مولانا فضل الرحمٰن جنوبی پنجاب کے ذمہ داران و کارکنان سے خطاب


قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کا جامعہ قاسم العلوم ملتان میں جنوبی پنجاب کے ذمہ داران و کارکنان سے خطاب 

16 مئی 2024

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جمعیت علمائے اسلام نے یکم جون کو مظفرگڑھ میں جنوبی اضلاع کا ملین مارچ یا عوامی اسمبلی کے انعقاد کا اعلان کیا ہے۔ اب یہ کام ایسا کام نہیں رہا کہ جمیعت علمائے اسلام کے کارکن اس سے نا اشنا ہو گزشتہ چار پانچ سالوں میں آپ یہی کام کرتے رہے ہیں اور ایسے ملین مارچ کو کامیاب بنانے کی کیا ترتیب ہوتی ہے کیا کیا تقاضے پورے کرنے ہوتے ہیں کس طرح ہماری یونٹیں حرکت میں آتی ہیں اور کس طرح وہ اپنے محلے اور اپنی کونسلز سے لوگوں کو نکالتے ہیں یہ سب اپ پہ بارہا گزر چکا ہے اور آپ اس کا پورا تجربہ رکھتے ہیں۔

جمیعت علمائے اسلام کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس نے اپنے اصول کو برقرار رکھا ہے اگر 2018 میں ہم نے الیکشن کو نہیں مانا نتائج کو تسلیم نہیں کیا تب بھی ہم نے تحریک چلائی اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ملین مارچ ہو یا آزادی مارچ ہو ان سب میں افرادی قوت آپ ہی کی ہوا کرتی تھی دوسرے جماعتوں کے قائدین ہمارے کنٹینر پر مہمان ہوا کرتے تھے اس بار بھی تقریباً مینڈیٹ وہی ہے اس لیے ہم نے یہ سوال کیا کہ اگر اسی مینڈیٹ کے ساتھ نتیجہ 2018 میں دھاندلی کا تھا تو اسی مینڈیٹ کے ساتھ آج کا نتیجہ دھاندلی کا کیوں نہیں، اس لیے اگر ہمیں اپنے ساتھیوں نے چھوڑا انہوں نے حکومت بنائی تو ہم نے ان کو قربان کر دیا لیکن اپنے اصول کو ہم نے نہیں چھوڑا، ہماری تربیت یہ نہیں کہ ہم آزمائشوں کو دعوت دیں لیکن اگر آزمائش آجاتی ہے مقدر ہے تو پھر اس وقت استقامت لازم ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے فرمایا ”دشمن کا سامنا کرنے کی تمنائیں نہ کیا کرو لیکن اگر مقدر ہے اور آمنا سامنا ہو گیا تو پھر ڈٹ جاؤ“۔

