مولانا فضل الرحمٰن کا مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو

قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو

30 جون 2024

بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم

جمعیت علماء اسلام کے مجلس شوریٰ کا اجلاس 29 اور 30 جون دو روزہ اجلاس آج اختتام پذیر ہوا۔ 13 اور 14 فروری کو مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس ہوا تھا جس میں 8 فروری کے الیکشن کو اس کے نتائج کو یکسر مسترد کر دیا گیا تھا، مرکزی مجلس شوریٰ نے مرکزی عاملہ کے اس فیصلے کی توثیق کر دی ہے اور ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ 8 فروری 2024 کے انتخابی نتائج کسی قیمت پر بھی ہمیں قبول نہیں اور انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے خلاف اپنی تحریک کو آگے بڑھائیں گے، اس مطالبے کے ساتھ کہ قوم کو ووٹ کا حق لوٹایا جائے اور ازسر نو صاف اور شفاف غیر جانبدارانہ انتخابات منعقد کیے جائیں جس سے اسٹیبلشمنٹ اور ہمارے خفیہ ادارے دور رہیں اور اس کی مکمل ضمانت ہو کہ کسی طریقے سے بھی اسٹیبلشمنٹ اور ان کے ادارے وہ الیکشن کے عمل میں مداخلت نہیں کریں گے۔

مرکزی مجلس شوریٰ نے جمعیت علماء اسلام کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے روابط کا جائزہ لیا، سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطے کو ایک سیاسی عمل قرار دیا، حکومت کی طرف سے جو رابطے ہوئے ہیں اس پر مجلس شوریٰ نے بڑی وضاحت کے ساتھ یہ بات کہہ دی کہ حکومت میں اتنا خم نہیں ہے کہ وہ ہمارے شکایات کا یا ازالہ کر سکے یا نقصانات کی تلافی کر سکیں، معاملہ بڑا سنجیدہ ہے یہ مسئلہ کوئی ایک سیاسی جماعت کو منانے یا راضی کرنے کا نہیں، ایک مستقل سیاسی مسئلہ ہے ملک کا جس پر جمعیت علماء اسلام نے ایک موقف اختیار کیا ہے اور جمعیت علماء اسلام ایک فریق کی حیثیت رکھتی ہے جب تک اصولی معاملات پر اتفاق نہیں ہو جاتا اور شفاف انتخابات کی ضمانت مہیا نہیں کی جاتی، منانے اور راضی کرنے کے الفاظ کا کیا معنیٰ؟

پی ٹی آئی کے وفود نے بھی رابطے کیے ہیں مجلس شوریٰ نے اس کا بھی جائزہ لیا، مرکزی مجلس شوریٰ کی رائے میں پی ٹی آئی کی خلاف 10 ، 12 سال قبل سے ہمارا موقف اور اس حوالے سے ہمارے تحفظات بہت سنجیدہ ہیں اگر وہ ہم سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں ہم خوش آمدید کہتے ہیں، ہم نے ابتدائی طور پر بھی ان پر واضح کر دیا تھا کہ اگر اختلافات دور کرنے ہیں یا ہمارے تحفظات دور کرنے ہیں اس کے لیے مناسب اور موافق ماحول ترتیب دینے کے لیے ہم آمادہ ہیں اور ہم نے آنے والے وقتوں کے لیے جن مثبت رویوں کا تعین کیا ہے ہم آج بھی اپنے ان مثبت رویوں پر قائم ہیں لیکن یہ بات سمجھنے کی ہے بصد احترام کہ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت میں اب تک کسی یکسوئی کا فقدان ہے، پارٹی کے سربراہ کی طرف سے وفود آتے ہیں وہ ہمارے ساتھ معاملات کو طے کرنے کی ہدایات لے کر آتے ہیں لیکن اس وقت تک انہوں نے کسی مذاکراتی ٹیم کا باضابطہ اعلان نہیں کیا ہے، دوسری طرف سنی اتحاد کونسل کے سربراہ جن کا میں دل سے احترام کرتا ہوں انہوں نے کل ہی بیان دیا ہے کہ جمعیت علماء اسلام کے ساتھ اتحاد نہیں ہو سکتا۔ اب یہ دو بالکل متوازی اور متصادم قسم کے آراء ہم اس میں کوئی ایک رائے قائم کرنے میں دقت محسوس کر رہے ہیں، تاہم ایک بہتر سیاسی ماحول تشکیل دینے میں ہمیں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے، سیاسی جماعت اختلافات کو طے کرنے کے لیے نہ مذاکرات کا انکار کرتی ہے اور نہ مسئلے کے حل کا انکار کرتی ہے۔

