عجب اک مرد حر تھا (وڈیرہ عبد الخالق موسیانی زہری) نیاز احمد شاد

عجب اک مرد حر تھا

تحریر: نیاز احمد شاد


جب کسی انسان کے ارادے پختہ ہوں تو وہ پہاڑوں سے بھی ٹکرانے کا حوصلہ رکھتا ہے اس کی راہ میں آنے والے وہ تمام پتھر جن کی اس کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں ہوتی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے

راستے پر قدم جتنی مضبوطی سے جمائے جائیں اتنے ہی منزل تک پہنچنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ اس کے راستے میں آنے والی رکاوٹیں اس کو روکنے کے لئے ہرگز کافی نہیں ہوتے۔

 بہادر لوگ طوفانوں کو اپنے پیروں کی ٹھوکروں پر رکھتے ہیں طوفانوں سے ڈر کے بیٹھ نہیں جاتے بلکہ ان کو روندتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں۔

ایسے ہی اک مرد مجاہد کی سوانح حیات قلم بند کرنے کی سعی کررہا ہوں جس نے طوفانوں سے لڑتے لڑتے وقت کو پیچھے چھوڑ دیا، جس نے اپنی پوری زندگی خدمت خلق، ظالموں سے بغاوت اور اپنوں سے ہمدردی کرتے ہوئے گزار دی۔

وہ کونسی خصلتیں و خوبیاں تھیں جو اس مرد مجاہد میں نا تھیں؟ بہادری ایسی کہ دشمن لاؤ لشکر سمیت بھی اسکا اکیلا مقابلہ کرنے سے کتراتا تھا، دلیری ایسی کہ اسکے سامنے عام مائی کا لعل ٹکتا نہ تھا، نڈر ایسا کہ بڑے سے بڑے ظالم بھی اس سے کانپ جاتے تھے، رعب و دبدبہ ایسا کہ سامنے والا تب تک چپ سا رہتا جب تک خود کلام شروع نہیں کرتے، شجاعت ایسی کہ اس کے اپنے دشمن بھی اسکے دل کو شیر کے کلیجے سے تشبیہ دینے پر مجبور ہوگئے۔

عظمت، بزرگی، تقوی، خوف خدا اور رحم دلی میں اسکا کوئی ہم پلہ نہیں تھا، عالم تو نہ تھا لیکن ہمیشہ اپنی محفل و مجلس کو علماء، صلحاء اور سلف صالحین کے واقعات سے معطر کرتا تھا۔ سادگی پسند تھا، دکھاوا، تصنع، ظاہر داری اور بناوٹ سے کوسوں دور اور حد درجہ نفرت کرتا تھا۔

بےتکلفی اتنی کہ بچے اس سے کھیلتے رہتے، بوڑھوں کے سامنے مثل اولاد بنتے، جوانوں سے باپ کی طرح پیش آتے تھے اور ہم عمروں کے لیے بڑے بھائی سے کم نہ تھے۔

بھلا کون جانتا تھا کہ سن 1951 ضلع خضدار زہری بلبل میں وڈیرہ مہر علی خان موسیانی زہری کے گھر میں آنکھ کھولنے والا اکلوتا یتیم بچہ ایک دن بلوچستان سے لیکر خیبر تک سندھ سے لیکر پنجاب تک سب کے دلوں پر راج کرے گا؟

وڈیرہ عبد الخالق موسیانی زہری صاحب رحمہ اللہ کی پیدائش دینی گھرانے میں ہوئی یہی وجہ تھی لڑکپن سے ہی اپنے آبائی علاقہ زہری میں تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔

آٹھ سال کی عمر میں باپ کے سائے شفقت سے محروم ہوا، والد کی جدائی کا غم لیے یتیمی کے کندھوں پر عصری تعلیم تیسری کلاس تک جبکہ دینی تعلیم مدرسہ مفتاح العلوم سر آپ زہری میں متوسطہ تک پڑھ سکے۔ 

