مولانا فضل الرحمان صاحب کا سندھ عوامی اسمبلی کے اجتماع سے خطاب 2 مئی 2024

قائد جمعیت علماء اسلام حضرت مولانا فضل الرحمان صاحب کا سندھ عوامی اسمبلی کے اجتماع سے خطاب

02 مئی 2024

الحمدلله رب العلمین وصلواة والسلام علی اشرف الانبیاء والمرسلین وعلی آله وصحبه و من تبعھم باحسان الی یوم الدین، اما بعد فاعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم بسم الله الرحمٰن الرحیم

یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِؤُا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ اللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ. صدق اللَّهُ العظیم

جناب اسپیکر حضرت سائیں عبد القیوم ہالیجوی صاحب دامت برکاتہم سٹیج پر موجود معزز علمائے کرام، سیاسی زعما اور میرے صوبہ سندھ کے اس عوامی اسمبلی کے معزز اراکین کبھی تحریکوں میں ہم جلسے کرتے تھے وہ جلسہ کراچی میں ہو، لاڑکانہ میں ہو، سکھر میں ہو جہاں بھی ہم جلسے میں گئے تا حد نظر انسانوں کا سمندر نظر آیا اور صوبہ سندھ کی عوام نے جس انداز کے ساتھ جمعیت علمائے اسلام کی آواز پر لبیک کہا آج کے اس اجتماع سے ثابت ہوتا ہے کہ آج بھی آپ اسی جذبے کی پاسداری کر رہے ہیں، آج بھی آپ اسی عزم سے سرشار ہیں اور اگر ہماری اسٹیبلشمنٹ یہ سمجھتی ہے کہ یہ لوگ تھک جائیں گے اٹھارہ کے الیکشن میں ہم نے دھاندلی کی اور جمعیت کے کارکنوں نے چار سال تحریک چلائی آج پھر 2024 میں انہوں نے الیکشن کا جو ناٹک رچایا ان کا خیال یہ تھا کہ شاید اب ان میں کوئی دم خم نہیں ہوگا اور اب یہ ہماری دھاندلی پر احتجاج کرنے کے قابل نہیں ہوں گے لیکن میں ان کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ہمارے ہر کارکن نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس تعلیم کو یاد کیا ہے ہماری یہ جنگ ہماری یہ جدوجہد ایک دن کی نہیں ایک مہینے کی نہیں ایک سال کی نہیں ہماری پوری زندگی کی بھی نہیں ہم نے اپنے اکابر کی امانت کو سنبھالا اور ان شاءاللہ ہم دنیا میں نہیں بھی ہوں گے ہمارے وارث اس جدوجہد کو آگے بڑھائیں گے اور جہاد کا سلسلہ جاری رہے گا!

میرے دوستو! میری آنکھ مفکر اسلام حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کے گود میں کھلی اور میں جانتا ہوں کہ جب جمعیت علماء کا پہلا منشور شائع ہوا وہ منشور غریب کا ترجمان تھا وہ منشور ملکی وحدت کا ضامن تھا وہ منشور صوبائی خود مختاری کا اور صوبوں کے حقوق کا محافظ تھا وہ منشور پاکستان پر اللہ کی حاکمیت کا علمبردار بنا اور ہم نے یہی درس سیکھا ہے ملک میں نظام ہوگا تو وہی ہوگا جس کا تعین آج میرا آئین کرتا ہے کہ حاکمیت اعلیٰ اللہ رب العالمین کی ہوگی اور عوام کے منتخب نمائندے اللہ کی نیابت کرتے ہوئے اس کی تعلیمات پر عمل کریں گے اس کے مطابق قانون سازی کریں گے یہ آئین کا حصہ ہے۔ یہ آئین کا حصہ ہے کہ اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا، یہ آئین کا حصہ ہے کہ قانون سازی قرآن و سنت کے تابع ہوگی اور یہ آئین کا حصہ ہے کہ قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون سازی نہیں ہوگی لیکن میرے محترم دوستو! ہم دیکھ رہے ہیں کہ تب سے پاکستان کی اسمبلیاں ایسے لوگوں سے بھر دی جاتی ہے کہ جنہیں قرآن و سنت کے نظام سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی وہ صرف اور صرف اقتدار کی جنگ لڑتے ہیں اور اقتدار میں بھی وہ عوام کے مفاد کے لیے نہیں اپنے ذاتی مفاد کے لیے اقتدار کی قوت کو استعمال کرتے ہیں وہ خود بڑے جاگیردار بنتے ہیں بڑے صنعت کار بنتے ہیں لیکن آج 75 سال کے بعد آپ پاکستان کو دیکھیں کیا پاکستان کا وہ شہری جو اللہ کے نظام کا پیاسا ہے کیا اس کی پیاس بجھی ہے؟ تو آپ بتائیں کیا پیاس بجھ گئی اس کی، جب ہم حقوق کی بات کرتے ہیں اور ہر صوبے کے حقوق کی بات کرتے ہیں اور کبھی ایسا موقع نہیں آیا کہ سندھ کی حقوق کی بات ہو اور ہم آپ کے ساتھ شانہ بشانہ نہ کھڑے ہو، مجھے یاد ہے جب ایم آر ڈی کی تحریک چلی میں نیا نیا سیاسی تحریک میں آیا تھا میں صوبہ سندھ میں آیا اور صوبہ سندھ کی کوئی تحصیل بھی ایسی نہیں رہی کوئی بڑا گاؤں بھی ایسا نہیں رہا جہاں تک میں نہ پہنچا ہوں اور اس تحریک میں یہ تمام جماعتیں شامل تھی جمیعت علماء بھی شامل قوم پرست جماعتیں بھی شامل تھی ہم نے اس وقت بھی وہ نعرے سنے جب آپ کہتے تھے پنوں عاقل میں چھاؤنی نہ کھپے تو ہم چھاونی نہ کھپے کے نعرے میں آپ کے ساتھ تھے لیکن پھر وہ چھاؤنی بن گئی۔ اب آپ بتائیں اگر اس میں کوئی ہمارا قصور ہے تو آپ بتائیں ہم آج بھی میدان میں نکل کر آپ کی اس چھاؤنی کو آپ کے حوالے کر دیں گے ان شاءاللہ۔ میں اس وقت سے آپ کی تحریک کا حصہ ہوں آپ جزیروں کی نگرانی کریں یہ نہ ہو کہ ہم جزیروں کے لیے لڑتے رہیں اور پتہ چلے کہ وہ تو بک چکی ہے مولانا حیدری صاحب کے بیان کا اصل مطلب یہی تھا کہ آپ نے اپنے حق کے لیے کھڑے ہونا اور ہم آپ کے سپاہی بن کر آپ کے حق کی جنگ لڑنے کے لیے تیار ہیں۔

