ان کی تقلید کرنے لگ جائیں، عریانی و فحاشی سے تلذذ حاصل کریں، پردے کو فرسودہ قرار دے کر نیم عریاں ہو جائیں، شادی و بیاہ کی رسومات کو غیر مسلموں کی طرز پر لے آئیں، وہ مغربی علوم اور ایجادات کے ذریعے حیوانی طرز عمل کو اچھا جانیں۔ مجھے اس سے سروکار نہیں، میں اپنی جماعت کی وساطت سے محمد رسول اللہ ﷺ کی طرز زندگی اختیار کرنے کا پابند ہوں اور میری دعوت بھی ہر کسی کو یہی ہے۔ فلاح محض اتباع رسول ﷺ میں ہے، نہ کہ عیسائیوں اور یہودیوں کے تشکیل کردہ حیوانی نظاموں کی پیروی میں۔

رکنیت فارم پر کرنا اک اظہارِ وفا ہے کہ میں نہیں مانتا مغرب کے حیوانوں کے فلسفے، ان کا بے شرمی و عریانی کا معاشرہ اور ان کی اقتصادی ترقی کو، کہ جس میں چند انسانوں تک دولت سمیٹ کر کروڑوں انسانوں کو بھوک و افلاس کی دکھ میں مبتلا کر دیا جائے۔ میں ایسی تہذیب سے انکار کرتا ہوں جو پہلے لوٹ مار کر کے مال جمع کرے اور بعد میں خیرات کرے۔ اور اسی لئے میں اس انقلاب کا نعرہ لگاتا ہوں، جو ہر ایسی تہذیب کو تہس نہس کر دے۔

ہر پانچ سال بعد زندگی کی بہاریں لوٹنے والے بچے جماعتی کارکن پھر سے جماعتی رکنیت اختیار کر کے اپنے اپنے افکار و نظریات کی جدو جہد میں سرخرو ہوتے ہیں اور جماعتی زندگی کا ثبوت بہم پہنچاتے ہیں۔ جس طرح پہلی نماز کے بعد دوسری نماز کی حاضری کی توفیق پہلی نماز کی قبولیت کا مظہر گردانی جاتی ہے، اسی طرح پچھلے پانچ سال کے دوران رکنیت فارم پر کر کے مخلصانہ جد و جہد کرنے کے بعد دوسری بار فارم رکنیت کا پُر کرنا اس بات کی نشانی ہے کہ سابقہ جد و جہد کامیابی کے زینے چڑھ رہی ہے۔

جمعیۃ علماء اسلام کا رکن بننا زندگی کا ثبوت ہے، تجدید عہد ہے، اقرار حقیقت ہے، اعلان وفا ہے، جو رکن برسہا برس سے جماعت سے وابستہ ہیں ان کے لئے رکن بننا ایک لحاظ سے خود احتسابی بھی ہے کہ آپ جو فارم پر کر کے عہد وفا باندھتے ہیں اس کے لئے کیا قربانی دیتے ہیں؟ اپنے مشن کی تکمیل کیلئے فارم پر کر کے جماعت سے منسلک ہوتے ہیں اس کے تقاضے بھی پورے کرتے ہیں یا نہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ جب فارم بار بار پُر کیا جاتا ہے تو وقت کا قاضی آپ سے ضرور یہ سوال پوچھتا ہے اور پانچ سال کے بعد یہ سوال ابھر کے پھر سامنے آجاتاہے کہ کیا کھویا کیا پایا؟ جماعتی ذمہ داریوں کو کس حد تک نبھایا؟ علمائے حق کی قیادت کو کہاں تک مانا ہے؟ باطل کے خلاف جدو جہد کس مرحلے میں ہے؟ یہ سوال بہر حال اٹھتا ہے کہ آخر آپ فارم کیوں پر کرتے ہیں؟ 

سیاسی جماعت کی بنیاد اور اساس جامع عقیدہ و نظریہ ہوتا ہے، چنانچہ کسی جزوی یا کسی وقتی مسئلے کی بنیاد پر سیاسی جماعت کی عمارت نہیں کھڑی کی جاتی۔ لہٰذا اگر کسی جماعت کا جامع نظریہ محفوظ ہے اور وہ حق ہے تو پھر اس جماعت کے ساتھ وابستہ ہونا شرعاً واجب ہے اور اگر اس کا جامع عقیدہ باطل ہے تو اس سے لا تعلق ہونا شرعاً واجب ہے۔ ایک حق عقیدے کی حامل جماعت کسی جزوی معاملے پر اجتہادی طور پر غلط فیصلے بھی دے سکتی ہے لیکن اگر اس کا جامع عقیدہ اپنی جگہ بحال ہے، تو گویا درخت کی بنیاد اور تنا مضبوط کھڑا ہے، لہٰذا کہیں سے کوئی پتہ گر گیا، کوئی شاخ بیکار ہو گئی تو اس سے فرق نہیں پڑتا بلکہ پھر بھی اس شجر سے وابستہ ہونا ضروری ہے، غرض یہ کہ جزوی مسئلے میں اجتہادی غلطی کسی حق جماعت سے لا تعلق ہونے کا سبب نہیں بن سکتی۔ لیکن اگر کسی جماعت کا عقیدہ باطل ہے، پھر بھی وہ کسی جزوی اور وقتی مسئلے پر صحیح فیصلہ بھی دے سکتی ہے۔ مگر باطل عقیدے کی حامل جماعت اگر کسی جزوی معاملے پر صحیح فیصلہ دے بھی دے، تو یہ اس سے وابستگی کا جواز پیدا نہیں کرتا۔ ہمارے اکابر نے ہمارے لئے جس عقیدے کا تعین کیا ہے، اور ہمارے لئے جو نظریہ اور نصب العین طے کیا ہے وہ جمعیۃ علماء اسلام کا منشور ہے۔