والد کے انتقال کے بعد دو سال اپنے ماموں مولانا حضور بخش صاحب کی پرورش میں رہے، جب ماموں بھی اللہ کو پیارا ہوگیا تو عزیز و اقارب کے مزید نخرے برداشت نا کرسکے۔ پھر زمانے نے اس غریب، مفلس، نادار اور یتیم بچے کو اتنا دور لے جاکر پھینک دیا کہ کئی برس تک اپنوں کی شکل بھی نہیں دیکھ پائی۔ بارہ سال کی عمر میں تلاش روزگار میں کوئٹہ سے مچھ بولان، وہاں سے سبی جا پہنچا

سبی سے آگے کرایہ نہ ہونے کی وجہ سے سفر جاری نہ رکھ سکا جس کی وجہ سے ٹرک مالک نے چھت پہ برداشت نا کرتے ہوئے سبی اتار دیا تھا لیکن رب العزت نے اس بچے کو وہ ہمت، حوصلہ اور حالات سے مقابلہ کرنے کی طاقت دی تھی جس کا اندازہ آپ 12 سال کی عمر میں تلاش روزگار میں طویل سفر سے لگا سکتے ہیں، نا توشہ سفر، نا جیب خرچ اور نا ہی منزل کا پتا بس رزق حلال کے لیے توکل کرکے "ہجرت میں برکت ہے" کی نیت کرکے نکلا تھا۔

12 سالہ بچے کی گداگری سے نفرت تو دیکھئے سبی کے کسی ہوٹل میں بیٹھے بھوک سے نڈھال ہیں پھر بھی کسی سے روٹی تک کا سوال نہیں کررہا۔ اک رحم دل، دردمند اور مہربان شخص بچے کے مرجھائے ہوئے چہرے کو دیکھ کر پوچھتا ہے؟ بیٹا کھانا کھائے ہو؟ جواب نا ۔۔۔ پھر اگلا سوال ہوتا ہے کیوں نہیں کھاتے ہو؟ جواب کیا دینا تھا؟ سب کچھ بچے کے چہرے سے عیاں تھی۔

حال دل سنایا تو مہربان شخص نے اسے کھانا کھلایا، اک پرچی پہ کچھ سطور لکھ کر ساتھ میں سفر کا کرایہ دیتے ہوئے کہا "بیٹا یہ پرچی اپنی جیب میں محفوظ رکھ اور میر پور خاص چلے جا وہاں فلان نام کا ٹھیکیدار ہوگا اسکو پرچی دکھانا تمہارا کام ہو جائے گا" بچہ شکریہ ادا کرتے ہوئے فورا میر پور خاص کے لیے روانہ ہوجاتا ہے۔

اللہ کی مہربانی اور اسی مہربان شخص کی پرچی کی بدولت اسے مزدوری مل جاتی ہے پھر 2 سال مزدوری کے بعد اپنی انتھک محنت، مشقت اور سچی لگن سے اسکی قسمت چمک اٹھتی ہے اور خود سرکاری ٹھیکیدار بن جاتا ہے۔

سب انگشت بدنداں رہتے ہیں کہ 15 سالہ لڑکا اتنی جلدی ٹھیکدار کیسے بنا؟ لیکن کون کس کو سمجھائے جب بندہ ایمانداری، جان فشانی اور سچے دل سے کام کریں تو کامیابی اس کے قدم چوم لیتی ہے۔

اسی سال حیدرآباد ڈویژن مزدور یونین ڈویژن کے چیئرمین بھی بن گئے اسی منصب پر 4 سال تک رہے۔ میر پور خاص ،ٹھٹھہ اور عمر کوٹ میں بہت سے روڈ تعمیر کئے اسکے علاوہ 1967 میں حیدرآباد شاہی باغ کا روڈ بھی اسی یتیم ٹھیکیدار کی نشانی ہے۔

