مولانا فضل الرحمن کا کوئٹہ میں موجودہ ملکی صورتحال کے حوالے سے پریس کانفرنس


قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب مدظلہ کا کوئٹہ میں موجودہ ملکی صورتحال کے حوالے سے پریس کانفرنس

24 جون 2024

بسم اللہ الرحمن الرحیم

نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم

آج مجھے بڑی خوشی محسوس ہورہی ہے کہ کوئٹہ کے صحافی حضرات کے ساتھ میری ملاقات ہو رہی ہے کافی عرصہ ہوا تھا کہ ہم نہیں بیٹھ سکے تھے اور گفتگو نہیں ہو سکی تھی، عجلت میں ہی سہی لیکن آج آپ سے بات کرنے کا موقع ملا۔

آج یہاں پر بلوچستان کی جو سیاسی جماعتیں ہیں ان کے قائدین ان کے رفقا تشریف لائے تھے اور یہ ایک مشاورتی مجلس تھی تھوڑا سا الیکشن کے بعد کی صورتحال پہ ایک دوسرے کو سننا ایک دوسرے کو سمجھنا اپنا اپنا تجزیہ پیش کرنا اور ایک آدھ جماعت کے علاوہ میرے خیال میں مجموعی طور پر اگر آپ دیکھیں گے تو یہ وہی پرانے سن ستر کے زمانے کا نیپ جمعیت ہے تو تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے اور بڑی خوشی ہوئی ہے کہ ان تمام قائدین نے خاص کر ہمارے جو صاحب الرائے سینئر ساتھی ہے خوشحال خان اور دیگر سب کو آپ جانتے ہو گے تو یہ وہ حالات ہے جس کے حوالے سے ہمارا موقف بڑا واضح ہے ہم پارلیمنٹ میں بھی اپنا موقف دے چکے ہے باہر بھی دے چکے ہے اور ہم نے عوامی رابطے کا جو ایک سلسلہ شروع کیا تھا پشین سے کراچی، کراچی سے پشاور، پشاور سے پنجاب مظفرگڑھ میں، تو عوام کا جو اس میں رسپانس تھا اور جس طریقے سے ہمیں پذیرائی بخشی ہے وہ ناقابل فراموش ہے تاریخ اس کو بھلا نہیں سکے گی۔

جب ہم ملک میں ایک آئین رکھتے ہیں اور آئین ہمارے صوبوں کو ان کے اختیارات کا بھی تعین کرتا ہے اور ہمارے ہر ادارے کے دائرہ کار کا تعین بھی کرتا ہے پھر اسٹیبلشمنٹ کو بالادستی کی خواہش کیوں ہے؟ پھر اسے ہر شعبے میں اپنی بالادستی قائم کرنا اس پر ضد کیوں ہے؟ پھر انتخابات میں دھاندلی کر کے اپنی مرضی کے نتائج سامنے لانا یہ کون سی لت ہے جو ان کو پڑ گئی اور اگر وہ یہ چاہیں گے پھر ہم کیوں قبول کریں گے اس کو، ہم بھی آخر اس ملک کے رہنے والے ہیں جس شناختی کارڈ کی بنیاد پر ہمارا آرمی چیف پاکستانی ہے اسی شناختی کارڈ پر میں بھی پاکستانی ہوں اور آپ بھی پاکستانی ہے۔ ہم ملک کے برابر کے شہری ہیں لیکن ایک طبقہ سمجھے کہ میں نے حاکم رہنا ہے اور باقی سب کو غلام رکھنا ہے تو پھر ہم واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ یہ رسم کہیں ان کے اپنے قبیلوں کی ہوگی ہمارے قبیلے کی یہ رسم نہیں ہے ہماری دو تین سو سالہ تاریخ غلامی کے خلاف جنگ لڑنے کی اور قربانیاں دینے کی ہے ۔ انگریز کے خلاف 50 ہزار سے زیادہ مجاہدین اسی پاداش میں سولیوں پہ لٹکائے گئے توپوں سے اڑائے گئے کیا پاکستان ہم نے اس لیے حاصل کیا تھا کہ اس پاکستان میں ہم جرنیلوں کے غلامی کریں گے اور جانوروں کی طرح وہ ہمیں جس طرح ہانکیں گے ہم اسی طرح جائیں گے اور جس طرح وہ ہمیں چارہ ڈالیں گے ہم وہ چارہ قبول کریں گے یہ کبھی نہیں ہوگا۔

