مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا پشاور میں عوامی اسمبلی ملین مارچ سے خطاب


قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا پشاور میں عوامی اسمبلی ملین مارچ سے خطاب

9 مئی 2024

الحمدلله الحمدلله وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی لاسیما علی سید الرسل و خاتم الانبیاء وعلی آله وصحبه و من بھدیھم اھتدی، اما بعد فاعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم بسم الله الرحمٰن الرحیم 

یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ اللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ۔ صدق الله العظیم

جناب اسپیکر، عوامی اسمبلی کے معزز اراکین، میرے بزرگو، دوستو اور بھائیو! مجھے یاد ہے کئی سال قبل ہم اسی مقام پر اکٹھے ہوئے تھے لیکن آج اسی مقام پر جب آپ کی تعداد کو دیکھتا ہوں وہ بھی اس ملین مارچ سے بہت زیادہ، جو میں آپ کے جوش اور جذبے کو دیکھتا ہوں تو وہ بھی اس جذبے اور ولولے سے زیادہ اور آپ نے ایک بار پھر پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالکوں کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ ہم اس ملک کے لیے آپ کی جعلی اسمبلیوں کو قبول نہیں کر رہے، ہم نے ایک بار پھر ان کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ آپ کی دھاندلیوں کی پیداوار حکومت عوام کی نمائندہ نہیں ہے، یہ حکومتیں یہ اسمبلیاں اسٹیبلشمنٹ کی نمائندہ تو ہو سکتی ہے لیکن اسے پاکستان کے عوام کا نمائندہ کہنا میرے نزدیک پاکستان کے عوام کی توہین ہے، ہم اپنی قوم کی توہین برداشت نہیں کر سکتے، آج ہم اپنی قوم اور اس ملک کے عوام کے عزت نفس کا مقدمہ لے کر میدان میں آئے ہیں، آج ہم اپنے عوام کے ووٹ کے حق کا مقدمہ لے کر میدان میں آئے ہیں اور مجھے ایک دو دن قبل افواج پاکستان کے ایک ترجمان کی پریس کانفرنس جو غالباً تین گھنٹوں پر محیط تھی اور کچھ پتہ نہیں چلا کہ تین گھنٹے میں اس نے کہا کیا، اتنی فصاحت و بلاغت کے ساتھ بات کر رہا ہے، وہ بظاہر تو تاثر دے رہا تھا کہ وہ یہ بات ہے کسی اور کے خلاف کر رہا ہے لیکن جو بھی بات کرتا تھا کوشش کرتا تھا کہ وہ میری باتوں کا جواب دے، میں جس جگہ پہ کھڑا ہوں کسی دلیل سے ہوں، میں یوں ہی دست و گریبان نہیں زمانے سے، ہمیں کیا پڑی ہے 10 لاکھ لوگوں کو اس میدان میں لانا سفر کر کے یہاں آنا سفر اور موسم کی تکلیف برداشت کرنا پھر کہتا ہے کہ الیکشن کے حوالے سے فوج کا کوئی رول نہیں، میں بھی آپ کو بتانا چاہتا ہوں میں بھی بتانا چاہتا ہوں کہ آئین میں قانون میں رولز میں کوئی رولز نہیں ہیں کہ فوج سیاست میں بات کریں اور میں بھی مانتا ہوں کہ آئین اور قانون کے رو سے تمہارا کوئی رول نہیں لیکن یہ سارا رولا ہی تیرا ہے، یہ رولا تیرا ہے! کہتا ہے فوج پر تنقید کرنا یہ ملک سے بغاوت ہے، فوج پر تنقید کرنا یہ تو ملک کے خلاف بات کرنی ہے، ہاں میں بھی جانتا ہوں کہ فوج میری ریاست کی محافظ ہے لیکن جب آپ آئینی آرٹیکل کے مطابق حلف اٹھاتے ہو فوج میں شامل ہونے کے وقت کہ میرا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوگا میں سیاست میں کوئی حصہ نہیں لوں گا پھر جس وقت تم سیاست میں حصہ لیتے ہو تو پھر تم اس وقت پاکستان کی فوجی نہیں رہتے اس لیے میں تم پر تنقید کرتا ہوں۔ میں ملک میں کوئی آندھی سیاست نہیں کر رہا میں ملک کے آرمی چیف کو بھی جانتا ہوں آئی ایس آئی کے چیف کو بھی جانتا ہوں میں مقتدرہ کو بھی جانتا ہوں، میں 40 سال سے زیادہ عرصہ پاکستانی سیاست سے وابستہ رہ کر کس چیز سے اب ناواقف ہوں کہ تم مجھے صفائی دو گے کہ میں نے سیاست میں حصہ لینا ہے یا نہیں، میرا دعویٰ آپ کے خلاف یہ ہے کہ تم نے سیاست میں حصہ لیا ہے اس کے بعد تم پاکستان کے فوجی نہیں رہے کہ میرے اوپر تمہارا احترام لازم ہوا! ہاں واپس فوجی بن جاؤ، واپس فوجی بن جاؤ جہاں سے نکلے وہی کھڑے ہو جاؤ میں آپ کے شانہ بشانہ کھڑا ہو جاؤں گا، شاید یا تم نے مجھے نہیں پہچانا یا میں نے تمہیں نہیں پہچانا لیکن مجھے پوری طرح اطمینان ہے کہ میں نے آپ کو ٹھیک سمجھا ہے مجھے آپ کے بارے میں آپ کے رائے دینے میں کوئی کسی قسم کا تردد نہیں ہے۔

