مولانا فضل الرحمن صاحب کا قبائلی گرینڈ جرگہ کے بعد پریس کانفرنس


پشاور مفتی محمود مرکز میں قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن صاحب کا قبائلی عمائدین کے گرینڈ جرگہ کے بعد پریس کانفرنس

27 جون 2024

بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم اما بعد

آپ تمام پریس کلب کے دوستوں اور صحافی حضرات کا بے حد شکر گزار ہوں کہ آپ مختصر وقفے کے ساتھ ہماری دعوت پر تشریف لائے، آج فاٹا کا گرینڈ جرگہ تھا بلکہ آج کے دور میں آج کی اصطلاح میں اس کو آپ فاٹا اسمبلی بھی کہہ سکتے ہیں، اور بڑی تعداد میں قبائلی عمائدین اور زعماء اس میں شریک ہوئے ہر چند کے اس جرگے کے ایجنڈے میں کوئی عزم استحکام آپریشن یا اس قسم کی بات نہیں تھی کیونکہ یہ اس اعلان سے پہلے بلایا گیا تھا لیکن ظاہر ہے جی کہ پھر ان کے سامنے بھی کرنٹ ایشو یہی تھا تو اس حوالے سے بڑی صراحت کے ساتھ فاٹا کے تمام ایجنسیوں یا آج آپ اس کو اضلاع کہیں انہوں نے بالاتفاق عزم استحکام کو عدم استحکام قرار دیا اور اس پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اس لیے نہیں کہ وہ امن نہیں چاہتے، امن کے حوالے سے صورتحال اس وقت بہت گھمبھیر ہے، مسلح گروپوں سے وابستہ لوگ ماضی کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ علاقوں میں پھیل چکے ہیں یہاں تک کہ وہ اب ٹریفک بھی کنٹرول کر رہے ہیں کئی کئی گھنٹے ناکے لگاتے ہیں مسافروں سے ٹول وصول کرتے ہیں اور مغرب کے بعد ہمارے جنوبی علاقوں میں تو جنوبی اضلاع میں پولیس جو ہے وہ اپنے اپنے تھانوں میں محصور ہو کے رہ جاتی ہے اور ان کو اجازت نہیں ہے کہ وہ تھانوں سے باہر سڑکوں پر ڈیوٹیاں دے سکیں، لیکن چونکہ ہمارے اس صوبے کے لوگوں نے بہت بڑے قربانیاں دی سوات سے لے کر وزیرستان تک انہوں نے جس طریقے سے اپنی ہی ملک میں ہجرت کی اپنے گھر چھوڑیں اور سالہا سال تک وہ پورے ملک میں دربدر پھرتے رہے، آپ جانتے ہیں ہمارا اپنا ایک کلچر ہے قبائلی کلچر جہاں کی ہماری مائیں بہنیں اپنے ایک محدود ماحول میں حیا اور عزت کی زندگی گزارتی ہیں ان کو صحراؤں میں لانے پہ مجبور کر دیا گیا ان کو بازاروں میں بھیک مانگنے کا مجبور کر دیا گیا ان کی عزت نفس کو پامال کیا گیا ان کی چادر اور چلبن کو تار تار کر دیا گیا اور جوانوں پہ جو گزری ان کی تعلیم تباہ ان کا مستقبل تباہ اور اب تباہ حال فاٹا جب لوگ واپس جاتے ہیں تو ان کے پاس گھر نہیں آپریشنوں میں ان کی دیہاتوں کی دیہاتیں تباہ ہو چکی ہیں۔ میرے پاس کچھ وفود آئے جن کو سال ڈیڑھ سال پہلے اگر پورا مکان تباہ ہوا ہے تو چار لاکھ روپے اور اگر جزوی طور پر ہے تو ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے وہ بھی پیسے نہیں دیے گئے ٹوکن دیا گیا ہے، آج تک اس ٹوکن پر ان کو پیسے نہیں وصول ہوئے اب آپ بتائیں کہ کیا ایک مکمل مکان آج کے دور میں چار لاکھ سے تعمیر ہو سکتا ہے؟ چار لاکھ سے تو شاید ایک غسل خانہ بھی تعمیر نہ ہو سکے، کیا ایک چھوٹی سی دیوار ایک لاکھ ساٹھ ہزار میں بن سکتی ہے؟ اس طریقے سے فاٹا کے عوام کا معاشی قتل بھی کیا گیا عزت نفس کا قتل بھی کیا گیا چادر اور چلبن کا قتل بھی کیا گیا اور ایک بات پھر یہ اعلان ہوتا ہے کہ ہم آپریشن کریں گے، ہمیں کم از کم یہ تو بتایا جائے کہ ایک دفعہ باڑ لگایا گیا آہنی باڑ تاکہ کوئی پاکستان سے افغانستان نہ جا سکے اور وہاں سے کوئی ادھر نہ سکے پھر کس طرح 20 ، 30 ہزار لوگ ہمارے ادھر گئے اور اب بڑے فخر سے کہا جا رہا ہے کہ ہم نے وہ گاڑ اکھاڑ پھینکا، باڑ بنانا بھی ملکی مفاد تھا اکھاڑنا بھی ملکی مفاد، اب اس سے کہیں زیادہ طاقتور ہو کر وہاں سے لوگ ادھر آئے، بجائے اس کے کہ ہم ایک ذمہ دار ریاست کا ثبوت دیتے ہم نے ہر فیصلہ اشتعال کی بنیاد پر کیا، ہم نے جذباتی اور فوری رد عمل کے انداز میں بات کی، کبھی بھی ریاستوں کے معاملات وہ نہ عجلت سے طے ہوتے ہیں نہ جذباتی انداز کے ساتھ طے ہوتے ہیں نہ دھمکیوں کے ساتھ طے ہوتے ہیں اس کا نتیجہ صرف دو ریاستوں کے درمیان تعلقات کی خرابی کے علاوہ کچھ نہیں نکلتی جی، ملک میں واقعات ہو رہے ہیں اسٹیبلشمنٹ سے لوگ پوچھتے ہیں یہ کیوں ہو رہا ہے وہ اپنے سر سے بوجھ اتارتے ہیں اور کہتے ہیں جی یہ تو افغانستان سے لوگ آرہے ہیں اور بڑے آرام سے ان کے خلاف ایک احتجاج نوٹ کرا دیتے ہیں اس کا نتیجہ کیا نکلے گا، کیا افغانستان میں شاہ ظاہر شاہ سے لے کر اشرف غنی تک جتنی حکومتیں آئی ہیں یہ پرو انڈین تھیں سوائے امارت اسلامیہ کے کہ وہ پرو پاکستانی ہے لیکن اگر تعلقات کی نوعیت یوں رہتی ہے اور معاملات اس طرح آگے بڑھتے ہیں تو نہ آپ کے مشرق میں کوئی دوست رہے گا نہ مغرب میں کوئی دوست رہے گا، اگر ایران کی طرف سے در اندازی ہوتی ہے پھر آپ دراندازی جواب میں کر لیتے ہیں، ایک ہفتے کے اندر اندر معاملات طے ہو جاتے ہیں، یہ رویہ افغانستان کے ساتھ کیوں نہیں! تو پھر ہمیں سمجھنا چاہیے کہ افغانستان بین الاقوامی ایجنڈے کی زد میں ہے اور ہم ان قوتوں کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے یا ان کی خواہشات کو سامنے رکھتے ہوئے افغانستان میں موجود امارت اسلامیہ کو مستحکم کرنے کی بجائے عدم استحکام کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔

سن 1980 سے لے کر اب تک افغانستان کا چپہ چپہ خون سے رنگین ہے، ایک ایک دیوار ایک ایک حویلی وہ آج منہدم ہو چکی ہے، اس تباہ و برباد افغانستان کی تعمیر پاکستان کے لوگ بھی سمجھتے تھے اور افغانستان کے لوگ بھی اس امید پہ تھے کہ اس کی تعمیر میں پاکستان تعاؤن کرینگے، پاکستان نے بھی کہا افغانستان کا استحکام ہمارے فائدے میں ہے اور انہوں نے بھی کہا پاکستان کا استحکام ہمارے فائدے میں ہے، اتنی بڑی امیدیں جو دونوں ریاستوں اور ان کی عوام نے ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ کی تھی کس قیمت پر خاکستر کی جا رہی ہے اور چونکہ میں خود گواہ ہوں اور الیکشن سے پہلے میں نے ایک ہفتہ کا سفر کیا اور تمام شعبوں میں باہمی تعاؤن پر میں ایک کمٹمنٹ لے کر وہاں سے آیا، مسلح تنظیموں ایک پرامن راستہ دینے پر اتفاق رائے ہوا اس کے لیے ایک میکنزم طے کرنا تھا تو ساری محنتیں کہاں ضائع ہو رہی ہیں کیوں ضائع ہو رہی ہے یہ تو ایک غیر ذمہ دار ریاست کی علامت ہوتی ہے جب اس سے بنی بنائی بات بگڑتی ہے، تو اس اعتبار سے آج فاٹا کے جرگے نے اس ساری صورتحال پر بحث کی اس پر اپنے عدم اطمینان کا اظہار کیا اور چند روز پہلے جو ہمارے وزیرستان کے جنوبی وزیرستان کے امیر مولانا مرزا جان صاحب شہید ہوئے تھے اور اس کے علاوہ دوسرے شہداء ان کے لیے خراج عقیدت کا اظہار کیا گیا بلند درجات کی دعا کی گئی ان کے خاندان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا گیا اور ان کے لیے صبر جمیل کی دعا کی گئی، یہ اس وقت کی صورتحال ہے جو آج کے اس جرگے سے وابستہ ہے مزید جو آپ کچھ کہنا چاہیں گے تو


