حافظ مومن خان عثمانی
جمعیت علماء اسلام کی نئی رکن سازی شروع ہوچکی ہے، جس کی ابتداء گزشتہ برس یکم محرم الحرام 1445ھ کو قائد جمعیت مولانا نے اپنے رکنیت فارم پر کرنے سے کی تھی مگر عام انتخابات کی وجہ سے یہ مہم ملتوی کردی گئی تھی جو اب دوبارہ شروع ہوچکی ہے، جمعیت علماء اسلام خیبرپختونخواہ کے جنرل سیکرٹری مولانا عطاء الحق درویش اس مہم کے سربراہ اور مرکزی ناظم انتخابات (مرکزی الیکشن کمیشنر) ہیں، ان کے ساتھ گلگت بلتستان سمیت چاروں صوبوں میں صوبائی ناظم انتخابات کی ایک ٹیم ہے، ان کے ماتحت تمام اضلاع، تحصیلوں اور یونین کونسلز تک ناظمین انتخابات کا ایک مربوط نظم ہے، رکن سازی کے لئے دو ماہ کا وقت دیاگیا ہے اس کے بعد تنظیم سازی کا مرحلہ شروع ہوگا جو یونین کونسل سے شروع ہوکر مرکز پر جاکر ختم ہوگا، یہ مملکت پاکستان کی واحد جماعت ہے جس میں رکن سازی اور تنظیم سازی کا اس طرح واضح اور صاف وشفاف جمہوری نظام موجود ہے، پہلے ہر تیسرے سال رکن سازی اور تنظیم سازی کا یہ عمل دہرایا جاتا تھا اب ہر پانچ سال بعد ہوتا ہے، میں دعوے سے کہتا ہوں کہ پاکستان بھر میں کسی تنظیم، جماعت اور پارٹی میں اس طرح منظم جمہوری نظام نہیں ہے، جمعیت علماء اسلام ملک میں سب سے بڑی مذہبی دینی سیاسی جماعت ہے جس کو ملک کے نوے فیصد علماء کرام کی تائید حاصل ہے۔ جمعیت علماء اسلام کے اغراض ومقاصد یہ ہیں۔
(1)علمائے اسلام کی رہنمائی میں مسلمانوں کی منتشر قوتوں کو جمع کر کے اقامت دین اور اشاعت اسلام کے لئے منظم جد جہد کرنا، نیز اسلام اور مرکز اسلام یعنی جزیرۃ العرب اور شعائر اسلام کی حفاظت کرنا۔
(2)قرآن مجید واحادیث نبویﷺ کی روشنی میں نظام حیات کے تمام شعبوں، سیاسی، مذہبی، اقتصادی، معاشی اور ملکی انتظامات میں مسلمانوں کی رہنمائی اور اس کے موافق عملی جد جہد کرنا۔
(3)پاکستان میں صحیح حکومت اسلامیہ برپا کرنا اور اسلامی عادلانہ نظام کے لئے ایسی کوشش کرنا جس سے باشندگان ایک طرف انسانیت کش سرمایہ داری اور دوسری طرف الحاد آفریں اشتراکیت کے مضر اثرات سے محفوظ رہ کر فطری معاشرتی نظام کی برکتوں سے مستفید ہوسکیں۔
(4)مملکت پاکستان میں ایک ایسے جامع اور ہمہ گیر نظام تعلیم کی ترویج وترقی کے لئے سعی کرنا جس سے مسلمانوں میں خشیت الہی، خوف آخرت، پابندی ارکان اسلام اور فریضہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی انجام دہی کی صلاحیت پیدا ہوسکے۔
(5)مسلمانان پاکستان کے دلوں میں جہاد فی سبیل اللہ، ملکی دفاع، استحکام وسالمیت کے لئے جذبہ ایثار وقربانی پیدا کرنا۔
(6)مسلمانوں میں مقصد حیات کی وحدت فکرو عمل کی یگانگت اور اخوت اسلامیہ کو اس طرح ترقی دینا کہ ان سے صوبائی، علاقائی، لسانی اور نسلی تعصبات دور ہوں۔
(7)مسلمانان عالم سے اقامت دین، اعلاء کلمۃ اللہ کے سلسلے میں مستحکم روابط کا قیام۔
