آپریشن عزمِ استحکام درحقیقت عدمِ استحکام ثابت ہوگا۔ مولانا فضل الرحمان


آپریشن عزمِ استحکام درحقیقت عدمِ استحکام ثابت ہوگا۔ مولانا فضل الرحمان 

آئین تمام صوبوں کو اختیارات دیتا ہے اور ہر ادارے کے دائرہ کار کا تعین بھی کرتا ہے تو پھر اسٹیبلشمنٹ بالادستی پر بضد کیوں ہے؟

ہم 300 سالہ غلامی کے خلاف جنگ کی تاریخ رکھتے ہیں، غلامی قبول نہ کرنے کی پاداش میں انگریز کے خلاف 50 ہزار سے زائد مجاہدین کو سولی چڑھا دیا گیا تو اب جرنیلوں کی غلامی کیسے قبول کریں گے؟ یہ نہیں ہوسکتا کہ جیسے وہ چاہیں ویسے ہی ہو۔ 

 ملک میں ریاستی رٹ ختم ہوچکی ہے، کے پی کے میں رات ہوتے ہی پولیس تھانوں میں بند ہو جاتی ہے، یہ سب فوجی آپریشن کے نتائج ہیں۔

کوئٹہ: سربراہ جمعیت علمائے اسلام مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ آپریشن عزم استحکام درحقیقت آپریشن عدم استحکام ثابت ہوگا۔ ہمیں قومی جذبے کے ساتھ نئی منزل متعین کرنی ہوگی جو اس ملک کی بقا کی ضامن ہو اور آئین پر عمل ہو، جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمان نے نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک بلوچ، اصغر اچکزئی ، خوشحال خان کاکڑ، عبد الخالق ہزارہ سے ملاقات کے بعد کوئٹہ میں اہم پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ اس وقت ملک میں ریاست کی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔

انہوں نے دریافت کیا کہ ماضی میں جو آپریشنز ہوئے ہیں ذرا ان کے نتائج سامنے رکھیں، آج ہم کہاں کھڑے ہیں؟ چپے چپے پر فوج موجود ہے، کیوں بے بس ہوگئے ہیں؟ خیبرپختونخوا میں سورج غروب ہوتے ہی پولیس تھانوں میں بند ہو جاتی ہے، ملک کو اور کمزور کیوں کیا جارہا ہے؟ ایپکس کمیٹی کیا ہے؟ یہ جب تحصیل لیول پر ہوتی ہے تو وہاں میجر بیٹھتا ہے، جب ضلعی لیول پر ہوتی ہے تو کرنل بیٹھتا ہے، جب صوبے کی سطح پر ہوتی ہے تو کمانڈر بیٹھتا ہے اور جب وفاق کی سطح پر ہوتی ہے تو وہاں آرمی چیف بیٹھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ان حالات کو بھگت رہے ہیں، میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطے میں رہتا ہوں، ہمیں قومی جذبے کے ساتھ نئی منزل متعین کرنی ہوگی جو اس ملک کی بقا کی ضامن ہو اور آئین پر عمل ہو۔

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ سیاسی مشاورت کا سلسلہ چلنا چاہیے اور اگر پی ٹی آئی نے اتحاد بنا لیا ہے تو ہم اس کا احترام کرتے ہیں ، ہم اس اتحاد کو منفی نظر سے نہیں دیکھ رہے لیکن اس پر مشاورت ہو جاتی تو اس کا نقشہ الگ ہوتا۔ انہوں نے بتایا کہ ہماری 300 سالہ تاریخ غلامی کے خلاف جنگ لڑنے کی ہے، مسلح تنظیمیں کھلے عام گھوم رہی ہیں، اسٹیبلشمنٹ کو ہر شعبے میں اپنی بالادستی کو ختم کرنا ہوگا، ہم سب اس ملک کے برابر کے شہری ہیں۔انہوں نے کہا کہ جس شناختی کارڈ کی بنیاد پر آرمی چیف پاکستانی ہے اسی بنیاد پر میں بھی پاکستانی ہوں، ہم سب اس ملک کے برابر کے شہری ہیں، لیکن ایک طبقہ سمجھے کہ اس نے حاکم اور باقی سب نے غلام رہنا ہے، واضح کرنا چاہتے ہیں ہمارے قبیلوں کی یہ قسم نہیں، ہماری 300 سالہ تاریخ غلامی کے خلاف جنگ لڑنے کی ہے، انگریزوں کیخلاف 50 ہزار سے زائد مجاہدین کو شہید کیا گیا، کیا پاکستان جرنیلوں کی غلامی کیلیے حاصل کیا گیا تھا اور جانوروں کی طرح وہ ہمیں ہانکیں گے، ایسا کبھی نہیں ہوگا؟

انہوں نے کہا ہماری بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کے قائدین سے ملاقات ہوئی ہے، سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ شہباز شریف وزیر اعظم نہیں، بس کرسی پر بیٹھے ہیں۔ یہاں جمہوریت اور پارلیمان اپنا مقدمہ ہار چکا ہے، ان کے خلاف مسلح تنظیمیں اپنا موقف تسلیم کروا رہی ہیں، سیاسی ملاقاتوں سے متعلق بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مشاورت کا عمل اسلام آباد میں ہو رہا ہے، دوستوں کے ساتھ ملاقاتیں ہوئیں، ہم نے اچھا وقت گزارا۔ سب سے ملاقاتیں رہتی ہیں۔ ہمیں نئی سوچ کے ساتھ ایک منزل طے کرنا ہوگی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جہاں تک جے یو آئی کا تعلق ہے تو علما کا لفظ موجود ہے کہ یہ پاکستان کے عوام کی جماعت ہے۔ جے یو آئی کسی ایک مسلک یا ایک مکتب فکر تک محدود نہیں ہے، اس میں جو لوگ آئے ہیں ان کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ایک چھت کے نیچے رہنے والے لوگ ہیں۔ ہم وہ لوگ ہیں جو مستقبل میں اسی چھت کے نیچے رہنا چاہتے ہیں۔ آئین میثاق ملی ہے، یہ آئین ہماری ضمانت ہے۔ ہم کسی اتحاد کی مخالفت نہیں کر رہے، سیاسی لوگوں کی باہمی مشاورت کا سلسلہ چلنا چاہیے۔ بات چیت اور مشاورت کے بہتر نتائج آئیں گے۔



0/Post a Comment/Comments