جمعیۃ کی نئی رکن سازی مہم: مقاصد و اہداف (قسط دوم) حافظ نصیر احمد احرار


جمعیۃ کی نئی رکن سازی مہم: مقاصد و اہداف 

(قسط دوم)

✒️حافظ نصیر احمد احرار 

مقصد اول 

قدیم ساتھیوں کے لیے رکن سازی ایک تجدید عہد ہے کہ وہ سابقہ دور میں کی گئی اپنی جدوجہد پر نظر ڈالیں اور اپنی کمی کوتاہیوں پر غور کرتے ہوئے ان کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ ماضی کے حالات کو دیکھتے ہوئے اپنے مستقبل کا لائحہ عمل مرتب کرتے وقت اپنے اندر ایک نیا ولولہ، نئے جذبہ اور نئی امنگ پیدا کریں۔

 ہر شخص جماعت کا فارم پُر کرتے وقت اپنے آپ کو پرکھے کہ کیا تنظیمی زندگی میں جس اخلاص اور محنت کی ضرورت تھی میں نے دورِ ماضی میں کما حقہ اس ضرورت کو پورا کیا ہے یا نہیں۔ جماعت سے وابستگی کے جو تقاضے مجھ پر لازم تھے میں ان تقاضوں کو پورا کرتا رہا ہوں یا نہیں۔ جماعتی ساتھیوں نے مجھ پر جو ذمہ داری عائد کی تھی میں نے دیانتداری اور اخلاص سے اس ذمہ داری کو نبھایا ہے یا نہیں۔ میرے قول و عمل سے اب تک جماعت کو کس قدر فائدہ پہنچا ہے اور کتنا نقصان ہوا؟

غرض یہ کہ قدیم رکن جماعت کی نئی تنظیم سازی میں حصہ لیتے ہوئے یہ سوچ کر اپنا احتساب کریں کہ نئے آنے والے ساتھیوں کے لیے میری ذات آئیڈیل ہو اور کہیں ایسا نہ ہو کہ میری ماضی کی کوتاہیوں کا تسلسل جماعت کے مقاصد کے حصول میں رکاوٹ بن جائے اور میری ذاتی کمزوریوں کی وجہ سے جماعت اپنے نصب العین کو نسلوں میں منتقل کرنے میں ناکام رہے لہٰذا قدیم ارکان کے لیے یہ بات نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ وہ رکنیت فارم پُر کرتے وقت اپنی نیت درست کریں، اپنے دل و دماغ کو اپنے نفس اور خواہشات کے تابع کرنے کی بجائے اخلاص کے دامن کو تھامیں اور رب ذوالجلال کو حاضر ناظر جان کر تجدیدِ عہد کریں کہ وہ ماضی میں ہونے والی خطاؤں سے بچتے ہوئے پورے اخلاص اور للٰہیت سے جماعت کے پروگرام کی ترویج و اشاعت میں کردار ادا کرنے کے لیے اس کے تمام تر قواعد و ضوابط اور مقاصد قبول کرتے ہوئے رکنیت قبول کرتا ہے۔


مقصد ثانی

رکن سازی کا دوسرا مقصد ناراض لیکن مخلص ساتھیوں کو بیدار کرنا ہے جو پُرخلوص جذبات سے مغلوب ہو کر یا حالات کے جبر کا شکار ہو کر کسی نہ کسی طرح جماعت سے عملاً الگ ہو کر انفرادی طور پر بے لطف و بے کیف زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ میری مراد قطعاً وہ ساتھی نہیں جو خود غرضی تعصب و حسد اور بغض و کینہ کی بنیاد پر جماعت سے علیحدگی اختیار کیے ہوئے ہیں اور اپنی فطرت سے مجبور ہو کر جماعت کے ذمہ داروں کے راستوں میں کانٹے بچھانے اور سنگ راہ بننے میں مشغول رہتے ہیں ایسے لوگ جماعت کے لیے زہرِ قاتل اور تنظیم کی تباہی کا سامان کرتے ہیں۔ جماعتی لوگوں کا ان سے دور رہنا اور ان کے مکر و فریب سے جماعت کو بچانا بہت ضروری ہے بلکہ ایسے ساتھی جن کا دل جماعت کے لیے دھڑکتا ہے اور جن کے خیالات و تصورات میں جماعت کی خیر خواہی اور ترقی کے منصوبے پیش نظر رہتے ہیں لیکن وہ حالات کے جبر سے مجبور ہو کر یا اپنے نجی اور ذاتی مسائل کا شکار ہو کر جماعت کے نظم سے دور ہیں ان ساتھیوں کی حوصلہ افزائی کرنا اور انہیں نئی امید اور نئی آس دلا کر جماعت کے ماحول میں لا کر ان کو عملی جدوجہد سے وابستہ کرنا اور ان کے تجربات و مشاہدات سے استفادہ کرنا نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ جماعت کے متعلقہ ذمہ داران کے فرائضِ منصبی میں یہ بات شامل ہے کہ وہ ان ساتھیوں سے ملاقات کریں ان کے شکوہ شکایات شکوک و شبہات اور اشکالات کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں ان ساتھیوں کا جماعتی نظم سے وابستہ ہو جانا ان شاءاللہ جماعتی قوت و ترقی میں اضافے کا سبب ہوگا۔


مقصد ثالث

رکن سازی کا تیسرا اہم ترین مقصد نسلِ نو اور عامۃ الناس کو جمعیۃ علماء اسلام کے عظیم و پُروقار پروگرام اور شاندار تاریخ سے آگاہ کرنا ہے تاکہ آج کے پُرفتن دور میں جمعیۃ کے نصب العین، اغراض و مقاصد اور اس کی خالصتاً دینی دعوت کو اپنا کر علماء حق کی قیادت اور اسلامی اصولوں کی روشنی میں انفرادی و اجتماعی نظامِ زندگی کی تعبیر کر سکیں۔

 جب ہمارا دعویٰ ہے کہ جمعیۃ کا پروگرام خالصتاً قرآن و سنت سے اخذ کردہ ہے اور اس کی ترتیب و تشکیل وارثینِ انبیاء علیہم السلام (اپنے وقت کے جید علماء) نے کی ہے تو پھر عامۃ الناس اور نسلِ نو کا کوئی فرد جمعیۃ کی دعوت سے محروم نہیں رہنا چاہیے۔ اس دعوت کو وسعت و ترقی دیتے ہوئے ہمیں اپنے علاقے کے ہر مکتبہ فکر اور حلقے تک رسائی حاصل کرنا ہوگی تاکہ جمعیۃ کی عالمگیر فکر اور پُرسوز دعوت ہر مسلمان کے گھر تک پہنچے اور گھر گھر نبوی پرچم کی بہاریں دیکھنے کو ملیں۔

(ماہنامہ الجمعیۃ، نومبر۲۰۱۳ء)

(جاری ہے۔۔۔۔)

(انتخاب:حافظ خرم شہزاد)


0/Post a Comment/Comments