تو ہمیں کوئی تکلیف نہیں تھی ہم بھی نتائج کو تسلیم کرنے کا اعلان کر سکتے تھے لیکن اس کا معنی یہ ہوتا کہ جس طرح ہماری اسٹیبلشمنٹ نے ہمارے مقتدرہ نے ہماری خفیہ ایجنسیوں نے جمعیت علمائے اسلام کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ذبح کیا ہم اپنی ذبح پر راضی اور کامیاب ہو جاتے اور جب معاملہ یہاں پر پہنچتا ہے تو پھر ان کی بھی ایک تاریخ ہے وہ جانے اور ان کی تاریخ اور ہماری بھی ایک تاریخ ہے ہم نے اپنی تاریخ کی بالکل لاج رکھنی ہے۔ غلامی کو مسترد کرنا غلامی کے ساتھ بھڑ جانا غلامی کی زنجیروں کو توڑنا یہی ہماری تاریخ ہے اور ہمارے اکابر کی امانت ہے ہمارے پاس، مجھے نہیں معلوم تھا جب الیکشن کے نتائج آئے تو مجھے نہیں معلوم تھا کہ جماعت کی رائے کیا بنے گی لیکن تین چار روز کے بعد ہم نے مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس بلایا اور یہ اجلاس دو دن جاری رہا اور صورتحال پر پوری تفصیل کے ساتھ بحث ہوئی اور میں ان سے یہی رہنمائی لینا چاہتا تھا کہ ہم نے کیا فیصلہ کرنا ہے بس بہت ہو گیا چار پانچ سال ہمارا کارکن روڈوں پہ رہا، دھوپ میں کھڑا رہا ، بارشوں میں کھڑا رہا، تیز و تند ہواوں کو ناموافق موسم کو برداشت کیا تو ہم بھی کوئی عافیت کے لیے ایک راستہ نکال سکتے تھے لیکن کوئی ساتھی اس طرح کے نتائج کو قبول کر کے اور اس نظام میں جمعیت کو فٹ کرنے کے حق میں نہیں تھا تو فیصلہ یہی ہوا ساتھیوں نے اسی پہ اتفاق کیا تو مجھے بھی شرح صدر ہوا اور یقین جانیے ایسے مواقع پر چونکہ پورے ملک کا ہم سے رابطہ ہوتا ہے بیک وقت ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ چترال سے لے کر کراچی اور بدین تک مری سے لے کر تربت اور کیج تک ہمارے کارکن کے جذبات کیا ہیں ان کے احساسات کیا ہیں۔ ظاہری بات ہے کہ اس سے جماعت کے کارکن کو دھچکا لگا اس کا حوصلہ ٹوٹا مایوسی نے اس کو دبوچا لیکن جب ہمارے عاملہ کا فیصلہ آگیا کہ ہم نتائج کو مسترد کرتے ہیں اور اب کے فیصلے ایوان میں نہیں میدان میں ہوں گے، اس ایک اعلان سے پورے ملک کا جائزہ ہم نے لیا تو کارکن دوبارہ زندہ ہو گیا اور یہی مسلمان کا خاصہ ہونا چاہیے اور جب یہ کام قیامت تک ہم نے کرنا ہی ہے اور دین کے لیے جہاد لڑنا محنت اور کوشش کرنا تکلیفیں برداشت کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ قیامت تک ہوگا تو پھر آپ کے اور ہمارے لیے تھکنے کی کوئی گنجائش رہ جاتی ہے ان تعلیمات کا حامل وہ پھر تھکتا نہیں ہے اور کتنا بڑا احسان ہے ہمارے اوپر ہمارے اکابر کا ہمارے اسلاف کا کہ انہوں نے ہمیں ایک زندہ قوم اور ایک زندہ امت کے طور طریقے بتا دیے ڈھنگ بتا دیا کہ انسان کس طرح زندہ رہتا ہے اور جب ہم نے کام کا آغاز کیا پہلا جلسہ ہمارا پشین میں ہوا چونکہ یہ میرا انتخابی حلقہ بھی تھا میں الیکشن میں گیا ہی نہیں تھا اور یہ دورہ بھی ان کا شکریہ ادا کرنے کے لیے تھا اور ہم سے کوئی دس دن پہلے وہاں ایک جلسہ ہوا دوسری پارٹیوں کا لیکن جمعیت کے جلسے کو جو اللہ نے وہاں کامیابی عطا کی اور ایک تاریخی اجتماع ہوا وہاں، ایک وہاں کی آبادی بھی کم ہوتی ہے پھر بارشیں تھی پہاڑی ندی نالے جو ہے وہ بہہ رہے تھے راستے بند تھے اور مجھے بتایا گیا کہ اس روز بھی کوئی گاڑی جو ہے وہ بہہ گئی ہے کچھ لوگ شہید ہو گئے اس ماحول میں بھی لوگ آئے۔ پھر کراچی کا جلسہ ہوا تاحد نظر انسانیت، ماضی میں بھی ہم نے وہاں بہت جلسے کیے ہیں اور کوئی کمی نظر نہیں آرہی تھی بلکہ اضافہ ہی نظر آرہا تھا ان دو جلسوں نے پشاور کے 9 مئی کے جلسے کو اٹھایا اور کسی زمانے میں جب ہم نے یہاں ملین مارچ کیا تھا اسی جگہ پہ کیا اور ساتھیوں کی رپورٹ یہ ہے کہ اس کی نسبت جو بہت کامیاب تھا لیکن یہ والا اس سے دگنا تھا۔