سوال و جواب

صحافی: مولانا صاحب آپ نے پارلیمان میں بھی بات کی اور آج یہاں بھی بات کی جنوبی اضلاع بنوں ڈویژن اور ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن یہاں پہ آپ نے فرمایا ہے کہ چار پانچ مہینے بعد امارت اسلامی کا قیام ہو جائے گا کیا آپ امارت اسلامیہ کے خلاف ہے امارت کے خلاف ہے یا اسلامی نظام کے خلاف؟

مولانا صاحب: میں تو سوچ رہا تھا آپ بڑا سنجیدہ سوال کر رہے ہیں لیکن آپ تو مذید کنفیوژن پیدا کر رہے ہیں دیکھیے الفاظ کو ذرا دیکھے ”ایسا لگتا ہے کہ جیسے کہ“ اب آپ بتائے کہ ایسی صورتحال میں ایک مستحکم ریاست کے اندر اس قسم کے تصورات پیدا ہو تو ہمیں اس پر سنجیدگی سے سوچنا نہیں چاہیے۔ ہم تو پورے پاکستان کو امارت اسلامیہ بنانا چاہتے ہیں ہم تو پورے پاکستان کو اسلامی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ میرا آئین کہتا ہے قرارداد مقاصد کو آپ پڑھیں حاکمیت اللہ رب العالمین کی ہو گی۔ عوام کے نمائندے وہ اللہ کی نیابت کریں گے اور قرآن و سنت کی تعلیمات پر انفرادی و اجتماعی زندگی استوار کریں گے۔ اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہو گا، تمام قوانین قرآن و سنت کے تابع ہوں گے، قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا اس کو عملی جامہ پہنائے نا، یعنی میرے ملک کے تو اساس موجود ہیں ہم اس اساس کو گرانا نہیں چاہتے، ہم اس کو کسی عدم توازن کا شکار دیکھنا نہیں چاہتے ورنہ آپ جانتے ہیں ملاکنڈ تحریک جو تھی صوفی محمد صاحب مرحوم کی، اس سے کوئی ہمارا نظریاتی اختلاف تو نہیں تھا لیکن جس زاویے سے وہ بات کر رہے تھے ہم نے اس کے ساتھ اتفاق نہیں کیا۔ ہمارے پاس زاویہ موجود ہے ہم اگر اس میں کنفیوژن پیدا کریں گے تو مشکلات پیدا ہوگی۔ لہذا اس قسم کی صورتحال اگر ملک کے اندر پیدا ہوتی ہے تو یہ سنجیدہ صورتحال ہوتی ہے بجائے اس کے کہ میں پریشان ہوں، میں ریاست سے سوال کر رہا ہوں ریاست کو اس طرف متوجہ کر رہا ہوں تو آپ ریاست کی طرف سے مجھے دفاعی پوزیشن میں ڈالنا چاہتے ہیں یہ نامناسب بات ہے۔

