قائدِ جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا Bol News کے پروگرام تبدیلی میں ڈاکٹر دانش کے ساتھ گفتگو 4 مئی 2024

قائدِ جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا بول نیوز کے پروگرام تبدیلی میں ڈاکٹر دانش کے ساتھ گفتگو

4 مئی 2024

ناظرین السلام علیکم تبدیلی ڈاکٹر دانش کے ساتھ حاضر ہیں، آج ہمارے ساتھ ایکسپلوسیو مہمان ہیں جناب جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن صاحب سر آپ کا بہت شکریہ آپ نے ہمیں وقت دیا

مولانا صاحب: مہربانی، آپ کا بھی بہت شکریہ

اینکر: سر بات شروع کروں گا کہ 8 فروری 2024 کا الیکشن آپ نے مسترد کر دیا، اب آپ نے پشین سے بلوچستان سے اپنی تحریک کی آغاز بھی کردی ہے، ضمنی الیکشن آپ نے اعلان کر دیا کہ آپ اس میں شامل نہیں ہوں گے، اپوزیشن اور دیگر جماعتوں سے بات چیت کریں گے اس ایشو کے اوپر تو آپ کا لائحہ عمل کیا ہے سر آیا یہ جو الیکشن ہے جس کو آپ نے ریجیکٹ کیا ہے آپ ڈیمانڈ کرتے ہیں دوسرے الیکشنز کی یا آپ کا موقف کچھ اور ہے؟

مولانا صاحب: بسم اللہ الرحمن الرحیم، دانش صاحب آپ کا بہت بہت شکریہ آپ نے مجھے کچھ کہنے کا موقع عنایت فرمایا ہے، دیکھیے ایک پارٹی جب ایک موقف لیتی ہے تو کچھ وقت لگتا ہے عام آدمی کے دل و دماغ میں اپنا موقف پہنچانا اسے سمجھانا ان کو اعتماد میں لینا کچھ اس کی تفصیلات کے ساتھ گرد و پیش میں ہمارے وہ کون سے حالات ہیں کہ جس کے ساتھ آج ہم یہاں پر پہنچے ہیں تو ظاہر ہے کہ ہم ابھی ایک اویرنس پیدا کرنے کے لیے عوام میں جا رہے ہیں اور بڑا اچھا رسپانس ملا ہے، ہمنے پشین میں جلسہ کیا باوجود یہ کہ وہاں پر بارشیں تھی سیلاب تھے راستے بھی بند تھے لیکن بڑا ہجوم وہاں پر اکٹھا ہوا اور پرسوں جب ہم نے یہاں کراچی میں جلسہ کیا تو میرا خیال میں تاریخ کا بہت بڑا تھا اور عوام نے بہت بڑی پذیرائی اس کو بخشی تو اب ظاہر ہے کہ پشاور بھی جانا ہے اور پھر مزید اپنی پارٹی کے لوگوں سے مشورہ کر کے اگلا لائحہ عمل بھی ہم نے طے کرنا ہے، تو یہ تحریک کا معاملہ ہے اور سیاسی تحریکی جو ہیں وہ ذرا سوچ سمجھ کر قدم اٹھاتی ہیں آگے بڑھتی ہیں لیکن اس میں ایک نقطہ بڑا واضح ہے کہ 2018 میں جو دھاندلی ہوئی تھی 2024 میں اس سے کہیں بڑھ کر دھاندلی ہوئی ہیں بلکہ خریدی گئی ہے اسمبلیوں تک خریدے گئے

اینکر: آپ نے کہا سر یہ ایوانِ صدر بھی خریدا گیا ہے سندھ حکومت بھی خریدی گئی ہیں

مولانا صاحب: تو یہ ساری چیزیں ابھی میں کہہ رہا ہوں معلومات کی حد تک یہ ساری چیزیں سامنے آتی رہیں گی جس طرح کے بلوچستان اسمبلی پر میں نے بات کی اور اب ساری صورتحال سامنے آرہی ہے جی، تو یہ جو سیاست ہے یہ سیاست تمام سیاست دانوں کو مسترد کر دینا چاہیے یہ کیا مطلب کہ ہم روز روز جو ہے کمپرومائز کرتے چلے جائیں اور پھر اس کا معنی یہ ہے کہ ملک میں جو پیسے والا ہے وہی سیاست کرے گا اور وہی الیکشن لڑے گا

اینکر: تو سر خریدا کس نے اور بِکیں کون ہیں یہ ایک سوال تو آئے گا نا

مولانا صاحب: خریدا سیاسی جماعتوں نے ہے اور بیچا اسٹبلشمنٹ نے ہیں

اینکر: یہ جو بکیں ہیں یہ کون لوگ ہیں یہ بھی سیاسی لوگ ہیں نا سر

مولانا صاحب: جی میدان سیاست کا ہے تو اس میں منڈی سیاستدانوں کی لگتی ہے

اینکر: منڈی بہت زبردست لگی سر بہت زیادہ بڑی منڈی ہے جس کی بنیاد پہ آپ نے کہا کہ 2024 کا الیکشن 2018 کے الیکشن سے کہیں زیادہ بڑا، تو سر مجھے یہ بتائیے کہ یہ آپ نے یہ بھی کہا ہے کہ اس ملک میں کوئی جمہوریت نہیں ہے تو یہ کیا ہے سر