مرکزی مجلس شوریٰ نے اپنے اس موقف کا بھی اعادہ کیا کہ آئین تمام اداروں کے دائرہ کار کا تعین کرتا ہے بشمول افواج پاکستان کے تمام ادارے اپنے دائرے کار سے وابستہ ہو جائیں، ملک اور قوم کے لیے اپنا کردار جو آئین متعین کرتا ہے ادا کرتے رہیں، ملک کی دفاع کا مسئلہ ہو پوری قوم شانہ بشانہ کھڑی ہے، فوج کے ساتھ کھڑی ہے لیکن سیاسی معاملات میں مداخلت خود ان کے اپنے حلف کی بھی نفی کرتا ہے اور آئینی تقاضوں سے بھی متصادم ہے جسے ہم تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہو سکتے۔

حال ہی میں جو انہوں نے عزم استحکام کے عنوان سے آپریشن کا اعلان کیا ہے وہاں بھی یکسوئی نہیں پائی جا رہی، یقیناً عوام کے ذہن میں 2001 سے جب میزان آپریشن شروع ہوا تھا اور رد الفساد آپریشن تک جتنے بھی آپریشنز ہوئے ہیں دہشت گردی کے خلاف، آج دہشت گردی کی شرح کیوں کر 2001 اور 2002 سے 10 گنا زیادہ ہو گئی ہیں؟ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کے، قوم کو اعتماد نہیں رہا ہے، پھر لوگ گھر بار کیوں چھوڑیں گے، اور دو روز کے بعد وزیراعظم ہاؤس سے اس کی وضاحت جاری ہوئی کچھ معلوم نہیں کہ اب لوگ کس بیان کی طرف متوجہ ہوں پورے ملک میں ایک اضطراب دو صوبوں میں خاص طور پر ایک اضطراب، عوام صبح شام کنفیوز ہیں غیر محفوظ ہیں گھر سے باہر نکلتے ہیں یقین نہیں ہوتا کہ ہم گھر واپس صحیح سلامت لوٹ سکیں گے یا نہیں، اور پھر ان آپریشنز کے اندر جو عوام کے نقصانات ہوئے ہیں گھر بار چھوڑے ہیں اور پھر ان کے گھر تباہ ہو گئے ہیں آج تک ان کی نقصانات کے معاوضات نہیں دئیں گئے۔

فاٹا کا انضمام کیا گیا، فاٹا کی ترقی کے لیے 10 سال تک ہر سال ایک سو ارب روپے دینے کا وعدہ کیا گیا تھا جس کی منظوری اسمبلی سی لی گئی تھی لیکن آج بھی ایک سو ارب سات سال ہو چکے نہیں پورے کیے جا سکیں۔ کیا ریاست کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے! ہم پر تو لازم ہے کہ ہم ریاست کا احترام کریں ہم پر تو لازم ہے کہ ہم ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف زبان نہ کھولے لیکن کب ان کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس آئے گا، کب وہ ریاست کے اندر رہنے والے عوام کی آرزوؤں کو پورا کر سکیں گے۔

