قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا عوامی اسمبلی مظفر گڑھ سے خطاب
یکم جون 2024
الحمدلله الحمدلله وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی لاسیما علی سید الرسل و خاتم الانبیاء وعلی آله وصحبه و من بھدیھم اھتدی، اما بعد فاعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم بسم الله الرحمٰن الرحیم
یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ اللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ۔ صدق الله العظیم
جناب صدر محترم، اس عوامی اسمبلی کے اسپیکر، محترم اراکین ایوان، میرے بزرگو، دوستو اور بھائیو! مظفرگڑھ میں آج جنوبی پنجاب جمع ہیں، تاحد نگاہ انسانوں کا سمندر ہے جو اس بات کو پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالکوں کو اور بین الاقوامی سطح کے جابروں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ ہم نے اس بڑے اجتماع کی وساطت سے فروری 2024 کے عام انتخابات اور ان کے نتائج کو مسترد کر دیا ہے، ووٹ عوام کا حق ہے، حکومتیں بنے گی تو عوام کی مرضی سے بنے گی، کوئی کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو میں ان طاقتوروں کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کو اپنی طاقت کا نشہ ہوگا لیکن ہمارے پاس قومی غیرت و حمیت موجود ہے ہم تمہارے طاقت کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں اور علی الاعلان کہتے ہیں کہ ہم دنیا میں بھی اور پاکستان میں بھی کسی طاقتور کی غلامی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
میرے محترم دوستو! یہ نہیں ہو سکتا کہ تم عوام کے حق سے مذاق کرتے رہو، عام شہری کا مذاق اڑاتے رہو، اور اپنے بڑے بڑے محلات میں ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کر یہ کہتے رہیں کہ اس کی کیا حیثیت ہے ان کے ووٹ کی کیا حیثیت ہے، آج یہ جلسہ آپ کو بتا رہا ہے کہ ان کے ووٹ کی حیثیت کیا ہے، ان اسمبلیوں کو ہم اسٹیبلشمنٹ کی اسمبلیاں کہتے ہیں یہ عوام کی اسمبلیاں نہیں ہے اور نہ ہی ان کو عوام کا نمائندہ ادارہ تسلیم کرنے کو تیار ہے۔ لہٰذا اب ہم نے چلنا ہے ہم نے آگے سفر کرنا ہے، ہمت ہے یا تھک گئے ہو؟ اس سفر میں اگر جیل آئے تو جائیں گے اور جیل سے آگے اگر قبر کا مرحلہ آئے گا تو اس مرحلے کو بھی انتہائی خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کریں گے۔
میرے محترم دوستو! ہمیں اداروں کا احترام ہے، ہم پارلیمنٹ کو عوام کا نمائندہ ادارہ سمجھتے ہیں لیکن اس میں عوام کے نمائندے ہونے چاہیے، اس میں جاسوسی اداروں کے نمائندے نہیں ہونے چاہیے! ہم فوج کا احترام کرنا چاہتے ہیں وہ ہماری دفاعی قوت ہے لیکن ہر فوجی نے حلف اٹھایا ہے جب وہ فوج میں بھرتی ہوتا ہے اس کی کمیشن ہوتی ہے تو وہ حلف اٹھاتا ہے کہ میں سیاست میں کوئی حصہ نہیں لوں گا، میں سیاست سے لا تعلق رہوں گا، آج سیاست پر ان کا قبضہ ہے، جب آپ اپنا حلف توڑیں گے تو میں علی الاعلان کہتا ہوں کہ حلف توڑنے کے بعد پھر تم فوجی نہیں رہے، پھر تمہارا احترام میرے اوپر لازم نہیں رہا۔
میرے محترم دوستو! شاید تمہیں گھمنڈ ہو کہ تمہاری پشت پر امریکہ ہے شاید تمہیں گھمنڈ ہو کہ عالمی قوت کو اپنے کٹھپتلی چاہیے اور ہم نے کٹھپتلی حکومت بنا لی ہے، میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ جن پر تمہیں گھمنڈ ہے پرسوں افغانستان سے دم دبا کر بھاگا ہے اگر افغان قوم ان کو بھگا سکتی ہے اپنی سرزمین سے تو پاکستانی قوم بھی ان کو اپنی سرزمین سے بگا سکتی ہے۔
میرے محترم دوستو! اس ملک کو بنانے میں آپ کا کوئی کردار نہیں ہے! ہاں اس ملک کو توڑنے میں تمہارا کردار ہو سکتا ہے، تاریخ کو ٹھیک کرانا چاہتا ہیں، ذرا تاریخ کے اوراق کو پلٹیے اور ان اجتماعات کو روایتی اجتماع مت سمجھیے یہ لوگ صرف ایک جلسہ کرنے کے لیے اکٹھے نہیں ہوئے یہ انقلابی جذبے کے ساتھ اکٹھے ہے اور سیاسی میدان بھی آپ کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں اور سیاسی میدان میں آپ کو مقابلہ کرنا جانتے بھی ہے۔ حالات کو وہاں تک مت لے جاؤ کہ جہاں تم واپس نہ آسکو اور ہم بھی واپس نہ آسکے۔ یہ ملک ہمارا ہے، یہ ملک ووٹ کا ملک ہے، یہ ملک بوٹ کا ملک نہیں ہے!
