قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا بھکر میں صحافیوں سے گفتگو


قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا بھکر میں صحافیوں سے گفتگو

16 مئی 2024


انتخابات میں حکومتوں کا کوئی رول نہیں ہوا کرتا، اور الیکشن کمیشن ہی کا رول ہوتا ہے لیکن یہاں تو جس کا رول ہے اس نے رول ادا نہیں کیا، جس کا رول نہیں ہے اس کو بے دخل کیا گیا اور جن کا کوئی رول نہیں ہے آئین میں اور حلف اٹھایا ہے کہ ہم دخل نہیں دیں گے انہوں نے سارا الیکشن کنٹرول کر لیا جی، تو اب بس یہی جنگ ہے، اسٹبلشمنٹ کا کیا کام ہے الیکشن کے ساتھ جی، اب الیکشن کرائیں دوبارہ اور اسٹیبلشمنٹ دستبردار رہے، فوج پولنگ سٹیشنوں سے دور رہے، واپس اپنے علاقوں میں چلی جائے جہاں ان کی ضرورت ہے، الیکشن میں ان کی ضرورت نہیں ہے۔

صحافی: سر آپ نے مخالفت کی ہے بھرپور پی ٹی آئی کے حوالے سے ان کی جماعت کی تو آپ کے درمیان میں کوئی لچک پیدا ہوئی تھی معاملات چلے تھے تو اب کیا صورتحال ہے پی ٹی آئی سے آپ کے معاملات مستقبل قریب میں وہ مزید گہرے ہوں گے یا کوئی کیا کرنٹ سچویشن کیا ہو جائے گی

مولانا صاحب: تو جب مذاکرات ہوں گے آمنے سامنے بیٹھیں گے تو پتہ چلے گا ابھی بیٹھے نہیں ہیں تو آپ کا سوال تو ایسے ضائع چلا جائے گا نا جی، وقت پہ سوال کیا کرو۔

صحافی: سر یہ جو موجودہ الیکشن ہوا ہے آپ کے سخت تحفظات ہیں موجودہ نظام سے سخت تحفظات ہیں ایک تو ان کا سلوشن بتائیں کہ کمپلیٹ پاکستان کے وہ بات کا آپ کی نظر میں کیا سلوشن ہے دوسرا میرا سوال یہی ہے کہ پی ٹی آئی بھی مزاحمت کی سیاست کر رہی ہو اور آپ بھی، تو آنے والے دنوں میں کیا اتحاد ممکن ہے؟

مولانا صاحب: میں نے اس کا جواب دے دیا ہے، پہلے سوال کی بات یہ ہے کہ یہ آپ کیوں کہتے ہیں میں نے بہت سے اینکرز سے بھی سنا ہے اور مجھے تعجب ہوا ہے کہ فضل الرحمٰن احتجاج کر رہا ہے متبادل پیش نہیں کر رہا، جلسے کر رہا ہے تو متبادل نظام بھی تو دے، حضرت ہمارا متبادل نظام کا پرابلم نہیں ہے، ہمارے پاس آئین ہے اس پر عمل کیوں نہیں ہو رہا، ہمارے قوانین پر عمل کیوں نہیں ہو رہا، ہمارا الیکشن جو ہے اس کو بھی اختیار کیوں کر دیا گیا ہے، ہماری فوج اور مقتدرہ سیاست میں کیوں مداخلت کرتی ہے، آئین خود وضاحت کرتا ہے اس چیز کی، جس ملک میں آئین موجود ہو اور آئین بھی متفقہ آئین موجود ہو، جہاں قوانین موجود ہوں، جہاں ہر شعبے کا اپنا ایک دائرہ کار موجود ہو، قانون اس کا دائرہ متعین کرتا ہے، ہم وہاں سے جا کر ہر شعبے میں ہاتھ ڈالتے ہیں وہ بھی میرے کنٹرول میں وہ بھی میرے کنٹرول میں وہ میرے کنٹرول میں ہے اور ہر چیز کو ہم ریاستی لیول پہ جا کر قابو کرتے ہیں، ہمیں انتظامی بنیادوں پر ملک کو چلانا ہے تو بیوروکریسی کو آزاد کرو اور حکومتوں کو آزاد کرو، حکومت سیاسی لوگوں کے بنے، ہر ضلع میں جن کو الیکٹیبلز کہا جاتا ہے الیکٹیبلز اکثر ان کے قبضے میں ہوتے ہیں اور جس کو وہ چاہیں آج آپ کی باری ہے آج آپ کا نمبر ہے آج آپ کا نمبر ہے پچھلی دفعہ اس کا نمبر تھا اب اس کا نمبر ہے، یہ کونسی جمہوریت ہے یہ کون سی پولیٹکس ہے ملک کی جی اور کوئی انکار نہیں کر سکتا ہمارے دعوے سے یہ حقائق ہیں، تو اس طریقے سے حضرت ایک ایک کو رات کے اندھیروں میں بلا کر ان کو ہدایات دینا ان سے رشوتیں لینا ان سے پیسے لینا اور پھر ہر ایک سے پیسے لینا اور پھر ایک کو کامیاب کرانا باقی جو ہے وہ مانگ بھی نہیں سکتے ان سے واپس، اس طرح ہوتا ہے سیاست اور ہمارے ملک میں اس قسم کی باتوں کو ایک تعجب کی نظر سے دیکھا جاتا ہے کوئی تعجب کی بات نہیں ہے حقائق ہیں زمینی حقائق ہے، اس کا انکار کیوں کیا جائے گا،