 لیکن میرے محترم دوستو! آج کا یہ جو جلسہ ہو رہا ہے اور عوامی اسمبلی کے عنوان سے ہو رہا ہے یہ اس لیے ہو رہا ہے کہ انتخابات کے ذریعے جو اسمبلیاں وجود میں آئی ہیں وہ جعلی اسمبلیاں ہیں صرف یہ نہیں کہ ووٹوں میں ہیر پھیر کیا گیا، یہ نہیں کہ ووٹ کے بکسے تبدیل کیے گئے باقاعدہ اسمبلیاں خریدی گئی ہیں سندھ کی اسمبلی سے لے کر ایوان صدر تک کا سودا ہوا اور چونکہ ہم ان کے لیے رکاوٹ بن سکتے تھے ہم ان کے لیے خطرہ تھے تب جمعیت کو ہروانا یہ ان کے ان مقاصد میں شامل تھا کہ جمعیت اگر بڑی قوت کے ساتھ جتنا عوام کا اس کے ساتھ تعلق ہے وہ اسمبلی میں آتی ہے تو پھر ہم نہ جزیرے بیچ سکیں گے نہ ایوان صدر حاصل کر سکیں گے اور نہ ہم صوبے کے اسمبلی حاصل کر سکیں گے۔ اب یاد رکھو ہم پاکستانی ہے ہم پاکستان کے وفادار ہیں لیکن پاکستان کی وفاداری کا معیار کچھ اور ہے یہاں ملک سے وفاداری اپنی مٹی سے وفاداری اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے جب تک کہ آپ اسٹیبلشمنٹ کے بوٹ نہیں چاٹو گے، یہاں افسر شاہی کی نوکری کرنی پڑے گی اسٹیبلشمنٹ کی نوکری کرنی پڑے گی تب آپ کو پاکستانی تسلیم کیا جائے گا ورنہ میں تو آج یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے گناہ کیا ہے ذرا ہمیں بتا تو دیے جائیں اور میں بتانا چاہتا ہوں فیصلے اسٹیبلشمنٹ کرتی ہے صوبہ خیبر پختون خواہ میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور قبائلی علاقوں میں فوجی اپریشن کا فیصلہ ہوا تو ہم نے کہا کہ اپریشن کی حکمت عملی کام نہیں آئے گی ہم نے ان کو سپورٹ نہیں کیا تو یہ بہت بڑا گناہ تھا لیکن اگر واقعی ان کی بات صحیح تھی تو دو ہزار نو دس میں اس کا فیصلہ ہوا اور انہوں نے اپریشن شروع کیے تمام قبائل کو اپنی ہی ملک میں دو تین سال تک مہاجر بنائے رکھا آج بھی جب وہ لوگ دربدر ہوئے ہیں آج بھی وہ دربدر ہیں ملک کے کونے کونے میں پھیل گئے اپنی زندگی بنانے کے لیے قبائل برباد ہو گئے تباہی مچ گئی بے گھر ہو گئے، عورتیں ہماری مائیں اور بہنیں وہ بیچارے جو گھر سے باہر نہیں نکلتی تھی ان بیچاروں کو بازاروں میں بھیک مانگنی پڑی اور آج پوچھتا ہوں کہ تمہاری وہ حکمت عملی جس کے تحت تم نے اپریشن شروع کیے د ہشت گردی کے خاتمے کے لیے آج ہم 2010 کے بعد آج 2024 میں ہم بیٹھے ہیں کیا قبائلی علاقوں میں بلوچستان میں خیبر پختون خواہ میں یہاں تک کہ کراچی میں اور سندھ میں کیا آج وہ د ہشت گردی جس کو تم دہشتگردی کہا کرتے ہو وہ کئی چند زیادہ ہو گئی ہے یا کم ہو گئی ہے بہت بڑھ گئی ہے باجوا صاحب نے ہمیں کہا کہ میں نے باڑ لگا دیا ہے اربوں روپے اس پر خرچ کر دیے ہیں نہ کوئی افغانستان جا سکے گا اور نہ یہاں آسکے گا پھر پاکستان کے بیس سے تیس ہزار نوجوان مسلح نوجوان امریکہ کے خلاف افغانستان میں امارت اسلامیہ کے جنگ میں کیسے شریک ہو گئے کیسے وہاں پہنچ گئے اور پھر آج وہ باڑ کدھر ہے کہاں ہے وہ باڑ آج تو ایک انچ پر بھی کوئی باڑ نظر نہیں آرہا وہ اربوں کا کس بات پہ خرچ کیے اور آج افغانستان میں امارت اسلامیہ کی حکومت قائم ہوئی تو وہ پاکستانی نوجوان مسلح گروپ اس سے کہیں بڑی قوت کے ساتھ پاکستان میں واپس آگئے، میں سرحد کو محفوظ رکھنے والی پاکستان کی بہادر فوج سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ جو سرحد پہ کھڑے تھے باڑ لگا ہوا ہے اتنے لوگ پاکستان کے سرحد میں واپس کیسے آگئے؟ اس کا معنی یہ ہے کہ نہ تم ملک میں امن و امان کے قیام کے لیے سنجیدہ ہو اور نہ تمہاری حکمت عملی جائز ہے تم امریکہ کے اصول پہ چلتے ہو امریکہ کا دنیا کے لیے اصول یہ ہے کہ وہاں پر دہشتگردی ہو اور ہم کہیں کہ انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں اور ہمیں وہاں فوج بھیجنے کا جواز مل جائے لہٰذا پوری دنیا میں اور خاص طور پر اسلامی دنیا میں امریکہ اپنی فوجیں بھیجنے کے لیے اپنی قوت وہاں پہنچانے کے لیے جواز کے طور پر دہشتگرد تنظیموں کے وجود کو ضروری سمجھتا ہے جھوٹ نہ بولو لوگوں کے ساتھ، مسلسل آپ کے رویوں کو ہم دیکھ رہے ہیں کب تک دھوکہ دیتے رہو گے انسانیت کو، اور امریکہ کی خارجہ پالیسی کی اثاث دوسری بات کہ اسلامی دنیا کے ممالک کو توڑو اور چھوٹے چھوٹے ممالک بناؤ تاکہ ان کی مفادات پر ہم قبضہ کر سکیں تو پھر یہی ہوگا کہ فلسطین میں میرا فلسطینی بھائی وہ شہید ہوگا بارود کی آگ برس رہی ہوگی سات مہینے کے اندر وہاں پر 45000 ہمارے بے گناہ مسلمان بھائی بچے بوڑھے خواتین بہنیں مائیں وہ شہید ہو جائیں گی، ملبوں کے تلے ڈھیر ہو جائیں گی لیکن یہ لوگ یہ لوگ اب اس قابل نہیں رہے ہمارا ہر اسلامی ملک آج امریکہ کے قبضے میں ہے۔