میرے محترم دوستوں! پاکستان کے قیام میں تمہارا کوئی رول نہیں، پاکستان کو پاکستان کے ہندوستان کے مسلمانوں نے بنایا عوام نے بنایا قربانیاں دی اور ان قربانیوں کے نتیجے میں پاکستان بنا ہے اور پاکستان کا جھنڈا تم نے نہیں لہرایا پاکستان کا جھنڈا ہم نے لہرایا ہے، پاکستان جب بنا ہے تو تمہارا کردار پاکستان کو توڑنے میں ہے پاکستان کو بنانے میں نہیں ہے، سن 1971 میں 90 ہزار سے زیادہ فوجی ایک ہندو کے سامنے سرنگوں ہوئے تمہارے کردار نے ہماری ناک کاٹ دی ہے، تمہارے کردار نے قوم کے سروں پر ذلت اور رسوائی کا ٹوکرا رکھا ہے، ہم بھی آپ کو جانتے ہیں اور آپ بھی ہمیں جانتے ہیں، تم اگر وردی پہن کر مجھ پر کوئی رعب ڈالنے کی کوشش کرتے ہو تو میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ تم سارے مل کر بھی میرے جسم پر رو تک نہیں رینگتی، معاملات کو ٹھیک کرو ہم اس لیے آئے ہیں کہ آپ کو بتائیں کہ معاملات کو ٹھیک کرو سیاست سے دستبردار ہو جاؤ اپنی پوزیشن پر واپس چلے جاؤ اور میں یہ بھی آج آپ کی تائید سے کہنا چاہتا ہوں آپ کی تائید سے کہنا چاہتا ہوں، کہ آپ کو قبائلی علاقوں سے نکلنا ہوگا، آپریشنوں کے نام پر ہمیں اپنی خیر خواہیاں مت دکھاؤ، تم نے 2010 سے اپریشنیں شروع کی ہے، آج 2024 ہے 14 ، 15 سال ہو گئے، ہمیں امن دینے کے نام پر قبائل کو تباہ و برباد کر دیا، قبائلوں کی عزتوں کو تباہ و برباد کر دیا، قبائل کے شملے تم نے گرا دیے، قبائل کی پگڑیاں تم نے اچھال دیں، یہ تو جمعیت علماء اسلام تھی جس نے قبائل کا جرگہ بنا کر قبائل کا نمائندہ بن کر اپنا موقف دیا تھا اور ہمارا گناہ یہی تھا کہ آپ نے جب پیپلز پارٹی کی حکومت تھی 2008 کے بعد آپ نے قبائلی علاقوں میں آپریشن کا فیصلہ کیا اور میں نے کہا کہ یہ حکمت عملی ٹھیک نہیں ہے میرا یہی گناہ تھا اور اگر میری رائے غلط تھی تو پھر آج تک دہشت گردی ختم کیوں نہیں پھر آج تک دہشت گرد کیوں موجود ہیں، تم نے افغانستان کی سرحد میں باڑ لگایا خود باجوہ صاحب نے مجھے کہا کہ اب ہم نے باڑ لگا دیا ہے کوئی شخص ادھر جا سکے گا نہ ادھر آسکے گا، تو 40 ہزار لوگ گزر گئے 20 سال وہاں لڑے اور پھر تمہارے باڑ کو اڑا کے واپس آگئے، آج پھر میری زندگی خطرے میں ہے اگر آپ میرے واقعی محافظ ہیں تو اگر آپ میرے محافظ ہیں اور پھر کیوں میں اس مشکل سے گزر رہا ہوں آج میرے راستے پھر غیر محفوظ کیوں ہیں آج میرے گلیاں کیوں غیر محفوظ ہیں آج میرے ملک کے شہری کیوں غیر محفوظ ہیں، اس کا معنی یہ ہے کہ ہم نے آپ کے اپریشن کے حوالے سے جو اس وقت تحفظات دیے تھے وہ ٹھیک تھے اور آپ نے جو ہمیں امن و امان کا اطمینان دلایا تھا تم اپنے دعووں میں غلط ثابت ہوئے ہو۔