تو بڑی عوامی قوت آگئی ہے اور جمعیت پاکستان کی ایک بڑی عوامی سیاسی قوت ہے لیکن ہمیں اس جدوجہد میں اتنا اندازہ لگ گیا کہ کون ہے جو ہمارے راستے میں رکاوٹ بنتا ہے عالمی سطح پر بھی ہمیں معلوم ہو گیا اور ملک کے اندر بھی ہمیں معلوم ہو گیا اس لیے ہم نے اصل مجرم کو اس وقت ٹارگٹ پہ رکھا ہوا ہے نعرہ تکبیر اللہ اکبر۔ ہمارے جو سیاسی لوگوں کے بیچ میں جھگڑے ہوتے ہیں اختلافات ہوتے ہیں کم شدت اتی ہے کبھی نرمی آتی ہے یہ بالکل پردے کے پیچھے جا کر اپنے آپ کو چھپا لیتے ہیں جیسے معصوم ہو اور اصل مجرم ہی یہی ہوتے ہیں تو اب ہم نے ان کو براہ راست کہنا ہے کہ میرے مجرم آپ ہیں۔ پچھلی دفعہ ایک ملاقات ہوئی میری ایک بڑے سے بھی اور دوسرے بڑے سے بھی، تو میں نے ان سے کہا کہ بات سنو ہمیں کوئی غلط فہمی نہیں ہے الیکشن کے جو دھاندلی والے نتائج ہیں ہم کوئی پاگل نہیں ہیں کہ ہمیں پتہ نہیں ہے ہمیں خوب پتہ ہے کہ آپ نے کیا ہے اور جب میں حکمران کا نام لیتا ہوں تو میں اس لیے لیتا ہوں کہ میں یہ کوشش کر رہا ہوں کہ میں ریاستی ادارے کو متنازعہ نہ بناؤ لیکن تم دونوں یاد رکھو کہ جس وقت میں ان کا نام لیتا ہوں تو آپ سمجھیں کہ یہ ہم مراد ہیں آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ یہ ہمیں کہہ رہا ہے تو اب جب دوبارہ انہوں نے یہ حرکت کی تو اب ہم نے کہا کہ اب ہم براہ راست آپ کو کہتے ہیں ان چیزوں میں تم فوج کو کیوں ملوث کرتے ہو فوج کو کیوں متنازعہ بناتے ہو، ایک طرف آپ کہتے ہیں د ہشت گردی ہے فوج ان کے مقابلے میں ہے قربانیاں ہم دے رہے ہیں کشمیر آپ سے چلا گیا اور ابھی جو چند روز پہلے آپ نے خبریں سنی کشمیر کی، کیسے لوگ نکلے، پورا کشمیر آزاد کشمیر امڈ آیا تو میں نے کہا کہ ہم جو نکلے تھے سری نگر پر قبضہ کرنے کے لیے وہ مظفرآباد ہاتھ سے جا رہا ہے، پوری حکومتی مشینری اور کابینہ اسلام آباد کے کشمیر ہاؤس میں ٹھہری ہوئی تھی مظفرآباد چھوڑ چکے تھے اب ایسے حالات کہ اگر کشمیری کے اوپر گولی چلتی ہے پاکستان کی کشمیری پہ آپ بتائیں کہ ہم کس منہ سے انڈیا کو کہتے ہیں کہ تم وہاں پر کشمیریوں کے ساتھ زیادتی کر رہے ہو یہاں تو یہ کہنا بھی جرم ہے کہ اگر ہماری فوج قبائلی علاقوں میں بمباری کرتی ہے اور آپ ان سے پوچھتے ہیں کہ انڈیا کشمیر میں وہ کچھ کر رہا ہے تو تم یہاں ہمارے فاٹا میں وہی کچھ کر رہے ہو تو کہتے ہیں نہیں نہیں آپ اس طرح کی بات نہ کریں یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں وہاں کشمیری برحق ہیں تو انڈیا ظلم کر رہا ہے اور یہاں تو ہم دہشت گردوں سے لڑ رہے ہیں ایک بابری مسجد کے لیے کتنا خون بہا مسلمانوں کا، ہم بھی یہاں جلوس نکالتے تھے ابھی ذرا گنو نا کہ ہماری فوج کی بمباری سے قبائلی علاقوں میں کتنے مساجد اور مدارس اڑ گئے تھے ابھی کل جنوبی وزیرستان پر ڈرون حملہ کیا ہے پہلے کہا ہم نے دہشت گرد کو مارا ہے اب 80 سال بزرگ اس کی بیوی بوڑھی ہو گی کہ بیچاری 80 سال کی اس کے دو بچے بیٹیاں، کس کے سامنے وہ روئیں گے اب اس کو بھی ہم د ہشت گردی کے خلاف جنگ کی کیٹیگری میں لائیں گے اندھے پن میں آپ جو کچھ کریں آپ سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے جس کو پکڑ لیا یہ دہشت گرد ہے، ہمارے ہاں دیہاتوں سے لوگ اٹھائے جاتے ہیں مدرسے سے طالب علم اٹھا لیے جاتے ہیں کیوں بھائی؟ ان کا رابطہ ہے، بابا ان کا رابطہ چھوڑو آؤ میرے پاس میں تمہیں بتاؤں کہ تمہارا کتنا رابطہ ہے ان کے ساتھ، کہتے ہیں کہ ان کو کھانا کھلایا ہے چائے پلائی ہے بھئی میرا ایک پیالہ پلانا اب یہ سات آٹھ دس آدمی مسلح بڑے بڑے بالوں والے گھر پہ آجائیں آپ کھانا نہیں کھلائیں گے انہیں، آپ تو معمولی بات ہے حضرت جنرل صاحب بھی گھر میں بیٹھا ہوا ہو یہ پہنچ جائے وہ بھی کھلائے گا اور حقیقت یہ ہے کہ ہمارے جتنے پروجیکٹس ہیں جس کے لیے سرکاری خزانے میں فنڈ متعین ہوتا ہے اس کا دس فیصد ان کو دیا جاتا ہے، تم سرکاری خزانے سے لوگوں کی امانت اس میں جب ٹینڈر ہوتا ہے تو اس میں دس فیصد آپ ان کو عطا کرتے ہیں۔