صحافی: آپ کے کے پی کے میں جو ہے اس ٹائم گورنر اور وزیراعلی آپس میں دونوں طرف سے اپنے مورچہ سنبھالے ہوئے ہیں تو کیا سمجھتے ہیں کہ اس سے صوبے کو فائدہ ہوگا یا نقصان؟

مولانا صاحب: یہ تو پی ٹی آئی کو سوچنا چاہیے اور پیپلز پارٹی کو سوچنا چاہیے کہ صرف فضل الرحمن دشمنی میں اور مخالفت میں انہوں نے یہ دو بڑے عہدے صوبے میں کیوں دیے ان کو جی، جب کرائٹیریا یہ ہو کہ چونکہ یہ مولانا صاحب کے مقابلے میں ہے تو چونکہ یہ مولانا صاحب کے مقابلے میں ہے تو اس لیے ہم صوبے ان کو دیں گے تو اس سے تو میری اہمیت بہت اونچی ہو جاتی ہے نا جی، تو یہ چیزیں جو ہیں وہ بچگانہ قسم کے فیصلے ان کے ہوتے ہیں اور بالکل ان میچور فیصلے اور میں کیا تبصرہ کروں ان کے اوپر

صحافی: مولانا صاحب ایک بیانیہ ہے پی ٹی آئی کا ایک بیانیہ ہے آپ کا، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ آپ کے بیانیہ میں اور پی ٹی آئی کے بیانیہ میں کیا فرق ہے؟

مولانا صاحب: میں اس وقت اس ایجنڈے پر نہیں ہوں کہ میں پی ٹی آئی اور اور جمعیت کے بیانیے میں فرق واضح کرتا جاؤں، میرا اپنا بیانیہ ہے میں پورے آزادی کے ساتھ میری ایک پارٹی ہے بہت بڑی جماعت ہے اس جماعت کو تھوڑا نہ سمجھا جائے زبردستی سارے اکٹھے ہو کر اس کو گرانے کی کوشش کرتے ہیں اور دھاندلیوں کے ذریعے ہمیں حکومتوں سے محروم کرتے ہیں، پارلیمنٹوں سے محروم کرتے ہیں، بین الاقوامی جو اسٹیبلشمنٹ ہوتی ہے وہ اس میں دخیل ہوتی ہے، اتنے بڑے منصوبے کے تحت کچھ لوگوں کو اوپر لے جانا کچھ لوگوں کو نیچے لے جانا، تو جس پارٹی کے خلاف عالمی اسٹیبلشمنٹ اور ہماری لوکل اسٹیبلشمنٹ مل کر منصوبہ بندی کرتی ہے میں آپ کے اس سوال کا جواب دوں گا پھر کہ اس کا بیانیہ کیا اور اس کو بیانہ ہے میں کسی کی بھی بیانیے کو بیانیہ نہیں سمجھتا میں اپنی بیانیے کا ذمہ دار ہوں اور آپ لوگوں سے ایک بات کہتا ہوں کہ آپ میرے وکیل نہیں ہیں! کہ میرا بیانیہ آپ بنا کر پیش کریں گے، جو میں کہوں گا وہی کہیں گے آپ باہر! ورنہ یہ صحافتی بدیانتی ہوگی پھر۔