اس وقت ملک میں ریاست کے رٹ نہ ہونے کے برابر ہے صوبہ خیبر پختونخوا میں ہو یا صبح بلوچستان میں، مسلح تنظیمیں اس وقت کھلے عام تمام علاقوں کو کنٹرول کر رہی ہے اور انہوں نے اب اعلان کیا ہے کہ ہم عزم استحکام اپریشن شروع کریں گے یہ عدم استحکام اپریشن ہے جو پاکستان کو اور کمزور کرے گی۔ ماضی کی جتنی اپریشن ہوئے ہیں ذرا ان کے نتائج تو سامنے رکھیں آج ہم کہاں کھڑے ہیں چپے چپے پر آج ہماری فوج موجود ہے کیوں بے بس ہو گئی ہے میری پولیس کیوں بے بس ہو گئی ہے بلوچستان کے بارے میں تو میں زیادہ نہیں جانتا ہوں پر شاید لیکن خیبر پختونخوا کے بارے میں تو جہاں ہمارے اضلاع ہیں وہاں تو سورج غروب ہونے کے بعد پولیس اپنے تھانوں میں بند ہو جاتی ہے کسی قسم کا ان کا کسی روڈ کے ساتھ راستے کے ساتھ تعلق ختم ہو جاتا ہے ۔ تو ملک کو اور کمزور کیوں کیا جا رہا ہے ایپکس کمیٹی نے فیصلہ کر لیا ہے ایپکس کمیٹی کیا ہے یہ جب تحصیل لیول پر ہوتی ہے تو وہاں میجر بیٹھتا ہے یہ جب ضلعی لیول پہ ہوتی ہے تو وہاں کرنل بیٹھتا ہے یہ جب ڈویژن لیول پر ہوتی ہے تو اس میں بریگیڈیر بیٹھتا ہے یہ جب صوبے کے لیول پر ہوتی ہے تو اس میں کور کمانڈر بیٹھتا ہے اور وفاق کی سطح پر ہوتی ہے تو اس میں آرمی چیف بیٹھا ہوتا ہے آپ بتائیں کہ جہاں کسی اجلاس میں وردی والا موجود ہوگا وہاں فیصلے وردی کرے گا یا باقی لوگ کریں گے ۔ ذمہ داری ہمارے اوپر ڈالتے ہیں بڑی خوشی سے شہباز شریف صاحب ذمہ داری قبول کرے گا لیکن ہر چند جو ہے شہباز شریف وزیر اعظم نہیں ہے بس کرسی پہ بیٹھا ہوا ہے ایک آئینی کرسی سنبھالی ہوئی ہے سو اسی پہ خوش رہیں۔

تو ان حالات سے ہم گزر رہے ہیں اور اسی حوالے سے مشاورت کا ایک عمل جب میں اسلام آباد میں ہوتا ہوں تو کبھی دوستوں کے ساتھ رابطوں میں رہتا ہوں، سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطے میں رہتا ہوں، ملاقاتیں رہتی ہیں، حالات پر ہم تبصرہ کرتے ہیں ہے اور یقینا ہمیں ایک قومی جذبے کے ساتھ ایک نئی سوچ کے ساتھ ہمیں ایک نئی منظر متعین کرنی ہوگی جو اس ملک کی بقا اور اس ملک کے استحکام کی ضامن ہو اور ائین پر عمل ہو جمہوری نظام مستحکم ہو جمہوریت اپنا مقدمہ ہار چکا ہے پارلیمنٹ اپنا مقدمہ ہار چکا ہے اور ان کے خلاف بغاوتیں ان کے خلاف مسلح تنظیمیں وہ اپنا موقف تسلیم کرا رہی ہے یہاں تک ہمیں کس نے پہنچایا اس کا کون ذمہ دار ہے جب ہم ائین پہ عمل نہیں کریں گے ائین ایک میثاق ملی ہے جو میثاق ملی بیچ میں نہیں رہے گا تو پھر عوام کا اس ریاست کے ساتھ جو کمٹمنٹ ہے اس کا کوئی ضمانت نہیں ہے یہ ائین ہمارا ہے۔

اس حوالے سے اج جو مجلس ہوئی ہے میں شکر گزار ہوں تمام دوستوں کا تشریف لائے انہوں نے دوپہر اکٹھے گزاری بڑی لمبی بات چیت ہوتی رہی ہے اور یہ سلسلہ ان شاءاللہ العزیز جاری رہے گا۔


