حافظ مومن خان عثمانی
کلمہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے ملک پاکستان میں آئے روز علماء کرام اور خصوصاً جمعیت علماء اسلام کے ساتھ منسلک علماء کرام کو بے دریغ قتل کیا جارہاہے اور آج تک کسی ایک عالم دین کےقاتل گرفتار نہ ہوسکے۔ عیدالاضحی کا دوسرا دن جمعیت علماء اسلام کےلیے یوم غم بنایا گیا۔ وزیرستان جیسے شورش زدہ علاقہ میں آئین وقانون کی پاسداری کرنے ، وزیرستان کو امن کا گہوارا بنانے کی جدوجہد کرنے والے امن جرگوں کے علمبردار، پشتونوں کے غمخوار، قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن کے جانثار اور وانا وزیرستان جمعیت علماء اسلام کے امیر مولانا مرزا جان عید کے دوسرے دن 18 جون 2024ء کو جام شہادت نوش کرکے اسلام اور پاکستان پراپنی جان نچھاور کرگئے، مولانا شہید کو چند دن قبل وزیرستان میں نامعلوم درندوں نے گولیوں کانشانہ بنایا تھا جو پشاور کے ایک ہسپتال میں زیر علاج تھے، جہاں عید سے دو دن قبل قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن نے بڑی شفقت ومحبت کے ساتھ موصوف کی عیادت کرتے ہوئے آخری ملاقات کی تھی۔
نامعلوم درندے اسلام اور پاکستان کے ازلی دشمن اپنے مذموم عزائم میں کامیاب ہوگئے مگر یہ سب کچھ ملک میں موجود کروڑوں روپے ہضم کرنے والی سیکورٹی ایجنسیوں کے کردار پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ وہ ہمیشہ علماء کے قاتلوں تک پہنچنے میں ناکام کیوں ہوتی ہیں۔ ابھی رمضان المبارک میں شانگلہ کے مقام پر چائنیز انجنئیروں پر حملہ ہو تو چند دنوں میں سیکورٹی ایجنسیاں ایک ایک کردار بلکہ ان تمام کرداروں کے ایک ایک تعلق دار تک پہنچ گئیں یہاں تک جن دکانداروں نے ان کرداروں کےلئے ایزی لوڈ تک کیا تھا یا جن لوگوں کے ساتھ ان کے کچھ مراسم تھے ان کوبھی گفتار کرکے غائب کر دیا گیا ہے بلکہ ان کی خواتین تک کو اٹھا لیا گیا ہے گھر کے معصوم بچوں کوبھی مجرم سمجھ کر گرفتار کیا گیا ہے، ان کے جانوروں تک بھی نہیں بخشا گیا، مگر بےشمار علماء کرام، جمعیت علماء اسلام کے سینکڑوں علماء و طلباء اور کارکنان کو بموں سے اڑایا گیا، گولیوں سے چھلنی کردیا گیا، چھریوں سے خون میں لت پت کردیا گیا، ایک ایک دن میں بے شمار علماء وکارکنان کے جنازے اٹھائے گئے خود قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن، فخر جمعیت مولانا عبدالغفور حیدری، شاہین جمعیت حافظ حمد اللہ اور دیگر اکابرین پر کئی دفعہ خودکش حملے کے گئے مگر آج تک کسی ایک قاتل اور ایک مجرم تک دو درجن سے زائد سیکورٹی اداروں کی رسائی نہ ہوسکی۔ ملک کے ممتاز عالم دین، مستند مفتی، عظیم مصنف، شیخ الحدیث اور ہزاروں علماء کے مربی جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاون کراچی کے ہردلعزیز استاذ محترم مولانا محمد یوسف لدھیانوی 2000ء میں شہید کردیے گئے مگر قاتل نامعلوم۔ ان سے قبل اسی جامعہ کے مہتمم ڈاکٹر حبیب اللہ مختار اور مفتی عبد السمیع شہید ہوئے مگر قاتلوں کا پتہ نہ چلا۔اسی جامعہ کےعظیم مفکر، استاذ المجاہدین، مفتی اعظم، شیخ الحدیث مولانا مفتی نظام الدین کو 2004ء میں شہید کیاگیا لیکن سیکورٹی ادارے قاتل کونہ پکڑ سکے، اس کے بعد ملک کی جہاندیدہ شخصیت، اقراء روضۃ الاطفال سسٹم کے بانی مفتی محمد جمیل خان اور مولانا نذیر احمد تونسوی کو شہید کیا گیا مگر پاکستانی سیکورٹی ایجنسیوں کو قاتل نہ ملے، لال مسجد کے اور رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مولانا عبداللہ کواسلام آباد میں شہید کیاگیا قاتلوں کی نشاندہی کے باوجود قاتلوں پر ہاتھ نہ ڈالا گیا، پشاور میں ملک کے معروف شیخ الحدیث اور سابق ایم این اے مولانا حسن جان کو روزے کی حالت