میرے محترم دوستو! جب میاں نواز شریف صاحب کی حکومت تھی تو آپ نے فاٹا انضمام کا فیصلہ کیا، میں نے ہر فورم پر دلائل دیے، میں نے پارلیمنٹ میں دلائل دیے، میں نے تمہارے ساتھ مخصوص میٹنگوں میں دلائل دیے کہ تم انضمام کا فیصلہ کرنا غلط کر رہے ہو یہ اس وقت صحیح نہیں ہے، آپ کو مشکلات پیش ہوں گی، افغانستان کے ساتھ معاملات بنیں گے لیکن ہماری بات نہیں مانی گئی اور ہمارا گناہ یہی تھا کہ ہم نے ایک ایسی بات آپ سے کہی جس کو آپ نے ہمارے ساتھ میٹنگوں میں تسلیم کیا اور پھر جب آپ مان گئے میرے ساتھ، میرے ساتھ چار پوائنٹس پر اتفاق کر لیا تم لوگوں نے، تو پھر تو میرے پاس پاکستان کے اندر ڈیوٹی دینے والا ایک امریکی افسر میرے گھر ملنے کیوں آیا؟ پھر وہ مجھے کیوں پوچھتا ہے کہ آپ کیوں مخالفت کر رہے ہیں، پھر وہ مجھے کیوں کہتا ہے کہ آپ کو انضمام کرنا پڑے گا، یہ فیصلہ آپ کا مانوں یا تمہارے آقاؤں کا مانو! میرا گناہ یہ تھا کہ میں نے فیصلے سے اختلاف رائے کیا تھا اور میں نے آپ سے کہا تھا کہ جو کچھ تم کر رہے ہو غلط کر رہے ہو، جاؤ آپ خیبر پختونخواہ کے لوگ بہتر طور پر فاٹا کے حالات کا جائزہ لے سکتے ہیں آپ بتائیں کہ فاٹا کی صورتحال اب کیا ہے، میں بات کرنا چاہتا ہوں کہ آج میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ فاٹا کے عوام کہاں کھڑے ہیں، نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے، تم نے کہا تھا کہ ہم دس سال میں 10 سال میں ہزار ارب روپیہ ان کو دیں گے اور ہر سال ایک سو ارب ان کو دیں گے، ان کو ترقی دینے کے لیے، ان کو سیٹل لوگوں کے برابر لانے کے لیے، آج آٹھ سال گزر گئے ہیں اس کے اور آج تک تم 100 ارب بھی پورے نہیں کر سکے ہو ان پہ چہ جائے کہ آپ 900 ارب مزید ان کو دینگے، کیوں دھوکہ کیا آپ نے، کیوں باہر کا اشارہ قبول کیا اپنے ملک کے اندر، کیوں اپنی خود مختاری کو بیچا، میری رائے پاکستان کے خود مختاری کے لیے تھی، قبائل کے عوام کے لیے تھی اور میں نے آپ سے یہ بھی کہا تھا کہ قبائل سے پوچھ لو اگر وہ چاہتے ہیں انضمام کرنا تو ریفرنڈم کرا دو اگر قبائل کی خواہش ہے مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا، آج آپ کے اس تاریخی اجتماع کے سامنے پھر میں ایک دفعہ کہتا ہوں کہ اگر اس وقت میں رفرنڈم نہیں تھا اب تو انہوں نے مزہ چکھ لیا ہوگا اب تو 8 سال کے بعد مطمئن ہوئے ہوں گے عوام اپنی پوزیشن پر واپس جانا چاہتے ہیں یا تمہارے انضمام کو قبول کرتے ہیں، آج چیلنج کرتا ہوں تمہیں، قوم سے پوچھو، مجھے یاد ہے بعض ان لوگوں کے وہ الفاظ مجھے زبان پر لانے میں شرم آتی ہے جب انہی لوگوں نے کہا چھوڑیے مولانا قبائل میں کوئی ایسے لوگ ہیں جن سے پوچھنے کی ضرورت ہوتی ہے؟ میں اپنی عوام کے بارے میں تمہاری رائے جانتا ہوں! اب آپ بتائیں کہ کیا ہماری رائے غلط تھی؟ ہمیں پاکستان میں میگا پروجیکٹس چاہیے تھے کس کی اشارے پر تم نے میگا پروجیکٹس رکوائے؟ میں نے آپ سے یہ کہا تھا کہ ریکوڈک جو بلوچوں کی ملکیت ہے اس پر قانون سازی جائز نہیں کہ آپ اٹھارویں ترمیم کی مخالفت کر کے آپ ریکوڈک کو بین الاقوامی کمپنیوں کے حوالے کریں، اس کے مفادات کو آپ بیچیں اور بلوچ لوگوں کو بلوچستان کے لوگوں کو آپ محروم کریں، میں نے تو یہی جرم کیا تھا کہ اپنے قوم کے پشتونوں اور بلوچوں کے حق کی بات کی تھی اور تم نے فیصلہ کر لیا کہ یہ شخص ہر مرحلے پر ہمارے فیصلوں میں رکاوٹ بنتا ہے، میرے فیصلے بھی تاریخ میں لکھے جا رہے ہیں، میری رائے بھی تاریخ کیا اوراق پہ رقم ہو رہی ہے، تمہارے فیصلے بھی تاریخ کے پہ رقم ہورہے ہیں اور تاریخ فیصلہ کرے گی کہ تم نے قوم سے غداری کی تھی، تم نے قوم کو بیٹھا تھا اس کے وفات کو بیچا تھا، اس کے مفاد جو بیچا تھا اور تاریخ لکھی گی کہ اس شخص نے اپنی قوم اور اپنے بچوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے آواز اٹھائی تھی، ہم بلا وجہ نہیں لڑا کرتے، ہمیں کسی سے لڑنے کا شوق نہیں ہے اور آپ جانتے ہیں ہم تقریروں میں گالیاں نہیں دیا کرتے، ہم تقریروں میں کسی کا مذاق نہیں اڑاتے لیکن ہم اپنا نقطہ نظر وضاحت سے پیش کرتے ہیں، ہم اپنا نقطہ نظر پیش کریں تب بھی تم ناراض وہ آپ کی مرضی۔

