حافظ مومن خان عثمانی
گزشتہ دنوں مالاکنڈ یونیورسٹی کے سٹودنٹ موسیٰ خان کی موت کے بعد قوم پرستوں نے جس طوفان بدتمیزی کی ابتداء کی تھی اور جس طرح اسلامی شعائر اور علماء کرام کو نشانہ بنایا تھا، اس کا منطقی نتیجہ توہین رسالت پر جاکر سامنے آیا، کیونکہ اذان، قرآن پاک، مسجد، مدرسہ اور علماء کرام کی مسلسل توہین کی اگلی منزل اللہ تعالیٰ اور رسو ل اللہ ﷺ کی توہین اور ان سے کھلم کھلا بغاوت کا اعلان ہی ہے، رباب کی محبت میں نوجوانوں کو جس طرح بے راہ روی پر لگایا گیا تھا اس سے یہ صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ ان لوگوں کے عزائم کیا ہیں اور یہ کیا کرنا چاہتے ہیں، اذان کو نشانہ بناکر گالی دینا اور اس سے انکار کرنا اللہ تعالیٰ اور رسول کو گالی دینے اور ان کے انکار کرنے کے ہی مترادف ہے، سوشل میڈیا پر بڑی تعداد میں ایسے لوگوں کی پوسٹیں شایع ہوئی ہیں جو ببانگ دہل اللہ و رسول کے خلاف اعلان جنگ کا طبل بجاتے ہوئے نظر آئے ہیں، قوم پرستی کے دلدل میں پھنسے ہوئے یہ لوگ اللہ تعالیٰ، اس کے رسول ﷺ، قرآن پاک، دیگر شعائر اسلام اور علماء کرام کے بارہ میں اس قدر بے باک کیوں ہوگئے کہ ان کونہ ایمان کی فکر، نہ موت و قبر کی فکر نہ جنت جہنم کی پرواہ، اسلام پر مرمٹنے والے پشتون مسلمانوں کی اولاد اس قدر بے راہ روی اور گمراہی کا شکار کیوں اور کیسے ہوگئی؟ یہ ایک دم نہیں ہوا، موسیٰ خان کے رباب کی کہانی تو اب سامنے آئی ہے، یہ لوگ ایک ہفتہ کے اندر گمراہی کا شکار نہیں ہوئے اس کے پیچھے طویل جدوجہد ہے، کمیونسٹوں نے سو سال پہلے پختون قوم کو دین اسلام سے برگشتہ کرنے کی جو محنت شروع کی تھی، آج اس کے نتائج ”پشتون بونیری، کامران“ اور دیگر کئی بدبختوں کی شکل وصورت میں سامنے آنا شروع ہوچکے ہیں، میں یہ نہیں کہتا کہ تمام قوم پرست ایسی گندی ذہنیت کے مالک ہیں ان میں بہت سے سلجھے ہوئے پکے مسلمان بھی موجود ہیں، اب تو قوم پرستوں کی قیادت کو بھی اس گستاخی اور گمراہی کا احساس ہوچکاہے، مگر ان کی مذہب بیزاری اور علماء دشمنی سے نوجوانوں کی بڑی تعداد بگڑ چکی ہے، بونیر جیسے مذہبی علاقہ میں جہاں مذہب کی جڑیں دیگر اضلاع کی بنسبت زیادہ گہری معلوم ہوتی ہیں، جو خیبرپختونخوا کی سب سے بڑی روحانی شخصیت شیخ المشائخ، غوثِ خرسان حضرت علی غواص ترمذی المعروف پیرباباؒ اور ان کے خلفاء خصوصاً شیخ الاسلام حضرت مولانا آخوند درویزہ باباؒ کی محنتوں کا جولان گاہ رہاہے، جہاں سے پورے پختونخوا میں اسلام کا صحیح تصور اور دین اسلام کی درست تشریحات پہنچی ہیں، جہاں سے علوم ظاہریہ اور علوم باطنیہ کی روشنیاں چاروں طرف بلکہ افغانستان تک پہنچی ہیں، جہاں سے اسلامی جہاد کی وہ ملک گیر تحریک شروع ہوئی تھی جس نے گلگت سے ہزارہ اور کنڑ (افغانستان) سے پشاور تک کے علاقے ڈوما، کالے، سرخ کفار اور نام نہاد ترک مسلمانوں کے ظلم وستم سے آزاد کرکے پورے خطے میں اسلام کا جھنڈا لہرایا تھا، جہاں سے بڑے بڑے مجاہد، اکابر علماء، لاکھوں مسلمانوں کی تربیت کرنے والے صوفیاء پیدا ہوئے، جو سالہا سال تک سید احمد شہید کے بقایا مجاہدین کی جہادی کاروائیوں کا مرکز رہا ہے، جہاں ان مجاہدین اسلام نے انگریزوں کے خلاف جنگ انبیلا جیسی تاریخی جنگ لڑی تھی، مگر افسوس کہ آج بونیر کی اس تاریخی سرزمین پر ”پشتون بونیری“ جیسے غلیظ، گندے، خبیث، ملعون، ملحد، بے شرم، ذلیل، کمینے اور گستاخِ رسول پیدا ہوچکے ہیں، پشتون بونیری وہ گندہ کیڑا ہے جس کی غلاظت کا ایک ایک لفظ اس قدر بدبودار، متعفن، نجس، گندہ اور شرم وحیاء سے عاری ہے کہ پوری کائنات اسے ہضم نہیں کرسکتی۔ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں یہود اور مشرکین بھی گستاخیاں کرتے تھے، اس کے بعد آج تک بہت سے بدبخت اور کمینے شاتمین دنیا میں پیدا ہوئے ہیں مگر اسلام کے 1445ھ سالہ دور میں کسی کمینے بدبخت نے اس طرح کی گندی زبان نبی کریم ﷺ کے شان اقدس میں استعمال نہیں کی جو ”پشتون بونیری“ نامی ناجائز باپ کے ناجائز بچے نے کی ہے، گالیاں دینے والے بدبختوں نے گالیاں دی ہوں گی، بدزبانی، بدتمیزی، بدگوئی اور خبث باطن کا اظہار بڑے بڑے کمینوں نے کیا ہوگا مگر جس کمینہ پن کا اظہار پشتو ن بونیری نامی نجس کیڑے نے کیا ہے، اس طرح کمینگی کا اظہار نہ کوئی یہودی کرسکا ہے، نہ کوئی ہندو، عیسائی بلکہ کوئی کمیونسٹ بدبخت بھی اس قدر بدتہذیبی اور بدتمیزی کی جرات نہیں کرسکا ہے، نبی کریم ﷺ کی ذات مقدسہ پر تو ابوجہل جیسا دشمن بھی حرف گیری کی جرات نہیں کرسکا، رئیس المنافقین ابن اُبئی نے سب سے بڑی بدبختی اور کمینگی کا اظہار کیا تھا مگر اس قدر گندے اور بدبودار الفاظ اس کو بھی نہیں سوجھے تھے، ام المومنین عفیفہ کائنات حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ اور شیر خدا حضرت علی المرتضیٰ ؓ کے متعلق اس قدر غلاظت بھرے جملے کوئی حلالی آدمی استعمال کرہی نہیں سکتا، خواہ وہ پرلے درجے کا کافر ہی کیوں نہ ہو، رباب کی تصویر کے ساتھ اس کمینے نے قرآن پاک کے بارہ میں جو غلاظت پھیلائی ہے وہ رباب کے پرستاروں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے رباب کے پرستار پہلے تو علماء، مدراس ومساجد اور اذان کے خلاف اعلان جنگ کر چکے تھے مگر اب براہ راست اللہ و رسول کے خلاف میدان جنگ میں اترگئے، کلمہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والے مملکت پاکستان اور پھر پشتونوں کے غیرت مند خطہ بونیر جیسے مذہبی علاقہ میں اتنی واہیات و بکواسات سرعام بکنا کس قدر افسوسناک و کربناک ہیں، اس مجسمہ غلاظت کے غلیظ الفاظ سننے اور پڑھنے کے لائق ہی نہیں، ایک ایک لفظ سے آدمی کے تن بدن میں آگ لگتی ہے، معمولی درجے کا مسلمان بھی ان الفاظ سے چکرا جاتا ہے، کمزور سے کمزور مسلمان بھی نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس کے بارہ اس قدر گندے، بے ہودہ اور بدبودار الفاظ اپنی نظروں سے نہ دیکھ سکتا ہے اور نہ اپنے کانوں سے سن سکتا ہے؟ اس قدر گھٹیا زبان تو کسی برے سے برے آدمی کے بارے میں بھی استعمال کرنے سے پہلے آدمی دس دفعہ سوچتا ہے مگر اس بدبخت کمینے نے انسانیت کے سب سے اعلیٰ وارفع مقام کو اس قدر بے دردی سے چھیڑ کر کروڑوں مسلمانوں کے دل چھلنی کر دئے، ہم اتنے بے حس اور بے ضمیر ہوگئے کہ ہمارے ہوتے ہوئے اس قسم کے غلیظ ترین الفاظ رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس کے بارہ میں استعمال کئے جائیں، ہمارے ملک کی خفیہ ایجنسیاں کس مرض کی دوا ہیں، وہ کب حرکت میں آئیں گی، وہ کب اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت پیش کریں گی، وہ کب ایمانی غیرت کا