بڑا اور وزنی پتھر راستہ بند کر دے تو ایک فرد کی کوشش سے راستہ نہیں کھلتا۔ موجود ظالمانہ نظام نے ہر فرد کا سکھ چین چھین رکھا ہے، ہم فرداً فرداً چھوٹے بڑے مسائل کا سامنا کرتے ہوئے صبح تا شام اپنا وقت، سرمایہ اور اپنی صلاحیتیں برباد کرتے ہیں مگر ان مسائل سے ہماری جان نہیں چھوٹتی۔ آئیے! اسلام کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کرتے ہوئے علماء کرام کی قیادت میں متحد ہو کر اسلام کے عادلانہ نظام کے نفاذ کے لئے اپنی تمام تر توانائیاں وقف کر دیجئے۔ آئیے! ظالمانہ نظام کے خاتمے، اسلام کے عادلانہ نظام کے قیام اور اجتماعی مسائل سے نمٹنے کیلئے مخلصانہ اجتماعی کوششوں کا حصہ بن جائیے۔ پاکستان کی سب سے بڑی دینی جماعت جمعیۃ علماء اسلام میں شامل ہو جائیے۔


اغراض و مقاصد جمعیۃ علماء اسلام پاکستان

علماء اسلام کی رہنمائی میں مسلمانوں کی منتشر قوتوں کو جمع کر کے اقامت دین اور اشاعت اسلام کیلئے منتظم جدو جہد کرنا نیز اسلام اور مرکز اسلام یعنی جزیرۃ العرب اور شعائر اسلام کی حفاظت کرنا۔

قرآن مجید واحادیث نبویہ علی صاحبھا الصلوٰۃ والتسلیم کی روشنی میں نظام حیات کے تمام شعبوں سیاسی، مذہبی، اقتصادی، معاشی اور ملکی انتظامات میں مسلمانوں کی رہنمائی اور اس کے موافق عملی جد و جہد کرنا۔

پاکستان میں صحیح حکومت اسلامیہ برپا کرنا اور اسلامی عادلانہ نظام کے لیے ایسی کوشش کرنا، جس سے باشندگان پاکستان ایک طرف انسانیت کش سرمایہ داری اور دوسری طرف الحاد آفرین اشتراکیت کے مضر اثرات سے محفوظ رہ کر فطری، معاشرتی نظام کی برکتوں سے مستفید ہوسکیں۔

مملکت پاکستان میں ایک ایسے جامع اور ہمہ گیر نظام تعلیم کی ترویج و ترقی کے لئے سعی کرنا جس سے مسلمانوں میں خشیت الٰہی، فکر آخرت، پابندی ارکان اسلام اور فریضہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی صلاحیت پیدا ہو سکے۔

مسلمانان پاکستان کے دلوں میں جہاد فی سبیل اللہ ملکی دفاع و استحکام اور سالمیت کے لیے جذبہ ایثار و قربانی پیدا کرنا۔

مسلمانوں میں مقصد حیات کی وحدت، فکر و عمل کی یگانگت اور اخوت اسلامیہ کو اس طرح ترقی دینا کہ ان سے صوبائی، علاقائی و لسانی اور نسلی تعصبات دور ہوں۔

جید مسلمانان عالم سے اقامت دین، اعلاء کلمۃ اللہ کے سلسلے میں مستحکم روابط کا قیام۔

تمام محکوم مسلم ممالک کی حریت و استقلال اور غیر مسلم ممالک کے مسلم اقلیتوں کی باعزت اسلامی زندگی کے لیے مواقع پیدا کرنے کی کوشش کرنا۔

 مختلف اسلامی اداروں مثلاً مساجد و مدارس، کتب خانوں اور دارالیتامی کی حفاظت، اصلاح اور ترقی کی کوشش کرنا۔

تحریر و تقریر اور دیگر آئینی ذرائع سے باطل فرقوں کی فتنہ انگیزی، مخرب اخلاق اور خلاف اسلام کاروائیوں کی روک تھام کرنا۔


برائے رابطہ

مفتی محمود مرکز ، رنگ روڈ پشاور 9120771-0333



0/Post a Comment/Comments