جے یو آئی کے مرکزی اور صوبائی ناظمین و معاونین انتخابات کے اجلاس سے خطاب


قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا جمعیت علماء اسلام پاکستان کے مرکزی اور صوبائی ناظمین و معاونین انتخابات کے اجلاس سے خطاب

11 جون 2024

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم

سب سے پہلے بنیادی بات تو یہ ہے جو ذمہ داری کسی کو دی جاتی ہے وہ ذمہ داری خود اس انسان کے اندر ایک تبدیل لے آتی ہے، اگر میں جماعت کا عام رکن ہوں تو عام رکن کی حیثیت سے میرے اندر کے احساسات ہیں، اور مجھے اس کا پورا احساس ہو رہا ہے کونکہ میں رکن ہوں، میں جماعت کی خیر خواہی میں بات کر سکتا ہوں، کوئی حکم مل گیا تو میں اس پہ عمل درآمد کرسکتا ہوں، لیکن آگے میں اتنا بڑا نہیں ہوں کہ میں جماعت کو چلاؤں یا جماعت میں کو اپنی رائے پر روک دوں، لیکن جونہی آپ کو ایک منصب ملتا ہے ایک ذمہ داری ملتی ہے تو اسی ذمہ داری کے حوالے سے آپ کے اندر کے احساسات بھی تبدیل ہوتے ہیں، اب آپ سوچتے ہیں کہ میں رکن نہیں ہوں ناظم ہوں نائب صدر ہوں امیر ہوں جو بھی عہدہ آپ کے حوالے ہو جاتا ہے تو اپنی توانائیاں اپنی صلاحیتیں آپ انہی ذمہ داری کے تحت استعمال کرو، اس اعتبار سے ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی جو جِبِلَّت اور انسان کی جو فطرت اور طبیعت تخلیق کی ہے وہ انسانی معاشرے کا مِل جُل کر رہنا ہے یعنی انسان مدنی طبع مل جل کر رہنا یہ اس کا مزاج ہے، یہ جنگلوں میں جانوروں کی طرح بِکھرا بِکھرا نہیں پھیرا کرتے، جو اکیلے اپنے ہی پیٹ کی فکر میں رہے اور اس کا نہ کوئی رشتہ دار نہ کوئی محلہ نہ کوئی قوم نہ کوئی قبیلہ نہ کوئی اجتماعی زندگی تو رب العالمین نے بھی اسی اجتماعی زندگی کے حوالے سے تعلیمات دی ہے کہ آپ اس اجتماعی زندگی کو کیسے گزاریں گے آپ نے مل جل کر کیسے رہنا ہے، اور اس مقصد کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بڑی واضح، واشگاف اور مختصر لفظوں میں ارشاد فرمایا فرمایا

الْجَمَاعَةُ رَحْمَةٌ، وَالْفُرْقَةُ عَذَابٌ

جماعت مل جل کر رہنا ایک دوسرے سے وابستہ رہ کر زندگی گزارنا یہ ہے رحمت، اور تفرقہ بازی، بِکھرنا یہ تو معاشرے کے لیے عذاب ہے عذاب، اور پھر اسی لیے حکم دیا

عليكم بالجماعة ؛ فإنَّ يد الله

یہ علیکم یہ تقدیم جو ہے یہ خود دلالت کرتی ہے لزوم پہ، تم پر لازم ہے کہ تم جماعتی زندگی اختیار کرو، اور تم پر لازم ہے کہ اطاعت کرو، اب یہ دو لفظ ہیں ایک ہے جماعت سے وابستگی اور ایک ہے فیصلوں کی اطاعت، جماعتوں کا جو تصور ہے وہ جامع نظریات کی بنیاد پر ہوتی ہے ورنہ پھر ہم انجمن ہیں، دکانداروں کی اپنی انجمن ہے، کسانوں کی اپنی انجمن ہے، کارخانے دانوں کی اپنی انجمن ہے، مزدوروں کی اپنی انجمن ہے، دو چار مسئلے ان کے ہوتے ہیں اسی کے ارد گرد وہ گھومتے رہتے ہیں، لیکن اگر ملک کی سطح پر آپ ایک جماعت ہیں تو پھر ایک جامع نظریے پہ ہمیں ایمان لانا ہوگا، اور جامع نظریہ اس حوالے سے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ہے پھر آپ کا حیات طیبہ اور اس کا نمونہ پھر خلافت راشدہ ان کا طرز عمل کہ کس طرح انہوں نے ان کا نظام چلایا، ملک کے نظام کے لیے اصول وضع کئیں اور ابد الآباد تک انسانیت کو ایسے اصول عطاء کئیں کہ جس میں رد و بدل کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اور جہاں گنجائش ہے وہاں توَسُّع بھی تو انہوں نے دی ہے، اب جامعہ نظریے کی بنیاد پر ہم جماعت میں شامل ہوتے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ یہ جماعت حق ہے ہم نے اس کا منشور پڑھ لیا ہے اب یہ بالکل قرآن و سنت کے تابع ہیں، اور جمعیت علماء اسلام کا جو منشور ہے یہ تو خالصتاً ان اکابر علماء کرام کا تیار کیا ہے کہ جس میں ایک ایک شق قرآن و حدیث سے لی ہے۔