اظہار کریں گی، ان سے تو سو پردوں کے اندر بھی کوئی شخص چھپ نہیں سکتا، لیکن پشتون بونیری جیسا شیطان ابھی تک ان کی نظروں سے اوجھل ہے، نبی کریم ﷺ کی عزت آبرو کی حفاظت سب سے اہم ترین فریضہ ہے اگر اس کی حفاظت نہ کی گئی تو ہماری نمازیں، روزے، حج، زکوۃ، ذکر و عبادت، صدقہ و خیرات سب کے سب فضول اور بے فائدہ مشق ہے، ایسے بدبخت کو ڈھونڈنے کے لئے تو پاکستان کی پوری مشینری حرکت میں آنی چاہئے تھی اور سارے کام بعد کے ہیں اولین فرصت میں اس گندے کیڑے کو تلاش کرنا چاہئے، جس بل میں بھی یہ چھپا ہوا ہو اس کو وہاں سے نکال کر سخت ترین اور عبرت ناک سزا کے حوالے کرنا چاہئے، ہرمسلمان کو تنہائی میں چند منٹ بیٹھ کر سوچنا چاہئے کہ کیا شان رسالت ﷺ میں اس قدر ظلم وبربریت، ہرزہ سرائی، بدتمیزی، بداخلاقی اور گالم گلوچ کے بعد بھی ہمارے لئے کوئی راستہ بچا ہے؟ امام الانبیاء، رحمۃ للعالمین، شفیع المذنبین، سرداردوجہاں، سرورکائنات، فخرِ موجودات، فداہ ُ ابی واُمی ﷺ کے بارہ میں ایسی گندی سوچ رکھنا اسلامی تاریخ کا پہلا غلیظ ترین واقعہ ہے، ایسے گندے الفاظ جناب رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس کے بارہ میں آج تک کسی بڑے سے بڑے کافر، ملحد، زندیق، مرتد، ذلیل اور کمینے نے بھی استعمال نہیں کئے، جو پشتونوں کے نام پر اس سیاہ دھبے نے استعمال کئے، یہ ایک پشتون بونیری نہیں اس قسم کے گندی سوچ اور غلیظ فکر رکھنے والے آج کل ہر علاقہ میں بکثرت پائے جاتے ہیں کچھ خاموشی کے ساتھ اپنے اندر غلاظت لئے پھرتے ہیں اور کچھ کمینے اپنی غلاظت کا اظہار کر دیتے ہیں۔ اوگی مانسہرہ کے رہائشی کامران نامی بدبخت کے بعد بونیر کے پشتون بونیری کا اس طرح کھلم کھلا لاکھوں مسلمانوں کے ایمان کو چیلنج کرنا تمام پشتونوں کے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے، سائبر کرائم ونگ سمیت تمام خفیہ ایجنسیوں کے لئے بہت بڑا امتحان ہے کہ جو ایجنسیاں سیاست دانوں کے گھروں کے اندر جھانک کر چھوٹی چھوٹی چیزیں برآمد کرلیتی ہیں وہ اس قدر بڑے مجرموں کو تلاش کرنے میں کیوں ناکام رہتی ہیں؟ ایک اور افسوسناک معاملہ یہ بھی ہے پاکستان میں فیس بک کے کروڑوں یوزر ہیں مگر پاکستان کے اندر فیس بک کا کوئی ایسا دفتر نہیں جو اس قسم کے بدبختوں کے متعلق انتظامیہ کو معلومات فراہم کرے، سائبر کرائم ونگ کے پاس جب ایسے بدبختوں کے بارہ میں درخواست رجسٹرڈ ہوتی ہے تو یہاں سے نیویارک (امریکہ) میں واقع فیس بک انتظامیہ کے دفتر سے رابطہ کیاجاتا ہے، وہاں سے فراہم کردہ معلومات کی روشنی میں سائبر کرائم ونگ کاروائی کرنے کا مجاز ہوتا ہے، نیویارک دفتر بھی اس کا پابند نہیں کہ وہ ہرصورت میں سائبر کرائم ونگ کو معلومات فراہم کرے اس کی مرضی ہے جس کے بارہ میں چاہے معلومات فراہم کرے جس کے بارہ میں چاہے خاموشی اختیار کرلے، ہم ایسے مجبور اور بے دست و پا ملک کے بے اختیار، بے بس اور غلام رہائشی ہیں، امید ہے کہ جمعیت علماء اسلام کے جواں ہمت رہنما مفتی فضل غفور اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرتے ہوئے بونیر کے اس گندے کیڑے تک رسائی حاصل کریں گے اور فیک آئی ڈی کے پیچھے چھپے ہوئے اس نام نہاد پشتون کو بے نقاب کرکے کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔
ایک تبصرہ شائع کریں