سوال و جواب

صحافی: مولانا صاحب اب یہ جو خدشات ہیں یہ ہمیشہ جو ہے اپوزیشن جماعتیں کیوں سامنے لاتی ہیں جب کہ آپ تمام جماعتیں اقتدار میں بھی رہی ہیں خوشحال کی جماعت نہیں ہے لیکن وہاں پر جا کر ترجیحات کیوں چینج ہو جاتی ہیں وہاں پر یہ موقف نہیں ہمیں دکھائی دیتا یہ سب موقف ہے یا اسٹیبلشمنٹ کے خلاف وہاں پر سارے اکٹھے ہوتے ہیں اسی الیکشن سے پہلے

مولانا صاحب: یہ سوال جب نواز شریف صاحب آجائے ان سے پوچھ لینا شہباز شریف صاحب آئے ان سے پوچھیں یہ بات مجھ سے پوچھنے کا ہے ہی نہیں میں تو ان کو چھوڑ کے آیا ہوں یا وہ مجھے چھوڑ کے چلے گئے۔

صحافی: مولانا صاحب ذرا سوال ظاہر ہے آپ نیشنل اور انٹرنیشنل لیول کے پولیٹیشن ہے لیکن میں بلوچستان کے حوالے سے سوال کروں گا ماضی میں ہم نے دیکھا علماء صاحبان جو ہیں اسمبلی پہنچتے تھے اس مرتبہ کوئی بارہ تیرہ با اثر شخصیات جو ہیں وہ پہنچے تو کہیں علماء صاحبان کے ہاتھ سے پارٹی تو نہیں نکل رہی لیکن یہ جو آپ کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں نیشنلسٹ جو لیڈرز ہیں آپ کے نیریٹیو میں اور ان کے نیریٹیو میں بہت زیادہ فرق ہے میں افغانستان کے کانٹیکسٹ میں تو کیا ایگری ہو گئے یہ تو بڑے کریٹیکل ہے طالبان کے اور آپ کے اچھے دوست ہیں۔

مولانا صاحب: جی بڑے اچھے سوالات ہیں اور یہ سوالات رہیں گے اس کے باوجود دنیا چلتی رہی چلتی رہے گی دیکھیے جہاں تک جمعیت علماء اسلام کا تعلق ہے جمعیت علماء اسلام بظاہر تو ٹھیک ہے علماء کا لفظ اس میں موجود ہے لیکن یہ پاکستان کے عوام کی جماعت ہے اور اس پر ہم نے صرف علماء کے سرکل تک محدود نہیں رکھا اس کو ہم نے کسی مسلک تک محدود نہیں رکھا ایک مکتب فکر تک ہم نے اس کو محدود نہیں رکھا اس کو ملک کے عوام کی جماعت بنایا ہے اور آج جو منظر آپ کو نظر آرہا ہے یہ تو ٹھیک ہے بظاہر جو نقشہ آیا ہے آپ کا سوال بالکل ججتا ہے اس حوالے سے لیکن اگر ایک غیر عالم دین بھی ہماری ٹکٹ پر کامیاب ہوگا ہم اس کو بھی وہی احترام دیں گے جو ہم ایک اپنے عالم دین کو دیتے ہیں جب ہم نے جماعت کو اتنا پھیلایا ہے اور آج وہ لوگ جمعیت میں آئے ہیں اور انہیں یہ نہیں دیکھا کہ میں مولوی صاحب کی پارٹی میں جا رہا ہوں نواب ہے سردار ہے جو بھی ہے اور جمعیت میں آرہا ہے تو ہم خوش آمدید کہتے ہیں اور ہم نے ان کو خوش آمدید کہا ہے اور آج اگر انہوں نے اپنے حلقوں میں الیکشن جیتا ہے تو اس تفریق میں ہم جمعیت کو مبتلا نہیں کریں گے کہ یہ علماء ونگ ہیں اور یہ سرداران ونگ ہیں یہ نوابان ونگ ہے یہ پاکستان کے عوام کی جماعت ہے جہاں تک قوم پرست جماعتوں کی بات ہے ہم سیاسی لوگ ہیں ہم بہت سے ایشوز پہ اختلاف کریں گے ان کا اپنا نقطہ نظر ہو گا ہمارا اپنا نقطہ نظر ہو گا ان کا اپنا تجزیہ ہو گا ہمارا اپنا تجزیہ ہوگا لیکن ہم ایک چھت کے نیچے رہنے والے لوگ ہے جس طرح ہندوستان تقسیم ہوا ہندوستان تقسیم ہونے کے بعد جو لوگ یہاں رہ گئے انہوں نے ہر چند کی تقسیم کے فلسفے سے اختلاف کیا تھا لیکن پھر ایک ہی چھت کے نیچے انہوں نے اس ملک کو بنانے کے لیے کردار ادا کیا تھا پھر بنگال ہم سے ٹوٹ گیا پھر اس کے بعد ہم یہاں ادھے رہ گئے پھر جو اس چھت کے نیچے تھے انہوں نے پھر اس ملک کو مستحکم بنانے کے لیے کام کیا۔

