حافظ مومن خان عثمانی
جمعیت علماء اسلام نے فروری 2024ء کے انتخابات نتائج کو الیکشن کے فوراً بعد ہی مسترد کرتے ہوئے اس کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کیا تھا، جو 20 اپریل کو بلوچستان کے شہر پشین سے شروع کردی گئی تھی، ان احتجاجی جلسوں کو عوامی اسمبلی کا نام دیاگیا تھا جس کا چوتھا اجلاس پنجاب کے شہر مظفر گڑھ کی سرزمین پر یکم جون کو ہوا، جمعیت علماء اسلام عددی لحاظ سے پنجاب میں کمزور ہے لیکن مظفر گڑھ کے جلسہ عام نے یہ ثابت کردیا کہ اب جمعیت علمائے اسلام پنجاب میں بھی زور پکڑ رہی ہے، مظفر گڑھ کی عوامی اسمبلی نے پاکستان کے ایوانوں، محلاتی سازشوں، ان کی غلام گردشوں اور ان کے تانے بانے ملانے والوں کو ضرور پریشان کردیا ہوگا کہ قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن کی مدلل اور موثر آواز جو خیبرپختونخواہ، بلوچستان اور سندھ سے اُٹھ رہی تھی اب وہ پنجاب کی سرزمین سے بھی اسی طرح قوت وطاقت اور جوش وجذبے کے ساتھ اٹھنے لگی ہے، جنوبی پنجاب بھی دیگر تینوں صوبوں کی طرح پسا ہوا، پسماندہ اور حکمرانوں کی نظروں سے اوجھل محرومیوں کا شکار علامہ ہے، ملک میں محرومیوں کے اسباب کیا ہیں اور یہ محرومیاں کن لوگوں کی وجہ سے ہیں یہ بات پاکستانی لوگ اب اچھی طرح جان چکے ہیں، جمعیت علماء اسلام نے ہمیشہ محروم طبقات کی حمایت اور ان کی محرومیوں کے ازالے کی بات کی ہے اس لئے ملک کی تمام محروم طبقات اور محرومیت کے شکار علاقوں نے بھی ہمیشہ جمعیت علماء اسلام کو سپوٹ کیا ہے اور اسی کو اپنا نجات دہندہ سمجھا ہے، یہ الگ بات ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ملک کے دیگر حصوں کی طرح یہاں بھی جمعیت علماء اسلام کو پنپنے نہیں دیا، یا تو اس کے خلاف منفی اور زہریلا پروپیگنڈا کیا گیا، یا اس کے خلاف متوازی دھڑہ بندی کی کوشش کی گئی اور یا الیکشن میں زبردستی اس کا راستہ روکا گیا، یہی وجہ ہے جمعیت علماء اسلام اب تمام تر مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر میدان میں نکلی ہے اور ببانگ دہل اسٹیبلشمنٹ کو للکار کر ملک وقوم کو اس کے استبدادی پنجہ سے نجات دلا نے کی بھر پور کوشش کررہی ہے، یہی خفیہ ہاتھ ہیں جو کسی کو طاقتور کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے تجوریوں کے منہ کھول کر اسباب پیدا کردیتے ہیں جس طرح 2013 سے پی ٹی آئی کے لئے انہوں نے حالات سازگار بنانا شروع کئے تھے اور 2018 ء میں اسے ملک کی سب سے بڑی پارٹی بناکر پیش کرنے میں کامیاب ہوگئے اور اس کو ملک کے سیاہ وسفید کا مالک بنا دیا تھا، یہ قوتیں جمعیت علماء اسلام کو ہمیشہ سے دباتی رہی ہیں، اس کا حجم کرنے، اس کو غیر موثر بنانے اور عوام کی نظروں میں اسے ایک چھوٹی سی پارٹی دکھانے میں اپنا کھلواڑ کھیل رہی ہیں، جمعیت علماء اسلام نے اس کھلواڑ کوبہت برداشت کیا کہ شاید کسی وقت یہ لوگ سدھر جائیں اور اس ظلم سے باز آجائیں، عوامی رائے کو تسلیم کر لیا جائے مگر جب یہ گیم مسلسل جاری رہی اور 2024ء کے الیکشن میں اس ظلم وبربریت کی انتہا کردی