کراچی میں عوامی اسمبلی سے جےیوآئی سربراہ مولانا فضل الرحمان کا خطاب


عوامی سمندر میدان میں آنے کے لیے تیار ہے دوبارہ الیکشن کراؤ ورنہ عوامی سمندر میدان میں آنے کے لیے تیار ہے

انتخابات میں سندھ اسمبلی ، ایوان صدر اور دیگر اسمبلیاں فروخت کی گئیں ، کراچی میں عوامی اسمبلی سے جےیوآئی سربراہ مولانا فضل الرحمان کا خطاب

کراچی ( ) جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اسٹیبلشمنٹ کو انتباہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کو ٹھیک کرو اور دوبارہ الیکشن کرواؤ۔ ورنہ عوامی سمندر میدان میں آنے کے لیے تیار ہے۔ دوبارہ الیکشن کراو ْ اگر عوام ہمیں قبول نہیں کرے گی تو ہم عوامی فیصلہ قبول کریں گے۔ 2024 ء کے انتخابات میں سندھ اسمبلی ، ایوان صدر اور دیگر اسمبلیاں فروخت کی گئی ہیں۔ ہم ایک آزاد خود مختار ، باوقار اور حقیقی اسلامی پاکستان کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اسرائیل کی مخالفت ، حماس کے حملے کی حمایت اور افغانستان اور پاکستان کی کو بہتر کرنے کی جدوجہد کی ہمیں سزا دی گئی اور ایوانوں سے باہر نکال دیا گیا۔ اب ہماری جدوجہد سڑکوں پر حقوق کے حصول تک جاری رہے گی۔ قادیانیوں کے لیے ریلیف اور ختم نبوت کے مسئلے پر عدالت عظمی کا آئین کے حقیقی منشاء کے خلاف آیا تو وہ ہمارے جوتے کی نوک پر ہو گا۔ سندھ کے لوگوں کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے خود میدان میں آنا ہو گا ، تبھی ان کے حقوق اور جزائر بھی محفوظ ہوں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کی شب مزار قائد سے متصل نیو ایم اے جناح روڈ پر جمعیت علمائے اسلام کراچی کے تحت عوامی اسمبلی سندھ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر جمعیت علمائے اسلام پاکستان سندھ کے امیر مولانا عبد القیوم ہالیجوی کو جلسہ کی صدارت کے لیے بطور اسپیکر نامزد کیا گیا ۔ جلسے سے مولانا عبدالغفور حیدری ، علامہ راشد محمود سومرو ، مولانا اسعد محمود ، سینیٹر عطاء الرحمن ، مولانا شاہ احمد امروٹی ،ڈاکٹر صفدر عباسی ، مفتی روزی خان ، انجینئر ضیاء الرحمن ، محمد اسلم غوری، مولانا عبدالکریم عابد ،قاری محمد عثمان ، مولانا ناصر محمود سومرو ، میر شاہ زین خان بجارانی ، ایاز لطیف پلیجو ، سید زین شاہ، حافظ رب نواز خان چاچڑ ، میر مبین خان بلو ، عبدالقیوم سومرو ، مولانا نصیر احمد احرار ، مولانا صفی اللہ، مولانا محمد غیاث ، مولانا سمیع الحق سواتی ، مولانا سعود ہالیجوی ، مولانا تاج محمد ناہیوں ، مولانا صالح اندھڑ ، حسین احمد آصفی ، میر خان مہر ، اور دیگر نے بھی خطاب کیا ۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اگر ہماری اسٹبلشمنٹ یہ سمجھتی ہے کہ یہ لوگ تھک جائیں گے ، یہ ان کی بھول ہے۔ 2018 ء کے بعد ہم نے دھاندلی کے خلاف اپنی تحریک چلائی۔ اس وقت بھی ان کا یہی خیال تھا۔ مگر ہمارے ہر کارکن نے اس جدوجہد کو جاری رکھا۔ یہ آئین پاکستان کہتا ہے کہ اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہے اور اسلامی احکام کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہو سکتی۔ مگر جب سے پاکستان قائم ہوا ہے ، تب سے اسمبلیوں کو ایسے لوگوں سے بھر دیا جاتا ہے ، جن کو صرف ذاتی مفادات کی غرض ہوتی ہے اور اسلام کے بارے میں انہیں علم نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج 75 سال بعد بھی لوگوں کی پیاس اسلامی نظام کے حوالے سے نہیں بجھی ہے۔ لوگ آئین اور تخلیق پاکستان کے مطابق اسلامی نظام چاہتے ہیں۔ میں نے سندھ کے حقوق کے لیے سندھ کے چپے چپے کا دورہ کیا اور لوگوں کو اپنے حقوق سے آگاہ کیا۔ لیکن سندھ کے لوگوں کو خود بھی متحرک ہو نا ہو گا۔ اگر جزیرے بچانا چاہتے ہیں تو آگے بڑھیں۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ آج کے جلسے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ انتخابات میں قائم ہونے والی اسمبلیاں جعلی ہیں۔ اسمبلیاں خریدیں گئی ہیں۔ سندھ اسمبلی ، ایوان صدر سب خریدا گیا ہے۔ ہم ان کے لیے رکاوٹ اور خطرہ تھے اور ہمیں ہروانا ان کے مقاصد میں شامل تھا۔ ہم ایوانوں میں ہوتے تو نہ یہ جزیرے بیچ سکتے اور نہ ہی کوئی اور غلط کام کر سکتے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اس ملک میں جمہوری جدوجہد کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ آپ کو اسٹیبلشمنٹ کا سہارا چاہئے اور اسی کے تحت انتخابات ہوئے ہیں۔ فیصلے اسٹیبلشمنٹ کرتی ہے ۔ ماضی میں جب قبائلی علاقوں میں آپریشن کا فیصلہ ہوا تو ہم نے اس کی حمایت نہیں کی اور کہا کہ اس طرح آپریشن کامیاب نہیں ہو گا۔ کچھ وقت کی غلط حکمت عملی کی وجہ سے قبائل تباہ ہوئے اور مثبت نتائج بھی نہیں نکلے ۔ آج میں سوال پوچھتا ہوں کہ تمہاری وہ حکمت عملی ، جس کے تحت تم نے آپریشن کیا ، 2024 ء میں خیبرپختونخوا ، بلوچستان ، سندھ اور ملک کے دیگر حصوں میں دہشت گردی ختم ہو گئی ہے بلکہ آج بہت بڑھ گئی ہے۔ باڑ لگانے کے لیے اربوں روپے خرچ کیئے گئے۔ اس کے باوجود پاکستان کے 20 سے 30 ہزار مسلح افراد امریکا کے خلاف جنگ کے لیے افغانستان کیسے پہنچے۔ آج وہ باڑ کہاں پر ہے اور وہ اربوں روپے کس بات پر خرچ کئے۔ جو نوجوان وہاں گئے تھے ، آج وہ بڑی قوت کے ساتھ واپس آئیں ہیں۔ میں اسٹیبلشمنٹ سے پوچھتا ہوں کہ تمہاری باڑ کہاں گئی اور تم کیا کر رہے تھے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ امریکا دنیا میں اپنی افواج کی موجودگی کے لیے دہشت گرد تنظیموں کو جواز کے طور پر پیش کرتا ہے اور پھر اپنے اڈے قائم کرتا ہے اور اپنے مفادات کے لیے کام کرتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ فلسطین میں چند ماہ میں 45 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ پورا فلسطین ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ مگر کسی اسلامی ملک میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ فلسطینیوں کے حق میں بھرپور آواز اٹھا سکے۔ جب تک اسٹیبلشمنٹ کا قبضہ ہے ، اس وقت تک دنیائے اسلام پاکستان سے مدد کی امید نہ رکھے۔ پاکستان واقعی ایک بڑا ملک ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ کے قرضے کی وجہ سے فیصلے کی قوت کمزور ہے۔ ہم پاکستان میں آزاد ، خودمختار اور طاقتور پاکستان کے لیے جدوجہد اور تحریک جاری رکھیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں جمہوریت کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ اسمبلیاں نمائشی ہیں۔ جمہوریت اپنا کیس ہار چکی ہے۔ اگر آپ لوگوں نے جمہوریت کو بچانا ہے تو عوامی اسمبلیوں کی بات سننا ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ایوانوں میں ڈکٹیٹر کے اشارے پر قانون سازی ہوتی ہے اور وزیر اعظم اجلاس بلاتے ہیں۔ ایک وزیر اعلی نے تو پوری کابینہ کو کور کمانڈر ہاوس میں پہنچایا اور وہاں اجلاس کیا ۔ پاکستان میں اگر کسی اسلامی تحریک نے مسلح جدوجہد کی بات کی تو اس کو کہا جاتا ہے کہ آپ طاقت کے زور پر اپنا نظام لانا چاہتے ہیں اور اسے دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے۔ میں خود اس کے خلاف ہوں۔ لیکن آپ سے پوچھتا ہوں کہ آپ مارشل لاء کس بنیاد پر لگاتے ہیں۔ کیا وہ ریاستی دہشت گردی نہیں۔ آپ مستقل طور پر پاکستان کی سیاست کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ اس کی بڑی علامت اپیکس کمیٹیاں ہیں ۔ اعلی سطح سے نچلی سطح پر فیصلوں کے وقت اسٹیبلشمنٹ کے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ کیا آپ نے اپیکس کمیٹی اور اپنے لوگوں کے ذریعہ سول اداروں کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں نہیں لیا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ نے کہا کہ پاکستانی میڈیا روز مرہ کے مسائل پر الجھی ہوئی ہے۔ انہیں ملک کے حقیقی مسائل پر توجہ نہیں ہے ۔ آج ملک میں جنرل ازم نہیں ہے۔ آج ملک میں جنرل ازم کی جگہ کرنل ازم نے لے لی ہے۔ اس خوف کو توڑنا ہے اور آزاد صحافت کو پروان چڑھانا ہے تاکہ لوگ ملک کے حقیقی مسائل کو اجاگر کریں۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اسی طرح معاشی پالیسیاں اسٹیبلشمنٹ یا چند جنرل بناتے ہیں اور مخلص لوگوں کے کئے ہوئے کام کو بھی برباد کر دیتے ہیں ۔ آج ملک کے تمام بڑے ادارے تباہ ہیں۔ چاہے وہ پی آئی اے ہو ، اسٹیل مل ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا ملک زرعی ملک ہونے کے باوجود غریب آدمی روٹی کے لیے بل بلا رہا ہے ۔ یہ حالت 75 سالوں میں کیوں کی گئی۔ سندھ میں 45 لاکھ بچے تعلیم سے محروم کیوں ہیں۔ ان بچوں کو دینی اداروں میں بھیج دو۔ اسکولوں سے اچھی تعلیم دیں گے اور مفت دیں گے اور ہاسٹل میں مفت جگہ ملے گی اور کھانا بھی مفت دیا جائے گا۔ تمہارے نظام میں کیا کوئی پڑھا لکھا پیدا ہو سکتا ہے۔ اکثریتی ان پڑھے لکھوں کی سامنے آتی ہے ، جو پڑھا لکھا جاہل ہے اور تعلیمی معیار کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ مہنگے پرائیویٹ تعلیمی اداروں سے نکل کر لوگ اداروں میں جاتے ہیں لیکن آپ کے سرکاری تعلیمی ادارے اس میں ناکام ہیں۔ انہوں نے کہا کہ متحدہ مجلس عمل کی حکومت نے پہلے سال پرائمری ، پھر مڈل پھر میٹرک پانچ سال میں تعلیم مفت کر دی اور تمام اسپتالوں میں صحت کے سہولیات فراہم کیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک ڈکٹیٹر نے اپنے اقتدار کے لیے جمہوریت پر شب و خون مارا اور چند سالوں کی حکومت میں پانچ وزرائے اعظم تبدیل کئے ۔ مختلف مارشل لاء کے ادوار میں تین دریا ء بیچ دیئے گئے اور آج ملک پانی کے لیے ترس رہا ہے۔ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی حکومتوں نے ملک کو کمزور کیا اور قوم اس کی سزائیں بھگت رہی ہے۔ کبھی آپ نے اس پر غور کیا ہے۔ آپ کے ان فیصلوں کے کیا نتائج سامنے آئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ آپ کو اپنے اختیارات کی حدود کا علم ہے۔ لیکن آپ اپنے اختیارات کی حدود سے جو تجاوز کرتے ہیں ، وہ آپ کے حدود سے کئی گنا زیادہ ہے۔ جب پاکستان کو یہودی معیشت کے پنجے میں دینے کے خلاف ہم نے جدوجہد کی ہے۔ جب اس پر قانون سازی کی تو عدالتوں نے مداخلت کی۔ قادیانیوں کے حوالے سے قانون سازی پر کسی عدالتی فیصلے کو تسلیم نہیں کریں گے اور ختم نبوت کے حوالے سے سپریم کورٹ کوئی فیصلہ کرے گی تو ایسے فیصلوں کو ہم اپنے جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج پھر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے بجائے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات یہاں تک کیسے پہنچی ہے۔ امریکا نے جبر کے ذریعہ بیت المقدس میں اپنا سفارت خانہ کھولا اور دنیا بھر میں فلسطین کی آزادی کا مذاق اڑایا۔ حماس نے جب حملہ کیا تو ہم نے اس کی حمایت کی۔ یہی ہمارا گناہ ہے ، جس پر امریکا ہم سے ناراض ہوا ہے اور ہمیں اس کی سزا دی گئی ۔ انہوں نے کہا کہ ان حالات میں جب پاکستان اور افغانستان کی افواج مدمقابل آئی تھیں تو میں نے افغانستان کا دورہ کیا اور معاملے کو ٹھنڈا کر دیا۔ اور امریکا ناراض اور اس کی سزا ہم کو ملی۔ جمعیت علمائے اسلام اور قوم پرستوں کو ایک منصوبے کے تحت ہرایا گیا ہے۔ جب آپ خود ملک میں دہشت گردی کو فروغ دیں گے تو اقتصادی ترقی کیسے ہو گی۔ سندھ میں ڈاکووں کے خلاف آپریشن کیا اور پھر سندھ میں ڈاکو راج آ گیا۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں جو بھی سرکاری ٹھیکا ہوتا ہے اس میں 10 فیصد حصہ مسلح تنظیموں کا ہوتا ہے۔ اس کا حساب کون دے گا۔ لیکن مقامی لوگ بندوق کے خوف پر کسی کو چلائے پلائے یا کھانا کھلائے تو اسے گرفتار کیا جاتا ہے۔ ملک کو ٹھیک کرو ورنہ ہم میدان میں آجائیں گے۔ فوج کے ہاتھ میں بندوق ہمارے ہاتھ میں تحفظ کے لیے ہے ، کمزور کو ڈرانے کے لیے نہیں ہے۔ پہلا جلسہ ہمارا بلوچستان میں ہوا اور اگلہ جلسہ پشاور میں ہو گا ۔ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا عبد القیوم ہالیجوی نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سندھ کے عوام نے ہمیشہ عوامی حقوق کے لیے جدوجہد کی ہے اور آج کا جلسہ اس بات کا ثبوت ہے ۔ مرکزی جنرل سیکرٹری عبدالغفور حیدری نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سندھ کے لوگوں کو بھی اپنے حقوق اور اپنے ووٹ کے حق کے لیے نکلنا ہو گا۔ ضرورت پڑنے پر مردوں کے ساتھ خواتین بھی جدوجہد کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 8 فروری 2024 ء کی دھاندلی کے خلاف عملی جدوجہد جاری رہے گی۔ گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے مرکزی رہنما ڈاکٹر صفدر عباسی نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات میں سرکاری ملازمین زرداری کے نامزد افراد کو پولنگ کی ذمہ داری دی گئی۔ ہم نے دھاندلی کے خلاف احتجاج کے طور پر سندھ اسمبلی میں حلف نہیں اٹھایا۔ اس جعلی انتخاب کو رد کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج ہم اس بوگس الیکشن کو قبول کرنے کے لیئے تیار نہیں۔ جب انتخابات کا آغاز ہوا تو ہمیں کہا گیا۔ نگران وزیر اعلی زرداری صاحب ہیں ہم نے قبول کرلیا۔ ان کے تمام افسر وہی تھے جو 15 سال اس حکومت کے ساتھ کام کرتے رہے۔ جب ہم نے کہا کہ یہ سارا نظام غلط ہے۔ کہا گیا سندھ میں زرداری کا کوئی مقابلہ نہیں۔ سندھ میں 95 فیصد نشستوں پر اتحاد ہوا۔ وہی ڈی سی آر او اور ڈی آر او بنا دئیے گئے۔ مولانا اسد محمود نے کہا کہ آئین کی خلاف ورزی کون کر رہا ہے۔ ہم 1973 ء کے آئین کی عمل داری چاہتے ہیں ۔ ملک کے اندر قانون کی عمل داری چاہتے ہیں۔ جب بھی اسٹیبلشمنٹ نے مداخلت کرکے لوگوں کے آئینی حق کو چھیننے کی کوشش کی ، ہم نے اسٹیبلشمنٹ کی حامی پارٹیوں کے خلاف احتجاج کیا اور آج بھی ہمارا احتجاج جاری ہے۔ جب بھی سیاسی جماعتوں نے آئین اور قانون کی عمل داری کی بات کی ، ہم نے ان کا ساتھ دیا۔ 8 فروری کو جو انتخابات ہوئے ، جو فراڈ ہوا ، جمعیت علمائے اسلام کی قیادت اسے مسترد کرتی ہے ، جے یو آئی کی آواز دبانے کے لیے پورا زور لگا لیں۔ لیکن اسلام پسندوں کی تحریک کو دبایا نہیں جاسکتا ہے۔ 2018 کے انتخاب کے نتائج پر پوری قوم مایوسی کا شکار ہوگئی تھی۔ عوام نے ووٹ کسی اور پارٹی کو دئیے نتائج کسی اور کے نکلے۔ اس وقت بھی جے یو آئی کی قیادت نے واضح پیغام دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہم آئین کی عملداری چاہتے ہیں، ہم نے سیاسی جماعتوں سے اختلافات بھی کیے۔ سیاسی محاذ پر اختلاف کیا۔ ہم نے نواز شریف سے اس وقت اختلاف کیا تھا۔ جب اسٹبلشمنٹ اس کو سپورٹ کررہی تھی۔ جب 2018 میں عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ نے سپورٹ کیا۔ ہم نے اس وقت اس سے بھی اختلاف کیا۔ ہم نے آئین کی عملداری کے لیے ملکر جہدوجہد کی۔

جاری کردہ: میڈیا سیل جے یو آئی سندھ


0/Post a Comment/Comments