کہتے ہیں پاکستان بڑا ملک ہے پاکستان صلاحیتوں والا ملک ہے بالکل صلاحیتوں والا ملک ہے لیکن پاکستان ہر چند کے صلاحیتوں والا ملک ہے وسائل کا ملک ہے ایک بڑی فوج رکھتی ہے لیکن پاکستان سے توقع نہ رکھی جائے جب تک یہ اسٹیبلشمنٹ پاکستان کے حکمران ہے سیاہ و سفید کی مالک ہے دنیائے اسلام سے کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان سے توقع مت رکھو جب انقلاب لائیں گے اور ہم اس ملک کے حکمران ہوں گے پھر ان شاءاللہ پاکستان عملی طور پر آپ کے شانہ بشانہ کھڑا ہو کر رہے گا نعرہ تکبیر اللہ اکبر۔ 

ہماری جدوجہد محض اسمبلیوں تک پہنچنا نہیں ہے اب، ہماری جدوجہد صرف وزارتوں تک پہنچنا نہیں ہے، ہماری جدوجہد اپنی کسی ایک آدھ حلقے کے حوالے سے احتجاج کی تحریک نہیں ہے ہم پاکستان میں ایک آزاد پاکستان کے لیے، خود مختار پاکستان کے لیے، طاقتور اور عزت نفس کے مالک پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں اور یہ تحریک جو چل رہی ہے ان شاءاللہ اس منزل کو حاصل کرے گی۔