ان دنوں وڈیرہ صاحب رح کو ایک بہت بڑا حادثہ ایکسیڈنٹ کی صورت میں پیش آیا 2 دن تک بے ہوش ہونے کے بعد اللہ نے اسے اک نئی زندگی عطا کی۔ 1970 میں گاؤں سے عزیز و اقارب انکو ڈھونڈتے ڈھونڈتے حیدرآباد پہنچے، بڑی منت و سماجت کرکے وڈیرہ صاحب رحمہ اللہ کو مناکر واپس اپنے آبائی گاؤں (زہری) لائے۔

ٹھیکیداری کے ساتھ ساتھ 1970 میں اپنی سیاسی زندگی کا آغاز نیپ سے کیا، اگر کسی کو یاد ہو یہ وہی دور تھا جس وقت مفتی محمود رحمہ اللہ خیبرپختونخواہ میں اور سردار عطاء اللہ مینگل بلوچستان میں وزیراعلی تھے۔

سردار عطاء اللہ مینگل کے وزیر اعلی بننے کے بعد وڈیرہ صاحب رحمہ اللہ اپنے کچھ ساتھیوں سمیت سردار سے ملنے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ پہنچے، اسی ملاقات نے نیپ پارٹی چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا یا پھر یوں سمجھ لیں اسی ملاقات نے اسکی زندگی بدل ڈالی تھی۔

ہوا کچھ یوں تھا بقول وڈیرہ صاحب رحمہ اللہ "میں نے سردار صاحب سے کہا سائیں یہ لوگ وہی ہیں جن سے ہم نے الیکشن کے دنوں بہت سے وعدے کئے تھے اب وعدہ وفا کا وقت ہے" سردار صاحب نے اپنے ہاتھ میرے ہاتھ میں لگا کر کہا "وڈیرہ صاحب آپ کو کیوں اتنی جلدی ہے؟ حکومت ابھی ابھی ملی ہے اگر اللہ بھی چاہے اتنی جلدی ہم سے حکومت نہیں چھین سکتا" وڈیرہ صاحب رحمہ نے کہا کہ "اسی دن سے میں نے نیپ سے راہیں جدا کی" سردار کی حکومت اب تک پوری طرح اپنے پاؤں پہ کھڑی نہیں ہوئی تھی کہ ضلع لسبیلہ میں اک بڑی جنگ چھڑ گئی جس میں تقریبا 10 بندے مارے گئے اسی کو جواز بناکر اسکی حکومت کے تخت کو الٹ دیا گیا اور مفتی محمود رحمہ اللہ نے اپنے اتحادی جماعت (نیپ) کی حکومت بلوچستان گرانے پر برہم ہوکر احتجاجاً اپنی وزارت اعلیٰ سے مستعفی ہوکر سیاسی دوستی کا ثبوت دیا۔

سن 1973ء میں وڈیرہ صاحب رحمہ اللہ نے ضلع قلات میں مولانا عبداللہ درخواستی صاحب رحمہ اللہ کی قیادت میں جمعیت علمائے اسلام میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی جس وقت مفتی محمود رحمہ اللہ مرکزی جنرل سیکریٹری تھے۔

سن 1973ء سے 1977ء تک علاقے میں سرداروں، نوابوں اور میروں کو ناکوں چنے چبوائے اور یہیں سے انکے بہت سارے سیاسی حریف بنے۔ عوام میں گھل مل کر بہت کم مدت میں مقبولیت حاصل کی، وڈیرہ صاحب رحمہ اللہ کی اپنی قوم بھی بڑی تھی لیکن اس سے زیادہ اسکی شخصیت ایسی تھی ہر بندہ پہلی ملاقات میں اسکا گرویدہ بن جاتا تھا 1974ء میں وڈیرہ صاحب میر سفر خان زرکزئی کے ساتھ سرداری نظام کے خلاف کئی عرصہ تک باغی بھی رہے۔