مولانا صاحب: جمہوریت تو اب نہیں ہے کیونکہ ایک ایسی جمہوریت جو صرف نمائشی ہو اور اس کے پیچھے ایک فوجی قوت ہو وردی ہو تو اسی کے سہارے پر حکومت چلے گی تو کیا جمہوریت ہوگی یعنی میں یہ نہیں کہتا کہ ملک کو فوج کی ضرورت نہیں ہے ملک میں خفیہ ایجنسیوں کی ضرورت نہیں ہے ہوتی ہے لیکن جس طرح وہ خود کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے اختیارات کے حدود معلوم ہے تو ہم بھی تصدیق کرتے ہیں ان کو اپنے اختیارات معلوم تھے تو پھر وہی تک رہے ہیں نا، یعنی کہ یہ شکایت ہمیں کیوں ہے کہ آپ نے ہمارے دائرے میں قدم رکھ لیا ہے

اینکر: تو آپ کی لوگ کیوں جاتے ہیں سر، آپ کے سیاسی لوگ اگر اس طرف نا جائیں

مولانا صاحب: دیکھیں سیاسی لوگ ایک گروپ نہیں ہیں نہ ایک طبقہ ہے سیاسی لوگ حریف ہوتے ہیں اور وہ اقتدار کی جنگ آپس میں لڑتے ہیں تو بدقسمتی یہ ہے کہ ہم پھر فوج کا سہارا لے کر اقتدار میں پہنچتے ہیں اور اس سے جمہوریت ختم ہو جاتی ہے پھر، جمہوریت کا جتنے زیادہ سے زیادہ نعرے لگانے والے لوگ ہیں وہی جمہوریت کے قاتل بن جاتے ہیں وہی جمہوریت پہ سودا کرنے لگ جاتے ہیں تو یہ ایک افسوسناک پہلو ہے

اینکر: تو اس کا مطلب ہم یہ لے سر کہ یہ جو موجودہ اس وقت ہے سیاسی جمہوری جو اپنے آپ کو جمہوری پسند پارٹیاں کہتی ہیں بڑی سیاسی جماعتیں ہیں پی ایم ایل این ہیں پاکستان پیپلز پارٹی ہے

مولانا صاحب: پیپلز پارٹی میں جمہوریت کہاں ہیں یہ بتائیے مجھے سوائے الفاظ کے، دیکھیے اس میں کوئی شک نہیں ہے ذوالفقار علی بھٹو وہ پھانسی چڑھائے گئے ناجائز طور پر میں اس کے حق میں ہوں کہ غلط ہوا ہے، بےنظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا غلط بات ہوئی، اب یہ چیزیں ضرور ایک ہمدردی پیدا کرتی ہے آدمی ذرا محسوس کرتا ہے کہ میں اگر کوئی تنقید کروں تو ذرا مناسب نہیں لگتا یہ لیکن اگر ہم حقائق کی طرف جائیں تو سن 1967 کو پیپلز پارٹی بنی، 70 کے الیکشن میں اس نے مغربی پاکستان میں دو تہائی اکثریت لی لیکن مجموعی اکثریت شیخ مجیب الرحمن کی تھی انہوں نے سرے کو نہیں مانا انہوں نے دو پاکستان دو پارلیمنٹ دو وزیراعظم ادھر ہم ادھر تم کس کے کہنے پہ لگائے جی، ظاہر ہے یحی خان تھے، تو ملک کہاں چلا گیا جی،

اینکر: ملک کے ٹوٹنے کی وجہ سر آپ

مولانا صاحب: یہ ہے نا پہلے وہ نعرے جو انہوں نے لگائے کیا وہ جمہوریت کی غمازی کرتے ہیں پھر حکومتیں بن رہی ہیں بچی کچی پاکستان میں، پھر بلوچستان اسمبلی کو توڑا عوام کا نمائندہ ایوان تھا اس اکثریت کو تسلیم نہیں کیا انہوں نے، پھر اس پر احتجاج کرتے ہوئے میرے والد صاحب نے استعفیٰ دیا، تو یہ ساری چیزیں جو ہیں وہ ان کی ابتدا ہیں جمہوریت کا آغاز جمہوریت کا تعارف تو وہاں سے ہوا ہے، پھر ان کی حکومت کے دوران جو پنجاب میں مخالف کارکنوں کے ساتھ تھانوں میں ہوا جیلوں میں ہوا جس طرح سب گھروں میں جا جا کر ان کی تصویر کی گئی وہ کہاں انسانی احترام تھا جی یہاں سے ہے ان کی ابتدا لیکن ہم ماضی میں نہیں جانا چاہتے یہ سوچنا چاہتے ہیں کہ کیا ہم زرداری صاحب کا جمہوریت تسلیم کر لیں اور زرداری صاحب کے کھوک سے جنم پانے والے بلاول کو ہم جمہوریت مان لیں، یہ اب ہماری پاکستان کی جمہوریت کے علامت ہوں گے، جو انہی کے ساتھ سودے وغیرہ کر کے پھر اسمبلیاں بھی خریدتے ہیں اور ایوان صدر بھی خریدتے ہیں اور سودا بازی، سب کچھ کہتے ہیں پیسے کی بنیاد پر پیسہ اور پیسہ، یہ ذہن اور یہ نظریہ جس پارٹی کا بھی ہوا ہے چاہے نواز شریف کا ہو چاہے شہباز شریف کا ہو چاہے اس سے ہمارا میل نہیں ہم میل نہیں کھائیں گے ہم بڑے شریف لوگ ہیں اور بڑے شائستگی کے ساتھ سنجیدگی کے ساتھ سیاست کرنا چاہتے ہیں، ہم فوج کا بھی احترام کرتے ہیں، جنرلز کا بھی احترام کرتے ہیں، سیاستدانوں کا بھی احترام کرتے ہیں اور اقدار کا احترام کرتے ہیں، جب معاملہ اقدار سے آگے نکل جاتا ہے تو پھر تو ظاہر ہے کہ پھر اس کے ساتھ ہم کوئی کمپرومائز نہیں کرسکتے