(8)تمام محکوم ممالک کی حریت واستقلال اور غیر مسلم ممالک کی مسلم اقلیتوں کی باعزت اسلامی زندگی کے لئے مواقع پیدا کرنے کی کو شش کرنا۔
(9)مختلف اسلامی اداروں مساجد، مدارس، کتب خانوں اور دارالیتامیٰ کی حفاظت، اصلاح وترقی کی کوشش کرنا۔
(10)تحریر و تقریر اور دیگر آئینی ذرائع سے باطل فرقوں کی فتنہ انگیزی، مخرب اخلاق اور مخالف اسلام کاروائیوں کی روک تھام کرنا۔
جمعیت علماء اسلام کے منشور کے چند اہم نکات یہ ہیں:
٭ صرف قرآن وسنت کے احکام ہی ملک کے اساسی قوانین قرار پائیں گے
٭ ملک کے دستور اور قانون میں اسلام کے کامل ومکمل دین ہونے اور محمدرسول اللہ ﷺ کے خاتم الانبیاء ہونے کا دستوری وقانونی تحفظ کیا جائے گا۔
٭ خلفاء راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ادوار حکومت وآثار کو اسلامی نظام حکومت کے جزیات متعین کرنے کے لئے معیار قرار دیاجائے گا۔
٭ نظام تعلیم مکمل اسلامی ہوگا، یکساں نظام تعلیم کے ساتھ تعلیم مفت دی جائے گی۔
٭ دینی مدارس کی آزادی کو برقرار رکھا جائے گا۔
٭ تعلیم کی بنیاد اسلام پر، اسلام کی تاریخ پر اور مادری زبان کی اساس پر رکھی جائے گی۔
٭ تحصیل کی سطح پر ایک بڑا ہسپتال قائم کیاجائے گا جس میں علاج معالجے کاجدید انتظام ہوگا۔ غریب عوام کو علاج کی خصوصی سہولتیں مہیا کی جائیں گی۔
٭ تمام ہسپتالوں میں خواتین کے لئے زنانہ سٹاف مہیا کیا جائے گا۔
٭ ہر شہری کو حصول معاش کے باعزت مواقع مہیا کئے جائیں گے۔ خواتین کے لئے شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے ملازمت کے مواقع مہیا کئے جائیں گے۔
٭ معذور، یتیم، بیوہ اور بے سہارہ افراد کے لئے معقول الاؤنس دیاجائے گا۔
٭ ناجائز ذرائع آمدن، ملکی دولت کو چند خاندانوں اور مخصوص طبقہ میں سمٹ آنے کے تمام ذرائع کو بند کردیا جائے گا۔
٭ مشترکہ نجی سرمایہ سے چلنے والی بڑی صنعتوں میں بونس کے عوض مزدوروں کا بھی حصہ رکھا جائے گا۔
٭ غیر آباد زمین کو آباد کرنے والے کی ملکیت قرار دیاجائے گا۔
٭ عدلیہ مکمل طور پر انتظامیہ سے آزاد ہوگی۔ حصول انصاف کے طریقے بالکل آسان بنائے جائیں گے۔ عدالتوں سے انصاف کاحصول مفت ہوگا۔
٭ انتظامیہ کے ادنیٰ و اعلیٰ سب ہی ارکان کی حیثیت ملک وملت کے خادم و نگہبان کی ہوگی۔
٭ میڈیا کو مکمل آزادی ہوگی اور میڈیا کے تمام وسائل اسلام کی تبلیغ و تشہیر، پاکستان کے استحکام وسالمیت اور عوام کے نقطہ نظر کے اظہار کے لئے استعمال کئے جائیں گے۔
٭ فحاشی وعریانی کا سد باب کیا جائے گا۔
٭ تمام غیر مسلم اقلیتوں کو اسلام کی طرف سے عطا کردہ مذہبی آزادی، شہری حقوق اور حصول انصاف کے مواقع بلاامتیاز اور یکساں طور پر حاصل رہیں گے۔
٭ اسلامی عظمت پر مبنی آزاد و غیرجانبدار خارجہ پالیسی وضع کی جائے گی جو غیر ملکی مداخلت کے اثرات سے بالکل پاک ہوگی۔
٭ ملک بھر میں پختہ سڑکوں کا جال پھیلایا جائے گا تاکہ تما م دیہات ایک دوسرے کے ساتھ اور اپنے مرکزی شہروں سے سڑکوں کے ذریعہ ملحق ہوجائیں۔