صحافی: مولانا صاحب کسانوں کو گندم کے حوالے سے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، پنجاب میں بالخصوصا ان کی گندم نہیں خریدی جا رہی یہ بہت بڑا ایشو ہے جی، اس کے حوالے سے کیا کہیں گے آپ

مولانا صاحب: حضرت بات یہ ہے کہ پنجاب کے عوام کو سوچنا پڑے گا، ان شاءاللہ پنجاب کا عوام سب سے زیادہ پسماندہ ہے ذہنی لحاظ سے، وسائل کے لحاظ سے نہیں اور اس بڑے صوبے کا کردار اس وقت سیاسی لحاظ سے کچھ بھی نہیں ہے جی، آپ لوگ انہی لوگوں کو ووٹ دیتے ہیں جو آپ کے ساتھ یہی کچھ کرتے ہیں جی، انہی جاگیرداروں کو آپ ووٹ دیتے ہیں یہی جاگیر دار آپ کے ساتھ یہی کچھ کرتے ہیں جی، 45 لاکھ ٹن آپ کے پاس گندم موجود ہے اور اگلی فصل سر پہ ہے اور اس بیچ میں آپ 35 لاکھ ٹن مزید منگوا رہے ہیں، کس خوشی میں جی، تو کسان روئے گا نہیں! تو اور ووٹ دو ان کو! تو آپ کو بڑا مزہ آئے گا ان شاءاللہ اور جمعیت کو اس لیے آپ ووٹ نہیں دیں گے کہ ہم الیکٹیبلز نہیں ہیں یعنی ہم ایجنسیوں کے کسی اسٹیبلشمنٹ کی کوئی ایجنٹ نہیں ہے کہ ہم ان کی خوشامد کر کے ووٹ حاصل کریں اور کینڈیڈیٹ بنے ان کے جی، تو عوام براہ راست سمجھتی کیوں نہیں ہے، ان چیزوں کو سمجھنا پڑے گا، ان چیزوں کو اب تبدیل کرنا پڑے گا، انقلاب کا نعرہ لگانا پڑے گا، تبدیلی کی بات کرنی پڑے گی اور سچی تبدیلی ڈرامائی تبدیلی نہیں، تو صحیح معنوں میں آپ بات کریں پنجاب کے لوگوں کو سمجھائیں تجزیہ کریں، سارے تجزیے جو ہیں وہ دو پارٹیوں کے اندر پھنسی ہوئی ہیں، پورا آپ کا میڈیا دو پارٹیوں میں پھنسا ہوا ہے جی، آج یہ اور آج وہ، آج یہ اور آج وہ۔۔۔

صحافی: آپ نے ایک علم بلند کیا ہے اس نظام کے خلاف پرسودہ نظام جیسے آپ الیکٹیبلز کہہ رہے ہیں یا اسٹیبلشمنٹ کہہ رہے ہیں، آپ نے ابھی تک جو ہے ایک جو اپنی تحریک کا آغاز کیا ہے آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اگر اس طریقے سے آپ کی بات نہیں سنی جاتی تو کیا آپ ایک بڑے پیمانے پر احتجاج کرنے جارہے ہیں؟

مولانا صاحب: احتجاج کرنے کے لیے ہم تو جائیں گے، میں تو آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ میرا ایک ہی جماعت ہے جو ایک ہی بات کر رہی ہے، 2018 کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہم نے کہا دھاندلی ہوئی ہے یہ نہیں کہ نون لیگ میرے دوست بن گئی پیپلز پارٹی میرے دوست بن گئے ہیں ہم نے مل کر تحریک چلائی آج اگر ان کی حکومت آگئی تو اب میں چپ ہو جاؤں، نہیں اگر یہاں پر بھی دھاندلی ہوئی ہے تو آج بھی کہتا ہوں کہ دھاندلی ہوئی ہے اور اس کو تبدیل کرنا پڑے گا جی، قربانیاں دے کر پڑھنا پڑے گا جی، قربانیاں دے کر، چاہے جیلوں میں جانا پڑے، چاہے قبروں میں جانا پڑے لیکن قربانی دے کر آگے بڑھنا پڑے گا جی

صحافی : قربانی کون دے گا سر؟

مولانا صاحب: آپ جیسے نوجوان دیں گے جی، آپ کس لیے ہیں جی قربانی دینے کے لیے ہیں نا روٹی کھانے کے لیے تھوڑی ہے آپ لوگ