میرے محترم دوستو! آج پوری دنیا کے سامنے واضح ہے پوری دنیا کے سامنے واضح ہے کہ فلسطینی اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور 7 اکتوبر 2023 سے جس جنگ کا آغاز ہوا تھا آج اسرائیلی فلسطینی مجاہدین کا مقابلہ کرنے کے بجائے وہاں کے آبادیوں پر بمباری کر رہے ہیں، غزہ پہ بمباری ہو رہی ہے، خان یونس پہ بمباری ہو رہی ہے، شہری آبادیوں پر بمباری ہو رہی ہے، شہر تہس نہس کر دیے گئے ہیں، کھنڈرات بن گئے ہیں، وہ لوگ کیمپوں میں چلے گئے، 40 ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، اکثریت ان کے چھوٹے بچوں کی ہے، اکثریت ان پہ خواتین کی ہے، بے گناہ فلسطینیوں کی ہے، تم نے 40 ہزار سے زیادہ ان لوگوں کو جو جنگ کا حصہ نہیں تھے شہید کیا، وہ کیمپوں میں چلے گئے تم نے ان کے کیمپوں پر بمباری کی اور اس وقت امریکہ ان کو سپورٹ کررہا ہے، برطانیہ ان کو سپورٹ کر رہا ہے، ہمارے حکمرانوں میں جرات نہیں کہ وہ فلسطین پر ایک واضح اور دو ٹوک بیان دے سکے! اور صرف یہ نہیں الیکشن سے پہلے میں حماس کے ساتھ یکجہتی کے لیے قطر چلا گیا، دنیا نے دیکھا کہ ہم نے اگر امریکی وزیر خارجہ تل ابیب آتا ہے اور تل ابیب میں وہ تقریر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں امریکہ کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے نہیں آیا میں ایک یہودی کی حیثیت سے تمہارے پاس آیا ہوں، ایک یہودی کے طور پر تم سے یکجہتی کرنے کے لیے آیا ہوں تو کیا یہ میرا فرض نہیں بنتا کہ میں بھی قطر جا کر فلسطینی قیادت کو یہ کہوں، حماس کی قیادت کو یہ کہوں کہ فضل الرحمن ایک پاکستانی کی حیثیت سے نہیں ایک مسلمان مجاہد کے طور پر آپ سے یکجہتی کے لیے آیا ہے۔ میں نے کوئی چوری چھپے نہیں کی یہ ملاقات، میں برملا گیا ہوں لیکن پھر بتاؤ الیکشن کے وقت تم پر دباؤ آیا یا نہیں، تمہیں امریکیوں نے کہا یا نہیں کہ یہ تو فلسطینی اور حماس کی حمایت کرتا ہے آئندہ اسمبلیوں میں ہم ان کو نہیں دیکھنا چاہتے اگر تمہارے اندر ایمان ہے تو سچ بولو سب کے سامنے، تم باہر کے دباؤ پر ایک مسلمان بھائی کے حق میں اٹھنے والے آواز کو دفن کرنے کی کوشش کرتے ہو لیکن تمہیں پتہ نہیں تھا غلامانہ ذہن پھر سوچتا نہیں ہے کہ مجھ سے کیا کروایا جا رہا ہے، آج کہتے ہو 9 مئی 9 مئی 9 مئی اور 9 مئی کو جو ہوا تھا وہ غداری ہے اور ہم یہ کر دیں گے ہم وہ کر دیں گے او خدا کے بندے تمہاری دھاندلی کے نتیجے میں جو مینڈیٹ سامنے آیا اب دو راستے ہیں آپ کے لیے یا کہہ دو کہ ہم نے دھاندلی کی ہے جس طرح کہ ہمارا دعویٰ ہے اپ کے اوپر کہہ دو کہ ہم نے دھاندلی کی ہے اور اگر تم نے دھاندی نہیں کی تو پھر عوام نے آپ کے 9 مئی کے بیانیے کو دفن کر دیا اسے مسترد کر دیا۔