صحافی: مولانا صاحب یہ بتائیں کہ کیا موجودہ صورتحال حکمرانوں کی ہاتھوں سے نکل رہی ہے دوسرا یہ کہ جو حالات بنے ہوئے ہیں کیا یہ حکمران اس کے ذمہ دار نہیں کہ انہوں نے اتنا سپیس دیا ہے کہ اب وہ خود ہی سنبھال نہیں سکتے؟

مولانا صاحب: دیکھیے حکمران ذمہ دار آپ کے کیا ہے مشرف اور اس کی تسلسل یہ ہے ہمارے حکمران جو اس قسم کے فیصلے سٹیٹ کے حوالے سے کرتے ہیں یہ سب ہمارے بھائی ہیں کوئی بڑے تو کوئی چھوٹے، پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے ہیں کوئی حزب اختلاف میں کوئی حزب اقتدار میں، کسی زمانے میں ہم کہتے تھے حکومتی سائڈ جو ہے وہ ہائبرڈ ہے اب دونوں ہائبرڈ ہے پورا پارلیمنٹ کس پر آپ اعتماد کرے جی، فیصلے کون کرتا ہے۔ یعنی آپ بتائیں فیصلہ ایا اناؤنس کیا گیا، ایپکس کمیٹی نے اناؤنس کیا، کیا اس میں کنفیوژن تھی کہ پی ایم ہاؤس سے اس میں نئی وضاحت جاری کرنی پڑی، کیا خود ادارے کے اندر بھی مختلف اطراف سے آرا لی گئی تھی، کافی سوالات ہیں حضرت، جس نے کنفیوژن پیدا کر دیے اور یہ جو عزم استحکام ہے اس کا بسم اللہ ہی عدم استحکام سے ہو گئی۔

صحافی:

مولانا صاحب: اب میں ملک کو مشکل سے نکالنا چاہتا ہوں۔

صحافی: مولانا صاحب آپریشن کے علاوہ کیا حل ہو گا، کیا تجویز دیں گے مذاکرات کرے ایک بار پھر سے، کس طریقے سے کرے کس کے ساتھ کرے مطلب حل کیا نکلے گا؟

مولانا صاحب: یہ میرا درد سر نہیں ہے میں ایک چیز پر تاریخ کے حوالے سے اور ماضی کے واقعات کی روشنی اور تجربات کی روشنی میں بات کر رہا ہوں کہ جس طرح ماضی کا صورتحال ہوا آج بھی یہی صورتحال ہے کس کو آپ نے اعتماد میں لیا جو پارلیمنٹ تم نے خود بنائی ہے اس کو بھی اعتماد میں لیا۔

صحافی: مولانا صاحب آپ نے خود کہا کہ کئی گنا ذیادہ مسلح لوگ آچکے ہیں تو اب آپریشن نہیں کریں گے تو اس کا حل کیا ہو گا؟