1977ء میں مفتی محمود رح نے بھٹو کے خلاف " قومی اتحاد پارٹی" بنائی جس میں وڈیرہ صاحب رحمہ اللہ نے بھٹو حکومت کے خلاف عوام کی بڑی تعداد لیکر جلسے جلوس کئے۔ بھٹو حکومت کا تخت زمین بوس تو ہوا لیکن اسی سال اسی تحریک میں پیش پیش ہونے کی پاداشت میں گرفتار بھی ہوئے۔ وڈیرہ صاحب رحمہ اللہ کی اسیری پر ہر بندے کو رشک آتا تھا اور کیوں نہ آئے؟ جب اسیر کے لیے مفتی محمود رحمہ اللہ جیسے عظیم ہستی خود خضدار چل کر آئے اور اسے رہائی دلوائی۔ تو بتائے بندہ رشک کیونکر نا کرے؟

1985ء میں جنرل ضیاء الحق صاحب کے دور میں غیر سیاسی الیکشن میں ڈسٹرکٹ کونسل چیئرمین کے لیے پہلی بار میر احمد خان زرکزئی کا زہری کے حلقے سے مقابلہ کیا لیکن صرف 300 ووٹ سے ہار گیا۔ زہری وہی حلقہ تھا جہاں نوابوں، سرداروں اور میروں کا الیکشن میں مدمقابل کھڑا ہونا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا لیکن اس جہالت، غلامی اور محکومی کے طوق کو سب سے پہلے وڈیرہ صاحب رح نے گلے سے نکال پھینکا اس کا ہر فورم پہ مقابل کیا۔

میر احمد خان کے علاوہ میر رسول بخش زرکزئی کا بھی الیکشن میں ڈٹ کر مقابلہ کیا، 1997ء میں پہلی بار جماعت نے اسے صوبائی ٹکٹ جاری کی۔ جھالاوان کے باسیوں نے وہ دن بھی دیکھے جس حلقے کو وڈیرہ صاحب رحمہ اللہ کے سیاسی حریف اپنی وراثت سمجھتے تھے انکو اسی حلقے میں شکست سے دو چار کردیا۔ وڈیرہ صاحب رحمہ اللہ کے ساتھ جماعتی احباب کے علاوہ وہ مظلوم طبقہ بھی تھا جو صدیوں سے نوابوں، سرداروں اور میروں کے ظلم و ستم کی چکی میں پسے چلے آرہے تھے اور مدمقابل حریف کے ساتھ سارے نواب، سردار اور میر ایک پلیٹ فارم (بی این پی) پہ تھے بزنجو، مینگل، جتک، زہری، ساسولی، قلندرانی اور موسیانی وڈیرہ صاحب رحمہ اللہ شکست سے دو چار کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے لیکن سب کو منہ کی کھانی پڑی۔

مخالف امیدوار اپنی شکست کو ھضم نا کرسکا تو اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کئے حتی کہ وڈیرہ صاحب رح کو قتل کی دھمکی تک ملی، سب وڈیرہ صاحب کی موت کی خبر سننے کے لیے بیتاب تھے یہی سمجھ رہے تھے آج یا کل وڈیرہ صاحب رحمہ اللہ کا آخری دن ہوگا لیکن اس درویش صفت شخص جس کو خدا کے سواء کسی سے زرہ برابر بھی خوف نہ تھا وہ عام بندے سے کیا ڈر جاتا خوب ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اللہ نے دشمنوں کے تمام منصوبے خاک میں ملا دیئے۔ 

پر ہائے افسوس صد افسوس، جس طرح جلال الدین خوارزم شاہ کو تاریخ نے خاموش کردیا ہے حالانکہ جلال الدین شاہ نے سب سے بڑے اسلام کے دشمن، دنیا کے سفاک درندہ صفت انسان اور بےرحم جنگجو چنگیز خان منگول کا خوب ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا اور اسے شکست دی تھی اور تاریخ میں چنگیز کے مقابل کا جلال الدین خوارزم شاہ جیسا بہادر، نڈر اور بےباک سپہ سالار نہیں گزرا ہے۔ کئی بار چنگیز خان کو جنگ کے میدان سے پسپا کرکے بھاگنے پر مجبور کردیا تھا۔ اسی طرح وڈیرہ عبد الخالق زہری صاحب رحمہ اللہ نے بھی اپنے دور کے چنگیزوں کا خوب جوان مردی سے مقابلہ کیا لیکن جھالاوان کے احسان فراموش عوام نے اپنے اس محسن کو مکمل فراموش کردیا ہے جو کہ افسوس کا مقام ہے۔

