مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا قومی اسمبلی کے 2024-25 بجٹ اجلاس سے خطاب


قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا قومی اسمبلی کے 2024-25 بجٹ اجلاس سے خطاب

26 جون 2024

بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم

جناب اسپیکر میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے گفتگو کے لیے وقت بھی دیا اور گفتگو کا انتظار بھی کیا، مجھے کبھی یہ دعوی نہیں رہا کہ میں کوئی اقتصادی ماہر ہوں اور جو بجٹ کی روح ہے میں اس کو بحث کرتے اس کا حق ادا کر سکوں گا یقیناً ایوان میں ایسے فاضل اراکین موجود ہیں جو تکنیکی بنیادوں پر بجٹ پر بحث بھی کر سکتے ہیں اعداد و شمار پر بات بھی کر سکتے ہیں میں ان کی سیاسی پہلوؤں کو ذرا اجاگر کرنا چاہوں گا کہ 1988 سے میں اس ایوان میں کتنے بجٹ سن چکا ہوں کتنے بجٹ میرے ہوتے ہوئے پاس ہوئے ہیں اور ہر بجٹ پیش کرنے والی حکومت اس نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ عوام دوست بھی ہے اور ملک کی ترقی کی راہ پر یہ بجٹ گامزن کرے گا ملک کو، اس تمام دعووں کے باوجود آج 75 سال کے بعد معاشی طور پر ملک کہاں کھڑا ہے اس کو زیر بحث لانے کی بھی ضرورت نہیں ہے شیشے کی طرح نظر آتا ہے کہ ہم دیوالیہ پن کے کنارے کھڑے ہیں اور آج جو اس بجٹ میں آپ نے سب سے زیادہ توجہ دی ہے ٹیکس لگانے کے اوپر (وقفہ آذان) کہ آپ ٹیکس دیں تاکہ ملک کا خزانہ مضبوط ہو، ملک کا اقتصاد مضبوط ہو، جب حکمران اس قسم کا ڈیمانڈ قوم سے کرتے ہیں تو قوم کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں اگر آپ قوم کو وہ حقوق نہیں دے سکتے پھر کیا آپ قوم سے ٹیکس وصول کرنے کا حق یہ رکھتے ہیں؟ اس کے بدلے میں قوم آپ سے دو چیزیں مانگتی ہیں ایک امن، جان، مال اور عزت و آبرو کا تحفظ اپنے انسانی حقوق کا تحفظ اور دوسرا معاشی خوشحالی، عام آدمی کو یہ اطمینان ہو کہ میرے بچوں کے لیے اگلے ہفتے اور مہینے تک گھر میں خوراک موجود ہے اس کا انتظام ہو سکتا ہے، لیکن کیا ہم نہیں سمجھتے یہ بات کہ ہمارے ملک میں ہر جگہ نہ سہی لیکن بیشتر علاقوں میں صورتحال فاقوں تک پہنچی ہے، کاروبار ختم ہو چکے ہیں اور میں تو دیکھتا ہوں ہم نے آپریشنز کیے لوگوں کو کہا آپ گھر بار چھوڑ دیں، سوات سے لے کر وزیرستان تک تمام علاقوں کو خالی کر دیا گیا عوام نے اپنے ملک کے اندر ہجرت کی، ہمارے وہ قبائلی خواتین جو اپنے خاص ماحول میں اور خاص کلچر کے اندر زندگی گزارتے رہے انہیں آپ نے صحراؤں میں جا کے بٹھایا، ان کو بازاروں میں بھیک مانگنے پر آپ نے مجبور کیا، اس کے چادر کو تم نے تار تار کیا اور ابھی میرے پاس وفود آئے ابھی میرے پاس خود آئے محسود قبیلے کا وفد آیا کہ پچھلے سال ہمارے ساتھ ایک مکان اگر مکمل تباہ ہے تو چار لاکھ روپے اور اگر جزوی طور پر نقصان ہوا ہے تو ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے اور وہ بھی لوگوں کو پیسے نہیں دیے گئے اس کا ٹوکن دیا گیا وہ ٹوکن ابھی تک جیبوں میں لیے پھر رہے ہیں ایک شخص کو ادائیگی نہیں ہو رہی، آپ بتائیں چار لاکھ ایک مکان بنانے کے لیے کیا چار لاکھ پر آپ کے گھر کا غسل خانہ بھی بن سکتا ہے! اور آپ لوگوں کا ان کو کہنا ہے کہ پورا گھر بنانا ہے ایک لاکھ 60 ہزار کا آپ نے دو کمرے بنانے ہیں جو گر گئے تھے، کیا مذاق دنیا کے ساتھ ہو رہا ہے۔