تو ہم آج بھی وہ لوگ ہیں کہ جن کا مستقبل ایک ہے جن کا آنے والا مستقبل میں چھت ایک ہے ایک ملک پاکستان میں ایک چھت کے نیچے ہم رہنا چاہتے ہیں ہم اس چھت کو توڑنا نہیں چاہتے تو ملک ایک ہے اس پہ اتفاق ہے اگر کچھ شقوں پر ہمارا اختلاف رائے ہو جاتا ہے تو کیا ہمیں زندگی پر بھی اختلاف ہے وہ بھی زندہ رہنا چاہتے ہیں ہم بھی زندہ رہنا چاہتے ہیں بیمار ہو گیا تو وہ بھی صحت مند ہونا چاہتا ہے ہم بھی صحت مند ہونا چاہتے ہیں اس سے کوئی انکار کر سکتا ہے بھوک لگ جاتی ہے تو وہ بھی کھانا کے محتاج ہے ہم بھی کھانے کے محتاج ہے پیاس لگ جائے تو وہ بھی پینے کے محتاج ہے ہم بھی محتاج ہیں اتنے مشترکات کہ باوجود آپ کو صرف وہ نکات نظر آگئے جس پر ہمارے اختلافات ہے۔

صحافی: مولانا صاحب مرکز کی سطح پر بھی ایک اتحاد قائم ہے وہ بھی کم و بیش اسی پیٹرن پر ہے کہ ہم آئین کی بالادستی پارلیمنٹ کی اور سول سپرمیسی کے لیے لڑ رہے ہیں کیا یہ امتیاز اس احتیاط کے ساتھ کسی قسم کے رابطے میں ہے کیا اپ کی پرٹیکولر بھی اپ کی جو ہے ان کے ساتھ رابطے بھی ہوئی ہے ملاقاتیں بھی ہیں آپ کی جماعت کے اندر ان کے ساتھ ملا جائے گا یا امکان ہی موجود نہیں ہے کسی ٹائم پہ اپ کو وہاں جانے کا؟

مولانا صاحب: میں آپ کو اس کا جواب دیتا ہوں ایک اس احساس کے ساتھ نہیں کہ میں خدانخواستہ کوئی تنقید کر رہا ہوں صرف آپ کو سمجھانے کے لیے کہ جس طرح آج ہم اکٹھے ہیں یا اس سے پہلے ایمل خان آئے تھے تو ان کے ساتھ ایک مشاورت ہوئی اگر اسی طرح کی مشاورت اس سے اتحاد کے بننے سے پہلے ہو جاتی تو شاید صورت حال اس سے کچھ مختلف ہوتی ہے لیکن انہوں نے ایک اتحاد کر لیا ہے تو ہم اتحاد کو تو مخالفت نہیں کر رہے ہیں ٹھیک ہے کر لیا ہے لیکن پھر بھی رابطوں کا سلسلہ ان کے ساتھ برقرار ہے باتیں چلتی رہتی ہیں کبھی وہ تشریف لے آئے کبھی ہم پارلیمنٹ میں مل لیے تو یہ سیاسی لوگوں کی باہمی جو مشاورت ہے یہ سلسلہ چلنا چاہیے اور اگر انہوں نے اتحاد بنا لیا ہے تو اس کے احترام کے ساتھ ساتھ سوچ پر تو کوئی پابندی نہیں ہے سوچ تو سب سیاسی لوگوں کی ہوگی اور چلتی رہے گی اور ان شاءاللہ العزیز اس کے بہتر نتائج آئیں گے ہم اس اتحاد کو بھی کوئی منفی نظر سے نہیں دیکھ رہے ہیں لیکن اگر مشاورت اس پر ہو جاتی تو شاید اس کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔

صحافی: مولانا صاحب چمن میں ہزاروں لوگ آٹھ مہینے سے احتجاج پر ہے اس کا کوئی حل نہیں نکل رہا ہے گورنمنٹ ان کے مطالبات مان نہیں رہی ہے سیاسی قیادت جاتی ہے رسمی طور پر لیکن اس کا مستقبل نظر نہیں آرہا

مولانا صاحب: اسی لیے تو میں جاتا نہیں ہوں دیکھیں جہاں تک پرلت کا تعلق ہے یہ سرحد پر بسنے والے لوگ ہیں یہ صرف چمن میں نہیں ہے یہ پورے اس افغان بارڈر کے اوپر باجوڑ تک جائے ہر جگہ ایسی صورتحال ہے اور جہاں بھی دنیا میں دو ملکوں کے سرحدات ملتے ہیں ان سرحدات پر اباد آبادیاں جو ہوتی ہیں ان کو کچھ خصوصی مراعات حاصل ہوتی ہیں تاکہ وہ اپنے روزگار تو کرے آج نو مہینے سے یہ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں میں اس قوت کو جو ہزار بار کہے کہ میں ریاست کا محافظ ہوں اور ریاست کے لیے میرا سب کچھ قربان لیکن میں آج ان لوگوں کی اس حالت کو دیکھ کر ریاست کے ان اداروں کو شقی القلب کے نام سے پکاروں گا وہ رحم دل لوگ نہیں ہیں کہتے ہیں ملک پر رحم کر رہے ہیں ملک پر رحم تب نظر آئے گا جب آپ ملک کے اور ریاست کے لوگوں پر رحم کریں گے آج ان کے پاس متبادل روزگار نہیں ہے آپ نے ان پر پابندیاں لگا دی ہے وہ دن میں جو بچوں کے لیے کماتے تھے وہ نہیں ہیں آج ان کے گھروں کے خواتین نے اپنے زیورات بیچ دیے اپنے بالیاں بیچ دیے انہوں نے اور اس سے وہ صبح شام کے کھانے کی فکر مند ہے وہ ختم ہو گئے ہیں تو اب گھروں کے دروازے اور کھڑکیاں بیچ رہے ہیں کہ کسی طریقے سے تو ہمارے کوئی شام کی روٹی کا انتظام ہو سکے کیا اپنی آبادی کے لوگوں کے ساتھ یہ رویہ یہ شقاوت قلب نہیں ہے تو اور کیا ہے لہذا ریاست بے رحم ہو چکی ہے ان کے رویے بے رحم ہو چکے ہیں وہ اپنے عوام کو پتہ نہیں کیا دشمن عوام سمجھتے ہیں اور وہ دشمن کے ساتھ جو رویہ رکھا جاتا ہے وہ آج ہمارے اس پارلت کے لوگوں کے ساتھ رکھا جا رہا ہے۔ اس کا حل ہے نکالا گیا ہے لیکن بات چیت ماننے کے باوجود بھی اس پر عمل نہیں کر رہا تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔

صحافی: مولانا صاحب میرے بھی دو سوال ہیں ایک یہ ہے کہ اپریشن عزم استحکام کے حوالے سے آپ کیا سمجھتے ہیں کہ یہ کس کے ایما پر کیا جا رہا ہے دوسرا سوال آپ سیاست اور بالخصوص الیکشن می اسٹبلشمنٹ پر اعتراض لگا رہے ہیں کہ ان کی مداخلت کی وجہ سے یہ سب کچھ ہو پایا ہے تو اپ کے نشست میں بیٹھے ہوئے آپ کے پاس خوشحال خان کی جماعت کا اس سب سے اہم اعتراض یہ ہے کہ ان کی نشست اپ کی پارٹی کو دی گئی ہے اس حوالے سے آپ کی پارٹی کا کیا موقف ہے؟

مولانا صاحب: یہ چھوٹا سا سوال ہے اس کو چھوڑو یہ چلتے رہتے ہیں۔ خوشحال خان (ایک بات عرض کروں آپ لوگ سارے نوجوان ہیں تمام جرنلسٹ کیوں آپ توڑنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں جوڑنے میں نہیں)