گئی تو جمعیت علماء اسلام کے برداشت کا پیمانہ بھی لبریز ہوگیا اور جمعیت علماء اسلام کو بالآخر یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑا، قبضہ مافیا گلی کوچے کا ہو یا ایوان اقتدار کی وہ اپنا قبضہ اس قدر آسانی کے ساتھ چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتا، یہ کانٹوں بھرا دشوار گزار اور انتہائی مشکل سفر ہے مگر قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن نے 20 اپریل 2024 ء سے انتہائی سوچ سمجھ کر ملک وقوم، اسلامی نظام اور جمہوریت کے مستقبل کے لئے یہ کٹھن اور دشوار گزار راستہ اختیار کیا ہے، مظفر گڑھ اور جنوبی پنجاب کے لوگوں نے جمعیت علماء اسلام کو جو پذیرائی بخشی ہے وہ اسٹیبلشمنٹ کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے، ملک میں اللہ تعالیٰ کے بعد اگر کوئی قوت ہے تو وہ عوام کی قوت ہے، اگر جمہوریت ہے تو پھر جمہور کی رائے کو تسلیم کرنا پڑے گا، اسٹبلشمنٹ کو اپنی ضد اور انانیت چھوڑ کر عوام کی رائے کا احترام کرنا ہوگا یہی احترام جب 1971 میں روندا گیا تو ملک دولخت ہوکر مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کی صورت میں پاکستان سے الگ ہوا، اب بھی اگر عوامی رائے کو قبول نہیں کیا جائے گا تو پھر اس طرح کسی اور سانحہ کو بھی مسترد نہیں کیا جا سکتا، اس لئے عوام کی رائے کا احترام ملک کی بقا اور سا لمیت کے لئے ضروری ہے، قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت اسی کوششوں میں لگی ہوئی ہے کہ الیکشن میں نتائج کو چوری کرنے سے کہ ملک کا مستقبل مخدوش نہ ہوجائے، ملک کسی اور سانحہ سے دوچار نہ ہوجائے اور ملک دشمن قوتوں کو پھر شادیانے بجانے کا موقع نہ ملے، مظفر گڑھ جیسے شدید گرم علاقہ میں جہاں درجہ حرارت 50 سے بھی اوپر تھی، کئی گھنٹوں سے عوام کا جم غفیر بلکہ رات بارہ بجے تک عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اس بات کا غماز ہے کہ اب پنجاب کی عوام بھی جاگ چکی ہے وہ کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے، قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن نے جنوبی پنجاب کے لوگوں سے بھی اپنا مدعا صاف لفظوں میں بغیر کسی لگی لپٹی کے ببانگ دہل بیان کیا کہ”ہماری اسمبلیاں عوام کی نمائندہ نہیں بلکہ اسٹبلشمنٹ کی نمائندہ ہیں اور ان اسمبلیوں میں عوامی لوگ نہیں بلکہ جاسوسی اداروں کے نمایندے براجمان ہیں، مولانا صاحب نے طاقتور قوتوں کو یہ بھی بتا دیا کہ یہ ملک ہمارے اکابر کی انگریز کے خلاف ڈیڑھ سوسالہ جدوجہد کے نتیجہ میں آزاد ہوا ہے تمہاری عیاشیوں سے معرض وجود میں نہیں آیا، اگر ہمارے آباؤاجداد انگریز جیسی قوت سے لڑ سکتے ہیں تو ہم بھی ان کے بچونگڑوں سے لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ہم طاقتور قوتوں کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم تمہاری طاقت کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں، ہم دنیا میں کسی طاقت سے مرعوب نہیں ہوئے اور نہ تمہاری طاقت کے سامنے جھکیں گے“ مولانا