میرے محترم دوستو! ہمارا موقف ہر وقت صحیح اور واضح رہا ہے ہم نے دو ٹوک بات کی ہے، میں آج بھی پاکستان نہیں اسلامی دنیا پر فلسطینیوں کا قرض سمجھتا ہوں کہ اس وقت تک وہ احتیاط سے زبان کیوں استعمال کر رہے ہیں، ڈٹ کر ان کے شانہ بشانہ کیوں کھڑے نہیں ہو رہے! ہم یوں کر دیں گے اور ہم یوں کر دیں گے اور ہم یہ کر دیں گے اور ہم وہ کر دیں گے ادھر ادھر کی باتیں،

تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا

مجھے راہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے

تو اس لیے ہم نے اعلان کر دیا کہ اب فیصلے ایوان میں نہیں میدان میں ہوں گے اور پشاور کا یہ میدان جو کئی کلومیٹر تک آپ نے بھر دیا ہے اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عوام ہوتے کیا ہیں عوام ہوتے کیا ہیں تمہیں بھیڑ بکریوں کی طرح سمجھتے ہیں جیسے چاہے وہ ہمیں ہانکے، تو یا ابھی تک ملک مرا نہیں ہے، ابھی تک جمعیت علماء زندہ ہے، ابھی تک فضل الرحمن زندہ ہے وہ نکلے گا اور قوم کو بتائے گا کہ آپ آپ ہی ہیں آپ زندہ قوم ہیں آپ مجاہد قوم ہیں آپ میدان میں ہیں آپ کی اسمبلیاں آپ کی نمائندہ نہیں ہیں یہ سٹیج اور سٹیج پر بیٹھی ہوئی قیادت یہی آپ کی نمائندہ ہے۔