جمعیت علماء اسلام پاک چائنہ تعلقات کی مکمل حمایت کرتی ہے اس کو مضبوط سے مضبوط تر دیکھنا چاہتی ہے، ان کے استحکام اور دوام استحکام کی آرزومند ہیں لیکن ہم ابھی تک پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے چائنہ کا اعتماد بحال نہیں کر سکے۔

امریکی ایوانِ نمائندگان نے پاکستان کے 8 فروری کے الیکشن کے حوالے سے اس الیکشن کو بہ وجوہ مشکوک قرار دیا ہے، ہر چند کے ہم یہ سمجھتے ہیں اور جمعیت علماء اسلام کی یہ واضح رائے ہے کہ امریکہ پاکستان کے معاملات سے دور رہے اس پہ مداخلت کی ہم اجازت نہیں دیتے، تاہم پاکستان کی ریاست کہاں کھڑی ہے، اس کی خارجہ پالیسی کہاں کھڑی ہے، کیا یہ پاکستان کی سفارتی ناکامی نہیں، کیا یہ پاکستان کی لابی کی ناکامی نہیں ہے، اس پہلو پر کم از کم ہماری سفارتی اداروں کو بھی غور کرنا ہوگا اور ریاست کو بھی اس حوالے سے اپنے رویوں پہ نظر ثانی کرنی ہوگی۔

مرکزی مجلس شوریٰ نے کسی باضابطہ اتحاد میں جانے کا انتظار کیے بغیر اپنے پلیٹ فارم سے جدوجہد جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے البتہ رابطوں کے عمل کو مثبت اور سیاسی عمل تصور کیا جائے گا اور اگر سیاسی جماعتوں کے درمیان باہمی تعاؤن کا ماحول پیدا ہو تو ہماری کوشش ہوگی کہ ہم اسے قابل عمل بنا سکیں۔ 

کہا گیا کہ ہم افغانستان کے اندر جا کر حملے کریں گے، یہ کوئی نئی بات تو نہیں ہے، تم نے نائن الیون کے فوراً بعد پاکستان کے اندر امریکیوں کو ہوائی اڈے دیے، تم نے اپنی فضائیں امریکیوں کے حوالے کی، 20 سال تک تم نے پاکستان کے ہوائی اڈوں سے امریکی جہازوں کو اڑنے کی اجازت اور اپنی فضاؤں سے گزر کر افغانستان میں بمباریوں کی اجازت دی، 20 سال تک افغانستان پر آپ کی سرزمین سے بمباریاں ہوتی رہیں وہ نظر نہیں آرہی، آج دہشت گردی کے عنوان سے پھر ایک بھڑک مارنے کی کوشش کر رہے ہو کہ ہم افغانستان میں جا کر کاروائی کریں گے، تو درون درچ کر دی کہ بیرون خانہ آئی، پاکستان کی دہشت گردی کو روکنے اور اس کی خواب میں تو تم ناکام ہو چکے ہو اب جاتے ہو اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے افغانستان پہ حملوں کی بات کرتے ہو۔ پہلے تو ہمیں یہ اس بات کا جواب دیا جائے کہ خیبرپختونخوا میں حکومتی فنڈز سے جاری ہونے والے پروجیکٹس کیا ان کے فنڈز کا 10 فی صد دہشت گردوں کو ادا نہیں کیا جاتا؟ ریاست سے شہری کو سوال کرنے کا حق ہے کہ یہ تم دہشت گردوں کے معاون ہو یا دہشت گردوں کے مقابلے میں بے بس ہو، ہم ریاست کے لیے فکر مند ہیں ہمیں ان طفل تسلیوں سے تسلیاں دینے کی کوشش نہ کی جائے سنجیدہ گفتگو کی جائے ہم معاملات کو آپ سے بہتر جانتے ہیں۔