ایک زمانہ تھا جنرل مشرف پاکستان کے ڈکٹیٹر تھے ایک دفعہ مجھے کہنے لگے کہ مولانا صاحب مان جاؤ نا امریکہ آقا ہے ہم ان کے غلام ہیں نا، میں نے کہا جنرل صاحب یہ تو میں مانتا ہوں کہ امریکہ آقا ہے لیکن کردار دو ہیں ایک تیرے آباؤ اجداد کا کردار جس نے آقا کے سامنے سجدہ کیا اور ایک میرے آباؤ اجداد ہیں جنہوں نے ان کی خدائی اور آقائی کو انکار کر کے اپنے سر تک کٹوا دیے لیکن جھکنے کے لیے تیار نہیں ہوئے، تجھے اپنے آباؤ اجداد کی تاریخ مبارک مجھے اپنے اکابر و اسلاف کی تاریخ مبارک۔
میرے محترم دوستو! انگریز سے آزادی حاصل ہوئی انگریز سے آزادی تم نے حاصل نہیں کی جس آزادی پر تم اترا رہے ہو، یہ تمہاری عیاشیوں کے نتیجے میں نہیں ملی، یہ انگریزوں کی غلامی میں نہیں ملی، ڈیڑھ سو سال سے زیادہ عرصہ میرے اکابر و اسلاف کا خون بہتا رہا ان کے سر کٹتے رہے وہ سولیوں پہ چڑھتے رہے تب تمہیں آج کا دن انجام میں ملا ہے اور نتیجے میں ملا ہے ورنہ تم نے تو ہمیں غلام بنا رکھا ہے۔ سو اگر ہم سو سال انگریز سے لڑ سکتے ہیں تو انگریز کے بچونگڑوں سے بھی لگ سکتے ہیں۔ بس ایک آپ کو تھوڑا سا حوصلے کی ضرورت ہوگی ہمت نہیں ہارنی، پارلیمنٹ کی طرف مت دیکھو کہ وہاں کتنے لوگ بیٹھے ہیں اور کتنے نہیں، اس میدان میں دیکھو کون بیٹھا ہے اور کتنے بیٹھے ہیں۔
میرے محترم دوستو! جو ملک ہم نے لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر حاصل کیا وہی ایک ہی قوت ہے پاکستان میں جو لا الہ الا اللہ کے سامنے رکاوٹ ہے، جس نے 75 سال میں اس ملک کو اسلامی ملک بنانے میں سیاست دانوں کے کردار کا راستہ روکا، جنہوں نے صرف اسی لیے اپنی مرضی کے پارلیمنٹ بنادیے ہیں اور اپنی مرضی کے لوگوں سے پارلیمنٹ کو بھر دیتے ہیں کہ ان کو قرآن و سنت سے کوئی دلچسپی ہی نہیں ہوتی، اگر لا الہ الا اللہ کے ساتھ 75 سال تک ہم نے یہ کھلواڑ کیا ہے تو آپ بتائیں کہ کوئی خدا کے سامنے بھی پیش ہونے کا آپ کا ایمان ہے؟ تم نے اسلام سے غداری کی، اجلاس بھی سپریم کورٹ میں یہی مقدمہ چل رہا ہے کہ پاکستان میں قادیانی ہو جو بھی ہو کھلے بندوں کو اپنے عقائد کی پرچار کرنے کی اجازت ہے، ہم نے اس فیصلے کو چیلنج کیا ہے، اگر ایک شخص حلال روزی کمانا چاہتا ہے لیکن ذریعہ معاش کہتا ہے میری مرضی ہے میں ہیروئن بیچ کر اپنی روزی بنا سکتا ہوں تو کیا آپ اس کو اجازت دیں گے؟ تو پاکستان میں اسلام کے لیے ہیروئنوں کی حکومت کیوں ہے! تم نے جمہوریت کا بیڑا غرق کیا، قائد اعظم نے کہا اس ملک میں جمہوریت ہوگی لیکن جنرل ایوب خان سے لے کر آج تک ہم پر جنرل ہوئی حکومت کر رہا ہے، جمہوریت کا جنازہ نکال دیا ہے جہاں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں اور میں تجربہ رکھتا ہوں پارلیمنٹ کا، کیا قانون سازی پارلیمنٹ کے ارکان اپنی مرضی سے کر سکتے ہیں؟ کیا تمہاری اجازت کے بغیر کوئی ایک قانون سازی ہو سکتی ہے؟ پارلیمنٹ کو غلام بنا رکھا ہے آپ لوگوں نے جی، معیشت کا حال دیکھ لو 75 سال سے ہماری معیشت گرتی چلی جا رہی ہے، قومیں ترقی کرہے ہیں، چین کہاں کھڑا ہے، ہندوستان کہاں کھڑا ہے، ملائشیا کہاں کھڑا ہے، دو سال ہوئے امریکیوں سے آزادی کے بعد افغانستان بھی آپ سے معاشی لحاظ سے آگے ہے اور ہم گرتے جا رہے ہیں، اس کا معنی یہ ہے کہ پاکستانی معیشت کے مالک عوام نہیں ہے مخصوص گھرانے ہیں، مخصوص طبقے ہیں، مخصوص ادارے ہیں جو ملک کی معاش پر اللہ عیاشی کر رہے ہیں لیکن غریب آدمی وہ ایک لقمہ روٹی کے لیے ترس رہا ہے۔ آج کسان کا کیا حال ہے، کسانوں نے محنت کی زمین آباد کی گندم حاصل کیا لیکن حکومت ان سے خریدنے کے لیے تیار نہیں، کیوں تیار ہو، کہ ابھی ہماری فصل پک رہی ہے اور تمہیں پتہ ہے کہ دو مہینے کے بعد اپنا غلہ سامنے آئے گا اور ہم نے خریدنا ہے، تم نے 35 لاکھ ٹن گندا کیڑے کا مارا ہوا گندم باہر سے کیوں منگوایا تھا، کس سے سودا کیا تم نے، کیوں تم نے پنجاب کے اور پورے ملک کے زمیندار کا قتل کیا ہے، اور یاد رکھو پنجاب کے زمینداروں پنجاب کے کسانوں جمعیت علماء وہ جماعت ہے جب سن 1968 میں جمعیت علماء اسلام کا پہلا منشور چھپا تو ہماری قیادت نے سب سے پہلے کسان کا نعرہ لگایا تھا، مزدور کا نعرہ لگایا تھا، غریب کا نعرہ لگایا تھا اور آج بھی ہمارے منشور میں کوئی ترمیم نہیں ہوئی، ہم اسی نظریے پر قائم ہیں، بجلی کے بلوں کو دیکھو، غریب کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے پھر جب احتجاج کرتے ہیں کہتے ہیں تم تو بغاوت کر رہے ہو، بغاوت ہم نہیں کر رہے بغاوت وہ طاقتور ادارے کر رہے ہیں جنہوں نے قانون کو اپنے ہاتھوں میں لیے ہوئے ہیں۔
کسی زمانے میں سکندر مرزا نے ایک جنرل تھا اپنے ہی سن 1957 کے آئین کو کچرا کہا تھا اپنے ہی آئین کو، کہا یہ کیا کچرا ہے اور جنرل ضیاء الحق صاحب آئے اور انہوں نے کہا یہ کیا آئین ہے یہ تو دو ورقیں ہیں ادھر پھینک دو، پھر مشرف آیا اس نے آئین میں ناجائز ترامیم کرنے کی کوشش کی، لیکن میرے محترم دوستو، ہمارا ہدف واضح ہے کہ ہم عوام کو ان کا حق واپس دلائیں گے ان شاءاللہ لیکن یاد رکھو اپنے حق کے لیے خود لڑنا ہوگا اور ہم ان طاقتور قوتوں کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ اپنا حق تم سے بھیک مانگ کر نہیں لینا تم سے جنگ لڑ کر حاصل کرنا ہے۔
میرے محترم دوستو! تمہاری کارکردگی ہم جانتے ہیں، تم نے 2010 سے لے کر آج تک دہشت گردی کے مقابلہ کرنے اور اس کے خاتمہ کرنے کے لیے اداروں کو جھونک دیا لیکن کیا آج اس سے کہیں زیادہ دہشت گردی نہیں ہے؟ کئی گنا اس میں اضافہ ہوا، اب پردہ چھپاتے ہیں افغانستان کی حکومت ذمہ دار ہے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے، کیوں بھئی؟ اس لیے کہ دہشت گرد وہاں سے آتے ہیں، بھئی وہاں سے آتے ہیں تو سرحد عبور کر کے آتے ہیں تو پھر سرحد پر تم کیوں نہ روک سکے! اور پھر میں بتانا چاہتا ہوں جنرل مشرف نے افغانستان پر حملہ کرنے کے لیے پاکستان کے ہوائی اڈے امریکہ کو نہیں دیے؟ افغان پر حملہ کرنے کے لیے افغانوں پر حملہ کرنے کے لیے فضائیں دی، کبھی انہوں نے آپ سے شکایت کی کہ آپ کی ایئرپورٹوں سے اور آپ کے فضاؤں سے جہاز ان پر حملہ کیوں کرتے ہیں انہوں نے تو آپ سے جہازوں کی شکایت نہیں کی انہوں نے تو آپ سے بمباری کی شکایت نہیں کی، 20 سال تک تم نے ہزاروں لوگوں کو حکومتی بمباری سے تباہ کیا قبائل کو تباہ و برباد کر دیا تمہیں احساس ہے اس بات کا کہ سرحدات کے اوپر جو لوگ رہتے ہیں وہ پاکستانی ہیں اور پاکستانی اپنے ملک کے اداروں سے نفرت کرتے ہیں اپنے ملک کے اداروں کے خلاف لڑنا چاہتے ہیں اپنے خلاف تم نے جو نفرتیں پیدا کی ہیں اس کے بھی ذمہ دار کوئی اور ہو سکتا ہے؟ کچھ تو اپنے گریبان میں جھانک کر سوچو، اگر ہم تمہیں احساس دلا رہے ہیں اس پر ڈٹنے کی بجائے غور کرو ہم صحیح بات آپ سے کر رہے ہیں۔ ملک کو داؤ پہ مت لگاؤ! کبھی بنگالی غدار ہے پورے بنگال کو بھون ڈالا تم نے آج پتہ نہیں کس کی باری ہے، کس کو سزا ملے گی اور وفاداریوں کی روپ میں اور ریاست کی لبادے میں کسی کو غدار کہنے کی کوشش نہ کیا کرو جو بھی ہوگا اس کی ذمہ دار خود تم ریاستی ادارے ہونگے، زرا اپنے کردار پر بھی نظر رکھو! ملک کا دفاع ہو سکتا ہے؟ دفاعی قوت ہماری اچھی ہے؟ جو دفاع کرتی نہیں ہے وہ سیاست کرتی ہے۔ امن و امان تباہ ہوتا جا رہا ہے ہر شخص گھر سے نکلتا ہے تو سوچتا ہے شام گھر واپس آ سکوں گا یا نہیں، آپ کی حالت تو کچھ اچھی ہے ذرا جائے نا کے پی کی طرف ذرا جائے نا بلوچستان کی طرف وہاں کے حالات کو ذرا دیکھیں کس حالت میں لوگ پہنچ گئے ہیں، کم از کم خیبر پختونخواہ کو میں جانتا ہوں وہاں تو تمہارا رٹ ہی ختم ہو چکا ہے اور بات کرتے ہو کہ ہم حکمران ہیں، ملک کو ٹھیک کرنا ہے، یکجہتی پیدا کرنی ہے، آئین پہ عمل کرو، اسلامی نظام لانا ہوگا ورنہ آئین کا تقاضا پورا نہیں ہوگا، آئین کے تحت دیے ہوئے جمہوریت کو ملک میں لانا ہوگا ورنہ آئین کا تقاضا پورا نہیں ہوگا، آئین کے مطابق لوگوں کو انسانی حق دینے ہوں گے ورنہ آئین کا تقاضا پورا نہیں ہوگا، لوگوں کی معاشی ضرورتوں کو پورا کرنا ہوگا ورنہ آئین کے تقاضا پورا نہیں ہوگا اور یاد رکھو آئین پاکستان پورے ملک کے تمام قومیتوں اور ہر فرد کے درمیان ایک میثاق ملی کی حیثیت رکھتا ہے، اگر یہ میثاق ختم ہو گیا تو پھر ملک کو ایک نہیں رکھا جا سکے گا، تم طاقت کے ذریعے ملک کو ایک نہیں رکھ سکو گے، آج بھی آپ کے پنجاب سے بھی شکایتیں آرہی ہیں کوئی ادارہ بنایا ہوا ہے سی ٹی ڈی کا اور فورتھ شیڈول میں علماء کو ڈالتے ہیں، فورتھ شیڈول تھانے کے اندر کے بدمعاشوں کے خلاف بنا تھا، اس بدمعاش کا تصویر تھانے میں لٹکتی تھی وہ تھانے سے باہر جاتا تھا تو تھانے کو آگاہ کر کے جاتا تھا آج اس بدمعاش کا قانون شرفاء طبقے علماء کرام کی خلاف استعمال ہو رہا ہے، علماء نے قیام امن میں تیرا ساتھ دیا ہے یہ گناہ کیا ہے، میرے مدرسے نے آپ کو سپورٹ کیا ہے وہ آئین کے ساتھ کھڑا ہے، قانون کے ساتھ کھڑا ہے ملک کے ساتھ کھڑا ہے کیا یہی گناہ ہے اس کا؟ لیکن یاد رکھو فورتھ شیڈول ہمارا راستہ نہیں روک سکتا، کچھ دن پہلے ہمارے ضلع کے ذمہ دار کے خلاف اس بات پر ایف آئی آر درج ہوا کہ وہ مظفرگڑھ کے عوامی اسمبلی کے لیے لوگوں کو دعوت دے رہا ہیں، اب تم نے ایک جماعت جمعیت علماء کے کارکن کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے لوگوں کا راستہ روک لیا ہے؟ اور کرو یہ جذبہ بڑھتا جائے گا، یہ جذبہ اب رُکے گا نہیں یہ سفر آگے بڑھنا ہے۔
میرے محترم دوستو! ہم نے اعلان کیا ہے کہ 7 ستمبر 1974 کو عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کی ترمیم منظور ہوئی تھی قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا تھا اب اس کے 50 سال پورے ہو رہے ہیں، اور ان شاءاللہ 7 ستمبر کو ہم اور آپ ان شاءاللہ مینار پاکستان پر جمع ہوں گے پورا ملک اکٹھا ہوگا اور عقیدے ختم نبوت پر مر مٹنے کے لیے ایک نیا عہد کرے گا۔
میرے محترم دوستو! ہم نے جو اعلان کیا تھا کہ 50 سالہ گولڈن جوبلی منائی جائی گی اب میں اس میں ایک اضافہ کرتا ہوں ان شاءاللہ 7 ستمبر 2024 کو لاہور کے مینار پاکستان پر یوم الفتح منایا جائے گا۔ اور جو مقدمہ اس وقت سپریم کورٹ میں زیر سماعت بلکہ فیصلہ محفوظ کر دیا گیا ہے مجھے توقع ہے عدالت عظمی سے کہ وہ قوم کو راہ دستور پر جمع ہونے پہ مجبور نہیں کرے گی۔ امت کا عقیدہ ہے اور امت کے عقیدے کو تحفظ دینا ہے اس کی ذمہ داری عدالت پر بھی ہے حکومت پر بھی ہے اداروں پر بھی ہے اور ہماری جماعتوں پر بھی ہے۔
میرے محترم دوستو! آج ضرورت پوری امت مسلمہ کی یکجہتی کی ہے، آج غزہ میں کیا ظلم کے مناظر نظر آرہے ہیں اور اس فلسطینی علاقے میں گزشتہ چھ سات مہینوں میں 40 ہزار سے زیادہ مسلمان شہید ہو چکے ہیں، اکثریت چھوٹے چھوٹے بچوں کی ہے اور ایک بہت بڑی تعداد ان چھوٹے بچوں کی رہ گئی ہے جسے کل یہ علم نہیں ہوگا کہ ہم کس کی اولاد ہیں ان کے خاندان لٹ چکا اور دنیائے اسلام اور دنیائے اسلام کے حکمران خرگوش کی نیند سے ہوئے خواب غفلت کے خراب سے لے رہے ہیں، ایسے وقت میں ایک مسلمان بھائیوں کو تنہا چھوڑنا کیا یہ اسلام کی تعلیم ہے؟ نبی علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں
المسلِمُ أخو المسلِمِ لَا يظْلِمُهُ ولَا يُسْلِمُهُ
مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ خود اس پہ ظلم کرتا ہے اور نہ کسی کے ظلم کے حوالے کرتا ہے، ہم نے آج فلسطینیوں کو صہیونی درندوں اور وحشیوں کے ظلم کے حوالے کر دیا ہے، آج رفح کے پناہ گزین کیمپوں پر بمباری ہو رہی ہے، بچے مائیں بہنیں خواتین بوڑھے جو بے گناہ شہری ہیں ان کا قتل عام ہو رہا ہے اور انسانی جرائم کے مرتکب ہو رہے ہیں نسلی جرائم نسل کشی جنگی جرائم جس میں یورپ کو شامل ہے اور امریکہ بھی شامل ہے، لوگ سوالات اٹھاتے تھے کیا ضرورت تھی کہ حماس نے اسرائیل پر حملہ کر دیا، لیکن ٹھیک ہے قربانیاں تو دی قربانیاں تو دی لیکن آج جہاں اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سلسلہ تھم گیا اور کسی مسلمان ملک کو اب جرات نہیں ہو رہی کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوچیں اور بات آگے بڑھ گئی ہے اور یورپی ممالک اب فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کے مجبور ہو چکے ہیں، فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں، یہ ہے وہ فتوحات جو ہمیں مل رہی ہیں مسلمانوں کو مل رہی ہیں قربانیاں دے کر اور ہم اپنے فلسطینی بھائیوں کو واضح پیغام دینا چاہتے ہیں کہ پاکستانی قوم آپ کے شانہ بشانہ ہے، پاکستان کے حکمران کسی اور طاقت کی طرف دیکھ رہے ہوں گے لیکن ہم اللہ کی طاقت کی طرف دیکھتے ہیں، ہمیں اس دنیاوی طاقتوں کی کوئی پرواہ نہیں، مسلمانوں کے ساتھ ہیں اور جب امریکی وزیر خارجہ آیا اور اس نے اسرائیل میں اتر کر کہا کہ میں بطور وزیر خارجہ نہیں میں تو ایک یہودی بن کر آیا ہوں آپ کے پاس تو ہم نے بھی کہا کہ ہم بھی قطر جائیں گے اور قطر میں حماس کی قیادت کو کہیں گے کہ میں بطور فضل الرحمن کی نہیں آیا میں پاکستانی قوم کی طرف سے بطور مجاہد آپ کے پاس آیا ہوں۔
میرے محترم دوستو! جماعت متوجہ ہیں، ہم اگلے اقدامات میں بھی فیصلہ کریں گے، اجتماعات میں فیصلہ کریں گے اور چار صوبوں میں ایک ایک جلسہ کرنے کے بعد اب دوسرے شہروں کی طرف جائیں گے اور موقع بہ موقع اس کے اعلانات سامنے آتے رہیں گے اور آپ نے جمعیت کی آواز پر اسی طرح لبیک کہنا ہے جس طرح آج مظفرگڑھ میں آپ نے لبیک کہا ہے، اور وہ پرچم نبوی جو آپ کے ہاتھوں میں ہے بلند کر کے عہد کرو کہ ہم اس پرچم کو جھکنے نہیں دیں گے اور اس پرچم نبوی کا جو ہمارے اوپر قرض ہے ان شاءاللہ خون دے کر یہ قرض اتاریں گے۔
میرے محترم دوستو! آپ کو یہ اجتماع بہت مبارک ہو اللہ قبول فرمائے اور میں مظفرگڑھ کی جمعیت کو بالخصوص مبارکباد دوں گا کہ انہوں نے دن رات ایک کر کے اس اجتماع کو کامیاب بنایا پوری جماعت مبارکباد کی مستحق ہے اور پنجاب کی جماعت کو بھی مبارک ہو یقین آپ نے بہت زیادہ اس کی سرپرستی فرمائی اور خود اس مقصد کے لیے میدان میں نکلے۔
الجهاد ماض إلى يوم القيامة
قیامت تک ان شاءاللہ جہاد کا سلسلہ جاری رہے گا، ہمیں اپنے اکابر نے سر کاٹنا بتایا ہے سر جھکانا نہیں، اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
ضبط تحریر: #محمدریاض
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#teamJUIswat
مظفرگڑھ: قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کا عوامی اسمبلی سے خطاب
Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Sunday, June 2, 2024
ایک تبصرہ شائع کریں