بہت مذاق ہو گیا ہے ملک کے اندر جمہوریت کا خاتمہ کر دیا گیا ہے نمائشی اسمبلیوں کے نام پر جمہوریت کا لفظ استعمال ہو رہا ہے جمہوریت مر چکی ہے جمہوریت اپنا کیس ہار چکا ہے اگر جمہوریت کو آپ نے حقیقی معنوں میں ملک کے اندر لانا ہے تو پھر یہ عوامی اسمبلیوں کی تحریک کو اٹھانا ہوگا اور حقیقی جمہوریت کی منزل کی طرف لے جانا ہوگا۔ جمہوریت اور پیچھے ڈکٹیٹر بیٹھا ہوتا ہے یہ ڈکٹیٹر کے اشارے پر قانون سازی ہوتی ہے ڈکٹیٹر کے اشارے پر وزیراعظم کابینہ کا اجلاس بلاتا ہے اور اب تو ہمارے ملک میں یہ مثال بھی قائم ہو گئی کہ ایک وزیر اعلیٰ نے پوری کابینہ کو لے جا کر کور کمانڈر کے گھر میں میٹنگ کی، تو جہاں پر الیکشن کو کنٹرول کرتے ہیں فوج والے، جب حکومت کو کنٹرول کرتے ہیں فوج والے، جنرلز وہ ملک کو کنٹرول کرتے ہیں میں ان سے ایک سوال پوچھ سکتا ہوں جب یہاں پر اگر کوئی مسلح تحریک اٹھتی ہے اور کہتے ہیں کہ ہم اسلام کے لیے لڑ رہے ہیں تو یہاں ایک آواز اٹھتی ہے کہ جبر کی بنیاد پر اسلحے کی قوت سے آپ اس ملک پر اپنا نظام لا رہے ہیں یہ تو د ہشت گردی ہے اپنے حق کے مطالبے کے لیے بندوق اٹھانا یہ تو ہے دہشت گردی اور صرف آپ نہیں کہتے میں بھی اس کو دہشت گردی کہتا ہوں میں بھی اس کے حق میں نہیں ہوں لیکن میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ جب تم مارشل لاء لگاتے ہو وہ ریاستی دہشت گردی نہیں تو اور کیا ہوا؟ آپ مستقل طور پر پاکستان کی سیاست کو کنٹرول کر رہے ہیں اور اس کے سب سے بڑی علامت ایپکس کمیٹیاں ہیں تحصیل میں کوئی میٹنگ ہوتی ہے آپ کا میجر بیٹھتا ہے اگر ضلعے میں کوئی میٹنگ ہوتی ہے آپ کا کرنل بیٹھتا ہے اس میں، اگر ڈویژن میں کوئی اجلاس ہوتا ہے سویلین افسران کا تو اس میں آپ کا بریگیڈیر بیٹھتا ہے جب صوبے میں کوئی اجلاس ہوتا ہے صوبائی حکومت کرے انتظامیہ کرے تو آپ کا کور کمانڈر اس میں بیٹھتا ہے وفاق کی سطح پر حکومت کا کوئی اجلاس ہو تو پھر آپ کے ایفک کمیٹی کے نام پر آرمی چیف بیٹھتا ہے آپ بتائیں کہ آپ سول انتظامیہ کے تمام فیصلوں کو ہر سطح پر اپنے کنٹرول میں نہیں رکھتے؟ کیا ہے اس کے علاوہ یہ ہے کیا اس کے علاوہ، لہٰذا اب مسئلہ صرف الیکشن کا نہیں ہے پورے طور اطوار کو تبدیل کرنا ہوگا۔