صحافی: مولانا صاحب جو اس وقت سیاسی صورتحال پاکستان کے اندر ہے آپ کے خیال میں اس کا واحد حل کیا ہے یہ حکومت کا خاتمہ نئی الیکشن ہے یا کوئی اس کے علاوہ بھی کوئی حل ہے؟

مولانا صاحب: حضرت یہ سوال کیوں آپ کرتے ہیں میرا تو دماغ خراب کر لیتے ہیں آپ لوگ اس قسم کا سوال کر کے یعنی آپ کا دماغ اور پورے قوم کا دماغ اور سیاست دانوں کا دماغ جمود کا شکار ہو گیا ہے! یعنی جو اسٹیبلشمنٹ ہمارے ساتھ ظلم کرے جو گند ہمارے اوپر مسلط کر دے جو ڈرامے ہمارے ساتھ کرے پھر اس کے بعد پھر کیا ہوگا جی پھر کیا ہوگا جی یہ کوئی سوال ہے جو ہم کر رہے ہیں یعنی پوری قوم کے دماغ کو آپ نے جمود کے حوالے کر دیا ہے، ہمارے اندر نہ سوچتے کی صلاحیت ہے نہ ہمارے پاس آئین ہے نہ ہمارے پاس رہنمائی کے لیے کوئی قانون ہے نہ ہمارے پاس کوئی ادارے ہیں سب کچھ موجود ہے پھر ایک ادارے کی بالادستی کیوں!

صحافی: مولانا صاحب آپ پی ڈی ایم کے سربراہ رہے ہیں تو اس وقت اصلاح کا وقت تھا ڈیڑھ سال تو اس ٹائم کیوں نہیں کی گئی اصلاح؟

مولانا صاحب: یہ پنجاب سے بھی پوچھو نا مسلم لیگ سے بھی پوچھو جن کو آپ نے ووٹ دیے ہیں، بڑے تو وہ تھے نا قیادت وہ کر رہے تھے ہم تو ساتھ ساتھ چل رہے تھے بس ٹھیک ہے، کچھ اپنے رائے کی خلاف بھی ہم چل رہے تھے تاکہ اتحاد نہ ٹوٹے لیکن یہ سوال آپ جو مجھ سے کرنے کی جرات کر رہے ہیں کبھی وہاں جا کے میاں نواز شریف سے بھی کریں نا شہباز شریف سے بھی کرے نا

صحافی: سر سیاستدان کی کوئی دوہری شہریت نکل آئے تو وہ نااہل ہو جاتا ہے، کل جو ہے کافی سارے ججز کی دہری شہریت نکلی ہے فیصل واوڈا نے سوال اٹھایا تو۔۔۔

مولانا صاحب: افغان شہری پارلیمنٹ میں بیٹھ گئے ہیں افغان شہری! یہ آپ کی پارلیمنٹ ہے جی، جب مشرف کی حکومت تھی تو جو امریکن شہری تھے وہ پارلیمنٹ میں نہیں بیٹھے ہوئے تھے! آپ کا وزیراعظم جو ہے معین قریشی وہ کہاں کا رہنے والا تھا؟ شوکت عزیز کہاں کا رہنے والا تھا؟ پاکستان میں ایک ووٹ نہیں ڈالا، وزارت کر کے چلے جاتے ہیں آپ کا ملک ہے بس ٹھیک ہے سب کچھ چلتا ہے اس میں، آپ پاکستانی نہیں بھی ہیں تو حکومت کر سکتے ہیں آپ پاکستانی ہے تب بھی حکومت کرسکتے ہیں، تو ہاں اس طرح بھی پارلیمنٹیں ہوتی ہیں جی،

صحافی: موجودہ وزیراعظم صاحب دوسری مرتبہ آئے ہے یہ ٹھیک کام کر رہا ہے جی؟ 

مولانا صاحب: یہ اتنی کہانی جو ابھی تک ہوئی ہے اس کہانی کا خلاصہ آپ نے یہ سوال نکالا ہے ہاہاہاہاہاہاہا 


ضبط تحریر: #محمدریاض

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات

#teamJUIswat 

بھکر: قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن کی صحافیوں سے گفتگو

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Thursday, May 16, 2024

0/Post a Comment/Comments