ہمارے ایک بزرگ تھے مولانا محمد مراد صاحب رحمہ اللہ سکھر کے وہ چونکہ اس مجلس کے رکن تھے جس مجلس میں جمعیت کا منشور بنایا تھا، تو میں نے ان سے ایک سوال کیا میں نے کہا کہ حضرت مجھے اتنا بتا دے کہ جب آپ لوگ جمعیت علماء اسلام کا منشور بنا رہے تھے جو تمام آئمہ مجتہدین کی آراء سے استفادہ کرنے میں آپ لوگوں نے طے کیا استفادہ کیا یا کہ صرف فقہ حنفی سے؟ وہ مسکرائے بھی اور کہا کہ بہت اچھی بات آپ کے ذہن میں آگئی یہ اچھا ہوا کہ آپ نے سوال کر دیا فرمایا ہم نے اصول یہ بنایا تھا کہ منشور کی تشکیل میں ہم تمام آئمہ مجتہدین کی آراء سے استفادہ کریں گے، لیکن منشور مکمل ہو گیا اور فقہ حنفی سے باہر جانے کی ضرورت نہیں پڑی، ایک ایسا منشور آج آپ کے ہاں ہے اور منشور مستحکم دستاویز ہوتی ہے، دستور میں تو ہم سادہ اکثریت سے تبدیلی کر لیتے ہیں، لیکن منشور میں تبدیلی لانے کے لیے ذرا شرائط سخت ہوگی، مثال کے طور پر فقہاء کی فقہی اجتہادات اس میں مختلف مجتہدین کی آراء میں اختلاف کی گنجائش بھی ہوتی ہے، کئی اماموں کے اختلاف میں ایک امام کے قول پر فتوی دے دیا جاتا ہے کہ آپ عمل اس پہ کرو، تھوڑا اس کو اوپر جاتے ہیں اس امت کا معاملہ آجاتا ہے، جس پر دلیل ایک حدیث ہوتی ہے، اب احادیث تو بہت ہوتی ہے لیکن اطاعت وہ ہے، سنت، علیکم بِسُنّتی، میری سنت پر عمل کرنا لازم ہے، و سُنّت الخلفاء الراشدین، یعنی آپ کا معمول زندگی کیا تھی، تو معمول زندگی کو اپنانا لیکن اگر اس سے ہٹ کر کوئی حدیث موجود ہے تو اس پر اگر ضرورت پڑ گئی عمل کرنا جائز ہو گا کیونکہ حدیث تو ہے، لیکن معمول زندگی کیا بنانا، منہج زندگی کا کیا ہوگا آپ کا، وہاں پر بھی علماء بحث کرتے رہتے ہیں بحث کی گنجائش ہوتی ہے، اگر حدیث مختلف آجائے تو تطبیق کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے، اگر تطبیق ان کی نہ ہو تو پھر تنسیخ کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے، اگر تنسیخ بھی ممکن نہ ہو دونوں برابر برابر کسی ثبوت کے ساتھ وہ روایات موجود ہو تو پھر وہاں آپ کو ترجیح دینی ہے ترجیح کے لیے اپنے اسباب ہوتے ہیں لیکن پھر بھی گنجائش اس میں ایک بحث کی ہے، 


جاری ہے






0/Post a Comment/Comments