شہید صدیق مینگل جو محبتوں کا پیکر تھا ، رخصت ہوا۔ خالد ولید سیفی


شہید صدیق مینگل جو محبتوں کا پیکر تھا ، رخصت ہوا

 1992 کو جب میں نے دینی تعلیم کے لیے کراچی میں رخت سفر باندھا اور جامعہ صدیقیہ لیاقت آباد تعلیمی سفر کا پہلا پڑاؤ ٹہرا تو شہید صدیق مینگل سے پہلی بار استاد اور شاگرد کا رشتہ قائم ہوا، جہاں وہ ہمیں اعدادیہ سوئم کی کلاس میں گلستان سعدی پڑھاتے رہے، غالباً وہ اسی سال جامعہ احسن العلوم یا کسی دوسرے ادارے سے فارغ التحصیل ہوئے تھے۔ پھر گردش دوراں میں وہ کہاں رہے، ہم کہاں رہے یہ گردش بتائے یا دوراں بتائے، اس سمے ستائیس برس بیت چکے تھے کہ اچانک میں نے انہیں اپنا ہم زانو پایا ، اب ہم استاد اور شاگرد نہیں سیاسی کولیگ تھے ، ہم دونوں جمعیت علماء اسلام بلوچستان کے نائب امیر مقرر کئے گئے تھے۔

استاد اور شاگرد کی نسبت پر ستائیس سال کی دھول مٹی تو پڑ چکی تھی لیکن یہ رشتہ ہی ایسا ہے کہ اس پر منوں مٹی بھی پڑجائے تب بھی اس کے تقدس کی خوشبو بہرحال رہتی ہے ، ہمارا رشتہ اگر چہ اب دوستی کا تھا لیکن میرے لیے اب بھی ایک استاد کو ان کے نام سے پکارنا سو ادب ہی تھا ، میں انہیں استاد جی کہہ کر مخاطب کرتا تھا ، ایک دن مجھے بتایا کہ یہ استاد جی استاد جی کا رٹ لگانا چھوڑ دیں ، اب ہم دوست ہیں لیکن ان کا نام زبان پر لانا میرے لیے پھر بھی ممکن نہ رہا تو میں انہیں سائیں کہہ کر مخاطب کرتا تھا۔

گزشتہ پانچ سال وادی سیاست میں ہم بطور دوست ساتھ رہے ، نظرئیے کا پختہ تھے ، سیاسی سوجھ بوجھ کمال کی تھی ، صوبائی سطح پر جماعتی امور نمٹانے کے لیے جو بھی کمیٹیاں بنائی جاتی تھیں تو بیشتر کمیٹیوں میں سائیں شہید کا نام ضرور ہوتا۔

کوئٹہ جاتے ہوئے خضدار ٹہرنا ہوتا ، یا کبھی شب بسری کی ضرورت ہوتی تو سائیں کا گھر ہی میرا گھر ہوتا ، ان کے فرمانبردار بیٹے خدمت کے لیے ایستادہ رہتے ، وہ گھر اب بھی میرا گھر ہے لیکن اب سائیں کے بغیر ہے ، ان در و دیوار پر صرف یادوں کا بسیرا اور بیتے لمحوں کی چاشنی ہوگی ، خود سائیں نہیں ہوں گے۔

ہم مارے جارہے ہیں ، ہے درپے مارے جارہے ہیں ، قیمتی اثاثے یک لخت چھین لیے جاتے ہیں ، دکھ کا وزن ناپیں تو پہاڑ کا بوجھ کچھ بھی نہیں ، انسان کی جان کتنی بے قیمت ہوچکی ہے ، انسان کا خون کتنا ارزاں ہوگیا ہے ، کس بے دردی سے ہمارے اعضاء فضاؤں میں بکھیر دئیے جاتے ہیں ، انسانوں کے اعضاء ، وہ انسان جنہیں زندہ رہنا ہوتا ہے ، جنہیں جینا ہوتا ہے ، جنہیں اپنے دوستوں کے ساتھ قہقہے بکھیرنے ہوتے ہیں ، جنہیں اپنے بچوں کے گال سہلانے ہوتے ہیں ، جنہیں اپنوں کی فکر کرنا ہوتی ہے ، انہیں جدا کرتے وقت کوئی ایک لمحے کو بھی نہیں سوچتا کہ اس زندگی سے کتنی زندگیاں وابستہ ہیں

لوگ یہاں جینے آتے ہیں بلاوجہ جانے نہیں آتے ، بے قصور مرنے نہیں آتے ہیں ، کوئی تو اٹھے اور بتائے کہ 25 کروڑ کی اس انسانی آبادی کو جینے دیا جائے ، مسکراہٹیں بکھیرنے دیا جائے اور قہقہے لگانے دیا جائے۔۔۔۔!!

کانٹوں کی زباں سوکھ گئی پیاس سے یارب

کوئی آبلہ پاء وادی پرخار میں آوے 


شہید مولانا محمد صدیق مینگل رحمہ اللہ کی فائل فوٹو


0/Post a Comment/Comments