مولانا صاحب: یہی سوال تو دوسرے صحافی نے بھی کیا یہ سوال ان سے کیا جائے کہ تمہارے ماضی میں آپریشنوں کی جو روایات ہیں وہ تو ناکامی کے علاوہ کچھ بھی نہیں، کیا قوم کو ایک بار پھر مشکل میں ڈال رہے ہیں ایک دفعہ پھر ہمارا خون بہانا چاہتے ہیں ۔ یہ ہمارا سوال ہے یہ آپ کر رہے ہیں لیکن یہ میرا سوال ہے۔

صحافی: اسد قیصر صاحب نے کہا ہے کہ ہم نکلیں گے اور ساتھ یہ بھی کہا کہ مولانا صاحب کے ساتھ ہماری باتیں چل رہی ہے تو آپ نکلنے کی تیاری نہیں کر رہے؟

مولانا صاحب: تو وہ رابطہ کریں گے تو نکلیں گے۔

صحافی: مولانا صاحب امریکہ میں ایک قرارداد پاس ہوا ہے کہ پاکستان میں جتنے بھی سیاسی قیدی ہیں اسیر ہے ان کو رہا کیا جائے تو اس سے تو آپ کی موقف کی تائید نہیں ہوئی کیا؟

مولانا صاحب: یہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ جن کے لیے یہی سب کچھ کیا گیا تھا وہ بھی کہنے پر مجبور ہو گئے کہ شائد کچھ ضرورت سے زیادہ ہو گیا تھا جو ہمیں بھی محسوس ہو گیا ہے۔

صحافی: مولانا صاحب آپ کی وزیراعظم سے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہے تو کچھ چیزیں نظر آرہی ہے؟

مولانا صاحب: جی ملاقاتیں تو ہوتی رہتی ہے ہمارا ملنا جلنا رہتا ہے اور اس کئی سارے ملاقاتوں میں ہمارا ایک ہی سوال ہے کہ پہلے آپ ہمیں بتائیں کہ آپ کے پاس ہمارے کسی ایک شکایت کے ازالے کی کوئی چیز ہے ہمارے کسی سیاسی نقصان کے ازالے کے آپ کے پاس کچھ ہے اگر ہمارے شکایت کا ازالہ نقصان کی تلافی کا آپ کے پاس کچھ ہے تو آپ سامنے لائے تاکہ پتہ چلے کہ آپ چاہتے کیا ہے۔ ہم نے تو کچھ دیکھا ہے ہم سیاسی پارٹیوں سے گلہ نہیں کر رہے ہم تو ان اداروں سے گلہ کر رہے ہیں جنہوں نے سیاست میں مداخلت کرکے جنہوں نے الیکشن میں مداخلت کرکے پورے الیکشن کا نتیجہ اپنے قابو میں لے لیا اور تبدیل کر دیا۔

صحافی: مولانا صاحب مذہبی جماعتوں میں خصوصا جے یو آئی کے اکابرین کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور اس کی ذمہ داری بھی کسی کالعدم تنظیم کی جانب سے دی جاتی ہے اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟

مولانا صاحب: دیکھیے یہی تو ایک مشکل ہے جس کا نہ آپ کے پاس حل ہے نہ حکمرانوں کے پاس حل ہے ایک دین کی جماعت اعلاء کلمتہ اللہ کی سربلندی کی ایک منظم جماعت جس کی گزشتہ سو ڈیڑھ سو سال کی تاریخ موجود ہے اس کے پشت پر ایک جدوجہد ہے قربانیوں کی ایک جدوجہد ہے اور کئی سو سالوں کی جدوجہد ہے ان اکابرین سے جو چیز ہمیں منتقل ہوئی ہے چاہے وہ نظریے کی صورت میں ہو عقیدے کی صورت میں ہو یا اس عقیدے اور نظریے کے لیے کام کرنے کے رویے اور منہج کی صورت میں ہو یہ امانتیں ہیں اور کوئی اس قسم کی اشتعال، زبردستی، جبر یہ علماء کی جماعت ہے یہاں پر اگر ہم ان علمائے کرام کو شمار بھی کریں تو پانچ لاکھ سے زیادہ علمائے کرام وہ باقاعدہ فارغ التحصیل علمائے کرام ہے جو دنیا کا سب سے بڑا فورم ہے تو پھر کون ہوتا ہے کہ دو چار آدمی دیوار کے پیچھے بیٹھتے رہے اور اتنی بڑی جماعت کے رائے کو اور فکر کو اس پر فتوے لگائے اور ہمیں واجب القتل کہے۔ تو کسی مسلمان کو ایمان والے کو جس کی قلب میں ایمان کا نور ہے آپ نے اس کو کافر کہہ دیا تو واپس اسی کی طرف لوٹتا ہے تو اس کو بھی ذرا سمجھنا چاہیے۔