جیت کر پہلی بار صوبائی اسمبلی پہنچا تو اسے وزیر صحت و حیوانات کا قلمدان ملا۔

وزارت کی مدت تو دو سال رہی لیکن ایسی وزارت کا دور شاید کہ کسی نے گزاری ہو اور عوام نے دیکھی ہو، اس مختصر مدت میں پورے بلوچستان کا دورہ کیا۔ 

1100 گیارہ سو مستحق لوگوں کو مختلف محکموں میں ملازمت دی۔ 150 ایمبولینس بلوچستان بھر میں تقسیم کئے خصوصاً خضدار کے سب تحصیلوں میں ضلع خضدار کے کچھ کاموں میں سے پہلی دفعہ انجیرہ ٹو زہری بلیک ٹاپ روڈ، ڈھاک ڈیم زہری، کرخ ٹو خرزان کچا سڑک اس کے علاوہ مولہ پاشتہ خان کھنڈ سڑک جس پر گدھا چل نہیں سکتا تھا انتہائی کم بجٹ میں وڈیرہ صاحب رحمہ اللہ نے پہاڑوں کو چیر کر ایسی سڑک کی بنیاد رکھی جس پرآج کل ہر عام و خاص گاڑیاں بآسانی گزر سکتی ہیں شامل ہیں۔

اسکے علاوہ باغبانہ گریڈ جس کے لیے کوئی زمین دینے کو تیار نہیں تھی زمین لی اور گریڈ کو منظور کرکے باقاعدہ پایہ تکمیل تک پہنچایا۔

سول ہسپتال خضدار کا انتہائی نگہداشت وارڈ اور ڈینٹل یونٹ کا سنگ بنیاد اسی درویش نے اپنی وزارت کے دور میں اپنے ہاتھ مبارک سے رکھا۔

اپنی وزارت میں سعودی عرب، ترکی، کویت، قطر، افغانستان اور دبئی کا بھی سیاسی دورہ کیا۔

1999ء میں جمہوری و آئینی نواز حکومت کا خاتمہ ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے کیا۔ وڈیرہ صاحب رحمہ اللہ غریبوں، مسکینوں اور بے کسوں کے لیے مسیحا تھا، پریشان حال اور دکھی دلوں کے لیے ٹھنڈا سائبان تھا، مظلوم کی حمایت ظالم سے بغاوت اسکا نصب العین تھا۔ آپ جب بھی اسے پاتے تو ہمیشہ سچوں کا طرف دار، حق کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہونے والا اور ظالم کو للکارتے ہوئے پاتے۔

 اگر کسی کو یاد ہو 28 جنوری 2002ء میاں غنڈی کوئٹہ کا المناک سانحہ جس میں زمیندار ایکشن کمیٹی کے شرکائے جلوس پر اندھا دھند فائرنگ اور آنسو گیس شیلنگ کی گئی 3 زمیندار شہید جبکہ کئی زخمی ہوئے، جلوس کی قیادت کرنے والوں میں وڈیرہ صاحب رحمہ اللہ بھی صف اول میں تھا۔

جھاولان زمیندار ایکشن کمیٹی کا چیئرمین بھی تھا پھر تامرگ بلا مقابلہ مسلسل اسی کمیٹی کا چیئرمین رہا۔

اپنی بہادری، شجاعت اور دلیری کی وجہ سے جہاں دشمنوں کی نیند حرام کیا تھا دوسری طرف مظلوموں، غریبوں، مسکینوں کمزور محتاجوں کے لیے اک سپہ سالار بھی تھا۔ جماعتی خدمات، کاوشیں اور لگن تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی لیکن ناانصافی، بدامنی، چوری، ڈکیتی، اغواء برائے تاوان اور خاص کر ظلم و ستم و بدمعاشی کرنے والے ظالموں، جابروں اور ستمگروں کے لیے بے نیام تلوار کے مانند تھا۔