جمعیت علماء اسلام نے صوبہ کے پی کے میں دو دفعہ حکومت کی ایک دفعہ مفکر اسلام مولانا مفتی محمود نے نو مہینے اور جناب اکرم خان درانی نے پانچ سال حکومت کی ہے، اس دوران جمعیت علماء اسلام نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جس چند اہم نکات درج ذیل ہیں۔ یکم مئی 1972 کو حضرت مولانا مفتی محمود ؒ نے صوبہ سرحد کے وزیرا علیٰ کا حلف اٹھایا حلف اٹھانے کے بعد آپ نے شراب پر مکمل پابندی کا اعلان کیا شراب کی فروخت کی تمام لائنسنس منسوخ کردیے شراب کی تیاری اور خریدوفروخت کو ممنوع قرار دیا گیا۔ 5 مئی کو امتناع شراب کا قانون صوبہ بھر میں نافذ کردیا گیا۔ یکم اگست 1972 کو جوئے پر پابندی کا آرڈیننس جاری کیا جس کے تحت ہرقسم کی قمار بازی ممنوع قرار دے دی گئی۔ 14 مارچ کو حضرت مفتی صاحب ؒ نے صوبہ سرحد میں سودی لین دین پر پابندی عائد کردی۔ جہیز کی لعنت سے چھٹکارہ حاصل کر نے کیلئے مفتی صاحب ؒ نے صوبہ میں ایک مقررہ حد سے زیادہ جہیز پر پابندی لگادی۔ 24 جون 1972 کو سرحد اسمبلی نے جہیز پر پابندی لگانے کا قانون منظور کیا۔ احترام رمضان کو برقرار رکھنے کیلئے مفتی صاحب نے ماہ رمضان میں تمام ہوٹلوں کو بند کرنے کا حکم دیا۔ 13 شعبان 22 ستمبر 1972 کو احترام رمضان کا آرڈیننس جاری کیا گیا۔ فحاشی و عریانی اور بے حجابی کو ختم کرنے کیلئے مفتی صاحب نے صوبہ میں خواتین کیلئے پردہ لازمی قرار دیا۔ برصغیر میں انگریزوں کی آمد سے پہلے جمعہ کو تعطیل ہوا کرتی تھی، لیکن انگریزوں نے جمعہ کی تعطیل کی جگہ اتوار کا دن چھٹی کیلئے مقرر کیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی یہی سلسلہ چلا آرہا تھا مفتی صاحب نے اس سلسلہ میں صوبہ سرحد حکومت کی کابینہ سے جمعہ کی تعطیل کیلئے بل پاس کرایا۔ حضرت مفتی صاحبؒ نے صوبہ سرحد کی سرکاری اور دفتری زبان اردو کو قرار دیا۔ 10 مئی کو آپ نے اعلان کیا کہ صوبہ سرحد کی سرکاری زبان اردو ہوگی اسی طرح آپ نے شلوار قمیص کو سرکاری لباس قرار دیا۔ جس سے مفتی صاحب ؒ نے ملک میں غلامانہ ذہنیت پر کاری ضرب لگادی۔ تعلیمی اصلاحات کے حوالے سے حضرت مفتی صاحبؒ نے درج ذیل اصلاحات نافذ کیں
(1)یونیورسٹی اور کالجز میں میں داخلہ کیلئے قرآن کریم کا ناظرہ اور نماز باترجمہ کو شرط قرار دیا۔
(2)ایک سال میں ایک سو اٹھارہ پرائمری سکول قائم کرنے کا اعلان کیا۔
(3)ایک سو سے زائد پرائمری کو مڈل اور مڈل سے ہائی کا درجہ دیا۔
(4)کلاچی اور کرک میں نیا انٹر میڈیٹ کالج ہری پور اور لکی مروت میں ڈگری کالج قائم کئے۔
(5)کوہاٹ میں گرلز انٹر کالج منظور کیا۔
(6)ڈیرہ اسماعیل خان کے ڈگری کالج میں پوسٹ گریجویٹ کی کلاسز کا اجرا اور یونیورسٹی کی قیام کی جدوجہد۔
(7)پشاور میں جیالوجی کے مضمون پر ریسرچ کیلئے ایک تخصیص کا مرکز۔
(8)ایک سال میں نادار اور غریب طلبا کیلئے ۳۲ لاکھ کے وظائف کا اعلان۔