تو میرے محترم دوستو! میں اپنے صحافی حضرات سے بھی کہتا ہوں وہ بھی روزمرہ کے مسائل پر سارا دن صرف کر لیتے ہیں ہمارے جو چینلز ہیں جو ان کو دیکھتے ہیں کوئی پتہ نہیں ہوتا ملک اور دنیا کدھر جا رہی ہے اور وہ فلانا انہوں نے یہ جملہ کہہ دیا اس طرح ہنسا ہو اس کو ہنسا، وہ اس طرح رویا اور وہ کیوں رویا وہ کیوں کمرے سے باہر نکلا کیوں کمرے کے اندر گیا اس سے بڑھ کر کوئی تبصرہ نہیں ہے کیوں معاف فرمائیے بڑے ادب و احترام سے کہنا چاہتا ہوں کہ آج جرنلزم نہیں ہے آج جرنلزم کی جگہ کرنلزم نے لے لی ہے اس طلسم کو توڑنا اور صحیح معنوں میں ایک آزاد صحافت کو اجاگر کرنا ہوگا جو ملک کی حقیقی مسائل کو ایڈریس کریں معیشت کی موضوع پہ بات کرے کیا وجہ ہے ہمارے 75 سال ہو گئے ہیں ہم صرف وقتی طور پر کوئی ایک جنرل آتا ہے کہتا ہے کہ بالکل ہم اپنی فوج کے روایات سے آگے نہیں ہٹیں گے وہ چند دن ہوتے ہیں وہ چلا جاتا ہے اس کے بعد پالیسیاں چل رہی ہوتی ہے۔ سول بیوروکریسی میں بھی کوئی اچھا آدمی آجاتا ہے دیانت دار آدمی آجاتا ہے وہ اپنے دور میں ایک سال دو سال تک اچھا بہتر کارکردگی دکھا دیتا ہے وہ چلا جاتا ہے ادارے کیوں خراب ہو گئے ملکی معیشت کیوں تباہ کر دی گئی اور آج تمام ادارے پرائیویٹائز کیے جا رہے ہیں، اب آپ کا کراچی ایئرپورٹ بھی پرائیویٹائز ہو جائے گا، آپ کے جہاز بھی پی آئی اے بھی سب کچھ پرائیویٹائز ہو جائے گا۔ یہ حالت یہاں تک پہنچی کیوں؟ پہنچی نہیں پہنچائی گئی پہنچائی گئی ہے۔ کئی سالوں سے یورپ کے کتنے ممالک ہیں جہاں پر پی آئی اے کا اترنا ممنوع ہے کیوں ممنوع کر دیا کچھ غلطیاں آپ سے ہوئی ہیں آج بھی ہمارا ملک زرعی ملک ہونے کے باوجود غریب آدمی آٹے کو رو رہا ہے گندم کو رو رہا ہے بھیک مانگ رہا ہے بھوک کے مارے بلبلا رہا ہے بچہ اس کا بھوکا ہے یہ حالت کیوں 75 سال تک آج ہم نیچے چلے گئے ہیں۔ لطیف بھائی نے کہا کہ 45 لاکھ بچے سندھ میں سکول بھی نہیں جا رہے ہیں تو میں انہیں کہنا چاہوں گا کہ آپ کے پاس اگر علاج نہیں ہے تو اس کا علاج ہمارے پاس ہے پینتالیس لاکھ بچوں کو دینی مدرسے میں بھیجو آپ کے سکول سے اچھی تعلیم دیں گے آپ کے بچے کو مفت تعلیم دیں گے مفت کتابیں ملیں گی آپ کے بچے دیہات سے دور پیدل جائیں اور واپس آئے نہیں، ہر بچے کو ہاسٹل میں مفت جگہ ملے گی مفت بجلی ملے گی اور مفت کھانا ملے گا لے آؤ دینی مدرسوں میں تاکہ وہ تعلیم حاصل کرے۔ سوال اٹھا رہے ہو دن رات دینی مدرسہ ایسا ہے اور دینی مدرسہ ایسا ہے اور دینی مدرسے والے لوگ یہ مین سٹریم کا حصہ نہیں ہے اپنی بات کرو تمہارے نظام میں کیا کوئی پڑھا لکھا پیدا ہو سکتا ہے اکثریت ان پڑھے لکھوں کے سامنے آتی ہے جو پڑھا لکھا جاہل کہلایا کرتا ہے تعلیمی معیار گرا دیا ہے آپ لوگوں نے، فنی تعلیم ختم ہو گئی ہے اور صرف چند کالجز ہیں صرف چند کالجز اور چند سکول وینچسٹر کالج ہو گیا برن ہال ہو گیا بیکن ہاؤس والے ہو گئے کراچی کے گرائمر سکول والے ہو گئے سب انہی اداروں سے نکل کر یہ فوجی بھی بنتے ہیں سرکاری افسر بھی بنتے ہیں تاجر بھی بنتے ہیں کاروباری طبقہ بھی بنتے ہیں عام سکولوں میں پڑھنے والے بچے وہ ملک پہ کوئی بڑا کردار نہیں ہے ادا کر سکتے تو آج تک تم اپنے زیر انتظام تعلیمی ادارے کے نوجوانوں کو اس قابل نہیں بنا سکتے کہ وہ ملک کا وزیر بن سکے، ملک کا بڑا افسر بن سکے، تو اگر تعلیم دلانی ہے اور اچھی تعلیم دلانی ہے تو اس کی جگہ دینی مدرسہ ہے جو مفت تعلیم دیتی ہے اور یہ صرف ہماری حکومت تھی جب ہم نے پہلے سال پرائمری کی تعلیم مفت کرائی خیبر پختون خواہ میں، اگلی سال ہم نے مڈل کو مفت کرایا اگلے سال ہم نے میٹرک کو مفت کرایا اور جس سال ہم حکومت چھوڑ رہے تھے تو ہم نے بجٹ میں ایف اے ایف ایس سی کو بھی مفت کرا دیا۔ تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی مفت کرا دی اور یہ قدم تھا لوگوں کے مفت علاج کی طرف، لیکن جو ملک کی خدمت کرتے ہیں لیکن وہ بوٹ پالش کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے آپ ان کو اقتدار سے دور رکھتے ہیں یہ طاقت نہیں چلے گی یہ طاقت نہیں چلے گی۔