اب تک زہری میں کسی کو امن و امان کی معطر فضاء محسوس ہورہی ہے وہ سب اسی نڈر، دلیر اور ببر شیر کی مرہون منت ہے۔

12 مئی 2017ء سانحہ مستونگ میں مولانا عبدالغفور حیدری کے ساتھ تھے جو خود کش حملے میں موت کے منہ سے بال بال بچ گئے۔

وڈیرہ عبد الخالق موسیانی زہری صاحب رحمہ اللہ کو جماعت نے خلق خدا کی خدمت کا ایک اور عظیم موقع عنایت کی، یہ موقع امتحان بھی تھا اور وڈیرہ صاحب رح کا خواب بھی وہ رب کی ملاقات سے پہلے اپنی عوام کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے تھے، عوام کی محکومی، کسمپرسی اور مفلسی اس سے دیکھی نہیں جاتی تھی حالانکہ عمر کے آخری حصے میں تھے چلنا پھرنا محال ہوچکا تھا لیکن ایمانی طاقت اتنی تھی کہ وہ عوام کے لیے چٹانوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے، طوفانوں سے لڑنے اور بڑے سے بڑے جابر دشمن سے ٹکر لینے کی طاقت اب بھی رکھتے تھے۔

جماعت نے دوسری بار 25 جولائی 2018ء کو ہونے والے جنرل الیکشن میں پی بی 38 کا صوبائی ٹکٹ دیا یہ معرکہ بظاہر سیاسی مقابلہ تھا جس میں دو امیدوار مدمقابل تھے لیکن ملک کے حساس حلقوں میں اسکا شمار ہونے لگا، حالانکہ صوبائی نشست تھی پھر بھی سب کی نظریں اسی حلقے پر مرکوز تھیں، یہ حلقہ الیکٹرونک میڈیا، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا سمیت خاص کر بلوچستان کی عوام کے لیے توجہ کا مرکز بن چکا تھا جس میں ایک سابق وزیر اعلی بلوچستان اور اک درویش کے درمیان کانٹے دار اور حلقے کے لیے فیصلہ کن سیاسی مقابلہ ہونے جارہا تھا۔

بی این پی مینگل اور جمعیت کا ضلع (خضدار) میں سیاسی اتحاد ہوچکا تھا جس سے مزید مخالفین کی نیند حرام ہوچکی تھی۔ 35 سال سے مسلسل قابض امیدوار کو جب اپنی شکست فاش واضح دکھائی دی تو حلقے کی عوام کو ڈرانا دھمکانا شروع کیا جب اس سے خاطر خواں نتیجہ دیکھنے کو نا ملا تو بے دریغ ڈھائی سالہ وزارت اعلی میں جمع کردہ دولتیں لٹانا شروع کئے جس میں خوب ضمیروں کی خرید و فروخت کی منڈی لگی، بہت سے سفید پوشوں نے اپنے ضمیروں کا انتہائی سستے دام سربازار سودا کیا۔

"آخر وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے "اتنے حربے استعمال کرنے کے باوجود قبائلی چیف سابق وزیر اعلی کو وڈیرہ عبد الخالق زہری موسیانی صاحب رحمہ اللہ نے عوام کے ووٹ سے شکست سے دو چار کردی۔

مخالف امیدوار اپنی شکست ہضم نا کرسکے، مقتدر قوتوں کے پاؤں پڑے، منت سماجت کی اور انصاف کے علمبرداروں کا منہ نوٹوں سے بھر کر منہ مانگی قیمت پر انکا قلم خریدا اور تین دن بعد وڈیرہ صاحب رح کے 350 ووٹ کی لیڈ گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوگئی یا کردی گئی ستم بالائے ستم دیکھئے الٹا وڈیرہ صاحب رحمہ اللہ پر مخالف کو 29 ووٹ کی لیڈ مل گئی۔ فیاللعجب

