جمعیۃ کی نئی رکن سازی مہم، مقاصد و اہداف (قسط اول) حافظ نصیر احمد احرار


جمعیۃ کی نئی رکن سازی مہم : مقاصد و اہداف

(قسط اول)

✒️ حافظ نصیر احمد احرار

(اشاعت: ماہنامہ الجمعیۃ، نومبر۲۰۱۳ء)


     حضرت مولانا حامد میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ جمعیۃ علماء اسلام کے امیر تھے، خاندانی نسبت اور علمی روحانی مقام میں بھی اپنی انفرادی شان رکھتے تھے۔ جمعیۃ علماء ہند کے سرکردہ رہنما، مورخ ملت حضرت مولانا محمد میاں رحمہ اللہ کے صاحبزادے، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کے خلیفہ مجاز اور پاکستان میں بے شمار علماء کے استاد و مربی تھے، کسی شخص نے مولانا حامد میاں رحمہ اللہ سے سوال کیا کہ دنیا میں اللہ کی رضا اور تائید کس جماعت کے ساتھ ہے، یہ پہچاننے کے لیے ہمارے پاس کیا معیار ہوگا؟

  مولانا حامد میاں رحمہ اللہ نے فرمایا "وحی کا سلسلہ تو بند ہو چکا البتہ بزرگانِ دین نے اس کا یہ معیار ذکر کیا ہے کہ وقت کے اہل اللہ کی تائید جس کے ساتھ ہو جائے تو سمجھ لو اللہ کی تائید بھی اس جماعت کے ساتھ ہے۔"

    جمعیۃ علماء اسلام کی تشکیل، تاریخ اور ملک گیر تنظیمی حالات پر غور کیا جائے تو مولانا سید حامد میاں قدس سرہ کے اس قول سے ہمیں ایک خاص قسم کی روحانیت و اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے اہل علم واہل اللہ کی توجہات عالیہ کا نہ صرف مرکز و محور ہے بلکہ لاتعداد مشائخ،علماء اور علمی و روحانی سلسلوں کے مقتدا و امام جمعیۃ علماء اسلام کے تنظیمی عمل سے وابستہ ہیں اس کے طریقہ کار و لائحہ عمل پر پروگرام کے داعی ہیں۔ یہ بات جمعیۃ علماء کے لیے باعث افتخار اور اعزاز ہے اور کارکنوں نے جمعیۃ کے لیے سرمایہ نجات بھی۔

     جمعیۃ کی ان خصوصیات اور امتیازات کی وجہ سے ہر دور کے اکابر نے ہمیشہ جمعیۃ سے وابستگی اختیار کی اور جمعیۃ کی تعمیر و ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ خوش قسمتی سے جماعتی تاریخ میں اب پھر ایک موقع آگیا ہے کہ جماعتی دستور کی روشنی میں جمعیۃ علماء اسلام کی بنیادی یونٹ سے لے کر مرکزی سطح تک تشکیلِ نو کی جائے اور نظم و ضبط میں معیار و اقدار کو سامنے رکھتے ہوئے جماعت کی تعمیر و ترقی کے لیے بہترین لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔ اس تقاضے کو پورا کرنے کے لیے جماعتی روایات کے مطابق ملک بھر میں رکن سازی مہم کا اغاز کیا جا رہا ہے اور اس مہم کو بارآور و کامیاب بنانے کے لیے نظماء انتخابات کے تقرر کا عمل بھی شروع ہے۔

     یہاں پر یہ امر قابل ذکر ہے کہ رکن سازی ہماری جماعتی تاریخ کی قدیم روایت ہے،لیکن دورِ حاضر کی جدت، ترقی اور دیگر جماعتوں کی تشکیل و ترتیب پر غور کیا جائے تو تنظیم آج کے دور میں ایک سائنس کی شکل اختیار کر گئی ہے یہ ایک پیچیدہ، ذمہ دارانہ اور حساس ترین عمل ہے جس کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے بہت سے احتیاطی تدبیروں، پُرمغز فیصلوں اور اہم اقدامات کے اہتمام کی ضرورت ہے۔