صحافی: قبائلی جرگے نے کیا کہا اب جب عزم استحکام آپریشن ہو رہا ہے تو لائحہ عمل کیا ہو گا؟

مولانا صاحب: قبائلی جرگے نے اتفاق رائے سے حکومت یا ایپکس کمیٹی کی طرف سے نیا اعلان عزم استحکام کے نام پر نیا آپریشن اس پر پریشانی کا اظہار کیا، عدم اعتماد کا اظہار کیا اور اسے مسترد کر دیا بلکہ اسے عزم استحکام کی بجائے عدم استحکام قرار دے دیا۔ اب ظاہری طور پر نہ تو انہوں نے فوری طور پر کوئی نقشہ پیش کیا ہے کیوں کہ ایپکس کمیٹی نے جس تفصیل سے اعلان کیا تھا پھر کیا ضرورت تھی کہ تیسرے دن پی ایم ہاؤس سے نیا وضاحت جاری کیا گیا کہ آپریشن کی شکل اس طرح ہو گی تو وہاں بھی کنفیوژن موجود ہے لہذا جب تک ان کی طرف سے صورتحال واضح نہیں ہو جاتی اس وقت تک انہوں نے یہ کہا ہے کہ ہم آپریشن کو اپنے لیے تباہ کن سمجھتے ہیں ہم نے بہت قربانیاں دی ہے اور پھر سے اپنے آپ کو بے عزت نہیں کروا سکتے اور بار بار ہمارا امتحان نہ لیا جائے اسی احساس کے ساتھ فاٹا نے اپنا رائے پیش کیا۔

صحافی: صوبائی حکومت نے اے پی سی بلانے کا اعلان کیا ہے کیا جے یو آئی اس میں شرکت کرے گی؟

مولانا صاحب: مجھے اس کے بارے میں ابھی تک کوئی علم نہیں ہے۔

صحافی: مولانا صاحب اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ بتائے کہ موجودہ حکومت کی جو ٹینیور ہے آپ کیا سمجھتے ہیں یہ پورا کرے گی؟

مولانا صاحب: حضرت جسے آپ حکومت کہتے ہیں میں کہتا نہیں ہوں اب مدت پوری کرے گی تو بھی مدت نہیں ہے میں تو دوبارہ الیکشن چاہتا ہوں دوبارہ عوام کو حق دیا جائے کہ از سر نو منڈیٹ طے کرے اور اس میں اسٹبلشمنٹ کا بالکل عمل دخل نہ ہو دور رہے۔

صحافی:

مولانا صاحب: ہمیں بٹھائیں ہم سے اس حوالے سے بات کرے ہم نے دو ہزار دس میں جب سوات میں آپریشن شروع کررہے تھے اس وقت بھی کہا تھا کہ اپ کا جو طریقہ کار ہے ہم مطمئن نہیں ہے، انہوں نے نہیں پوچھا اور شروع کر دیا الٹا ہمیں کہنے لگے کہ آپ دہشتگردوں کو سپورٹ دے رہے ہیں۔ پھر اس کے بعد مسلم لیگ نواز شریف کی حکومت تھی تو انہوں نے انضمام کا فیصلہ کیا تو ہم نے کہا یہ آپ لوگ غلط کر رہے ہیں آپ تیار ہی نہیں ہے اس کے لیے آپ کے پاس وہ نظام وہ میکینزم ہی نہیں ہے اور انہوں نے کہا کہ نہیں جی ہم تو ٹھیک کر رہے ہیں، کر لیا، اور اب جو کر لیا تو فاٹا کے علاقوں کو سیٹلڈ علاقوں کے برابر لانا اور ان کی معیار زندگی کو بلند کرنا اور وہاں کا انفراسٹرکچر روڈوں کی صورت میں بجلی کی صورت میں سکول کالج یونیورسٹیوں کی صورت میں بڑے ہسپتالوں کی صورت میں ایک بڑا نیٹ ورک، اور انہوں نے لوگوں سے کہا کہ ہم ہر سال سو ارب روپے ان کو دیں گے اور دس سال تک دیں گے یعنی ایک ہزار ارب، آج سات سال مکمل ہوگئے ہیں مجھے کوئی بتا سکتا ہے کہ ایک ارب پورے ہو گئے ہو اور وعدے کے مطابق اب تک سات سو ارب، تو کیسے چلے گا یہ سب، کیسے وہ ترقی کریں گے۔ وہاں پر آج بھی گورنمنٹ کے پاس لینڈ ریکارڈ نہیں ہے جب نہیں ہے تو آباؤاجداد سے ان کی ملکیتیں آرہی ہیں قوم کی زمین ہے قوم کی مٹی ہے اور وہ اس کے امن کے ذمہ دار ہے اور یہ روایات چلی آرہی تھی اور اس کو ایف سی آر کے ذریعے تحفظ دیا گیا تھا یہ ساری چیزیں موجود تھی اب جب لینڈ ریکارڈ ہی نہیں ہے تو آپ کا پٹواری وہاں نہیں جاسکے گا، تحصیلدار جس طرح پہلے انتظامی نظام کا حصہ تھا اب بھی حصہ ہوگا وہ اس بندوبستی نظام کا ماہر نہیں ہو سکتا اور میں نے ایک بڑے آفسر سے پوچھا کہ جب لینڈ ریکارڈ ہی نہیں ہے تو آپ تقسیم کیسے کریں گے تو ان کا جواب سنیے آپ بھی حیران ہوں گے آج کل ٹیکنالوجی پر فخر کرنا چاہیے کہ ہم سیٹیلائٹ سے تصویریں لے رہے ہیں اور زمینوں کی ہر خاندان کی بنیاد پر تقسیم کر رہے ہیں تو میں نے کہا سیٹیلائٹ سے نیچے بھی آؤگے یا نہیں یا ادھر ہی سب کچھ کروگے اور فاٹا کے لوگوں کو تباہ و برباد کر دیا۔

صحافی: آپ نے کہا امارت اسلامی پرو پاکستان ہے تو اب جو دراندازی ہو رہی ہے جیسا کہ پاکستان کہہ رہا ہے پھر یہ اس کی روک تھام کیوں نہیں کر رہے اگر یہ پرو پاکستانی ہے؟

مولانا صاحب: میں نہ تو ان کا نمائندہ ہوں نہ ہی وکیل ہوں میں پاکستان کا وکیل ہوں میں پاکستان کی بات کروں گا میں جب ان سے بات کروں گا تو میں پاکستان کی طرف سے کھڑا رہوں گا لیکن سوال بنیادی یہ ہے کہ ایا اب تک ان کے پاس ایسی فوج ہے جو اپنے سرحدات کے چپہ چپہ کو کنٹرول کر سکے یقینا ان کے پاس نہیں ہے میرے پاس مضبوط فوج ہے کہ میں پورے سرحد کی چپہ چپہ کی نگرانی کر سکتا ہوں لہذا ان سے یہ گلہ کرنا کہ آپ کے سرحد پر دہشت گرد کیوں اس پار ایا میں اپنے آپ سے کیوں نہ پوچھوں کہ مجھ پر یہ کیسے گزرے ۔ میرے انٹیلجنس دنیا میں مانے ہوئے انٹیلجنس میں سے ہے آئی ایس آئی، ایم آئی، آئی بی، سپیشل برانچ بیس تیس ادارے ہیں اتنا مضبوط نیٹ ورک اس وقت جو پاکستان میں ہے ان کے پاس تو کچھ نہیں، ان کے پاس تو ابھی تک نیٹ ورک ہے ہی نہیں، ان سے میں سوال کرتا ہوں کہ آپ کے بارڈر سے لوگ کیسے کوئٹہ پہنچ گئے اور کوئٹہ سے بشام تک پہنچے اور ڈھائی تین سو چوکیوں سے گزرے ہیں اور خود سے بالکل یہ سوال نہیں کروں گا کہ یہاں سے کیسے گزر گئے۔ کوئٹہ سے بشام کیسے پہنچ گئے اور چلاس پہ حملہ کر دیا یہ وہ سوالات ہیں کہ آج ہم اپنے آپ کے ساتھ مشورہ کریں گے اگر وہ زیادتی کریں گے تو ان سے میں بھی پوچھوں گا لیکن پہلے اپنے بیچ تو باتوں کو سمجھے۔