یہ چیزیں جہاں مناسب ہیں یہ غلط ہے، مدارس نے آپ کا ساتھ دیا ہے، مدارس نے ملک کا ساتھ دیا ہے، مدارس نے آئین کا ساتھ دیا، مدارس نے اسلحے کے زور سے لڑنے اور فتح حاصل کرنے کا راستہ نہیں لیا، ان مدارس پر آپ کا دباؤ کس کے کہنے پہ ہے کبھی کہتے ہیں جی ایف اے ٹی ایف کا مطالبہ ہے کبھی کہتے ہیں آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے کس بات پر مطالبہ ہے یہ پیسہ غلط خرچ ہو رہا ہے آپ کے ملک میں اور چندے لوگوں کو دیتے ہیں اور یہ غلط راستے پہ جاتے ہیں اور پاکستان کے مفاد کے خلاف، آئیں بیٹھے ہیں ہمارے ساتھ میں آپ کو بتاؤں گا کہ مدارس کی افادیت کیا ہے لیکن پھر میں آپ سے پوچھوں گا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کی خود مختاری کے بعد میرے خیال میں کوئی بیس تیس محکمے تو ہوں گے کہ جن کو صوبے کی ملکیت ہونا چاہیے اور وفاق میں وہ محکمے نہیں ہونے چاہیے وہ سب کے سب موجود ہیں ان کا بجٹ موجود ہے ان کی اخراجات موجود ہیں ان کے دفاتر موجود ہیں ان کی ملازمین موجود ہیں ان پر آئے ہوئے خرچ پر کوئی اعتراض نہیں کر رہا اور میرے مدرسے کی چندے پر اعتراض کرتا ہے وہاں بھی کرے نا پھر، جو تو نے وزراء کی ظفر موج وہاں رکھی ہوئی ہے اور صوبائی خود مختاری کے بعد وہ محکمہ صوبے میں ہے وفاق میں نہیں ہونا چاہیے وہ تو تم نے رکھے ہوئے ہیں وہاں اخراجات ہو رہے ہیں فنڈز بھی ان کے لیے مختص کیے جاتے ہیں وہاں پر آئی ایم ایف اعتراض کیوں نہیں کرتا وہاں پر ایف اے ٹی ایف اعتراض کیوں نہیں کرتا یہ غیر حقیقت پسندانہ انداز سے کسی اور کا ایجنڈا لے کر اپنی ہی ملک کے شہریوں کے خلاف صف آرا ہو جانا یہ زیب نہیں دیتا، ان کو ہمارے شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہیے اگر ہم ملک کے لیے ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں تو ان کو بھی ہمارے شانہ بشانہ ہونا چاہیے وہ چلے جاتے ہیں امریکہ کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں تو یورپ کے صف میں کھڑے ہو جاتے ہیں وہ آئی ایم ایف کے صف میں کھڑے ہو جاتے ہیں وہ ورلڈ بینک کے صف میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور اپنے آپ کو ایسا مجبور بنا کر پیش کرتے ہیں کہ اگر ہم نے ان کی بات نہ مانی دیوالیہ ہو جائیں گے تو دیوالیہ تو آپ ہیں دیوالیہ کے سینگ تو نہیں ہوتے اس طرح ہوتا ہے جس طرح کہ ابھی تم ہو بس وہ نام دیوالیہ کا نہیں رکھا ہوا اس کا، اس سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اب آپ بتائیں مجھے ایک طرف ملک غریب ہے ایک طرف آپ کے ملک میں پینتالیس لاکھ ٹن گندم موجود ہے دوسری طرف نئی فصل آنے والی ہے نئی فصل آنے سے دو مہینے پہلے یا تین مہینے پہلے آپ کو کس بھاؤلے کتے نے سونگھا تھا کہ آپ پینتس لاکھ ٹن گندم اور منگوا رہے ہیں نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ آج کسان سے کوئی سرکاری ریٹ پر خرید نہیں رہی تو باہر سے منگوانا اور ڈالروں میں باہر پیسے بھیجنا اس سے اچھا نہ ہوتا کہ ہم اپنے کسان سے خریدتے ہیں اس کا کوئی بچوں کا کچھ ہو جاتا، اس قسم کی چیزیں ہمارے ملک میں ہو رہی ہیں اپنا احتساب انہوں نے نہیں کرنا جب ہم ان پہ تنقید کریں گے تو ہماری تنقید پر کہیں گے کہ آپ ہم پر تنقید کیوں کرتے ہیں تو پھر کس پہ کریں جرم آپ کرتے ہیں۔