میں شہید کیا گیا مگر قاتلوں تک رسائی نہ ہوسکی، لکی مروت میں مولانا محسن شاہ قتل ہوئے مگر قاتل نامعلوم، وزیرستان میں ممبر قومی اسمبلی مولانا معراج الدین کو قتل کیاگیا مگر قاتلوں کوزمین کھاگئی، وزیرستان کے مشہور عالم دین سابق ایم این اے مولانا نور محمد کو شہید کیا گیا مگر قاتلوں کا کہیں بھی پتہ نہ چلا، سندھ کے ممتاز عالم دین، خطیب اسلام اور جمعیت علماء اسلام سندھ کے سیکرٹری جنرل مولانا ڈاکٹر خالد محمود سومرو کو مسجد کے اندر شہید کیا گیا قاتل گرفتار ہوئے مگر 10 سال گزر جانے کے بعد بھی قاتلوں کو سزا نہیں ہوئی، راولپنڈی کے بحریہ ٹاون میں ملک کے مشہور عالم دین، ممتاز پارلیمنٹیرین، جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے مہتمم شیخ الحدیث مولانا سمیع الحق بڑی بے دردی سے شہید کیا گیا مگر قاتلوں کا سراغ نہ مل سکا۔باجوڑ میں آئے روز علماء کا خون بہایا جارہا ہے، گزشتہ برس جمعیت علماء اسلام کے 70 سے زائد رہنماوں اور کارکنوں کو بموں سے اڑایا یا مگر تمام سیکورٹی ایجنسیاں قتلوں تک پہنچنے میں ناکام ہوئیں، ان کے علاوہ بے شمار علماء کرام، مفتیان عظام اور جمعیت علماء اسلام کے کارکنان قتل ہوئے، علاوہ ازیں مولانا حق نواز جھنگوی، مولانا ضیاء الرحمن فاروقی، مولانا اعظم طارق، مولانا علی شیر حیدری سمیت سینکڑوں علماء کرام کو شہید کیا گیا مگر کسی ایک مجرم کو بے نقاب نہیں کیاگیا۔ کسی ایک سفاک قاتل کو گرفتار نہیں گیا، کسی ایک قاتل کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا گیا۔کسی ایک قاتل کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا گیا، صرف اس لئے کہ یہ علماء تھے ان کا تعلق جمعیت علماء اسلام، مدارس دینیہ اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ تھا، ان کا خون بے دردی سے بہایا گیا مگر حکمرانوں اور سیکورٹی ایجنسیوں کوان کا خون نظر نہیں آیا یا ان کے خون میں سرخی نظر نہیں آئی یا ان کے خون کی کوئی قیمت نہیں تھی، کب تک علماء کرام کا خون اس طرح بےدردی سے بہایا جائے گا۔ کب تک جمعیت علماء اسلام کے رہنماوں اور کارکنوں کے جنازے اس طرح خون میں لت پت اٹھائے جائیں گے۔ کب تک علماء کوخون کے آنسو رلایا جائے گا۔ کب تک علماء کے بچوں یتیم اور بیویوں کواس طرح سفاکی کے ساتھ بیوہ کیا جائے گا، کب تک قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن کے جانثار ساتھیوں کوایک ایک کرکے شہید کیا جائے گا اور ان کے کندھوں کو کمزور کرنے کی ناپاک کوشش کی جاۓگی؟ کب تک ظلم وبربریت کایہ بازار چلتا رہے گا، کب تک یہ شیطانی کھیل کھیلا جائے گا؟ یہ تمام نامعلوم ایک دن ضرور معلوم ہوں گے اور جس دن یہ معلوم ہوجائیں گے پھر نہ انہیں زمین پناہ دےگی نہ آسمان ان کو بچا سکے گا، نہ ان کی قوت وطاقت کی گھمنڈ انہیں کام آسکے گی، نہ ان کے آقا ان کو اللہ کی پکڑ سے محفوظ رکھ سکیں گے۔ ایک دن ان مظلوم شہداء کا خون ضرور پکار اٹھے گا اور قاتلوں کے چہرے سے نقاب اٹھاتے ہوئے ان کو قوم کے سامنے ننگا کرے گا۔ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں، اللہ تعالی نے فرعون کو بڑی مہلت دی تھی مگر جب اس نے ظلم کی انتہا کردی تو اللہ نے اسے ایسا پکڑا کہ اس کی لاکھوں فوجیں بھی اس کونہ بچا سکیں، یہ تاریخ یہاں بھی دھرائی جائے گی مگر کب دھرائی جاتی ہے اس کا علم صرف اللہ تعالی ہی کوہے۔ مولانا مرزا جان شہید کی دینی، مذہبی، تعلیمی، تدریسی، قومی، سیاسی اور سماجی خدمات قابل تحسین ہے،مدتوں انہیں یاد رکھا جائے گا۔
اللہ تعالی مولانا مرزا جان شہید کی شہادت قبول کرتے ہوئے ان کے درجات بلند فرمائے اوران کے تمام لواحقین کو صبر جمیل عطاء فرمائے۔ آمین
ایک تبصرہ شائع کریں