مولانا فضل الرحمان کا اسلام آباد میں ملک کی موجودہ صورتحال پر صحافیوں سے گفتگو


قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمان صاحب کا اسلام آباد میں ملک کی موجودہ صورتحال پر صحافیوں سے گفتگو

21 جولائی 2024


نائن الیون کے بہت بڑے حادثے کے نتیجے میں جو عالمی صورتحال بنی ہم نے آنکھیں بند کرکے امریکہ اور مغربی دنیا کے اتحاد کی پیروی کر لی اور آج بھی ہم پیروی ہی کر رہے ہیں اب ان کی ترجیحات ظاہر ہے کہ مذہب، مذہبی قوتیں، مذہبی ماحول ان کے لیے قابل قبول نہیں ہے لیکن ہم نے چونکہ ریاست کا ساتھ دیا ہمارے مدارس نے ریاست کا ساتھ دیا ہمارے تنظیموں نے ریاست کا ساتھ دیا پارلیمنٹ میں آئے ہم نے پولیٹیکل رول ادا کیا اس کے باوجود وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس پولیٹیکل رول سے انہوں نے مذہبی اداروں کو بچایا ہے یہ دنیا میں جو عالمی سطح پر ایک سوچ ہے کہ وہ مذہبی اداروں کو نقصان پہنچا رہے ہیں ان کی وجہ سے وہ خطرہ بنتے ہیں یہ ان کے اڈے ہیں یہیں سے نکلتے ہیں تشدد کا درس یہاں سے دیا جاتا ہے اب دینی مدارس پر دباؤ دین کے خلاف جو ہے جنگ، تو اس حوالے سے ہم بڑے شعوری طور پر سمجھتے ہیں کہ مدارس محافظ ہیں ہمارے تہذیب کی بھی اور ہمارے دینی علوم کے بھی، ان کو نا ہمارا دینی علوم چاہیے نا ہماری تہذیب چاہیے اس کے لیے نئے نئے عناصر پیدا کیے گئے اور نئے نئے نعرے پیدا کیے گئے اور اس میں چاشنیاں ڈالی گئی اور اس میں سارے جو صورتحال پیدا ہوئی تو اس سے ہم گزرے ہیں گزشتہ بیس بائیس سالوں سے، لیکن آج بھی ہم وہیں کھڑے کیوں ہیں میرا ریاست جو ہے وہ 2001 سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے کئی معاہدے ہیں جو ان کے اور فوج کے درمیان میں نے کرائے ہیں میں ایسے ایسے علاقوں میں ان کی ایک خواہش پر امن کی تلاش میں ایسے ایسے علاقوں کو عبور کر چکا ہوں کہ جن نہیں گزر سکتا وہاں سے، لیکن کسی طریقے سے معاملات ٹھیک ہو جائے، بس وہ ایک جس طرح ایک تربیت ہوتی ہے کہ اگلے کو آپ ایک جگہ روکتے ہیں اور خود ایڈوانس کریں اس پالیسی کی تحت چلتے رہے طاقت ان کے پاس، اختیار ان کے پاس، میڈیا ان کے پاس، جس طرح اپنے رویوں کی تعبیر اچھے الفاظ کے ساتھ اور معصوم انداز کے ساتھ پیش کریں اور آپ اس سے اختلاف کریں تو آپ تو کسی کی عزت پر حملہ کر رہے ہیں حالانکہ صورتحال ایسی نہیں تھی جو واقف حال لوگ ہیں اس پہ ذرا ایک میں بھی ہوں جانتا ہوں کہ بھئی فالٹ کہاں پہ ہے۔