میرے محترم دوستو! پاکستان کے ڈکٹیٹروں کی تاریخ جو ہے وہ ہمیں معلوم ہے جب ایک جنرل نے ملکی اقتدار پر قبضہ کیا اور صدر مملکت بنا اپنے چند سالوں کی حکومت میں اس نے اپنے پانچ وزیراعظم تبدیل کیے، سیاسی استحکام نہیں ہونے دینا محلاتی سازشوں کے ذریعے سے اقتدار بدلتے رہے روزانہ نیا وزیر بدلتا رہا اور یہ کہتے تھے کہ اب تو انڈیا والے ہمیں طعنہ دیتے تھے کہ میں تو دن میں اتنی دھوتیاں تبدیل نہیں کرتا جتنا پاکستان وزیراعظم تبدیل کر لیتا ہے۔ پھر مارشل لائیں آئیں، مارشل لاؤں میں پاکستان کی تین دریا بیچ دیے گئے، آج ہم روتے ہیں کہ انڈیا ڈیم باندھ رہا ہے اور ہمارا پانی روک رہا ہے ہماری زراعت کا کیا بنے گا، 71 تک مارشل لاء رہا، 77 میں پھر مارشل لاء، گیارہ سال مارشل لاء رہا، 99 میں پھر مارشل لاء اور جب تک مشرف تھا وہ مارشل لاء ہی رہا، تو آپ کی حکومتوں نے ملکی اداروں کو کمزور کیا جب ادارے کمزور ہوتے ہیں کارکردگی کمزور ہو جاتی ہے نتائج قوم کے سامنے نہیں آسکتے قوم اس کی سزا بھگتی ہے جو آج بھگت رہی، کبھی غور کیا ہے اس بات پر کہ ملک کیوں اتنا پیچھے چلا گیا ہے اسٹیبلشمنٹ سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اپنا وطیرہ تبدیل کرو کہتے ہیں مجھے پتہ ہے میرے قانون کا دائرہ کیا ہے میں اپنے اختیارات کے حدود کو جانتا ہوں مجھے یقین ہے آپ اختیارات کے حدود کو جانتے ہیں اور مجھے بھی پتہ ہے کہ آپ اختیارات کے حدود کو جانتے ہیں میں انکار نہیں کر رہا لیکن آپ اپنے اختیارات کے حدود سے جو تجاوز کرتے ہیں وہ اس حدود سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے اس کو بھی دیکھا ہے کبھی، یہ عوام کی حکومت نہیں ہوتی یہ عوام کی سوچ نہیں ہو سکتی اور ہم آج دیکھ رہے ہیں ہم نے یہ سوچا تھا اور ہم نے جنگ لڑی اس کے لیے کہ پاکستان کو یہودی اقتصادی نیٹ ورک کا حصہ بنا کر ہماری معیشت ان کے پنجے میں دی جا رہی ہے یہ جنگ ہم نے لڑی ہم نے یہ جنگ لڑی کہ قادیانیوں کو دوبارہ مسلمان کا سٹیٹس دینے کی کوشش کی جا رہی ہے ہم نہیں ہونے دیں گے اور ہم نے وہ ایجنڈا ناکام بنایا لیکن آج جب ہم سپریم کورٹ کی طرف دیکھتے ہیں تو ہمارے چیف جسٹس صاحب ایک فیصلہ دیتے ہیں وہ بحث ایک ضمانت کا مسئلہ ہے اور اس پہ وہ وہ چیزیں لکھتے ہیں جس سے اس کو اس مقدمے سے کوئی تعلق ہی نہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ان کو تو تبلیغ کا بھی حق ہے اور ان کو تو سب کچھ کا حق ہے قادیانی اگر آئین کو تسلیم نہیں کریں گے اور ان کے لیے سہولتیں اگر کوئی سیاسی قوت نہیں دے سکی تو آج میرا سپریم کورٹ وہ فرض ادا کر رہا ہے میں واضح پیغام دینا چاہتا ہوں کہ سپریم کورٹ کے اس طرح کے فیصلوں کو ہم جوتے کے نوک پر رکھیں گے اور کسی طرح اس کو تسلیم نہیں کیا جائے گا نعرہ تکبیر اللہ اکبر ختم نبوت زندہ باد۔

میرے محترم دوستو! اج اہل اسلام پر ایک سخت وقت آیا ہے فلسطین کا مسئلہ اس نے کروٹ بدلی ہے آپ تو خود جانتے ہیں موضوع یہ بن گیا تھا دنیا میں کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا ہے اسرائیل ایک ناجائز حکومت ہے اور اس کو ناجائز ریاست بانی پاکستان محمد علی جناح نے کہا تھا بانی پاکستان کی اگر ہر بات وہ پاکستانی نظام کے لیے دلیل ہے اور حجت ہے اور اگر ان کا یہ مقولہ کہ کشمیر پاکستان کا شہ رگ ہے اور آج آپ کے لیے وہ اصول کی حیثیت رکھتا ہے تو پھر اسرائیل ایک ناجائز حکومت ہے یہ جملہ بھی قائد اعظم کا آپ کے لیے حجت ہونا چاہیے اور آپ بات کرتے ہیں ان کو تسلیم کرنے کی، مسئلہ تو فلسطین کی آزادی کا تھا ایک صدی پہلے تک تو کرہ ارض پر اسرائیل نام کی ریاست کا نام و نشان تک نہیں تھا اور آج 1967 کی جنگ کے بعد عرب دنیا کی زمینوں پر قبضہ کر کے ان کے علاقوں پر قبضہ کر کے یہ بات اقوام متحدہ نے تسلیم کی اور اقوام متحدہ نے قرارداد پاس کی کہ یہ علاقے متنازع ہیں اور اسرائیل کو ان علاقوں سے نکل جانا چاہیے جس طرح ہم کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی قرارداد ہے کہ کشمیر سے انڈیا کی فوجیں نکل جائیں بالکل اسی طرح اب یہ علاقہ متنازعہ ہے، جب ہر طرف علاقہ متنازعہ ہو گیا تو پھر اس کا حدود اربعہ ختم ہو گیا اور جس ملک کا حدود اربعہ ختم ہو جائے اس کو تسلیم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا امریکہ کا جبر ہے کہ اس نے متنازع علاقے کے اندر بیت المقدس میں اپنا سفارت خانہ کھولنے کا اعلان کیا یہ اصول نہیں ہے یہ بدمعاشی ہے لیکن جس فلسطین کی آزادی کی بات کرتے ہیں ہم اور مسئلے کے رخ کو فلسطین کی آزادی کے عنوان کی طرف تبدیل کرنا ہے وہ آج اس وقت حماس کے حملے کے بعد جو بھی اقدام ہوا ہے یہ فلسطین کی آزادی کی طرف پہلا قدم ہے اور ہم ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔

تو ہمارا گناہ یہ ہے جمعیت کا گناہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کہتی ہے ہم اپریشن کریں گے ہم کہتے ہیں اپریشن حل نہیں ہے اج تک بھی حل نہیں ہوا ۔ نواز شریف کی حکومت میں فاٹا انضمام کا مسئلہ ایا ہم نے کہا غلط فیصلہ ہے یہ قبائل کو نقصان دے گا قبائل کی سٹیٹس کو نقصان دے گا انے والے مستقبل میں ہمارے لیے سرحدی تنازع پیدا کرے گا اپ اس طرح نہ جائیں، مان بھی گئے پھر دباؤ ایا کہ نہیں کرنا ہے اور خود مجھے ارمی چیف نے کہا کہ اپ کیوں مخالفت کر رہے ہیں تو امریکہ کے دباؤ پر اپ نے کیا ہم نے مخالفت کی۔ پھر شہباز شریف صاحب کی حکومت میں اپ نے ریکوڈکٹ کے حوالے سے جو بلوچستان کا حق ہے قانون سازی کی اور ہم نے سوچا کہ یہ صوبائی حق میں مداخلت ہے صوبائی اختیار میں مداخلت ہے ہم نے کابینہ سے بھی واک اؤٹ کیا ہم نے اسمبلی میں ووٹ استعمال نہیں کیا تو اب اپ مجھے بتائیں کہ جب ہم اپنی رائے کے مطابق صحیح فیصلہ دیں گے اور اپ باہر کی قوتوں کے دباؤ پر ہر قیمت پر قانون سازی کریں گے بین الاقوامی مفادات کے لیے کریں گے اور میرا موقف پاکستانی مفاد کے لیے ہوگا پاکستان کے صوبوں کی مفاد کے لیے ہوگا عوام کو مفاد کے لیے ہوگا تو ہمیں سزا دی جائے گی کہ اپ کو اقتدار میں نہیں انا چاہیے اسمبلی میں اپ کو نہیں انا چاہیے میرا گناہ کیا ہے یہی گناہ تھا کہ میں نے ح م اس کی حمایت کا اعلان کیا اور میں حما س کی قیادت کے لیے قطر چلا گیا اور ان کے ساتھ میری تصویریں ائی تو ہنگامہ کھڑا ہو گیا اور امریکہ بہت ناراض ہوا کیونکہ وہ تو اسر ا ئیل کو سپورٹ کرتا تھا حم ا س تو اس کے خلاف د ہشت گرد تنظیم تھی ہماری ملاقات اگر د ہشت گرد تنظیم سے ہو گئی تو یہ بات کہ میں امت مسلمہ کے ایک صحیح موقف کی حمایت کروں لیکن امریکہ کو ناپسند ہے میری اسٹیبلشمنٹ امریکہ کے ترجیہات کو قبول کرتی ہے اور میں ایک مسلمان کی ازادی کی بات کرتا ہوں مجھے اس کی سزا دی جاتی ہے۔

دوستو ہمارا گناہ کیا ہے یہی گناہ کہ جب پاکستان اور افغانستان کے تعلقات خراب ہو رہے تھے اور ایک دوسرے کے مقابلے میں فوجیں آرہی تھی اور ان حالات میں میں افغانستان گیا میں نے ایک ہفتہ وہاں گزارا میں نے تمام معاملات ٹھیک کرا دیے تمام معاملات ٹھیک ہو گئے وہ بھی راضی تھے اور یہ والے ہمارے والے بھی راضی تھے لیکن امریکہ نے کہا کہ ہم تو افغانستان کے امارت اسلامیہ کو کمزور کرنا چاہتے ہیں کہ ایک آدمی وہاں جا کر معاملات ٹھیک کرتا ہے ان کو تحفظ دیتا ہے تو پھر ہمارے خلاف ناراضگی دنیا میں پیدا ہوئی اب میں صرف اسمبلی کا ممبر بننے کے لیے حق کو چھوڑ دو حق والے موقف کو چھوڑ دو اسلامی دنیا کے مفاد کو چھوڑ دو اپنے ملک کے مفاد کو چھوڑ دوں! یہ وہ چیزیں ہیں کہ جس کی بنیاد پر آج ہمارے اس جلسے میں اور اس سے آگے بھی جو ہوں گے سمندر ہوگا انسانوں کا یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی الیکشن میں جعلی نتائج کی بنیاد پر جمعیت کو ہرایا جائے گا اور قوم پرستوں کو بھی ہرایا جائے گا اور گھروں میں بٹھانے کی کوشش کی جائے گی، تم نے تو ہمیں گھروں میں بٹھانے کی کوشش کی لیکن ہم ایسے نکلے ہیں کہ اب تمہیں بھی ہمارا علاج نظر نہیں آئے گا۔