مولانا صاحب (ہم آپ کے اس فورم کو قومی سطح کی سوچ پہ لے جانا چاہتے ہیں آپ نے قسم کھا رکھی ہے کہ ہم نے ریت گننا ہے یہ ان کا اعتراض نہیں ہے یہ آپ کا اعتراض ہے ان کا نہیں، ان کا کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا تو آپ لوگ آپ کو کیا شوق ہے کہ لوگ اتحاد کے لیے بیٹھے ہوئے ہیں اور تمہیں کس نے بھیجا ہے کہ اس کو سبوتاژ کرنے کے لیے سوالات کرو ہم نے بھی چالیس سال سیاست میں گزارے ہیں جب صحافی منہ سے سوال نکالتا ہے تو مجھے فوراً پتہ چل جاتا ہے کہ سوال کہاں سے آیا ہے میں بھی میں بھی آپ کا باپ ہوں۔

صحافی: مولانا صاحب جس پر آپ تنقید کر رہے ہیں ماضی میں جب یہ لوگ اقتدار میں آئے تو ہماری سیاسی پارٹیوں میں مٹھائیاں بانٹیں ان کو ہار پہنائے ہیں تو اس ٹائم غلط تھے یہ آج آپ لوگ غلط ہیں؟

مولانا صاحب: نہیں یہ آپ ان سے پوچھیں کہ اس وقت انہوں نے سیاست دانوں کو گلے کیوں لگایا اور آج کیوں گلے نہیں لگایا۔ سیاستدانوں نے کبھی گلے نہیں لگایا سیاست دانوں کو ایک طبقہ مت سمجھو وہ ہوتے سیاستدان کہلاتے سیاستدان ہیں لیکن ان کی جو سیاسی تاریخ ہوتی ہے جو سیاسی روش ہوتی ہے جو سیاسی فکر ہوتا ہے جو زاویہ نظر ہوتا ہے وہ ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے غلامانہ ہوتا ہے اور اگر ہمارے موقف کے مطابق کوئی بات سامنے آتی ہے چاہے وہ جنرل کرے چاہے وہ بیوروکریٹ کرے چاہے وہ سیاستدان کرے ہم اس کو قبول کریں گے لیکن اگر مخالفت میں بھی ناجائز بات ہو پھر بھی ہم قبول کریں تو پھر آپ ایسی بات کر سکتے ہیں۔

صحافی: مولانا صاحب قومی سطح پہ مجموعی طور پر کیا سمجھتے ہیں اس وقت آپ کو دوسرا پوزیشن دونوں کے اسٹبلشمنٹ پہ اعتراضات دونوں کی ملے جلے ہیں آپ خواہش رکھتے ہیں کہ قومی سطح پر اکٹھا ہونا ہوگا۔

مولانا صاحب: بالکل ہماری خواہش ہے کہ ہم بڑے سنجیدہ انداز کے ساتھ ملک میں ایک وحدت کا تصور پیش کریں ایسے نہیں کہ آج ہم اپنے معروضی ضرورت کے لیے اکٹھے ہوں اور جب وہ مقصد حاصل ہو جائے تو پھر ہم زرداری اور شہباز شریف بن جائیں ہمیں پھر کھڑے رہنا چاہیے تھا وقت یہ کہ ہم آئین کی بالا دستی سب کو منوا نہ لیں تو یہ اتحاد اگر بنتے ہیں بننا اچھی بات ہے لیکن ان کا سفر پورے باہمی بھی اعتماد کے ساتھ ہونا چاہیے منزل تک پہنچنے کی عزم کے ساتھ ہونا چاہیے راستے میں تحریکیں چھوڑ دینا یہ مناسب بات نہیں ہے تحریک یہ کوئی سمندر میں بڑا پتھر پھینکے ایک دھماکہ خیز بھونچال کھڑا کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ لہروں کا نام ہے وہ چلتی ہیں مد و جزر کا شکار ہوتی ہیں نشیب و فراز کا شکار ہوتی ہیں اور بالاخر ساحل پہ جاکر دم لیتی ہے۔

صحافی:

مولانا صاحب: یہ خبر آپ کی ایک فیک آئی ڈی سے لی گئی ہے تو آپ سمجھ رہے ہیں آپ کو بھی پتہ ہے کہ ایک فیک آئی ڈی سے یہ خبر چلی ہے تاکہ آپ ہمیں پریشان کریں اور کیا ہے۔

ضبط تحریر: #محمد_ریاض

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات

تصحیح و ترتیب: #سہیل_سہراب

ممبر کونٹنٹ جنریٹرز/رائٹرز

#teamjuiswat

لائیو کوئٹہ مولانا فضل الرحمان کی پریس کانفرنس

لائیو کوئٹہ مولانا فضل الرحمان کی پریس کانفرنس

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Monday, June 24, 2024

0/Post a Comment/Comments