تو اس حوالے سے قوم میں ایک بیداری اور شعور پیدا کرنا ہے اور آپ کے پاس ایک دو ٹوک موقف ہے ایک واضح موقف جس میں نہ آپ کی ماضی کی کسی کردار سے اس کا تضاد ہے اور نہ اس وقت کے کردار کے ساتھ کوئی تضاد ہے تو جس وضاحت کے ساتھ جس بے باکی کے ساتھ جس طرح شرح صدر کے ساتھ آپ قوم کے سامنے بات کر سکتے ہیں اس وقت کوئی دوسری پارٹی نہیں کر سکتے۔ تو ان شاءاللہ العزیز اس موقف کو لے کر ہم اگے چلیں گے اور اس ذہنیت کو ان شاءاللہ شکست دینی ہے۔

میرے پاس آئے شہباز شریف صاحب بھی آئے نواز شریف صاحب بھی آئے کہ جی آپ ہمارے ساتھی ہیں ہم نے اتنا اکٹھے کام کیا ہے اتنا ہم نے مل کر مارے کھائی ہیں اب حکومت میں بھی ہم اکٹھے ہو جائیں میں نے کہا یہی تو میں کہہ رہا ہوں آپ سے، میں آپ سے یہ کہہ رہا ہوں قابل مل کر مارے کھائی ہیں مل کر ہم نے جدوجہد کی ہے مل کر ہم نے کام کیا ہے کافی سال تک کام کیا ہے اب ہوا وہی کچھ ہے جو 2018 میں ہوا آپ اقتدار میں چلے گئے ہمیں باہر چھوڑ دیا تو ہم آپ سے یہی کہہ رہے ہیں کہ او اکٹھے چلیں اپوزیشن میں بیٹھے تاکہ ہم قوم سے سچ کہہ سکیں اب دھاندلی ہوئی ہے اور کھل کر ہوئی ہے اور نواز شریف صاحب کو بھی پتہ ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے اور شہباز شریف صاحب کو بھی پتہ ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے اور اس دن میں نے پارلیمنٹ میں سپیکر کو بھی کہا کہ آپ بتاؤں لاہور کی سیٹوں کی بات کرو میں نے کہا تم مطمئن ہو، واقعاتا مطمئن نہیں ہے اب زبان سے تو کہہ نہیں سکتے بیچارے، پھر ادھر وہ کرسی خراب ہوتی ہے۔

