رباب کے پرستاروں کا علماء کرام کے خلاف طوفان بدتمیزی۔۔ حافظ مومن خان عثمانی


رباب کے پرستاروں کا علماء کرام کے خلاف طوفان بدتمیزی 

حافظ مومن خان عثمانی


گزشتہ دنوں مالاکنڈ یونیورسٹی کے ایک سٹوڈنٹ موسیٰ خان کی ایکسیڈنٹ میں موت واقع ہونے پر خیبرپختونخواہ میں علماء کرام کے خلاف ایک منظم سازش کے تحت طوفانِ بدتمیزی برپا ہے، موسیٰ خان مالاکنڈ یونیورسٹی میں جرنلزم کا طالب علم تھا، یونیورسٹی انتظامیہ نے گانا گانے کا آلہ رباب (سارنگی) لانے کی وجہ سے اس کو شوکاز نوٹس جاری کیا تھا اور اس کے ساتھ اس کو یونیورسٹی کے ہاسٹل میں ٹھہرنے سے منع بھی کیا تھا، اگلے دن موسیٰ خان کا امتحان تھا، وہ مجبوراً رات کسی دوست کے پاس گزارنے کے لئے جارہا تھا کہ ”پل چوکی“ یعنی دیر سوات اور بٹ خیلہ کے سنگم پر اس کی بائیک کار سے ٹکرا گئی جس میں موسیٰ خان شدید زخمی ہوا، اسے قریبی ہسپتال لے جایا گیا مگر شدید زخمی ہونے کی وجہ سے ہسپتال انتظامیہ نے معذرت کی، جس پر باجوڑ سے تعلق رکھنے والا شاہ کار نامی دوست اسے پشاور لے گیا، حیات آباد میڈیکل کمپلکس میں اسے داخل کرنا چاہا آئی سی یو میں بیڈ نہ ہونے کا کہہ کر یہاں ہسپتال انتظامیہ نے بھی اسے لینے سے انکار کیا اور اس طرح موسیٰ رات گئے پشاور شہر میں تڑپ تڑپ کر جان کی بازی ہارگیا، موسیٰ خیبرپختونخواہ کی ایک قوم پرست سٹوڈنس تنظیم کے ساتھ تعلق رکھتا تھا، جن کا ماضی علماء کی دشمنی سے لبریز ہے، روس میں سرخ انقلاب کے بعد ان قوم پر ستوں نے کمیونسٹوں کے زیر اثر آکر دین بیزاری اور مذہب دشمنی کا بیڑہ اُٹھایا مگر براہ راست دین اسلام پر حملہ کرنا ان کے بس میں نہ تھا اس لئے انہوں نے علماء کرام اور مذہبی طبقہ کو نشانے پر رکھا اور نظام اسلام کے نفاذ کی بات کرنے والے علماء سے انہوں نے پکی دشمنی شروع کی، ان کو طرح طرح سے بدنام کیاگیا، ان کو معاشرے کے تمام برائیوں کا جڑ قرار دیا گیا، جہاد کو فساد کہاگیا، ان کے خلاف بڑے پیمانے پر منظم مہم چلائی گئی، جو آج تک جاری ہے، موسیٰ کی موت پر ان کو ایک بہانہ مل گیا اور انہوں نے اپنے اپنے بلوں سے نکل کر ”رباب“ کی آڑ میں علماء کرام کو ننگی گالیاں دینی شروع کی نہ صرف علماء کو سب وشتم کرنے لگے بلکہ اسلامی شعائر کو بھی اپنی بدتہذیبی اور بدتمیزی کا نشانہ بنایا، سوشل میڈیا پر اس طرح ہرزہ سرائی پر اتر آئے کہ اللہ کی پناہ! قوم پرستی کے جوہڑ میں لت پت ایک بدبخت نے لکھا کہ ”اگر تم میرے رباب کو نہیں مانتے تو میں تمہاری اذان کو نہیں مانتا“ اس جاہل سے پوچھنا چاہئے کہ اذان کسی مولوی کا ذاتی اعلان تھوڑہی ہے یہ تو اللہ اور رسول کی عظمت و بڑائی کی وہ عالمگیر صدا ہے جو اللہ اکبر سے شروع ہوکر محمد رسول اللہ کی عظمت کے ڈنکے بجاتی ہوئی نماز و فلاح کی دعوت دے کر لاالہ الااللہ پر جاکر ختم ہوتی ہے، اگر تم جہالت کی اس انتہا کو پہنچ چکے ہو کہ اللہ اکبر، محمد سول اللہ اور لاالہ الااللہ سے انکار کرتے ہو تو بیشک کرلو، اس میں کسی مولوی کا کیا نقصان؟ اپنے آپ کو جہنم کا ایندھن بناکر ابوجہل کے ساتھی بن کر فرعون کی گود میں جاکر گرو گے، جہالت اور گمراہی کے تباہ کن اندھیروں میں غوطے لگاتے ہوئے کسی نے علماء کو ماں بہن کی گالی دی تو کسی نے علماء کرام کی بیویوں اور بیٹیوں کو گندے الفاظ میں یاد کیا، کسی نے مدرسے پر الزام تراشی کی تو کسی نے مسجد کے تقدس کو پامال کیا، کسی نے داڑھی پگڑی کو بدنام کیا تو کسی نے رسول اللہ ﷺ کے ارشادات کا مذاق اُڑایا، بہت سارے سرپھرے تو رباب (سارنگی) کو مسجد میں لانے پر بضد رہے کہ اگر بندوق مسجد میں لے جانا جائز ہے تو رباب سمیت مسجد میں جانا کیوں منع ہے؟ بہت سے قوم پرست تو موسیٰ کی نماز جنازہ میں رباب اٹھا کر شریک ہوئے، اس کے بعد فاتحہ خوانی کے موقع پر بھی کچھ منچلے رباب لے کر بیٹھ گئے، احتجاجی مظاہرہ میں تو رباب کو لات ومناۃ کا درجہ دیا گیا، افسوس یہ ہے، پختون قومیت کے دعویداروں کی عقل ودانش پر کہاں تک ماتم کیا جائے، قوم پرستی کے دل دل میں پھنسے ہوئے ان نوجوانوں کو کون سمجھائے کہ رباب (سارنگی) موسیقی کا آلہ ہے وہ موسیقی جس کو امام الانبیاء حضرت محمد ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے حرام قرار دیا ہے جس پر رسول اللہ ﷺ نے شدید وعیدیں بیان فرمائی ہیں، جس کے سننے کو رسول اللہ ﷺ نے فسق کہا ہے اور اس سے لذت لینے کو کفر قرار دیا ہے، علماء کون ہوتے ہیں کسی چیز کو حلال وحرام قرار دینے والے؟ علماء تو حلال وحرام بتانے والے ہیں جو قرآن وحدیث میں موجود ہیں، اپنی طرف سے اگر کوئی عالم کسی چیز کو حلال وحرام قرار دے تو اس پر ہر عالم دین لعنت بھیجے گا، اس کے اس عمل کو ہر عالم دین مسترد کرے گا، لیکن اگر علماء اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی حرام کردہ چیزوں کو بتا کر عوام کو اس کے حکم سے آگاہ کریں تو علماء کی ماؤں بہنوں کو کیوں یاد کیا جاتا ہے، صاف اللہ و رسول کے خلاف بغاوت کا اعلان کیوں نہیں کیاجاتا، تاکہ ان کی جرات و بہادری کا پتہ چلے، عوام ان کی اندرونی عزائم سے آگاہ ہوجائیں، ان کی چھپی ہوئی خباثت سامنے آجائے، لیکن یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ جب کوئی ڈاکو ڈاکہ ڈالنے جاتا ہے تو سب سے پہلے وہ چوکیدار پر حملہ آور ہوتا ہے اس کو راستے ہٹاکر پھر ڈاکہ ڈالتا ہے یہ کمیونسٹوں کے زیر اثر پلے ہوئے لوگ درحقیقت اسلام کی دشمنی دل میں لئے بیٹھے ہیں مگر براہ راست اسلام پر حملہ کرنے کی جرات نہیں کرسکتے اس لئے اسلام کے چوکیدار اور پہرہ دار علماء کرام پر حملہ آور ہوکر ان کو راستے سے ہٹانے کی کوشش کررہے ہیں، شیطانی آلہ ”رباب“ کو پختونوں کا کلچر قرار دینا ایسی ہی جہالت ہے جس طرح موسیقی کو روح کی غذا قرار دینا جہالت کی انتہا ہے، موسیقی روح کی غذا ضرور ہوگی مگر کسی شیطانی روح کی، رحمانی روح کی غذا کسی صورت بھی نہیں ہوسکتی، کیونکہ اللہ و رسول نے اسے منع فرمایا ہے، اسی طرح ”رباب“ پختونوں کا کلچر ہوسکتا ہے مگر ان پختونوں کا جن پر بہیمیت کا غلبہ ہو، جو شیطان کے پیروکار ہوں، جو