(آخری قسط)
✒️ حافظ نصیر احمد احرار
یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ جمعیۃ کی دعوت کا میدان محض دینی و علمی حلقے نہیں ہیں بلکہ ہر وہ شخص جو ملکِ پاکستان کا خیر خواہ اور دینِ حنیف سے رغبت رکھتا ہے جمعیۃ کی دعوت کا مستحق ہے ہماری مہم کی اصل کامیابی یہی ہے کہ ہم عامۃ الناس میں مختلف مکاتبِ فکر اور حلقوں تک اپنے پیغام کو پہنچا دیں اور ہر مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد جمعیۃ علماء اسلام کے کارواں میں شامل ہو کر ہمارے شانہ بشانہ چلے۔
رکن سازی مہم اصل میں تنظیم سازی کا مشکل ترین اور صبر آزما مرحلہ ہے جس میں نئے لوگوں کی آمد بھی ہے اور پرانے ساتھیوں کی تجدید بھی۔ اس مرحلے میں آنے والے مسائل اور پیش آمدہ مشکلات کا حل تبھی ممکن ہو سکے گا جب متعلقہ نظماء دیانتداری، امانت و خلوص اور احتیاط و تدبر کے راستے پر گامزن ہوں گے ان کے حسنِ تدبر اور دیانت و امانت کے نورانی اثرات آنے والی جماعت اور تشکیل پانے والی تنظیم خود بخود محسوس کر سکے گی اور اگر خدانخواستہ رکن سازی مہم میں تعصب و نفرت اور اختلاف یا جانبداری کی آلائشیں شامل ہو گئی تو پھر تشکیل پانے والی جماعت ان امراض کے گندے جراثیم سے ایسی متاثر ہوں گی کہ الامان والحفیظ۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ نظماء انتخابات کا تقرر معیار، دیانت، شرافت اور حسنِ اخلاق کو مدنظر رکھ کر کیا جائے۔ اس عمل میں مقرر ہونے والے اشخاص کی عملی کارکردگی ہی اصل میں آئندہ جماعت کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔
دورِ جدید کے تنظیم سازی کے مراحل خالصتاً تکنیکی اور حساس معاملات ہیں، وہ ذمہ دار اس میں کامیابی حاصل کر پائے گا جو اعصاب کی مضبوطی اور تنظیمی معاملات کی باریکیوں سے بخوبی واقف ہو۔ نظم، انتظام اور مینجمنٹ آج کے دور کا ایک علم اور ہنر ہے، دنیا کی ترقی اور تیز رفتاری کو سامنے رکھتے ہوئے رکن سازی مہم کو ایسی ٹیم اور افرادِ کار کی ضرورت ہے جو ان راہوں کی مشکلات سے بخوبی واقف اور عملاً آزمودہ کار بھی ہو، ورنہ ناپختگی، حکمت و تدبر کی کمی اور تنظیم سازی کے مراحل کے ناآشنائی کے نقصانات کا ازالہ شاید آئندہ پانچ سالوں میں بھی نہ ہو سکے گا۔ کون نہیں جانتا کہ ناظمِ انتخاب کا طرزِ عمل جماعت کو مضبوط اور پائیدار بنیاد فراہم کر سکتا ہے اور ناظم انتخاب کا ہی طرز عمل جماعت کی نو تعمیر شدہ عمارت کو ایسا ویران کھنڈر بنا سکتا ہے کہ پھر اس پر کوئی حسرت کار آمد نہیں ہوتی۔
رکن سازی مہم کی کامیابی کا معیار اس کے طریقہ کار اور نظماء کی ترجیحات پر ہے۔ کیا زیادہ سے زیادہ تعداد میں فارم بھر کے کاپیوں کے انبار لگا دینا اور بڑی بڑی مجالس عمومی قائم کر دینا ہی اصل کارکردگی ہے؟ یقیناً نہیں۔
کامیابی کا اصل معیار تعداد نہیں معیار ہے۔ بہت بڑی جماعت تشکیل نہ پائی جائے، محدود ارکان ہوں لیکن اتفاق اور اخلاص کی برکت سے مالا مال ہوں اور نظریاتی و جان نثار ہوں۔ یہ چند افراد ہی ان شاءاللہ ہزاروں پر بھاری ہوں گے۔ جمعیۃ علماء اسلام کے کارکن اور ذمہ دار یقیناً اس حساس اور نازک مرحلے پر کسی ایسی حرکت یہ عمل کے مرتکب نہ ہوں گے جو جماعت کی تاریخ، روشن روایات اور نورانی ماحول کو داغدار کرنے کا سبب بنے۔
آئیے! عہد کریں، جماعت کی رکن سازی مہم کو ہر ممکن طور پر کامیاب بنائیں گے اور تعصب و تنگ نظری سے دامن بچا کر محض رضائے الٰہی کے حصول اور جماعتی ترقی کے لیے جماعت کی دعوت کا پرچم لے کر نگر نگر گھومیں گے اور ایک ہی بات کہیں گے
جمعیۃ کا مقصد جمعیۃ کا پیغام
خدا کی زمین پر خدا کا نظام
(ماہنامہ الجمعیۃ، نومبر2013ء)
(انتخاب: حافظ خرم شہزاد)
ایک تبصرہ شائع کریں