تو میرے محترم دوستو! کس کس کا رونا روئیں کس کس کا رونا روئیں، ہماری عدالتیں بھی جہاں ہم انصاف کی امید سے ان کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں، نہ حاضر ہوں تب بھی ہم گناہگار اور ہم حاضر ہوتے ہیں تب بھی، 50 سال کے بعد سپریم کورٹ مجھے کہتی ہے کہ وہ 50 سال پہلے جس سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا دی تھی وہ غلط تھی، جب آپ اپنے اس فیصلے کو جس میں آپ ملک کے وزیراعظم کو لٹکا دیتے ہیں اور 50 سال کے بعد کہتے ہیں کہ ہم سے تو غلطی ہوئی تھی، میں ختم نبوت کے حوالے سے مقدمہ اس عدالت کے حوالے کر دوں کہ جس کے فیصلے نے مجھے واضح اشارات دیے ہیں کہ آپ عدالتی سطح پر قادیانیوں کو تحفظ دینے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ ہماری عدالتیں فیصلہ پہلے کر دیا اور علمی لحاظ سے جاہلانہ فیصلہ کیا، ہر ایک کو اپنے مذہب کی تبلیغ کرنا جائز ہے، بابا اس کے لیے بھی کوئی قانون ہے کوئی طریقہ کار ہے اس کا، تم قرآن کی تلاوت شاید کر سکتے ہو تو تم نے کوئی آیت پڑھ لی ہوگی یہ پتہ نہیں کہ اس ایت کا مطلب کیا ہے اور فیصلے میں لکھ دیا، تو یاد رکھو اگر تم ختم نبوت کے اس عظیم الشان ترمیم کو جسے پارلیمنٹ نے متفقہ پاس کیا، اس تحریک کو جو 1974 میں چلی، اس تحریک کو جو 1953 میں چلی لاہور کی گلیوں میں، 10 ہزار مسلمانوں نے شہادتیں دی، کیا اس تحریک کو ہم یوں ہی بھول جائیں اور ایک جج صاحب جو چاہے فیصلہ دے دیں، لہٰذا یہ فیصلہ واپس لینا پڑے گا اور ہم نے اعلان کر دیا ہے میں آج اس اعلان کو پھر دہرا رہا ہوں، کے 7 ستمبر 1974 کو پارلیمنٹ نے فیصلہ دیا تھا اور اس سال 7 ستمبر 2024 کو اس کے 50 سال پورے ہو رہے ہیں، ان 50 سالوں کے پورے ہونے پر ان شاءاللہ ہم اور آپ سب مینار پاکستان لاہور پر اس کی گولڈن جوبلی منائیں گے۔ اور یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ جو قافلہ پشین سے روانہ ہوا تھا پھر کراچی پہنچا اور وہ قافلہ آج یہاں پشاور میں پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں یہ عظیم الشان لاکھوں انسانوں کا اجتماع جو پورے صوبے کے عوام کی نمائندگی کر رہا ہے ان شاءاللہ یکم جون کو یہ تحریک یہ قافلہ آگے بڑھے گا اور مظفرگڑھ میں جنوبی پنجاب کا بہت بڑا ملین مارچ اور بہت بڑی عوامی اسمبلی منعقد کرے گا۔

ہم کوئی مفاد لے کر گھروں سے نہیں نکلے کہ آپ ہمیں پیشکشیں کرتے رہیں اور کوئی اچھی سی پیشکش آئی اور ہم نے قبول کر لی، ہم نے پورا مینڈیٹ آپ کو بتا دیا ہے، ہم پبلک کے مینڈیٹ کے ساتھ بات کر رہے ہیں، ہم آئین کی زبان میں بات کر رہے ہیں، تم آئین کو قبول کر لو، آئین کے مطابق زندگی گزارو، آئین کے مطابق جنرل رہو، آئین کے مطابق فوجی رہو میں سب سے زیادہ آپ کا احترام کرنے والا ہوں گا، اگر میں فوجی نہیں بن سکتا اگر میں فوج کی وردی نہیں پہن سکتا اور میرے لیے جائز نہیں ہے میرا آئین اور قانون مجھے اس کی اجازت نہیں دیتا آپ کون ہوتے ہیں کہ میرا لباس پہن کر سیاسی میدان میں آ کر سیاسی کردار ادا کرو! یہ ہے وہ ساری صورتحال جو ہم نے اپنائی ہے تو یاد رکھو یہ اجتماع یہ عوامی اسمبلی اتفاق رائے کے ساتھ آٹھ فروری 2024 کی انتخابات کے نتائج کو مسترد کرتی ہے، مسترد ہے آپ کا ووٹ کوئی اختلاف تو نہیں کر رہا ہے؟ (نعرے: نا منظور نا منظور 8 فروری کے انتخابات نا منظور، جعلی اسمبلی نامنظور، انتخابات میں مداخلت نامنظور۔۔۔)

میرے محترم دوستو! بات دلائل کے ساتھ ہوگی، دھونس دھمکی نہیں چلے گی، اگر آپ کا یہ خیال ہے کہ ایک رعب دار قسم کا دھمکیوں بھرا بیان دے کر آپ ہمیں خاموش کر لیں گے ہم آپ کو خاموش کرنے آئے ہیں خود بولنے کے لیے نکلے ہیں!