چمن بارڈر ہے انگور اڈا ہے غلام خان ہے میرا شاہ سے آگے کرم ایجنسی کا بارڈر ہے جمرود ہے اور باجوڑ تک جائیں وہاں پر بارڈر پر آباد پاکستانی آبادیوں پر وہ وہ قدغنیں لگائی جا رہی ہیں کہ دنیا کے کسی ملک میں اس قسم کی قدغنیں نہیں ہیں، بہت سے سوالات ہیں ہم وہ سوالات اٹھا کر ریاست کے لیے مشکلات نہیں پیدا کرنا چاہتے لیکن اتنا ضرور کہتے ہیں کہ جو کچھ وہاں اقدامات ہو رہے ہیں تم ہزار کہو کہ ہم ملک کی مفاد میں کر رہے ہیں نہ یہ ملک کی مفاد میں ہے اور اگر ہے تو کسی بیرونی آقا کی مفاد میں ہو رہا ہے۔ سوائے مقام لوگوں کے معاشی قتل کے اس کا اور کوئی نتیجہ سامنے نہیں آرہا۔

جمعیت علماء اسلام نے 5 اگست کو جس روز انڈیا نے کشمیر پر قبضہ کیا اور اپنے آئین کے آرٹیکل 370 کو حذف کر کے کشمیر کی مستقل حیثیت کا خاتمہ کیا ہم پورے ملک میں یوم سیاہ منائیں گے۔

جمعیت علماء اسلام نے غزہ اور فلسطین میں اپنے فلسطینی بھائیوں کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا ہے، ہم فلسطینی مجاہدین کے ساتھ ہیں، ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہمارے اس موقف کے ساتھ امریکہ اور مغرب ہمیں کیا خطاب دیتا ہے، ان کی نظر میں تو امارت اسلامیہ افغانستان بھی دہشت گرد ہیں، ان کی نظر میں تو حماس بھی دہشت گرد ہیں لیکن کیا کسی کو دہشت گرد کہہ کے آپ خطے میں امن لا سکتے ہیں۔ اسرائیل کی حمایت کرنا یہ جنگی جرم ہے کیونکہ وہ بے گناہ شہریوں پر بمباری کر رہا ہے، عالمی عدالتِ انصاف اس کا بھی نوٹس لے کہ اسے جنگی مجرم قرار دے اور اسے عالمی عدالت کے کٹہرے میں لا کر کھڑا کریں لیکن ساتھ ہی جمعیت علماء اسلام پاکستان کی حکومت ہو یا عالم اسلام تمام حکومتوں کو جھنجھوڑنا چاہتی ہے کہ بحیثیت مسلمان آپ وہ فرض ادا نہیں کر رہے جو اسلام آپ کے اوپر لازم کر رہا ہے، اللہ اور اس کا دین اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے موقع پر مسلمان کو جہاں کھڑا ہونے کی ہدایات دے رہا ہے جس فرض کی ادائیگی کی تعلیم دے رہا ہے امت مسلمہ کے حکمران غافل ہو چکے ہیں وہ اپنی اقتدار کی نشوں میں دھت ہو چکے ہیں اور پورا عالم اسلام اپنے حکمرانوں کے لیے ناراضگی کا اظہار کرتا ہے اس سے لاتعلقی کا اظہار کرتا ہے کم از کم اسلامی دنیا کے حکمران امت کے لیے ماں باپ کا کردار ادا کرتے اور آج ان کا سہارا بنتے انہوں نے امت مسلمہ کو اور فلسطینی عوام کو بے سہارہ چھوڑ دیا ہے۔ ہم بحیثیت ایک جماعت کے اپنی قوم سے بھی اور عالم اسلام سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ جہاں ہم سیاسی حمایت کریں گے جہاں ہم اخلاقی حمایت کریں گے وہاں اس وقت ان حالات میں ان کی مالی مدد کرنا سب پر واجب ہے بھرپور مالی مدد سے ان کو نوازا جائے تاکہ مشکل دن وہ آسانی سے گزار سکیں، ان بچوں کو کچھ کھلا سکیں، کسی کا علاج کر سکیں، نہ وہاں غذا کے لیے کچھ ہے دوا کے لیے کچھ ہے اور ہم نے ان کو صیہونیوں کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا ہے کبھی امت مسلمہ کی تاریخ میں ایسا نہیں لیکن آج امت مسلمہ کے حکمران جو تاریخ رقم کر رہے ہیں آنے والی نسلیں ان کے بارے میں کیا کہیں گی اس کا انہیں خود اندازہ لگا لینا چاہیے۔