تو جس شرح صدر اور اطمینان کے ساتھ ہم اپنا موقف دے سکتے ہیں شائد کوئی دوسرا نہیں دے سکتا۔ تو آپ کی ذمہ داری بنے گی کہ جنوبی اضلاع کے تمام اضلاع حرکت میں آئے اور ایک سچا پیغام ہم دیں باقی اتحاد بنتے ہیں اتحاد نہیں بنتے وہ اپنی جگہ پر لیکن اس وقت جمعیت علماء اسلام تنہا وہ سیاسی قوت ہے جس کو اپنے موقف میں عوامی میں پذیرائی مل رہی ہے اور بھرپور مل رہی ہے ان شاءاللہ، تو ان شاءاللہ اسی منہج پہ کام کریں گے ہم لوگ اور یہ بھی آپ مد نظر رکھیں کہ یہ جماعت ہے اور جماعتوں کے اندر مسائل آتے ہیں داخلی مسائل ہمارے ہوتے ہیں انتظامی معاملات آجاتے ہیں تنظیمی مسئلے پیدا ہو جاتے ہیں مالیاتی مسئلے پیدا ہو جاتے ہیں تو جو فیصلے اب تک آچکے ہیں اس پر تو فوراً عمل درآمد کیا جائے۔ یہ جو ہم لوگ مرغی کی ایک ہی ٹانگ پکڑ لیتے ہیں نا جی کہ بھئی اب تو ایک ادارہ نے فیصلہ دے دیا ہے کہ یہ ہے صحیح آپ غلط ہیں آپ صحیح ہیں بس ختم کرو معاملہ اس کا معنی یہ ہے کہ آپ جماعت کے اندر جھگڑے میں دلچسپی لیتے ہیں پرامن طریقے سے کام کرنے میں آپ دلچسپی نہیں لیتے جبکہ رسول اللہ فرماتے ہیں کہ اگر ایک شخص حق پر ہوتے ہوئے اپنے دعوے سے دستبردار ہو جائے تو فرمایا میں ضامن ہوں کہ قیامت کہ روز جنت میں تمہارے لیے مکان ہوگا۔ اب یہ مولوی صاحبان صرف دوسروں کو پڑھائیں گے یہ حدیث خود عمل نہیں کریں گے خود اس کے اوپر عمل کرو اور چونکہ اب جلسے شروع ہو گئے تو اگر کہیں پر کوئی چیز موجود ہے طے نہیں ہوئی تو آپ لوگ اس کو چھیڑیں نہیں اس پہ کام کریں ان شاءاللہ وہ ہو جائے گا اس کے بعد آپس میں بیٹھیں گے گھر کی باتیں کریں گے آپس میں، یہ کچھ معروضات میں عرض کرنے کے لیے حاضر ہوا تھا اور آپ حضرات کو تکلیف بھی دی کہ چلو ایک بہانے ایک ملاقات بھی ہو جائے گی تو میرے لیے سعادت کی بات ہے کہ میں یہاں آپ دوستوں سے مل رہا ہوں ملاقات کر رہا ہوں اور ان شاءاللہ اس کو یکم جون کی اجتماع کے لیے تیاریوں کا آغاز تصور کر لے یا اس سلسلے کی ایک کڑی تصور کر لے کہ اللہ تعالی ہمیں کامیابی عطا فرمائے۔ ان شاءاللہ


ضبط تحریر: #سہیل_سہراب

ممبر مرکزی ڈیجیٹل میڈیا کونٹینٹ جنریٹرز/ رائٹرز ممبر ٹیم جے یو آئی سوات

#teamjuiswat

ملتان | جامع قاسم العلوم: قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ جنوبی پنجاب کے ذمہ داران و کارکنان سے خطاب کر رہے ہیں ۔

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Thursday, May 16, 2024


0/Post a Comment/Comments