 اینکر: جنرل کیانی صاحب کو ایکسٹینشن دیا تھا جب آصف علی زرداری صاحب صدر تھے انہوں نے کہا تھا کہ جمہوریت کے لیے بہت فائدہ مند چیز ہے ایک، جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دیا نواز شریف صاحب نے دیا اور میاں نواز شریف صاحب کا بھی نعرہ تھا کہ ووٹ کو عزت دو، آپ نے پیپلز پارٹی کے بارے میں تو کہہ دیا کہ کیا آصف علی زرداری کو ہم جمہوریت سمجھیں یا بلاول بھٹو کو جمہوریت سمجھیں آپ نے اس کو تو بالکل ڈسکارڈ کر دیا کہ یہاں کئی جمہوریت نہیں ہے، میں اگر یہ پوچھنا چاہوں کہ آج پی ایم ایل این نواز شریف کیا ان کے ہاں کوئی جمہوریت ہے سر

مولانا صاحب: یہی سوالات ہیں جو آپ نے کیے ہیں اور یہ سنجیدہ سوالات ہیں جب کیانی صاحب کو ایکسٹینشن دی گئی ہے تو مجھے خود ان کے سینیئر جو ریٹائرڈ جنرل تھے مجھے بتایا کہ ہماری فوج میں یہ روایات نہیں ہے یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے اور ٹھیک نہیں ہوا ہے اور ظاہر ہے جب ایک دفعہ ایک ایکسٹینشن مل جاتی ہے تو اگلے کو بھی یہ خواہش پڑتی ہے تو پھر وہ بھی سارے وہ وسائل استعمال کرتا ہے کہ جس سے حکومت پر ایک دباؤ آئے اور بالآخر وہ، یہ تو آپ یقین جانیے کہ ہمت کی شہباز شریف صاحب نے کہ انہوں نے باجوہ صاحب کو ایک اور ایکسٹینشن دینے سے انکار کر دیا جی

اینکر: یہ ہمت ہوئی سر اور جو پہلی دی تھی

مولانا صاحب: کچھ کور کیا تھا انہوں نے اس کو جی، تو اس طریقے سے یہ جو ہمارا یہ رجحان پیدا ہو رہا ہے یہ اب ایک جنرل ہے ایک جنرل اور اس جنرل کے ہوتے ہوئے پانچ یا چھ وزرائے اعظم ان کے سامنے تبدیل ہو رہے ہیں یعنی یہ ایک ہم نے اپنے آنکھوں سے دیکھا ہے جی ایک کہتے ہیں سکندر مرزا کے بارے میں کہ جب وہ صدر بنے تو چار پانچ وزیراعظم جو ہے انہوں نے اپنے ہاتھ سے تبدیل کرلیے تھے، تو اس طرح ڈکٹیٹر آتا ہے تو جمہوریت اس کے قبضے میں آجاتی ہے تو جمہوریت کے ساتھ وہ جیسے کھیلتا ہے وہ ساری جمہوریت

اینکر: تو اس کا مطلب ہے میاں نواز شریف صاحب اور پی ایم ایل این اب وہاں پہ بھی جمہوریت نہیں ہے

مولانا صاحب: میاں نواز شریف صاحب اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ ان کی سیاست کا آغاز جنرل ضیاء الحق کے دور سے ہوا تھا جی لیکن بعد میں وہ ایک عوامی قوت بنے اور ہر چند کے بہت سی پابندیاں ان پہ لگی، مشرف کے دور میں ان کے خلاف کیا ملک بدر رہے تب بھی وہ عوام کی تائید سے محروم نہیں ہوئے، واپس آئے تو پھر بھی عوام کی تائید ان کو حاصل تھی

اینکر:


جاری ہے

کچھ دیر میں ان شاءاللہ


0/Post a Comment/Comments