آج چمن کے اوپر بارڈر کے اوپر نو مہینے سے لوگ بیٹھے ہیں، در بدر بیٹھے ہوئے ہیں، آپ وہ شرائط ان کے اوپر لگا رہے ہیں کہ جو شرائط سرحد پر بیٹھے ہوئے لوگوں کے اوپر دنیا میں نہیں لگائے جاتے پوری دنیا میں سرحد پر رہنے والوں کو کچھ خصوصی مراعات ملتی ہیں اور وہ بھی وہ بارڈر جو بین الاقوامی طور پر ریکگنائزڈ ہو، ہندوستان پاکستان کا سرحد طے شدہ ہے پاک افغان بارڈر کو میں اور آپ پاک افغان بارڈر کہہ رہے ہیں کیا افغانستان میں اس کو پاک افغان بارڈر کہتا ہے یا اس کو ڈیورنڈ لائن کہتا ہے؟ کیا یہ کسی سمجھوتے کی بنیاد پر ہوا تھا کہ ایک ہی آدمی کا گھر اس کا صحن پاکستان میں ہے کمرے افغانستان میں ہے، ایک ہی گاؤں کی مسجد اس کا محراب افغانستان میں ہے اور اس کے مقتدی جو ہے وہ پاکستان میں کھڑے ہوتے ہیں، چمن میں جائیں کتنے لوگ ہیں کہ جن کے گھر پاکستان میں ہیں اور جائیداد افغانستان میں ہیں زمینیں وہاں کاشت کرتے ہیں وہاں سے مال آتے ہیں اپنا کمایا ہوا گھر میں لاتے ہیں، اج وہاں پر آپ کر کیا رہے ہیں کہ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں متبادل کوئی ان کے پاس آپ تجویز نہیں ہے کہ آپ ان کو کیا روزگار دے رہے ہیں، وہ مزدوری کرتے ہیں بچوں کے لیے کماتے ہیں، میں آپ کو بتاؤں جناب اسپیکر اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ گھروں کے اندر میں بڑی ذمہ دار فورم پر بات کر رہا ہوں کہ گھروں کے اندر ہماری ماؤں بہنوں نے اپنے زیورات بیچ دیے ہیں بالیاں بیچ دی ہیں اور وہ اپنے روزگار کی فکر میں ہیں وہ ختم ہو گئے پیسے اب گھروں کے دروازے اور کھڑکیاں وہ بیچنے پہ مجبور ہو گئے ہیں کہ کس طریقے سے ہم زندگی گزاریں اور ریاست اس حد تک شقی القلب ہو چکی ہے کہ ان کو احساس تک نہیں ہے کہ یہ ملک کے باشندے ہیں اور ان پہ کیا گزر رہی ہے! نو مہینے تک لوگ بیٹھے ہوئے ہیں کوئی احساس ہے اس بات پر! میرے پاس انگور اڈے کا وفد آیا بھرپور وفد آیا اور کہا صاحب آپ تو آئے ہیں ہمارے گاؤں میں نے کہا جی میں آیا ہوں آپ کے گاؤں میں، تو آپ بتائیں وہاں ہماری کیا پوزیشن ہے؟ میں نے کہا میری رات افغانستان میں تھی اور میرا جلسہ پاکستان میں تھا، ڈیورنڈ لائن جو انہو نے بتائی تھی کہ یہ لکیر ہے، کسی کے گھر کے بیچ میں سے گزر رہا ہے کسی کے مسجد میں سے گزر رہا ہے، ان لوگوں پر آپ اس قسم کے قدغنیں لگائیں گے، غلام خان کے اوپر یہ صورتحال بن رہی ہے، جمرود کے اوپر یہ صورتحال بن رہی ہے، ذرا اپنے شرائط لگائیں لیکن ان کے لیے قابل برداشت بھی تو ہو قابل عمل بھی تو ہوں! بس ملک سے وفادار کا دعویٰ اس پر آپ قبضہ کر لیتے ہیں اور جب آپ سے کوئی اختلاف رائے کرتا ہے پھر آپ ملک کے دشمن ہیں آپ تو ملک کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ 