نفسانی خواہشات کے پرستار ہوں، جو کمیونسٹوں کے تربیت یافتہ ہوں، جو چیز سکھ مذہب کے بانی گرو نانک کی ایجاد ہو وہ کس طرح پختونوں کا کلچر بن سکتا ہے، اگر یہ کسی افغانی کی ایجاد بھی ہو تو افغانوں میں شیطان کے پیروکار بھی بڑی تعداد میں ہر زمانہ کے اندر پائے گئے ہیں، کسی شیطان صفت سرپھرے، بے دین، ماں باپ اور استادوں کے نافرمان افغان ہی کی ایجاد ہوگی، رباب بجانے والے کو ڈوم (ڈم) کہا جاتا ہے اور پختون کلچر میں ڈوم کو اپنے ساتھ چارپائی پر بٹھانا بھی توہین سمجھا جاتا ہے، اس کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھ کر کوئی شریف آدمی کھانا کھانا گوارا نہیں کرتا، اس کے ساتھ راستے پر چلتے ہوئے لوگ شرم محسوس کرتے ہیں، کسی کو گالی دینی ہو تو اس کو ڈم یا ڈم کا بچہ کہا جاتا ہے، کسی کو ڈوم (ڈم) کہنا پختونوں میں گولی مارنے کے مترادف ہے، لیکن افسوس کہ دین اسلام سے لابلد اور مذہب بیزار نام نہاد پختون آج اس نکمی اور توہین آمیز چیز کو اپنا کلچر قرار دینے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے، یونیورسٹی ایک تعلیمی ادارہ ہے اگر اس کی انتظامیہ نے تعلیمی ماحول میں موسیقی کے اس بدبودار آلے کو نہیں چھوڑا تو یونیورسٹی کے اپنے قوانین اور ضابطے ہوں گے، انہوں نے اپنے قوانین کے مطابق اس شیطانی آلے کو یونیورسٹی کے تعلیمی ماحول کے اندر نقصان دہ سمجھ کر نہیں چھوڑا ہوگا، مگر یہ لڑکا اس بات پر اس قدر غیض و غضب کا شکار کیوں ہو گیا کہ اس نے اس معمولی بات کو اپنے ذہن پر اس قدر سوار کیا کہ اسے ہوش ہی نہ رہا اور اس مدہوشی میں وہ ایک گاڑی کے ساتھ ٹکر مارکر جان کی بازی ہارگیا؟ کیا اساتذہ اور انتظامیہ کو اتنا اختیار بھی نہیں کہ وہ طالب علموں کو آوارہ گردی سے بچائیں، ان کو بے راہ روی سے باز رہنے کی تلقین کریں، ان کو اس قسم کی فضول چیزوں سے منع کریں؟ ان کی تربیت کریں؟ اور انہیں ڈوم بننے سے بچائیں؟ کیا طلباء کو اس طرح بے مہار چھوڑ دیا جائے جو کچھ وہ کریں ان سے کسی قسم کی باز پرس نہ کی جائے؟ چاہئے تو تھا کہ دوسرے طلباء اس سے سبق حاصل کرکے بے راہ روی سے احتراز کرتے اور رباب جیسی واہیات چیزوں سے اجتناب کرتے، مگر نام نہاد پختونوں نے رباب کی ایسی طرف داری بلکہ پوجا شروع کردی کہ گویا پختونوں کی نجات اور ان کا عروج صرف اور صرف ”رباب“ کے ساتھ وابستگی میں ہے، اگر احتجاج کرنا ہی تھا تو ہسپتال انتظامیہ کے خلاف کرتے جن کی لاپرواہی، غفلت اور عدم توجہی کی وجہ سے موسیٰ جان کی بازی ہارگیا یا حکمرانوں کی نااہلی کو موردالزام ٹھہراتے، ان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے، مگر قوم پرست منصوبہ سازوں نے بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ وہ احتجاج علماء، مدراس، مساجد اور شعائر اسلام کی طرف موڑ دیا اور پورے صوبہ میں علماء کرام کے خلاف بدزبانی، بدکلامی، بدگوئی اور گالم گلوچ کی وہ منظم سازش شروع کردی جس کی توقع کسی پختون سے نہیں کی جاسکتی۔

 

0/Post a Comment/Comments