اقتصادی ترقی کیسے ہوگی جب آپ خود ملک کے اندر دہشت گردی کو فروغ دینا چاہتے ہیں آپ نے 25 سال تک دہشت گردی کے خلاف جنگ کی نتیجے میں دہشت گردی اور بڑھ گئی تم نے سندھ میں ڈاکوؤں کے خلاف اپریشن کیے وہ آپریشنوں کے نتیجے میں ڈاکو کا راج بن گیا یہ ہوتی ہیں پالیسیاں؟ اس طرح حکومتیں سوچتی ہیں کہ اوپر سے قوم سے کہو کہ ہم ڈاکوؤں کے خلاف اپریشن کر رہے ہیں اور اندر اندر سے ان کو بھتے دیتے رہو مجھے باقی تو معلوم نہیں لیکن اپنے صوبے کے بارے میں مجھے معلوم ہے کہ جو بھی سرکاری ٹینڈر آتا ہے اگر وہ 10 ارب کا ہے تو اس میں 10 فیصد حصہ وہاں کی مسلح تنظیموں کا ہوتا ہے حکومت کی رضامندی کے ساتھ، آپ ان کو اپنے سرکاری فنڈ میں سے ان کے حوالے کریں یہ دہشتگردی کو سپورٹ نہیں ہے لیکن اگر ایک غریب آدمی کے گھر پر بڑے بڑے لمبوں بالوں والا مونچھوں والے مسلح بندوقوں کے ساتھ گھر میں آجائیں اور کہیں ہمیں ذرا چائے پلاؤ وہ بیچارا چائے نہیں پلائے گا تو کیا کرے گا کہتے ہیں ہمیں کھانا کھلاؤ وہ نہیں کھلائے گا تو کیا کرے گا اگلے دن فوج آتی ہے اور اس گھر والے کو اٹھا لیتی ہے آپ نے چائے کیوں پلائی اب یہ نہیں دیکھتے کہ تم سرکاری فنڈ سے 10 فیصد ان کو دے رہے ہو وہ جرم نہیں ہے لیکن غریب آدمی کے گھر میں اگر ایک کپ چائے پی لی تو غریب آدمی کو دنیا کو دکھاتے ہیں جیسے ہم دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ دکھاوے اب نہیں چلیں گے اب ملک کو ٹھیک کرو ورنہ ہم میدان میں ہیں ہم روڈوں کے اوپر ہے معاملات سدھارو الیکشن دوبارہ کراؤ منصفانہ الیکشن کراؤ اگر قوم مجھے نہیں چاہتی مجھے کوئی گلہ نہیں مجھے کوئی گلہ نہیں لیکن اگر قوم مجھے چاہتی ہے اور آپ نتائج تبدیل کر کے میرا حق کسی اور کو دیتے ہیں تو یہ تسلیم نہیں کیا جائے گا فوج کے ہاتھ میں جو ہم نے بندوق دی ہوئی ہے وہ ہمیں تحفظ دینے کے لیے ہے ہمیں غیر محفوظ بنانے کے لیے نہیں! آج پاکستان ایک غیر محفوظ ریاست ہے ایک غیر محفوظ ریاست کیوں بنا غیر محفوظ ہونا یہ کس کی ذمہ داری ہے حفاظت کس ادارے کی ذمہ داری ہے اور وہ اپنی حفاظت میں کیوں ناکام ہو گئے کیا اس بات پر بھی غور کیا جائے گا یا جو ہم حقائق بیان کریں گے تو ہم مجرم ہوں گے انہوں نے اپنی غلطیوں کی اصلاح نہیں کرنی، تو ہم یہی کہیں گے کہ غلطی نہیں آپ کی عمدا پالیسیاں ہیں۔

تو میرے محترم دوستو! ان شاءاللہ اس تحریک کو آگے بڑھانا ہے اور یہ آغاز ہے پہلا جلسہ ہمارا پشین میں ہوا بہت بڑا جلسہ ہر چند کے وہاں بارشیں تھیں راستے بند تھے لیکن پھر بھی عوام کا ایک زبردست سیلاب وہاں آیا اور آج کراچی میں صوبہ سندھ کے عوام کا یہ سمندر اور اگلہ مرحلہ ان شاءاللہ پشاور میں ہوگا باقی باتیں پھر وہاں پشاور میں کریں گے اللہ تعالی ہمارا حامی و ناصر ہو۔

وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ


ضبط تحریر: #سہیل_سہراب

ممبر مرکزی ڈیجیٹل میڈیا کونٹینٹ جنریٹرز/ رائٹرز و ممبر ٹیم جے یو آئی سوات

#teamJUIswat

کراچی جلسہ عام، عوامی اسمبلی سندھ سے قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان مدظلہ کا ولولہ انگیز خطاب

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Thursday, May 2, 2024

0/Post a Comment/Comments