احیاء جمعیۃ کے لیے مفکر اسلام مولانا مفتی محمود کی مساعی پر ایک نظر
خواجہ محمد زاہد شہید
سابق مرکزی ناظم مالیات جمعیۃ علماء اسلام
مفکر اسلام مولانا مفتی محمود چودہویں صدی کا تتمہ اور پندرھویں صدی کی تمہید تھے، جن کا ہر قدم تاریخ حریت کا مستقل باب تھا،یہ وہ بوریا نشین تھا جس کی للکار اقتدار کے ایوانوں میں لرزہ پید کر دیتی تھی، یہ وہ مسجد کا مولوی تھا جس کے سامنے بہت بڑا آمر اپنے تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود بھی نہ ٹھہر سکا تھا۔ ایسی عظیم ہستی کی سیاست پر لکھنا میرے جیسے ناکارہ انسان کے بس کی بات نہیں لیکن حضرت مفتی صاحب مرحوم سے جو تعلق خاطر اس ناچیز کو رہا ہےاس نے قلم اٹھانے پر مجبور کردیا۔
حضرت مفتی صاحب نے اپنی سیاسی زندگی کی ابتداء ١٩٣٧ء میں ١٨ سال کی عمر میں جمعیۃ علمائے ہند کی انتخابی مہم میں حصہ لے کر کی۔ اس انتخابی مہم میں آپ نے مراد آباد کے دور دراز علاقوں کا دورہ کیا اور تعلیم سے فراغت کے بعد باقاعدہ جمعیۃ علمائے ہند سے وابستہ ہوگئے۔جیساکہ آپ نے خود اس کی تصریح فرمائی کہ١٩٤٢ء میں آل انڈیا جمعیۃ علمائے ہند کی جنرل کونسل اور سرحد جمعیۃ کی ورکنگ کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے برطانوی سامراج کے بائیکاٹ کی مہم میں قائدانہ حصہ لیا، درس وتدریس کے ساتھ تحریک آزادی میں برابر حصہ لیتے رہے۔
١٩٤٦ ء میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے صوبہ سرحد کا دورہ کیا تو آپ بھی جنوبی اضلاع میں ان کے ساتھ رہے۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کی دعوت پر اپنے رفقاء سمیت جمعیۃ علماء اسلام میں شمولیت اختیار کرلی۔ حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ کے زمانہ میں اور ان کے بعد جمعیۃ علماء اسلام کے جتنے مرکزی اجلاس ہوئے ان میں شریک ہوتے رہے۔
حضرت مفتی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ قیام پاکستان کے بعد کا زمانہ جمعیۃ علماء اسلام کے راہنماؤں کیلئے بہت سخت تھا۔ خاص طور پر صوبہ سرحد میں ان کیلئے رہنا دو بھر ہوگیا تھا۔ اس زمانہ میں چوبیس گھنٹے ہماری نگرانی کی جاتی تھی، حتیٰ کہ چلنا پھرنا اور رہنا سہنا ہر کام نگرانی میں ہوا کرتا تھا۔ حکومت کی ان سختیوں کی وجہ سے جمعیۃ علماء اسلام سات سال تک منظم نہ ہو سکی اس کی وجہ صرف تقسیم ہند کی مخالفت تھی۔متحدہ ہندوستان کے متعلق اپنے موقف کی حضرت مفتی صاحب نے یوں وضاحت فرمائی:
''ہم تقسیم ہند کے حامی نہیں تھے،تاہم جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تقسیم ہند کی مخالفت کرنے والوں کا پاکستان بنانے میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بالکل درست بات نہیں، اسلئے کہ پاکستان جنگ آزادی کی کامیابی کا نتیجہ تھا اور ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہم نے آزادی کی جنگ لڑ کر ایک آزاد ملک کی حیثیت سے پاکستان کا راستہ ہموار کیا۔ غیر منقسم ہندوستان میں مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ میں ہماری ایک مستقل رائے تھی۔ جمعیۃ علماء ہند کا موقف یہ تھا کہ ہندوستان ایک رہے، جبکہ اس کے تمام صوبوں کو مکمل خود مختاری حاصل رہے۔ مرکز کے پاس صرف دفاع، کرنسی اور امور خارجہ کے محکمے رہیں، بقیہ تمام امور میں سب صوبے مکمل خود مختاری کے حامل ہوں اس وقت ہندوستان کے تیرہ صوبے تھے ان میں سے چھ صوبوں میں مسلمان اور سات صوبوں میں ہندوؤں کی اکثریت تھی۔ ہم سمجھتے تھے اس طرح پورے بنگال،پورے آسام، متحدہ پنجاب، سرحد، سندھ بلوچستان میں حکومتیں بنیں گی اور ان صوبوں میں کم از کم مسلمان بالکل محفوظ ہوں گے۔''
آپ نے بات آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا:
مرکزی حکومت سے متعلق بھی جمعیۃ علماء ہند کا ایک فارمولہ تھا، جس کے مطابق ہمارا مطالبہ تھاکہ مرکزی حکومت میں ہندوؤں اور مسلمانوں کودو بڑی اکثریتیں تسلیم کیا جائے اور دونوں کو پینتالیس ، پینتالیس فیصد نمائندگی دی جائے۔ جب کہ بقیہ دوسری اقلیتوں کو حاصل ہو۔ اس طرح ہم سمجھتے تھے کہ ہندو کی عددی اکثریت بھی قابو میں آجائے گی اور مرکز میں بھی مسلمانوں کے حقوق غصب ہونے کے راستے مسدود ہو جائیں گے۔ کانگریس نے جمعیۃ علماء ہند کے اس فارمولے کو تسلیم کرلیا تھا۔ ہم متحدہ ہندوستان میں صوبائی خود مختاری کے ساتھ رہنے کے اس لیے بھی حامی تھے کہ اس طرح ہم غیر ملکی طاقتوں کی سازشوں سے محفوظ رہ سکتے تھے۔ بہر حال یہ دیانت داری کے ساتھ رائے کا اختلاف تھا اور جب مسلمانوں کی اکثریت نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دےدیا تو ہم نے بھی خوشی کے ساتھ اسے تسلیم کرلیا اور 1947ء میں ہم نے حکومت پاکستان کو یہ یقین دلادیا کہ پاکستان کی ترقی اور اس میں اسلامی نظام کی ترویج کیلئے ہم غیر مشروط طور پر اپنی خدمات پیش کرتے ہیں''۔
پاکستان بن جانے کے بعد پاکستان میں احیائے جمعیۃ علماء اسلام کے بارے میں حضرت مفتی صاحب فرماتے ہیں:
''گو مولانا شبیر احمد عثمانی نے ملتان میں علماء کرام کاایک اجلاس طلب کر کے جمعیۃ کی داغ بیل ڈالی تھی لیکن جماعت کا باقاعدہ کنونشن دو برس بعد ہو سکا۔ یہ کنونشن مولانا شبیر احمد عثمانی کے زیر قیادت1949ء میں طلب کیا گیا۔ لیکن جمعیۃ کی تنظیم ممکن نہ ہو سکی۔ آخر دسمبر 1952ء میں ہم نے جمعیۃ کا ایک کنونشن ملتان میں طلب کیا جس میں سارے پاکستان سے علماء دین اکٹھے ہوئے، اس میں جمعیۃ کی ازسر نو تنظیم کی گئی۔ مولانا احمد علی لاہوری جمعیۃ کے امیر اور مولانا احتشام الحق تھانوی جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے ۔ لیکن اس کے محض دو ماہ بعد جب فروری 1953ء میں تحریک ختم نبوت شروع ہوئی تو جمعیۃ کا شیرازہ بکھر گیا۔ مجھے تحریک میں حصہ لینے کی پاداش میں ایک سال کی سزا ہوئی اور جب ہم جیلوں سے واپس آئے تو پوری جماعت مضمحل ہو چکی تھی اور مولانا احتشام الحق تھانوی تحریک ختم نبوت سے اختلاف کی بنا پر ہم سے علیحدہ ہو گئے تھے۔ آخر دو سال کی تگ و دو کے بعد جب ہم نے 1954میں خودکو دوبارہ منظم کیا تو مفتی محمد حسن صاحب کو جمعیۃ کا امیر منتخب کیا گیا۔ مفتی صاحب بیمار اور معذور تھے اسلئے انہوں نے مفتی محمد شفیع صاحب کو قائم مقام امیر نامزد کردیا۔ لیکن قیادت کی کمزوری کی وجہ سے ہم لوگ جو آگے بڑھ کر کام کرنا چاہتے تھے ایسا نہ کر سکے۔ چنانچہ دو سال بعد اکتوبر1956ء میں دوبارہ کنونشن ہوا۔ تو مولانا احمد علی لاہوری صاحب امیر اور مولانا غلام غوث ہزاروی صاحب جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے اس کنونشن میں ہم نے مولانا احتشام الحق تھانوی اور مولانا مفتی محمد شفیع کو بھی شرکت کی دعوت دی ۔ لیکن یہ دونوں حضرات شریک نہ ہوئے۔ تاہم اب ہماری یہ تنظیم ایک فعال جماعت بن چکی تھی مولانا غلام غوث صاحب ہزاروی کی پرجوش سرگرمیوں کی بدولت مغربی پاکستان میں جمعیۃ کے دو ہزار مدرسے اور اتنی ہی شاخیں قائم ہوئیں۔"
مولانا محمد عبداللہ رحمہ اللہ بھکر لکھتے ہیں:
"1956ء میں علماء کنونشن بلانے کا فیصلہ ہوا، مجلس استقبالیہ کی تشکیل ہوئی، جس کی صدارت مولانا احمد علی صاحب لاہوری نے منظور فرمائی۔ اور نظامت کی ذمہ داری حضرت مفتی صاحب کو سونپی گئی۔ حضرت لاہوری اور آپ کی طرف سے دعوت نامہ جاری ہوا۔8-7 اور 9اکتوبر 1956ء (3-2اور 4ربیع الاول 1376ھ) کوملتان میں کنونشن ہوا۔ جس میں مغربی پاکستان کے تقریباً پانچ سو علماء نے شرکت کی اور اسی کنونشن میں جمعیۃ علماء اسلام کی از سر نو تشکیل ہوئی۔ امیر حضرت لاہوری ،نائب امیر آپ (حضرت مفتی صاحب) اور ناظم اعلیٰ مولانا غلام غوث ہزاروی منتخب ہوئے۔ اسی انتخاب سے جمعیۃ علماء اسلام کا دور جدید شروع ہوا اور یہ ایک فعال دینی، سیاسی جماعت کی حیثیت سے ابھری۔''
جماعت کی تشکیل نو کے سلسلے میں ابتدائی مساعی اور کردار کے متعلق مولانا محمد ایوب جان بنوری ، حضرت مولانا مفتی محمود صاحب سے اپنی پہلی ملاقات کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:
''میرا نام محمود ہے، مدرسہ قاسم العلوم ملتان میں مدرس ہوں ،افتاء کا کام بھی میرے ذمہ ہے۔ آج کل بزرگوں نے جمعیۃ کی تنظیم نو کے سلسلے میں مجھے احباب سے ملاقات پر مامور کیا ہے تاکہ انہیں دینی اور قومی کاموں کی انجام دہی کے لیے آمادہ کروں، شاید میں سب سے پہلے آپ کے پاس آیا ہوں اسکے بعد چارسدہ جاؤں گا۔ بعد ازاں دوسرے مدارس کا رخ کروں گا۔آج عشاء کےبعدآپ کے مدرسے کے طلباء سے خطاب کاارادہ ہے۔کل دیگر مقامات کا پروگرام ترتیب دوں گا اور ان تمام کاموں میں مجھے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔ ''
مولانا ایوب جان بنوری فرماتے ہیں:
اس پہلی ملاقات کے بعد وہ صوبہ سرحد میں اکثر آتے جاتے رہے۔ پہلے ہم تنہا ان کا استقبال کیا کرتے تھے۔ پھر وہ وقت آیا کہ ان کے استقبال کے لیے انسانوں کا سیلاب امڈ آتا تھا ،نہ معلوم اتنے لوگ کہاں سے اور کیسے آتے تھے؟
مولانا عبید اللہ انور صاحب رحمہ اللہ اس دور کی تاریخ یوں بیان فرماتے ہیں:
'' یہ اس دور کی بات ہے جب شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی کی وفات کے باعث جمعیۃ کی اہمیت ختم ہو چکی تھی اور اکثر میٹنگوں میں اس کے تن مردہ میں جان ڈالنے کے لیے مختلف تجاویز زیر بحث آتی رہیں۔ ملک کے علماء کی نظریں حضرت لاہوری کی طرف اٹھتی تھیں ، کیوں کہ وہی ایک بزرگ اتنے قد آور اور علم وتقویٰ میں نمونہ تھے۔ ان کی آواز پر تمام علماء کو اکٹھا کیا جاسکتا تھا۔ لیکن ان کا حلقہ ذکر و فکر ، درس ووعظ ، اہل حلقہ کی اصلاح قلبی اور خدام الدین کی ترتیب واشاعت ایسے کام تھے، جن کی موجودگی میں ان کیلئے ملک میں مسلسل دورے کرنا ممکن نہیں تھا اور مسلسل دوروں کے بغیر جمعیۃ کو زندہ کرنے کا سوال خارج از بحث تھا۔ عملی سیاست میں حصہ لینا اور کسی جماعت کو منظم کرنا، اس کی قیادت سنبھالنا بالکل الگ چیزیں ہیں۔چنانچہ حضرت نےاس سلسلے میں چند متحرک لوگوں کوجن میں حضرت مفتی صاحب اور مولانا غلام غوث ہزاروی بھی شامل تھے ، فرمایا آپ نوجوان لوگ کام کریں،میں آپ کیلئے تعاون کاسلسلہ جاری رکھوں گا۔مفتی صاحب اس بات پر مصر تھے کہ حضرت لاہور ی رحمہ اللہ جماعت کی قیادت سنبھالیں ہم سے کام لیں۔ انہوں نے کہا!حضرت ہم لوگ کیا کام کرسکتے ہیں اور کیسے کرسکتے ہیں جبکہ ملک میں ہمارا جاننے والا کوئی نہیں۔جب تک ہم لوگوں سے متعارف نہ ہو جائیں، کوئی ہماری بات سننے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ آپ ایک بار پورے ملک میں ہمارا تعارف کرادیں۔ اس کے بعد ہم جانیں اور جماعت! ہم ان شاء اللہ جماعت کو سنبھال لیں گے لیکن شرط یہ ہےکہ آپ ہماری سرپرستی قبول کرکے ہمارا تعارف کرائیں ! "حضرت لاہوری نے جب ان کا عزم دیکھا تو آمادہ ہو کر کہا! اچھا اگرآپ جمعیۃ کو سنبھالنے کا عزم کر ہی چکے ہیں، تو میں ضرور تعاون کروں گا۔ مولانا غلام غوث ہزاروی نے تجویز کیا کہ حضرت لاہور ی جماعت کے امیر کی ذمہ داری قبول کریں۔اس پر حضرت نے فرمایا کہ امیر کو ہمہ وقت رہنا چاہیے میرے دوسرے اشغال کی موجودگی میں ممکن نہیں کہ تمام جماعتی کام انجام دے سکوں،البتہ یہ ممکن ہے کہ آپ بطور ناظم اعلیٰ کام کریں تو میں بطور امیر کام کرسکوں گا۔ لیکن اس صورت میں آپ کو دن رات میری ہدایات کے مطابق کام کرنا ہوگا۔"
یہ ایک طویل بات ہے کہ جمعیۃ کے انتخابات کیسے ہوئے، کون کون سے عہدے دار بنے۔ لیکن جمعیۃ کی تنظیم نو کا آغاز یہیں سے ہوا۔ حضرت لاہوری جیسے آدمی کو جمعیۃ کی امارت قبول کرنے پر مفتی محمود صاحب ہی نے آمادہ کیا تھا اس طرح تنظیم کایہ سہرا بھی انہیں کے سر پر سجتا ہے۔ کیوں کہ وہ کوشش کرکے حضرت کو آمادہ نہ کرتے، تو جمعیۃ کی تنظیم نو ہوتی اور نہ جمعیۃ علماء اسلام کا کام آگے بڑھتا۔''
الغرض جمعیۃ علماء کی پاکستان میں نئی تشکیل و تنظیم کیلئے بنیادی کردار حضرت مولانا مفتی محمود صاحب نے ادا کیا۔
مفتی صاحب کے استاذ زادے اور جمعیۃ علماء اسلام کے سابق امیر حضرت مولانا سید حامد میاں صاحب رحمہ اللہ جمعیۃ علماء ہندکے بزرگوں کے اجمالی اوصاف کا تذکرہ کرنے کے بعد احیائے جمعیۃ کے عنوان سے اس کی یوں تائید فرماتے ہیں:
''حضرت مولانا مفتی محمود صاحب کا تعلق اکابرین جمعیۃ علمائے ہند سے تھا۔ وہ سب حضرات مذکورہ بالا اوصاف کے حامل تھے۔ قیام پاکستان کے بعد جماعت سے تعلق رکھنے والے بزرگ شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی رحمہ اللہ علیہ مغربی پاکستان کے قلب لاہور میں تشریف فرم اتھے۔مولانا محمد نعیم لدھیانوی، مولانا عبدالحنان صاحب ہزاروی اس جمعیۃ کے پرانے ارکان و عہدے دار رہ چکے تھے۔ حضرت مولانا مفتی محمود صاحب نے ان سب حضرات کو ملتان میں جمع کیا اور ان کیساتھ پورے ملک کے چیدہ چیدہ علماء کو مدعو کیا، یہ 1956ء کی بات ہے۔ میں خود بھی اس میں شریک تھا۔ یہ اجلاس حاجی باران کی زیر تعمیر کوٹھی میں ہوا۔ حضرت مولانا احمد علی کو امیر، مولانا غلام غوث ہزاروی کو ناظم منتخب کیا گیا، یہ سب کاروائی مولانا مفتی محمود صاحب نے کی تھی۔ جو وقت اور ضرورت کے عین مطابق تھی۔ کام کرنے والے سب علماء مجتمع ہوگئےاور جمعیۃ کا احیاء ہوگیا ۔خدا وند کریم نے مفتی صاحب کی اس کوشش کو بار آور کیا۔ تمام علماء ان حضرات کی سرکردگی میں دینی اور سیاسی خدمات انجام دیتے رہے۔ مفتی صاحب کی اپنی جماعت یہی تھی اور ہے اور ان شاء اللہ رہےگی۔ یہ جماعت انکے باقیات صالحات میں سے ہےاور ان کیلئے صدقہ جاریہ۔ (ترجمان اسلام مفتی محمودنمبرص87)
جماعت کے احیاء کی فکر کے ساتھ ساتھ ان کی راہنمائی کیلئے اللہ تعالیٰ نے انہیں فکر ولی اللہ کے امانتداروں کی راہنمائی ، توجہات اور رفاقت سے نوازا۔ عنایات ربانی نے انہیں حضرت لاہوری کے علاوہ مولانا محمد عبداللہ درخواستی ، مولانا شمس الحق افغانی ، مولانا مفتی محمد شفیع سرگودھوی، مولانا محمد عبداللہ خانقاہ سراجیہ، مولانا محمد یوسف بنوری اور ملک کی مشہور مرجع خلایق خانقاہوں مثلاً خانقاہ سراجیہ موسیٰ زئی شریف ، دین پور شریف، امروٹ شریف، ہالیجی شریف کے بزرگوں کی توجہات ظاہری وباطنی کا مرکز بنایا۔ حضرت مفتی صاحب بڑے فخر سے فرماتے تھے کہ ہمیں اپنے بزرگوں کی توجہات اور دعائیں حاصل ہیں اور رفاقت کے لیے مولانا سید گل بادشاہ، مولانا عبد القیوم پوپلزئی ، مولانا عبدالحق، مولانا محمد ایوب جان بنوری، صاحبزادہ عبدالباری جان، مولانا قاضی عبدالکریم، مولانا عبیداللہ انور، قاری عبدالسمیع جیسے رفقاء عنایت فرمائے۔ جنہوں نے ہر فکری ، علمی ، عملی میدان میں ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ (قاضی عبداللطیف، ترجمان اسلام مفتی محمودنمبرص ٢٩)
مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود صاحب جمعیۃ علماء اسلام کے افکار کو اپنا نصب العین بناکر اس مشن کی تکمیل کیلئے ہمہ تن مشغول و مصروف رہے۔ یہاں تک کہ اپنے رفیق جماعت مجاہد ملت حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی رحمہ اللہ کے ساتھ مل کر جماعت کی تنظیم اور نئے مدارس کے قیام کی جدوجہد کی۔ اور دو سال کے قلیل عرصہ میں مغربی پاکستان کے اندر دو ہزار مدارس اور اتنی ہی شاخیں قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ایک تبصرہ شائع کریں