(9)صوبہ کے 911 مڈل، ہائی سکولز میں عربی ٹیچر، دینیات ٹیچر اور قاری ٹیچر کی پوسٹوں پر علما کی تقرری۔
20 جولائی کو جید علما اور ماہرین قانون پر مشتمل ایک بورڈ بنایا گیا جس کے ذمے صوبائی قوانین کو قرآن وسنت سے ہم آہنگ کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی اس بورڈکے سربراہ مولانا مفتی محمود صاحبؒ خود تھے۔ دیگر ارکان میں شیخ التفسیر حضرت مولانا شمس الحق افغانی ؒ، محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ، مسٹر عبدالغنی خٹک صدر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، قانون اور پارلیمانی امور کے صوبائی وزیر امیر زادہ خان شامل تھے، صوبائی محکمہ قانون کے سیکرٹری بورڈ کے سیکرٹری مقرر کئے گئے۔ 15 فروری 1973 کو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے بلوچستان حکومت کی برطرفی پر احتجاجاً استعفی دے دیا جس کی وجہ سے یہ کام مکمل نہ ہوسکا۔ 2002ء کے الیکشن میں جمعیت علمائے اسلام نے متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے شاندار کامیابی حاصل کرنے کے بعد صوبہ خیبرپختون خواہ میں اپنی اور بلوچستان میں اتحادی حکومت بنائی، اکرم خان درانی صوبہ خیبر پختون خواہ کے وزیر اعلیٰ اور قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن مدظلہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر قرار پائے۔ اکرم خان درانی کی حکومت نے کئی انقلابی اقدامات کئے۔
(1)میٹرک تک تعلیم کو مفت کرکے طلبہ کو کتا بیں بھی مفت دی گئیں تعلیمی بجٹ میں ایک ارب روپے کا اضافہ کیا 80 نئے کالج 6 یونیورسٹیاں بنائیں 45 ہزار اساتذہ میرٹ پر بھرتی کئے۔
(2)شراب کی خریدوفروخت پر پابندی لگادی گئی۔
(3)ہسپتالوں کی بہتری کیلئے جامع منصوبہ بندی کی گئی، ہر ضلع میں ڈسٹرکٹ ہیڈکواٹر ہسپتالوں کو اے گریڈ ہسپتال بنا دیا گیا۔
(4)زراعت کی ترقی کیلئے ٹاسک فورس کی تشکیل دیدی گئی۔
(5)اردو کو سرکاری زبان قرار دینے کا فیصلہ کیا گیا۔
(6)محکمہ مال میں اصلاحات کی گئیں۔
(7)وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کیا گیا۔
(8)کواپریٹوبنک کے قرضوں پر سود کو معاف کر دیا گیا۔
(9)قیام امن کیلئے موثر اقدامات کئے گئے، فحاشی وعریانی کو ختم کرنے کیلئے موثر اقدامات کئے گئے۔
(10) نفاز شریعت کے لئے شریعت کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا۔
(11)دارالکفالہ قائم کرکے نشئی افراد کو ہنر سکھانے کے اقدامات کئے گئے۔
(12)جیل اصلاحات کی گئیں۔
(13)خواتین کے لئے علیحدہ یونیورسٹی اور میڈیکل کالج قائم کئے گئے۔
(14)کرپشن، بدعنوانیوں اور دیگر برائیوں کے خاتمے اور نفاذ شریعت کیلئے جمعیت نے حسبہ بل تیار کیا گیا اور صوبائی حکومت نے اسے پاس کیا مگر جنرل مشرف نے دو دفعہ سپریم کورٹ کے ذریعے اسے مسترد کیا اس طرح عدالت عظمیٰ نے بذات خود انصاف کا قتل عام کیا، اس وقت چیف جسٹس چوہدری افتخار ہی تھے۔
ایک تبصرہ شائع کریں