مولانا عزیز الرحمن عظیمی
حالات بدلتے ہیں تو خیالات اور جذبات بھی بدل جاتے ہیں، ترجیحات بھی ، اسے اصول اور نظریات کا بدلاؤ نہیں کہتے۔صحافی نے کچھ یوں سوال داغا:
مولانا! پہلے آپ عمران خان کو یہودی لابی کہتے رہے مگر اب سیاسی اختلافات ختم ہورہے ہیں، توکیا پھر سے وہ مسلمان لابی میں آجائے گا؟
یہ سوال بھی دراصل اسی لابی کاہے، جو سیاسی بساط پر لابنگ، لانچنگ اور بلیک میلنگ کا کاروبار کرتا ہے، جس نے عمران خان کو اپنے بیرونی آقاؤں کے ساتھ مل کر تخلیق کیا۔ پھر مناسب وقت پراسے لانچ کیا، پھر جب اسے اتارنا چاہا تو وہ اڑ گیا اور اس کے ساتھ ہی اس لابی کابھی ہوش اڑ گیا۔
عمران کو آؤٹ کرنے میں مولانا کا کردار واضح ہے۔ شاطر لابی کا خیال اور خواب تھا کہ مولانا فضل الرحمن عمران خان سے ہمیشہ لڑتا رہے گا اور وہ اپنے نئے نئے کھیل آرام سے کھیلتا رہے گا۔ یوں سسٹم سے آؤٹ ہوکر بھی عمران خان نشانہ رہے گا۔ اور ملک سے کھلواڑ کرنے والا حقیقی کردار پردے کے پیچھے سے تماشہ دیکھتا رہے گا۔ مولانا مگر سیاست کے کھیل کو اچھے سے جانتے ہیں۔ مولانا نے ''پرانے شکاری'' کو روپ بدل کر آنے پر اپنے ترکش کے تیر اس کی کمیں گاہ پر برسانے شروع کردئیے، کیوں کہ شکاری نے شور تو عمران خان کے خلاف مچا رکھا ہے، مگر شکار وہ مسلسل مولانا کا کررہا ہے۔ شکاری وہی ہے، جال نیا ہے۔
مولانا نے توپوں کا رخ اس کی جانب کردیا تو وہ بڑا سٹپٹایا کہ ہم تو شریف بچے ہیں ، یہ مولانا کوکیا ہوگیا جو ہم بے قصوروں کو رگید رہا ہے۔ لیکن اب ایسا بھی تو نہیں ہوسکتا کہ عمران خان اقتدار میں بھی نشانے پہ ہوگا اور بعد از اقتدار بھی! اور اسے ناجائز اقتدار دلانے اور پھر ان سے اختیار لے کر دوسروں کو دینے والا ٹولہ بہر صورت ''مقدس گائے'' بن کر آرام سے بیٹھا رہے گا۔
آج اگر امریکہ کے غلط طرز عمل کا کوئی مخالف ہے تو وہ جوبائیڈن پر تنقید کرے گا، یا بُش اور کلنٹن جیسے رفتگاں اور ازکار رفتگان کو برے لفظوں سے یاد کرے گا؟ جن کا اب پالیسیوں میں کوئی دخل ہے نہ اقدامات میں۔ انڈیا کے جرائم پر مودی کے خلاف بات ہوگی یا مرے ہوئے واچپائی پر انگلی اٹھائی جائے گی؟ عمران سے مولانا کی جتنی بھی دشمنی تھی، سیاست میں دوستی دشمنی کوئی رشتے یا عقیدے کی طرح نہیں ہوتی جو بدل نہیں سکتی، بلکہ کل کا دشمن آج کا دوست ہوسکتاہے۔ مفاداتی سیاست میں ہی نہیں ، نظریاتی سیاست میں بھی۔ امت مسلمہ کے دشمنوں میں سر فہرست کبھی کفار قریش تھے، پھر وہ نہیں رہے، ان کی جگہ یہود نے لے لی۔ اشد الناس عداوة وہی تھے۔ پھر روم سے ہمدردی رہی فارس سے مخالفت۔ ھم من بعد غلبھم سیغلبون میں روم کیلئے نیک خواہشات ہیں۔ پھر ایک موقع پر روم و فارس دونوں کو شکست دینا بڑا ہدف تھا۔ لا قیصر ولا کسری پھر ان سے بھی وہ دشمنی نہ رہی۔ کیوں کہ ان کا غرور ٹوٹ گیا۔ تو منافقین مدینہ کے بارے میں کہا گیا :
ھم العدو فاحذرھم۔