جمعیت علماء اسلام نے 7 ستمبر کو، یہ بات ملحوظ نظر ہونی چاہیے کہ 7 ستمبر 1974 کو پاکستان کی پارلیمنٹ نے متفقہ ترمیم کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا تھا، پتہ نہیں پاکستان کے لوگوں کو ہمارے دانشوروں کو کیا ہو جاتا ہے یہ کس کے ایجنٹ بن جاتے ہیں کہ کبھی وہ اسرائیل کی تسلیم کرنے کے لیے مہم چلاتے ہیں اور کبھی آج ان کو قادیانیوں کے حقوق سامنے آگئے ہیں، ہم سے زیادہ انسانی حقوق کوئی نہیں جانتا ہم انسان حقوق کا احترام کرتے ہیں لیکن اگر صوفی محمد شریعت کی بات کرتا ہے لیکن آئین کا انکار کرتا ہے عدلیہ کا انکار کرتا ہے اور اس کے باوجود اس کو غدار قرار دیا جاتا ہے تو پھر قادیانی اگر آئین کا انکار کرتے ہیں عدالتوں کا انکار کرتے ہیں فیصلوں کا انکار کرتے ہیں تو انہیں انسانی حقوق کے حوالے سے نہیں سوچا جائے گا ملک اور آئین سے وفاداری کے ترازو میں تولا جائے گا اور کسی طریقے سے بھی ان کو ایسی مراعات دینے کا حق نہیں دیا جائے گا کہ جس سے وہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر سکے چنانچہ جو آئین کہتا ہے اور جو قانون کہتا ہے، آئین اور قانون دونوں ان کے حدود کا تعین کرتا ہے کسی کو بھی حق نہیں ہے کہ وہ قادیانیوں کا وکیل بن سکے اور ان شاءاللہ 7 ستمبر 2024 کو 50 سال پورے ہونے پر لاہور مینار پاکستان پر گولڈن جوبلی بنائی جائے گی اس فیصلے کی اور اس جن کو یوم الفتح قرار دیا جائے گا، میں پورے ملک کے عوام سے جمعیت علماء اسلام کی تنظیموں سے مذہبی تنظیموں سے اور ان کی نچلی سطح کی تنظیموں سے یہ اپیل کروں گا ان کو ہدایات بھی دوں گا کہ وہ لوگوں کو اٹھائیں یہاں اس کانفرنس میں اور اس یوم الفتح میں اور گولڈن جوبلی میں شرکت کے لیے ان کو آمادہ کرے، ان شاءاللہ مسلمانان پاکستان اس قادیانی نواز دعوے کی کمر توڑ کر رکھ دے گا۔

14 اکتوبر کو مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود صاحب رحمہ اللہ کی یاد میں ملک گیر اجتماع کیا جائے گا اور یہ اجتماع اس سال صوبہ سندھ میں کیا جائے گا صوبہ سندھ کی جماعت جس شہر کا تعین کرے گی ان شاءاللہ وہاں پر بہت بڑا عظیم الشان اجتماع ہوگا کانفرنس ہوگی اپنے اسلاف کو یاد کرنا ان کو زندہ جاوید بنانا یہ قوم کا ایک فرض بنتا ہے۔

تاجروں نے جس ہڑتال کی اپیل کی ہے جمعیت علماء اسلام بجلی گیس ٹیکسز اور مہنگائی کے خلاف ان کے ہڑتال کی بھرپور حمایت کرتی ہے۔ بہت بہت شکریہ آپ حضرات کی۔