     سب سے پہلے اس سوال پر غور کرنا چاہیے کہ آخر ہمیں ضرورت کیوں پیش ائی ہے کہ ہم ہر پانچ سال بعد جماعتی نظم کی تشکیل نو کریں اور تمام سطح کی جماعتوں کو ازسرنو ترتیب دیں؟

     ظاہر بات ہے کہ جمعیت علماء اسلام شورائی جماعت ہے، ملک میں شورائی نظام کی حامی اور داعی ہے (جسے عرف عام میں جمہوریت کہا جاتا ہے) تو اس جمہوریت اور شورائیت کا تقاضا ہے کہ جماعت کا نظم اور اس کی قیادت کارکنانِ جماعت کی خواہش اور رائے کے عین مطابق ہو۔ تبھی ان کا اعتماد قیادت پر پختہ ہو سکے گا اور قیادت کارکنان جماعت میں موثر ہو سکے گی۔

      جب جمعیۃ علماء اسلام نے ملک کے اجتماعی نظام کے لیے جمہوری کلچر کو پسند کیا ہے تو اس نے اپنے اندرونی نظم اور جماعت کی تشکیل میں بھی انہیں جمہوری یا شورائی روایات کو فروغ دیا ہے۔ جمعیۃ علماء اسلام بلا شبہ ملک بھر کی تمام سیاسی جماعتوں میں اپنے اس جمہوری کلچر اور شورائی روایات کی وجہ سے ممتاز بھی ہے اور منفرد بھی۔ ملک کی واحد جماعت جو اپنے قیام کے دن سے اب تک اس روایت پر چلتی آرہی ہے اور ہمیشہ اس کی قیادت کے انتخاب اور نظم کی تشکیل میں یہی روایت زندہ رہی ہے اور کبھی اس میں تعطل نہیں آیا، یہاں تک کہ مارشل لاؤں کے ادوار میں بھی جمعیۃ کی تنظیمی رکن سازی اور انتخابات ہوتے رہے۔ ملک کی کوئی دوسری جماعت ایسی شاندار روایات کی نہ مثال پیش کر سکتی ہے اور شاید نہ ہی ایسی روایات کی متحمل ہو سکتی ہے۔ لہٰذا ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ان شاندار روایات کو ہمیشہ کی طرح تابندہ رکھنے کے لیے ایسا طرز عمل اختیار کیا جائے کہ رکن سازی مہم کامیاب بھی ہو، جماعت کی تعمیر و ترقی کا سبب بھی بنے اور دوسری جماعتیں اس مہم کی خوبصورتی و خصوصیات سے متاثر ہو کر جمعیۃ علماء اسلام کی انفرادیت و عظمت کا اعتراف کر سکیں۔

     یہ تمام چیزیں تبھی ممکن ہو سکیں گی جب رکن سازی مہم کے ذمہ داران اس مہم کے مقاصد، طریقہ کار اور اہداف کو اپنے کارکنان کے سامنے موثر طریقے سے پہنچا سکیں اور ان کو اس مہم کی کامیابی پر آمادہ کر سکیں۔

     راقم کے خیال میں رکن سازی کا مقصد محض زیادہ سے زیادہ فارم پُر کرنا، فیس وصول کرنا نہیں اور نہ ہی فارموں کے اعداد و شمار کی جادوگری میں پڑ کر جماعتی عہدوں کی تگ و دو میں پڑنا اور حصولِ منصب کی دوڑ میں شامل ہونا ہے۔ بلکہ رکن سازی مہم سے ہم بنیادی طور پر کئی مقاصد حاصل کر سکتے ہیں۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔)

(انتخاب: حافظ خرم شہزاد) 

0/Post a Comment/Comments