انیسویں صدی میں عالم اسلام کاسب سے بڑا دشمن کبھی برطانیہ تھا۔ پھر وہ دشمن نمبر ایک نہیں رہا، کیوں کہ ان کی عالمگیر طاقت و سطوت کا طلسم بھی ٹوٹ گیا۔ بیسویں صدی میں روس بڑا دشمن بن گیا جس نے ایشیاء میں مسلم ملکوں کو ہڑپ کرنا شروع کیا۔ افغانستان میں اس کے خلاف فیصلہ کن معرکہ لڑا گیا سب مسلمانوں نے حصہ لیا۔ افغانستان شدید زخمی ہوا، پاکستان بچ گیا ، ستان ، ستان کے لاحقے والے کئی ملک اب بھی روس کے شکم میں ہیں۔ پھر وہ بھی دشمن نمبر ایک نہ رہا اور اکیسویں صدی میں امریکہ سب سے بڑا دشمن بن گیا۔
اس وقت اسرائیل اسلامی دنیا کا سب سے مبغوض اور ناپسندیدہ دشمن ہے۔ اس لئے نہیں کہ مسلمانوں کا عقیدہ بدل گیا، بلکہ دشمن ختم ہو جاتا ہے۔ یا اس کی وہ سرکشی اور بدمعاشی باقی نہیں رہتی یا پھر اس کی ترجیحات بدل جاتی ہیں، کوئی دوسرا ان سے زیادہ موذی بن کر سامنے آتا ہے۔ ظاہر ہے پھر آپ کو بھی وقت کے حساب سے اپنے موقف میں نرمی یا تبدیلی یا لچک لانا ہوگا کیوں کہ غبارے سے ہوا نکلنے کے بعد وہ غبارہ نہیں کہلاتا اور سانپ کے گذرنے کے بعد اس کی لکیریں پیٹنا دانشمندی نہیں ہوا کرتی۔ وقت حاضر اور لحظہ موجودہ میں جو آپ کی جان یا کاز کے درپے ہے، وہی آپ کا اصل دشمن ہوتا ہے۔ گھڑے مردے نہیں اکھاڑا کرتے۔ اکھاڑے میں موجود مقابل کو پچھاڑنے میں توانائیاں لگانا لازم ہے اوریہی عین دانش ہے۔ مولانا وہی کررہے ہیں اور مقابل پریشان ہے تو کہتاہے
آپ کی وہ والی دشمنی کہاں گئی؟ جواب یہ ہے کہ وہ دشمنی گئی بھاڑ میں اب تمہاری باری ہے اور تم ہی ٹارگٹ ہو۔ کیونکہ تم ان سے بڑھ کر ہمارے خاتمے کی پلاننگ کررہے ہو۔
تم ادھر ادھر کی نہ بات کر… یہ بتاکہ قافلہ کیوں لٹا
تم یہودی اور مسلم لابی کو چھوڑو، یہ بتاؤ تم نے ہمارا راستہ کیوں روکا۔ کیوں ہر گھناؤنے کھیل کا سرغنہ تم ہی ہوتے ہو۔ تم نے نکے کا ناجائز ابا بن کر ہمارا مینڈیٹ پی ٹی آئی کو دیا ہم نے کشتیاں جلاکر نکلے اور اس کے ابا دونوں کو نشانے پہ رکھا اور لاڈلے کو اقتدار سے بے دخل کیا۔ تم نے پتلی گلی سے نکل کر خود کو بری الذمہ باور کرایا اور بہروپئے کی شکل میں اس سے جان چھڑانے کا ڈھونگ رچایا۔ ہم نے ملکی مفاد میں تمہارا نام حذف کیا مگر اب کی بار اس سے بھی بڑھ کر تم نے ہمارے مقابلے میں، ہمارے گھر سے اس کو جتوایا، پتہ چلا ان سے زیادہ تم ہمارے بدخواہ ہو پھر ہم کیوں مفت میں تمہارے بہی خواہ بنیں۔
اب واضح ہوا وہ تو محض کارندہ تھا۔ جبکہ تمہارا تویہ دھندا تھا اور ہے۔ سو اب ان سے نہیں تم سے اصل جنگ ہوگی۔ ہاں جنگ سیاسی ہوگی نہ کہ مذہبی یا ذاتی۔ کیونکہ ہماری لائن ہی سیاسی ہے ہماری مخالفت بھی سیاسی ہوتی ہے نعرہ بھی۔ فتوی سیاستدان نہیں مفتی لگاتا ہے، سو نعروں کو فتووں کانام نہ دو۔ بات یہ ہے کہ اب تم سے پرانے اور نئے بڑے حسابات لینے ہیں۔ تم نے سوال نہیں اٹھانا، جواب دینا ہے جواب!جو بہر حال تمہیں دینا پڑے گا۔ جلد یا بدیر۔ لیکن یہ کھیل مزید نہیں چلے گا کہ ہم سے عمران کو اور عمران کو ہم سے مرواؤ اور تم دیکھو تماشہ۔ نہ کوئی معاہدے کا پاس نہ بات کا لحاظ نہ سدھرنا نہ باز آنا ہے تم نے۔ بس کچھ یہی سوچ ہے مولانا صاحب کی، جو نکے کے ابا سے ہضم نہیں ہورہی تھی تو اس نے اپنے نکوں کو لگایا ہے مولانا کے غیظ و غضب کے آگے بندھ با ندھنے میں ، مگر یہ سب ریت کی دیوار ثابت ہوں گے۔
مولانا سرخ رو اور عدو رو سیاہ ہوگا۔ ان شااللہ
ایک تبصرہ شائع کریں