سوال و جواب 

صحافی: کیا شوریٰ نے اس کو بھی محسوس کیا ہے کہ پہلے معیشت کو بہتر کیا جائے یا پہلے انتخابات کروائے جائے؟

مولانا صاحب: میرے خیال میں ہم نے تو بجٹ کو بھی مسترد کر دیا ہے، یہ بجٹ بھی ایسا بجٹ نہیں ہے کہ جس پہ قوم کے لیے کچھ ہو، یہ آئی ایم ایف کا بنایا ہوا اور خود وزیراعظم نے اعتراف کیا ہے اس کا ہم تو پہلے سے کہتے رہے ہیں اب جو جس ملک کا بجٹ آئی ایم ایف تیار کرے وہ اپنے مفادات کے لیے تیار کریں گے یا آپ کے غریب کے لیے تیار کرے گا۔ لہٰذا جمعیت علماء اسلام نے سرے سے اس بجٹ ہی کو مسترد کر دیا اور ایک عوام کا حقیقی نمائندہ پارلیمان ہی قوم کی نمائندہ بجٹ پاس کر سکتا ہے۔

صحافی: مولانا صاحب آپ نے اپنی اوپننگ گفتگو میں فرمایا کہ حکومت سے ہوئے رابطوں کے بارے میں شورا نے طے کیا ہے کہ حکومت میں اتنا دم خم نہیں کہ وہ ہماری اور دیگر سیاسی جماعتوں کے تحفظات دور کر سکے، یہ دم خم کس میں ہے کہ جو آپ لوگوں کے یہ تحفظات دور کر سکے کس طرح سے کیونکہ ان میں دم خم تو نہیں۔

مولانا صاحب: دوبارہ الیکشن کی صورت میں آپ سمجھئے نا بات کو، یعنی کہ یہ جو مذاکرات کرے اور آئے جی آپ بیٹھے ہم سے گفتگو کریں مسئلے حل نکالیں یہ اصول کی باتیں ہیں اپنی جگہ پر ٹھیک ہیں لیکن کیا ان کے پاس اس دھاندلی کے الیکشن کا متبادل ہے سوائے نئے الیکشن کے، تو بات کو ذرا جلدی سمجھا کرو نا۔

صحافی: دوسرا یہ بتا دیں آپ نے پی ٹی آئی کے حوالے سے کہا کہ انہوں نے مذاکراتی کمیٹی نہیں بنائی ابھی حالیہ دنوں میں آفیشلی شاید آپ کو نہیں بتایا گیا لیکن چار رکنی کمیٹی کے نام بھی آئے کہ جی ایک کمیٹی ہم نے بنا دی اگر وہ کمیٹی بناتے ہیں تو آپ اپنی کمیٹی بنانے کو تیار ہیں اور کیا کسی ریٹرن چارٹر کے اوپر جو ہے وہ آپ لوگ ایگریمنٹ ہو سکتا ہے؟ جے یو آئی کے شوریٰ نے اس بات پر بھی کوئی غور کیا ہوگا۔

مولانا صاحب: اگر مذاکرات کا ماحول بنتا ہے اور میں نے صرف یہ بات تو نہیں کہی میں نے کہا کہ ابھی تک یکسوئی نہیں ہے اور پھر سنی اتحاد کونسل اور ان کا اپنا تو عجیب عجیب تضاد کا شکار ہیں، ہم یکسوئی چاہتے ہیں تو بالکل سنجیدگی کے ساتھ ہم مذاکرات کی بلکہ تجویز ہی ہماری ہے کہ آپ ہمارے تحفظات کو دور کریں تو بہت اچھا انداز سے ہم اور آگے بڑھ سکتے ہیں اور انہوں نے اس سے اتفاق کیا ہے تو اب وہ ماحول اگر بن جاتا ہے تو ہمیں کوئی انکار نہیں۔