پشتو بیان کا ترجمہ:

آپ نے میری جتنی بھی باتیں سنیں تہ تھی تو اردو میں لیکن لہجہ پشتو کا تھا! اور آپ کی طرف سے میں ان کو یہ پیغام دیتا ہوں کہ جو میری باتیں اردو میں تھی ان کو پشتو کہ لہجہ میں دیکھے، یہ سر جو جسم کے اوپر نظر آرہا ہے یہ عزت چاہتا ہیں عزت! اور اگر عزت نہیں تو پھر یہ سر جسم پر بوجھ ہے ہٹانا چاہئیے!

تو یاد رکھو دھاندلی کی اسمبلیاں ہمیں قبول نہیں ہیں، ہمیں سندھ میں بھی قبول نہیں، ہمیں بلوچستان میں بھی قبول نہیں، ہمیں پنجاب میں بھی قبول نہیں، ہمیں خیبر پختونخواہ میں بھی قبول نہیں، اور یہ عوامی تحریک اگے بڑھے گی یہ صرف جلسوں تک اب محدود نہیں رہے گی میرے میرے ساتھیوں میرے ساتھیو! میں آپ کی قوت سے باتیں کر رہا ہوں اوپر اللہ کی قوت ہے زمین پر آپ خدا کی قوت بنے اور آپ کی قوت کی بنیاد پر مجھے حوصلہ مل رہا ہے کہ میں آپ کی نمائندگی کر رہا ہوں اگر حالات سخت ہو جاتے ہیں۔۔۔ (نعرے: قائد تیرا ایک اشارہ، حاضر حاضر خون ہمارا۔۔۔) اگر حالات آگے بڑھتے ہیں اور معاملہ جیلوں تک جاتا ہے تو جائیں گے یا نہیں؟ (جائیں گے ان شاءاللہ...) اور پشتو میں بولیے کہ آپ کے جیلوں کو بھر دینگے لیکن آپ کی حکومت نہیں مانیں گے!

میرے محترم دوستو! یہ وہ پیغام ہے جو ہم ان اجتماعات کے ذریعے اپنے مقتدرہ کو بھی پہچانا چاہتے ہیں، اپنی بیوروکریسی کو بھی پہنچانا چاہتے ہیں، بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کو بھی بتانا چاہتے ہیں کہ ہم پاکستان میں غلام بن کر زندہ رہنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اللہ تعالی آپ کو سلامت رکھے، انہی جذبوں کے ساتھ سلامت رکھے، اس خودداری کے ساتھ اور خود مختاری کے جذبات کے ساتھ ہم ایک آزاد قوم ہیں اور پوری آزادی کے ساتھ اس سرزمین پر زندہ رہنا چاہتے ہیں، ہمیں اللہ نے تمہارے غلامی کے لیے پیدا نہیں کیا، ہمیں ماں باپ نے تمہاری غلامی کے لیے نہیں پیدا کیا، میں آج ان کو پیغام دینا چاہتا ہوں وہی پیغام جو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے دیا تھا

متى استعبدتم الناس وقد ولدتهم أمهاتهم أحراراً

تم نے کب سے ان لوگوں کو اپنا غلام سمجھ لیا ہے جبکہ ان کی ماؤں نے تو ان کو آزاد جنا ہے۔ یہ حضرت عمر فاروق کے الفاظ تھے ہم انہی تعلیمات کے پیروکار ہیں اور ان شاءاللہ اسی جذبے کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو

واخر دعوانا الحمدلله رب العالمین

 ضبط تحریر: #محمدریاض

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات

#teamJUIswat

پشاور عوامی اسمبلی سے قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کا ولولہ انگیز خطاب

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Friday, May 10, 2024


0/Post a Comment/Comments