صاحب نے کہا کہ”ہم آج ہم جنوبی پنجاب میں جمع ہیں تاحدنگاہ انسانوں کا سمندر ہے جو پاکستان کے سیاہ وسفید کے مالکوں اور بین الاقوامی سطح کے جابروں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم نے اس بڑے اجتماع کی وساطت سے فروری 2024ء کے عام انتخابات اور ان کے نتائج کو مسترد کردیا ہے ووٹ عوام کا حق ہے، حکومتیں بنیں گی تو عوام کی مرضی سے بنیں گی کوئی کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو میں ان طاقتوروں کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ آپ کو اپنی طاقت کا نشہ ہوگا لیکن ہمارے پاس قومی غیرت وحمیت موجود ہے“ مولانا فضل الرحمن کی تقریر کا ایک ایک لفظ عوامی امنگوں کا ترجمان اور جمہوری قوتوں کے لئے مشعل راہ ہے، اگر اس ملک میں جمہوریت ہے تو پھر جمہور کی رائے کا احترام کرنا پڑے گا، انتخابات کے نتائج پر ڈاکہ ڈال کر اپنی مرضی کے مطابق نتائج تیار نہیں کئے جاسکیں گے اور اگر آمریت ہے تو پھر کھل کر آمریت کا اعلان کیوں نہیں کیاجاتا آدھا تیتر اور آدھا بٹیر والا معاملہ کب تک چلے گا؟ یہ وہ چیز ہے جو ہر پاکستانی کے دل میں کھٹک رہی ہے، جس نے ہر محب وطن شخص کو پریشان کر رکھا ہے، اگر لوگوں کو سلیکٹ کرکے اسمبلیوں میں بھیجا جاتا ہے تو پھر الیکشن کے نام پر اتنا بڑا ڈرامہ کیوں رچایا جاتا ہے، قومی خزانے کے اربوں روپے اس نام نہاد انتخابات پر کیوں ضائع کئے جاتے ہیں، عوام کے اندر الیکشن کے نام پر نفرتوں کا بیج کیوں بویا جاتا ہے، ڈیڑھ دو ماہ تک عوام کو کیوں ایک لاحاصل مشق کا تختہ مشق بنایا جاتا ہے، مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں چلنے والی یہ تحریک اس ڈرامہ بازی کو ختم کرکے دم لے گی جس طرح کہ مولانا صاحب کے عزائم سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ اب وہ اس گند کو صاف کرکے دم لیں گے اور ملک کو قابض گروپ سے آزاد کرکے آئین وقانون کی بالادستی قائم کرکے عوامی رائے کے احترام کو منوا کر ہی میدان سے واپسی کریں گے، مظفر گڑھ کے عظیم الشان اجتماع کے کامیاب انعقاد میں جمعیت علماء اسلام پنجاب کے امیر مولانا محمود میاں، جنرل سیکرٹری نصیر احمد احرار، مولانا غضنفر عزیز، ضلع مظفر گڑھ کے امیر مولانا یحییٰ عباسی ان کی پوری جماعت اور ملحقہ اضلاع کی جماعتوں کا کردار لائق تحسین اور قابل مبارکباد ہے، 7 ستمبر 2024ء کو پنجاب کے دل لاہور میں عظیم الشان اجتماع ہوگا اگرچہ یہ اجتماع ختم نبوت کے تحفظ کے پچاس سال مکمل ہونے اور 7 ستمبر 1974ء کی یاد میں منعقد ہو رہا ہے، لیکن مولانا فضل الرحمن جہاں ختم نبوت کے تحفظ کے لئے پچاس سالہ قربانیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے مسئلہ ختم نبوت کی حفاظت کا تجدید عہد کریں گے وہاں الیکشن میں دھاندلی، دھاندلی کرنے والوں اور دھاندلی زدہ حکومت کی بھی خوب خبر لیتے ہوئے ان تمام معاملات پر اور ان کے تمام کرداروں پر بھی گرج کر برسیں گے اور ان کی تابوت میں مینار پاکستان کے سائے تلے آخری کیل ٹوکیں گے، ان شاء اللہ العزیز
ایک تبصرہ شائع کریں