صحافی: اچھا مولانا صاحب یہ بتائیں کہ جیسے پی ٹی آئی جو جماعت جو ہے ان میں اختلافات جو ہے وہ بڑھ گئے ہیں اس سلسلہ سے کیا پیغام دیں گے دوسری جانب مہنگائی کے خلاف آپ کی جماعت کب روڈ پہ نکلے گی؟

مولانا صاحب: دیکھیے بات یہ ہے کہ میں کسی دوسری پارٹی کے اندرونی معاملات میں نہیں جھانکا کرتا اور وہ جو میں نے ایک جملہ کہہ دیا ہے وہ کافی ہے کہ ابھی تک کوئی یکسوئی جو ہے وہ سامنے۔۔۔

صحافی: مولانا صاحب یہ بتائیں کہ آپ نے جمعیت علماء اسلام کے مجلس شوریٰ نے آپریشن عزم استحکام کو مسترد کیا ہے، خواجہ آصف نے کچھ ہی دن پہلے اسمبلی کے فلور پہ کہا ہے کہ جو اپوزیشن ہے وہ دہشت گردوں کی حمایت کر رہی ہے وہ دہشتگردوں کو سپورٹ کرنے کا الزام ہے اس پر آپ کیا کہیں گے۔

مولانا صاحب: یہ حربے تمام ہو چکے ہیں گزشتہ 22 سالوں میں یہ گزشتہ 22 سالوں میں یہ حربے سب ناکام ہو چکے ہیں وہ ذرا اپنے حدود میں اگر رہے ہیں تو اچھا ہوگا وہ اچھے آدمی ہیں ہمارے دوست ہیں اور بڑی اچھی مجلس ہماری ان کے ساتھ رہتی ہے لیکن یہ ان کی کیپیسٹی نہیں ہے، زرا تھوڑا سا اپنی کیپیسٹی سے بڑھ کر بات کی ہے، میں نے قربانیاں دی ہیں، میں جہاں کھڑا ہوں مجھے کیا وہ نہیں جانتے! میں 2013 سے ان کے ساتھ اتحادی رہا ہوں کیا وہ مجھے نہیں جانتے ایک دم سے جاہل ہو گئے! طوطا چشمی اور آنکھیں پھیر لینا تو اسی کا نام ہوگا نا تو میرا خیال میں ہم دوست ہیں اور دوستی کو سمجھیں تاریخ کو سمجھے نفی نہ کیا کریں ان کی۔ یہ اس وقت بھی کہا گیا جب ہم نے کہا تھا 2010 میں کہ یہ آپریشن نہیں ہونا چاہیے جو تمہاری حکمت عملی ہے وہ غلط ہے اور ثابت ہوا یا نہیں! آپ 2001 کی دہشت گردی کی شرح بھی اٹھا کے نکالے اور آج کی شرح بھی نکالے، آپ بتائیں 10 15 آپریشنوں کا نتیجہ کیا نکلا، کیا ہو رہا ہے ملک میں، صاف صاف بات لوگوں کو بتا دی جائے کہ ہم کس مقصد کے لیے کام کر رہے ہیں، عوام پر احسان کیوں جتلایا جا رہے ہیں، سب کچھ اپنے کمانے کے لیے ہو رہا ہے اور عوام پر احسانات جتلائے جا رہے ہیں، تو یہ ساری چیزیں حضرت یہ کچھ چیزیں ہوتی ہیں ذرا ڈیپ پالیٹکس کا حصہ ہوتی ہے جو لوگوں کو کچھ اور دکھایا جاتا ہے یہ وہ ہاتھی ہے جس کے دکھانے کے دانت کوئی اور ہوتے ہیں اور کھانے کے دانت کوئی اور ہوتے ہیں۔ بہت شکریہ آپ حضرات کا۔ آخر میں بارش کے لیے دعا کی گئی۔


ضبط تحریر: #محمدریاض

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات

#teamJUIswat

0/Post a Comment/Comments