وڈیرہ صاحب رح نے عوام کے حق رائے پر ڈاکہ ڈالنے والوں کے خلاف طیش میں آکر مین آر سی ڈی روڈ بلاک کرنے کی کال دی یوں 10 منٹ میں جماعت کے پروانے امنڈ آئے کوئٹہ ٹو کراچی روڈ مکمل بلاک ہوا۔ رات گئے دھرنا جاری رہا پھر ضلعی امیر کے حکم پر دھرنے کو کل تک کے لیے ختم کیا گیا۔

لیڈ کم تھی اس لیے جماعت اور ضلعی قائدین نے پہلے آر او کو سرکاری بیلٹ پیپرز جو 198 تھے کو گنتی کرنے پر آمادہ کئے۔ RO صاحب جس کی جیب تازہ تازہ نوٹوں سے پھوٹ رہی تھی اسے اپنی وفاداری بھی تو دکھانی تھی نا؟

اس نے قانون کا رنڈی رونا شروع کیا کہ 198 ملازمین کے ووٹ سے صرف 42 کو گنتی میں لایا جائے گا اور باقی کیوں ایک لفافے میں بند ہیں ۔ وڈیرہ صاحب رح نے یہ بھی مان لیا کہا "چلو گنتی کرو ان شاءاللہ انہی 42 ووٹوں سے تیرے لاڈلے کو شکست دیکر دکھاؤں گا" جب 42 کی گنتی شروع ہوئی تو 20 لفافوں میں 13 وڈیرہ صاحب رح کے حق میں نکلے 2 مخالف امیدوار کو ملے اور 5 باقی اُمیدواروں کو پڑے۔ 

جب لاڈلے کی شکست یقینی دکھ رہی تھی اور آر او صاحب کو ہر صورت میں لاڈلے کی ڈوبتی کشتی کو بچانے کا ٹاسک ملا تھا۔ سو قاضی صاحب نے باقی 22 پر سیریل کا بہانہ بناکر انکو ریجیکٹ کرکے یوں ردی کی ٹوکری میں ڈال دی۔

  جب یہاں سے انصاف کے دروازے بند ہوئے تو وڈیرہ صاحب رح جماعت کے فیصلے تحت الیکشن کمیشن اسلام آباد میں کیس دائر کی، دو ماہ بعد وہاں سے کیس ٹربیونل کوئٹہ منتقل ہوا۔

اپنے حریف امیدوار کو پہلی بار انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا اور لگاتار دو ماہ ٹربیونل کا چکر کاٹنے کے بعد آخر کار فیصلہ وڈیرہ صاحب رحمہ اللہ کے حق میں آیا کہ" ملازمین کے 178 ووٹوں کی گنتی کی جائیں" لیکن یہاں بھی کڑک نوٹوں نے جلد اپنے اثر دکھائی سارے علمبرداروں کے منہ پہ تالا لگ گیا کیس کو طول دینے کے لیے تاریخ پہ تاریخ دیکر ہر بار مختلف بہانے تراشتے رہے وڈیرہ صاحب رح نے عوام کے حق رائے پہ ڈاکہ زنی کرنے والے ڈاکوؤں کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان کا دروازہ کھٹکھٹایا۔

یوں آج تک وہ کیس سپریم کورٹ آف پاکستان کے سرد خانوں میں گھٹ گھٹ کر سانس لے رہا ہے۔

بروز پیر 15 جون 2020 کا سورج قیامت بن کر طلوع ہوا، بوڑھے، جوان، بچے اور عورتیں سب دھاڑیں مار مار کر اپنی بدقسمتی پہ ماتم کناں تھے۔ ہر شخص گونگا، بھرا اور بت بنا ہوا تھا۔ آسمان پہ کالی گھٹا چھائی ہوئی تھی، ہر اک کے پاؤں تلے زمین نکل چکی تھی، اس روز جانور بھی گریہ زاری کررہے تھے ایسا لگتا تھا جیسا اک شخص دنیا سے کوچ نہیں کیا تھا بلکہ سب کے سروں سے سائے شفقت چھن چکی تھی، جس شفقت کے سائے تلے یتیم، مسکین، مفلس، نادار غریب اور مظلوم سب بے غم ہوکر زندگی گزار رہے تھے۔