دوسری بات یہ ہے جناب اسپیکر ہمارے ہاں آپ ہزار ٹیکس لگائیں میں پارلیمنٹیرین بھی ہوں 40 سال اس سیاست کی خاردار وادی سے گزر کر آج کھڑا ہوں، ان صحراؤں کو میں نے عبور کیا ہے آپ کے ملک کے عوام آپ کو ٹیکس نہیں دیں گے اس لیے کہ عوام کو آپ پر اعتماد نہیں ہے، اور یہ بات میں کسی ایک پارٹی کے لیے نہیں کہہ رہا ہوں اگر میری حکومت ہو اور میں ٹیکس لگاؤں گا تو میرے ہوتے ہوئے بھی شاید لوگ اعتماد نہ کریں اس لیے کہ لوگوں کو پتہ ہے کہ میرے ٹیکس وصول کر کے اس کو باہر کے قرضوں میں دیا جائے گا آئی ایم ایف کے قرضوں میں دیا جائے گا ورڈ بینک کے قرضوں میں دیا جائے گا، جب میرا ٹیکس میرے فلاح و بہبود پہ خرچ نہیں ہوتا مجھے کیا پڑی ہے کہ میں عالمی بینک کو بھرتا رہوں اور اپنے پیسوں سے میں ان کی بینکیں بھرتا رہوں، اور یہ آج کی ریت نہیں ہے جناب اسپیکر یہ ہمیں ورثے میں ملی ہے، جب انگریز حکومت تھی اور برصغیر پر ان کا قبضہ تھا اور انگریز ملک میں لوگوں سے ٹیکس لیتا تھا تو برصغیر کا باسی ٹیکس چوری کرتا تھا فرنگی کو وہ ٹیکس دینے کے لیے تیار نہیں تھا اس کو پتہ تھا کہ یہ میرے فلاح پر خرچ نہیں ہوگا یہ ان کے عیاشیوں پر اور ہمارا مال برطانیہ جائے گا، میں خود برطانیہ میں ایک موقع پر یوم پاکستان تھا اور میں مئیر کے آفس میں گیا پاکستانی کمیونٹی وہاں جمع تھی مجھے کہا مولانا صاحب ان بلڈنگوں کو دیکھو یہ ان کے نہیں ہیں یہ ہمارے اپنے ہیں ہمارا مال لا کر لا لا کر چوری کر کے انہوں نے یہ بلڈنگیں بنائی ہیں یہ ہندوستان کی ہے یہ برصغیر کی ہے اس کے باوجود ملکہ برطانیہ انڈیا آتی ہے اور پارلیمنٹ اس کو کہتا ہے کہ تم سو سال سے ہمارے اوپر حاکم رہے ہو تم نے ہماری سرزمین پر قبضہ کیا تھا پہلے اپولوجائیز کرو معافی مانگو اس کے بعد آپ ایوان میں آسکتی ہے اور اس نے معافی مانگی لیکن جب پاکستان آئی اور پاکستان کے پارلیمنٹ میں آنے لگی تو ہمارے سپیکر صاحب اور چیئرمین سینٹ نے کہا ہم پہلے بھی آپ کے وفادار تھے ہم آج بھی آپ کے وفادار ہیں، اس نظریے کو لوگ ٹیکس دیں گے! اس کو آپ یقین دلائیں گے کہ آپ کی ریاست ہے، ٹیکس آپ کی فلاح و بہبود کا خرچ ہوگا جب میرا پیسہ میری فلاں کا موت نے خط نہیں ہوگا مجھے کیا پڑی ہے کہ میں اس قسم کے ٹیکس آپ کے ظالمانہ ادا کرتا رہوں، اور اگر ٹیکس ظالمانہ ہے اور آپ مجھے امن بھی نہیں دے پا رہے اور جب میرا سب کچھ لٹ جاتا ہے پھر آپ کو جاگ آتی ہے۔ جب چین کا ایک مہمان آتا ہے اہم مہمان مجھے یہ کہنے دیجیے بڑے ادب و احترام کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں ہمارے پرائم منسٹر صاحب بھی ہمارے آرمی چیف بھی چائنہ گئے وہاں انہوں نے بڑی محنت کی لیکن سفارتی حوالے سے اگر حقیقت میں بات کی جائے ہمارے پرائم منسٹر کامیاب لوگوں کو واپس نہیں آئے، اور ساتھ ساتھ ان کا مہمان یہاں آیا ہم سب لوگوں کی خدمت میں حاضر ہوئے مہمان داری کی اور ہم نے ان کو اپنی بھرپور حمایت تائید دوستی سب اس کے حوالے کئی انہوں نے بھی سب وہی ہمارے لیے ایک جملے میں اس نے ہمیں جواب دے دیا کہ پاکستان میں اب بھی سیاسی استحکام نہیں ہے پاکستان کی سیکیورٹی اب بھی ٹھیک نہیں ہے، آپ بتائیں کہ کس بنیاد پر وہ انویسٹمنٹ کرینگے یہاں پاکستان میں! اب یہاں پر آپ نے عزم استحکام کوئی اپریشن کے نام سے کوئی کیا چیز ہے میں نے کہا ہم تو 2010 سے مار کھا رہے ہیں انہی آپریشنوں کے ہاتھ سے، دہشت گردی کے خلاف جنگ دہشت گردی کے خلاف جنگ کیا دہشت گردی کی خلاف جنگ یہ بین الاقوامی ایجنڈا نہیں ہے! اس کے اس پہلو کو ہم کیوں نظر انداز کر رہے ہیں، باجوہ صاحب نے مجھے کہا میرے سامنے بات کی کہ میں نے باڑ لگا دیا ہے فخر سے کہتا تھا میں نے وہاں باڑ لگا دیا ہے کسی کا باپ بھی نہ افغانستان جا سکتا ہے اور نہ آسکتا ہے، کوئی دہشت گرد نہیں آسکتا، اب موجودہ آرمی چیف فخر سے کہتا ہے میں نے باڑ اکھاڑ کے پھینک دیا، اب پتہ نہیں وہ حب الوطنی ہے یا یہ حب الوطنی ہے، وہ مسئلے کا حل تھا یا یہ مسئلے کا حل ہے، 50 ہزار نہیں بلکہ 25 ، 30 ہزار لوگ یہاں سے افغانستان گئے اور وہاں سے 40 ، 50 ہزار اس وقت آچکے ہیں اور ہمارے ہاں مجھے معاف کیجیے بہت درد اور دکھ سے کہہ رہا ہوں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے اگلے دو چار مہینوں کے اندر ہمارے ڈیرہ اسماعیل خان، وزیرستان، لکی مروت، کرک، بنوں، ان علاقوں میں امارت اسلامیہ قائم ہوجائے پاکستان نظر نہیں آرہی، مغرب ہوتی ہی تمام تھانے بند ہو جاتے ہیں اور ان کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ نے گھر سے باہر نہیں جانا، کہاں کھڑے ہیں ہم لوگ تو فکر مندی کی بات ہے حضرت جی یہ آپریشن میں نے پہلی عرض کی ہے آج بھی کہتا ہوں یہ عزم استحکام نہیں یہ چین کو جواب دے رہے ہیں کہ جس عدم استحکام کی بات کی تھی آپ نے اب ہم وہ استحکام لانا چاہتے ہیں لیکن ہر چند ہے نہیں ہے یہ استحکام عزم نہیں ہے یہ عدم استحکام کی طرف ہم جا رہے ہیں، ہمیں سوچنا پڑے گا میں کم از کم تضادات کا شکار نہیں ہوں میں فکری یکسوئی کا علمبردار ہو کر آپ کے سامنے بات کر رہا ہوں، اس طریقے سے اگر آپ قوم کو ہانکتے رہیں گے، پاک ڈبلیو ڈی تو آپ ختم کر رہے ہیں ہزاروں ملازمین کو بےروزگار کر رہے ہیں، اتنا بڑا محکمہ جو پاکستان سے پہلے کا ہے ان تمام محکموں کی ماں ہے آپ نے کس سے مشورہ کیا ہے؟ میں تو یہ دعوی بھی کرتا ہوں کہ یہ جو عزم استحکام پالیسی آپ لا رہے ہیں اسٹیبلشمنٹ کا بھی آپس میں مشورہ نہیں ہے وہ ان کے بھی کچھ لوگ کچھ کہہ رہے تھے دوسرے کو کچھ کہہ رہے ہیں باہر آپ کچھ بیان دے رہے ہیں پرائم منسٹر ہاؤس کا کچھ بیان آرہا ہے اس کے بارے میں، یہ چیزیں سیدھی کا بھی ہوں گی اس پر مشاورت کرنی ہوگی یک سوئی پیدا کرنی ہوگی بعد ہم پٹ چکے ہیں۔ ایک زمانہ تھا میرے گھر کے میرے گاؤں کے قریب سے بھی یہ نہیں گزرے تھے آج میرے گلی کی دیوار کے ساتھ گزر رہے ہیں اور وہاں کھڑے ہوتے ہیں جی، ہم کہاں کھڑے ہیں، ریاستیں ہمیں کہاں کھڑا کر دیا ہے، کیا ہم ایک شہری کی حیثیت سے ریاست پر کوئی حق نہیں رکھتے؟ اس ساری صورتحال میں دیکھیں آپ کی جمہوریت اپنا مقدمہ ہار چکی ہے پارلیمان اپنا مقدمہ ہاتھ چکے ہیں جب آپ الیکشن میں دھاندلیاں کریں گے اسٹیبلیشمنٹ دھاندلیاں کریں گی جعلی پارلیمنٹ وجود میں آئے گی تو پھر یہی ہوگا کہ عوام آپ پہ اعتماد نہیں کرے گی جی، مشاورت کے عمل کو وسیع کریں ٹھیک ہے آپ پر ذمہ داری ہے آپ کو نہیں لینی چاہیئے تھی ذمہ داری میں مے مشورہ آپ کو دیا تھا کہ یہ پنگا مت لو لیکن آپ نے پوچھا پنگا کسے کہتے ہیں تو میں نے کہا وہ پھر لے کر ہی پتہ چلتا ہے اس کا، وہ کسی نے کہا دوسرا حضرت صاحب سے کہ پنگا کسے کہتے ہیں انہوں نے کہا یہ لے کر ہی پتہ چلتا ہے۔

تو یہ کچھ گذارشات تھیں کچھ رہ بھی گئی لیکن یہ ہے کہ زرا ان لوگوں پر رحم کیجیے، تفتان کی صورتحال میں یہی بنتی جا رہی ہے وہاں پر بھی انتہائی جو ملک کے مفاد میں سب کچھ ہو رہا ہے اس کے راستے بھی روکے جا رہے ہیں، میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں اور میں نے اگر دخل در معقولات کیا ہے اور آپ کے عزت نفس کو متاثر کیا ہے اس پر آپ سے معذرت خواہ بھی ہوں لیکن بہرحال درد دل تھا جو آپ کے سامنے رکھا ہے اور پوری قوم کے سامنے رکھا ہے اور ان شاءاللہ یہ درد دل کا سلسلہ چلتا رہے گا ان شاءاللہ العزیز۔


ضبط تحریر: #محمدریاض

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات

#teamJUIswat 

Maulana Fazl ur Rehman Speech in NA.

ان سنسرڈ : قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان مدظلہ کا قومی اسمبلی کے اجلاس سے مکمل خطاب

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Wednesday, June 26, 2024

0/Post a Comment/Comments