صحافی: الیکشن سے پہلے آپ نے کہا تھا کہ افغانستان جاکے آپ نے ان کو ایک میکینزم دیا ان کے ساتھ اتفاق ہوا کہ مسلح تنظیموں کو پرامن راستہ دیا جائے تو کیا یہ اس میکینزم سے ہٹ کے تھا اس میکینزم میں اور اس میں کتنا فرق تھا جو جنرل باجوہ اور فیض حمید کے دور میں ہوا تھا ؟

مولانا صاحب: جنرل فیض اور باجوہ کا تو مجھے پتہ نہیں اور جس وقت حکومت تبدیل ہو گئی تو ایک مجلس میں ہمارے پرائم منسٹر تشریف فرما تھے تو میں نے ان سے کہا کہ پاکستان سے ایک بہت بڑا جرگہ افغانستان میں بات چیت کرنے گیا ہے آپ کے علم میں ہے تو انہوں نے فرمایا نہیں جب ان کو علم نہیں ہو گا تو مجھے کیا علم ہوگا۔ تو اب جو بات ہوئی بالکل اس میں کوئی شک نہیں ہے ہم نے پورے اعتماد کے ساتھ اور تمام شعبوں میں باہمی تعاون کے ساتھ ایک دوسرے کے مسائل سنے اور ایک ہفتہ ہم نے وہاں گزارا اور الحمدللہ‎ سارے معاملات انہوں نے رپورٹ کیے، وزارت خارجہ سے ہم نے بریفنگ لی کیا کیا ہمیں شکایات ہیں ہم ان سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں، سب تفصیلات لے کر پھر ہم نے واپسی پر ساری صورتحال ان کو بتائی اور انہوں نے اطمینان کا اظہار کیا شکریہ ادا کیا اور یہ کہ اس کا میکینزم کیا ہوگا میں نے کہا یہ ریاستوں کا کام ہے اپ بنائے کہی پر مشکل ہوگی تو ہم تعاون کے لیے تیار ہے لیکن اب نتائج یہ ہے ہم اپنے ان بڑوں کے بارے میں کیا کہے وہ کس زاویے سے سوچتے ہیں اور کس کے لیے سوچتے ہیں تو کچھ تو ہماری بات کو وہ سنجیدگی سے لیں، سنجیدگی سے سنے ہم ان کے دشمن نہیں ہے ملک کے دشمن نہیں ہے ہم ان کے خیرخواہ ہے لیکن اگر وہ خیر خواہی کی بات بھی نہیں سنتے ہم خیرخواہی کرے اور وہ بدخواہی کرے تو اس طرح تعلقات نہیں چلتے۔

بہت شکریہ مہربانی


ضبط تحریر: #محمد_ریاض #سہیل_سہراب

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات

#teamjuiswat

پشاور: گرینڈ قبائلی جرگہ کے بعد قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کی میڈیا بریفنگ

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Thursday, June 27, 2024

0/Post a Comment/Comments