کوئی آنکھ ایسی نہیں تھی جو وڈیرہ عبد الخالق زہری صاحب رحمہ اللہ کی مفارقت میں اشکبار نہ ہو۔ مسلم اپنی جگہ غیر مسلم بھی بلک بلک کر رو رہے تھے۔ اپنے اپنی جگہ دشمن بھی غمزدہ تھے۔ جس کسی کو جہاں اطلاع داغ فراق ملی وہی کھڑے کھڑے اس پر سکتہ طاری ہوا تھا۔

بوڑھے اتنی شدت سے رو رہے تھے جیسے انکی جوان اولاد شادی کی بندھن میں بندھنے سے ایک ہفتہ قبل فوت ہوا ہو۔ مائیں ایسے سسک سسک کر رو رہی تھیں جیسے ان کے اکلوتا بیٹے کا انتقال ہوا ہو۔ نوجوان ایسے آنسوں بہا رہے تھے جیسے انکا بڑا کفیل بھائی اچانک موت کی نظر ہوا ہو۔

بچے اور بچیاں غمزدہ اپنی ماؤں سے لپٹ کر ایسے بلک بلک کر چیخ رہے تھے جیسے انکا دادا و نانا دنیا سے رحلت کرچکے ہوں۔

غرض بڑے سے لیکر چھوٹے تک، بوڑھے سے لیکر جوان تک سب پہ 15 جون قیامت صغرا بن کر ٹوٹی تھی ہر سوں آہ و فغاں، چیخ و پکار تھی۔ 

شاعر سچ کہتا ہے 

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی

اک شخص نے سارے شہر کو ویران کر دیا

لفظ "ویران" پھر بھی ناکافی ہے وڈیرہ صاحب رح کی جدائی نے سارے شہر کو لاوارث، بنجر، سنسان اور کھنڈر بنا دی۔ 

یہی سوچ کر پسماندگان نے صبر کی گھونٹ حلق سے نا چاہتے ہوئے انڈیل دی کہ رب کا فرمان ہے "کل نفس ذائقہ الموت" رب کا کوئی حکم، امر اور کام کسی حکمت سے خالی نہیں۔

69 سال کی عمر میں مختصر علالت کے بعد 15 جون بروز پیر صبح 10:30 بجے زہری کے چشم و چراغ ہمیشہ کے لیے بچھڑ گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون

جنازہ نماز شام 4 بجے آبائی علاقہ خالق آباد چشمہ زہری میں ادا کی گئی کم وقت دینے کے باوجود زہری کا اب تک کا سب سے بڑا جنازہ تھا۔ 

کئی ماہ تک تعزیت کا سلسلہ جاری رہا مرکزی قائدین سے لیکر قبائلی معتبرین، میر معتبر دور دراز سے ملک کے کونے کونے سے آکر انکے فرزندوں سے اظہار تعزیت کی۔ قائد ملت اسلامیہ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب مدظلہ العالی نے بھی بنفس نفیس خود آکر اظہار تعزیت کے ساتھ ساتھ اظہار ہمدردی، غمخواری اور غمگساری کی۔

وڈیرہ عبد الخالق زہری رحمہ اللہ وفات تک جمعیت علمائے اسلام کے اہم عہدے پہ فائز تھے جن میں مرکزی کونسل کے رکن، صوبائی ڈپٹی جنرل سیکریٹری، ضلعی ڈپٹی جنرل سیکریٹری شامل تھے۔ جماعت نے وڈیرہ صاحب رح کے تمام عہدے مرحوم کے سیاسی جانشین فرزند ارجمند وڈیرہ غلام سرور خالق صاحب کو سونپ دی۔ 

دعا گو ہیں کہ اللہ مزید اس خاندان سے جماعت کے لئے خدمات لے۔ آمین


0/Post a Comment/Comments