حضرت مولانا قاضی عصمت اللہ رحمتہ اللہ علیہ کی جدوجہد پر اک نظر
حضرت مولانا قاضی عصمت اللہ صاحب 1944 کو ضلع قلعہ سیف اللہ کے علاقہ کلی علوزئی میں حاجی عبد العزیز کے ہاں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم چند برت خیل کے مولانا عبد الستار آخوند زادہ رحمتہ اللہ علیہ سے حاصل کی، اس کے بعد مزید تعلیم قلعہ سیف اللہ شہر کے ممتاز عالم دین حضرت مولانا محمد یعقوب رحمتہ اللہ علیہ سے اور 1965 میں کوئٹہ کے جامعہ مظہر العلوم شالدرہ میں حضرت مولانا عبداللہ اجمیری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا گل خان لونی رحمتہ اللہ علیہ، مولانا محمد صدیق رحمتہ اللہ علیہ سے اور موقوف علیہ تک کی تعلیم مدرسہ ریاض العلوم ژوب کے مولانا رحمت اللہ مندوخیل رحمتہ اللہ علیہ سے حاصل کی۔1967 میں جمعیت طلباء اسلام سے وابستہ ہوئے بیت المقدس کی فتح کے وقت مجاہدین کی بھرتی میں اپنا نام لکھوایا (آپ اپنے علوم سے فارغ نہیں ہوئے تھے) 1971 میں صوبہ سرحد (خیبرپختونخوا)کی ممتاز دینی درسگاہ جامعہ دارالعلوم حقانیہ سے دورہ حدیث اور علوم نبوی کی تکمیل کی، اسی طرح دورہ حدیث حافظ الحدیث شیخ القران حضرت مولانا محمد عبداللہ درخواستی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی پڑھا، آپ کے اساتذہ میں شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق رحمتہ اللہ علیہ، صدر مدرس حضرت مولانا عبدالحلیم رحمۃ اللہ علیہ، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد فرید رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت مولانا محمد علی رحمتہ اللہ شامل ہیں۔ آپ نے درس و تدریس کا سلسلہ اپنے ضلع قلعہ سیف اللہ سے شروع کیا جہاں چار سال تک مدرسہ مدینۃ العلوم میں درس و تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ 1976 بھٹو دور میں جب حضرت مولانا مفتی محمود رحمتہ اللہ علیہ صوبہ سرحد (خیبرپختونخوا) کے وزیر اعلیٰ تھے تو اس وقت کے معاہدے میں شریعت ریگولیشن ایپلیکیشن کے تحت قاضی کورٹس تشکیل ہوئیں تو آپ اس وقت ژوپ میں قاضی تعینات ہوئے کیونکہ آپ کی تعیناتی مرضی کے بغیر ہوئی تھی اس لیے اس وقت ژوب کے پولیٹیکل ایجنٹ کو آپ کے نام کا مرسلہ آیا تھا کہ وہ ضلع ژوب میں قاضی کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں جب آپ کو پتہ چلا تو انکار کیا درمیان میں صبغت اللہ نامی شخص جو کسی اور مسلک سے تعلق رکھتے تھے نے موقع سے فائدہ اٹھا کر PA کے پاس گیا اور کہا کہ میرا نام صبغت اللہ ہے لیکن مراسلے میں غلطی سے عصمت اللہ لکھا گیا ہے وہ شخص میں ہوں جو قاضی کے لیے منتخب ہوا ہوں۔ پولیٹیکل ایجنٹ نے انہیں تعیناتی کے آرڈر دیئے لیکن جب حضرت مولانا مفتی محمود رحمتہ اللہ علیہ کو پتہ چلا تو انہوں نے آپ کو حکم دیا کہ اب آپ ضرور یہ ذمہ داری سرانجام دیں کیونکہ اس شخص نے دھوکہ دہی کی بنا پر قضاوت کی پوسٹ حاصل کی تھی۔ لہٰذا پھر آپ پولیٹیکل ایجنٹ کے پاس گئے انہیں سارا ماجرہ سنایا تو انہوں نے پھر آپ کو تعینات کر دیا۔ آپ نے چار سال تک ضلع ژوب ، سنجاوی اور لورالائی میں قضاوت کی خدمات سرانجام دیں۔ جب قاضی کی پوسٹیں ریگولر ہوئیں تو پھر مولانا مفتی محمود رحمتہ اللہ علیہ کے حکم پر قضاوت سے استعفی دے دیا۔ 1988 میں مارشل لاء کے بعد انتخابات میں جمعیت علماء اسلام کے ٹکٹ پر قلعہ سیف اللہ سے بھاری اکثریت سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہو گئے، 11 ارکان اسمبلی میں آپ کو پارلیمانی لیڈر منتخب کیا گیا۔ جب جمعیت علماء اسلام، نواب اکبر بگٹی و دیگر پارٹیوں کے ساتھ مخلوط حکومت بنی تو ان کو سینئر صوبائی وزارت اور وزارت خزانہ کا قلمدان سونپا گیا۔ واضح رہے 1988 میں نواب اکبر بگٹی کے ساتھ 10 نکاتی فارمولے پر اتحاد ہوا تھا اسی اتحاد کی بدولت وہ وزیر اعلی بنے تھے ان چیدہ نکات میں نمبر 1 اسلامی نظام کا نفاذ۔ نمبر 2 عصری اداروں کے ہاسٹلوں کو غیر متعلقہ افراد سے خالی کرانا۔ نمبر 3 تعلیمی اداروں میں تعلیمی ماحول میں بہتری لانا۔ نمبر 4 شراب نوشی اور ان کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کرنا۔ نمبر 5 ڈش انٹینا کلچر کو ختم کرنا شامل تھا۔ لیکن معاہدوں کی عدم پاسداری کی بنا پر حکومت سے اختلافات پیدا ہو گئے اور وزارتوں کو لات مار کر مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود رحمۃ اللہ علیہ کی یاد تازہ کر دی اور 18 ماہ بعد حکومت ختم کر دی گئی۔ 1991 کے انتخابات کے دوران قلعہ سیف اللہ کی نشست پر دھاندلی کی وجہ سے انتخابات ملتوی کرنا پڑے دوبارہ صاف اور شفاف انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہو کر نوابی سرداری نظام کو دھڑام سے گرایا اور قوم پرستی کی سیاست کا خاتمہ کیا۔ قلعہ سیف اللہ کی سرزمین پر علماء کرام کو خودی کا درس دینے میں بڑا کردار ادا کیا، مظلوم عوام کو نوابوں اور جاگیرداروں کے چنگل سے آزاد کرانے پر عوام کی طرف سے آپ کو “فاتح قلعہ سیف اللہ“ کا لقب بھی دیا جا چکا ہے، انہیں تاج محمد جمالی کی کابینہ میں وزیر منصوبہ بندی و ترقیات کا قلمدان سونپا گیا منصوبہ بندی و ترقیات جیسی اہم وزارت میں سب سے پہلے مولانا عصمت اللہ صاحب نے بیوروکریٹس اور ماتحت افراد سمیت وزراء پر کرپشن کے دروازے بند کر کے موثر اقدامات اٹھانے شروع کیے ان کے قانونی اور حوصلہ افزاء اقدامات سے کابینہ کے وزراء بھی سخت نالاں ہوگئے اور وزیر اعلیٰ بھی ان کے اقدامات سے نا خوش تھے اسی بنا پر آپ سے وزارت واپس لے لی گئی اس پر جمعیت علماء اسلام وزارتوں سے احتجاجاً مستعفی ہوگئی۔1997 میں صوبائی قیادت سے اصولوں اور نظریاتی اختلافات پیدا ہوگئے اور کافی عرصہ تک جماعت کے اندر اصول ونظریات کی جنگ لڑتے رہے۔ اختلافات کی شدت کے باعث 2008 میں آزاد حیثیت سے ضلع ژوب سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔اس کے بعد ناراض ساتھیوں کے دھڑے جمعیت علماء اسلام نظریاتی کے سربراہ رہے لیکن دوران اختلاف بھی شائستگی کا دامن نہیں چھوڑا۔ جمعیت علماء اسلام کے ساتھ اختلاف ختم کرکے 2018 میں جمعیت علماء اسلام پاکستان کے ٹکٹ پر کچلاک پنجپائی حلقہ سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوگئے۔ لیکن شدید علالت کے باعث اکثر دوران صاحب فراش تھے۔ جب الیکشن کمیشن نے ارکان قومی اسمبلی کے مالی سال 20-2019 کے گوشواروں کی تفصیلات جاری کیں اس کے مطابق مولانا عصمت اللہ 11 لاکھ روپے اثاثوں کی ملکیت کے ساتھ ملک کے غریب ترین رکن اسمبلی کی فہرست میں شامل تھے۔ نظریاتی سیاست کے حوالے سے ان کا جراتمندانہ موقف اور سیاست ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ آج بمورخہ 4 جون 2024 بوقت شام داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاء فرمائے۔ آمین
تحریر: عبد الغنی شہزاد
ترجمان جے یوآئی ضلع کوئٹہ
ایک تبصرہ شائع کریں