تو یہ ساری صورتحال حضرت ہم نے دیکھی ہے آج ایک مستحکم معیشت کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہے ایک مستحکم معیشت اور ایک امن و امان، دونوں چیزیں آپ کی تباہ ہیں اور اس سے سیاسی عدم استحکام ایا ہماری اسٹیبلشمنٹ یہ سمجھتی ہے کہ سیاسی عدم استحکام سے ہمارے مواقع جو ہیں وہ زیادہ ہمارے ہاتھ میں آتے ہیں ملک کے نظام پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے، تو سیاسی عدم استحکام جائے بلا سے، لیکن سیاسی استحکام تو چلا جائے گا لیکن اس سے معاشی استحکام بھی تو جائے گا پھر جو معاشی استحکام نہیں رہے گا تو امن و امان کا مسئلہ بھی تو پیدا ہوگا لوگ بھوکے ہیں پھر آپ کے خلاف ایک مستقل محاذ بنا ہوا ہے جو دو ہزار ایک سے آپ ان کے خلاف مسلح جنگ لڑ رہے ہیں اور وہ آپ کے خلاف لڑ رہے ہیں آج دو ہزار چوبیس میں ہم جہاں کھڑے ہیں ہر شہری وہ اپ سے پوچھتا ہے آپ کس چیز کا اپریشن کریں گے میں تو آپ کے تو دو ہزار دو آپریشن میزان سے لے کر ضرب عضب اور ردالفساد تک ہم نے گھر بار چھوڑے ہیں میں اپنے ملک میں مہاجر ہوا ہوں مجھے تم نے مجبور کیا کہ میں صحراؤں میں خیموں میں رہوں میری خواتین کو جو گھریلو خواتین ہیں جو عزت پردے میں رہنے والی ہیں جس نے کبھی گھر سے باہر کا ماحول نہیں دیکھا تم نے ان عورتوں کو جو ہے بازاروں میں بھیک مانگنے سے مجبور کیا قبائل کو آپ نے بے عزت اور رسوا کر کے رکھ دیا سوات کے لوگوں سے لے کر اپ کی پوری وزیرستان تک لوگوں نے گھر چھوڑ دیے اور حضرت میں نے وہ خیمے دیکھے ہیں جب سوات کے لوگ آئے اور بازار میں ان کو کیمپوں میں رکھا گیا کتنی معزز گھرانوں کے لوگ ان خیموں میں بیٹھے ہوئے تھے کیا ہم پاکستان میں اس ذلت کے لیے پیدا ہوئے ہیں یہاں ہمارا مذاق جو ہے وہ دہشت گرد نے اڑایا اور یہ ہمارا مذاق ہماری فوج اڑائے جس طرح ہمیں ہانکنا چاہیں ہانکتے ہمیں، تو اب اس سے لوگ تنگ آچکے ہیں اب یاد رکھنا چاہیے نہ مارشل لاء ان کے کام ائے گا نہ ایمرجنسی ان کے کام آئے گی ان کے ہاتھ سے اختیارات حالات نکل چکے ہیں ان کو ساری پالیسیوں پر ازسرنو سوچنا ہوگا اس قیمت پر اب ملک نہیں چلے گا اور وہ صاف کہہ دے کہ جس طرح ہم نے بنگال کو الگ کرنے کے لیے سن 65 سے حالات بنائے بلکہ 58 سے ایوب خان کی حکومت انے کے بعد، آج ہم دوبارہ دو صوبوں کو الگ کرنے کے لیے حالات بنا رہے ہیں کیونکہ یہ تو ایک بنوں نہیں ہے ایک صوبہ ہے اور بلوچستان ہے۔

تو اس ساری صورتحال کو بڑی گہری نظر سے دیکھنا ہوگا جس نظر سے وہ یہ دیکھ رہے ہیں اس راستے پر منزل نہیں ہے اپ سمجھتے ہیں کہ میں حرم کے راستے پہ گامزن ہو نہیں تم کسی اور راستے پر گامزن ہو اور میرا تجربہ یہ ہے کہ ان میں سیاسی حوالے سے معاملات کو طے کرنے کی صلاحیت نہیں ہے یہ اداروں کو اپنے قبضے میں رکھنا چاہتے ہیں پارلیمنٹ کو اپنے لونڈی بنانا چاہتے ہیں سیاست دانوں کو ملازمین کی طرح رکھنا چاہتے ہیں اور جس طرح وہ اپنی مجالس میں ان کا تذکرہ کرتے ہیں جس تحقیر کے ساتھ تذکرہ کرتے ہیں اب ظاہر ان کی اس حیثیت میں تو پاکستان میں کوئی شہری بننے کے لیے تیار نہیں ہے تو ہمیں امن چاہیے میں واضح اعلان کرتا ہوں کہ میری پارٹی عوام کے ساتھ ہے امن کے متلاشی لوگوں کے ساتھ ہے ہم جذباتی نہیں ہیں ہم تخریب نہیں چاہتے لیکن ہمارے پرامن ماحول کے اندر ایسے عناصر بھی نہ چھوڑے جائیں کہ جو اپ کو ہماری پرامن جدوجہد کو تنقید کا نشانہ بنانے کے لیے مواد مہیا کرے ان سے ہم نمٹ لیں گے کوئی مسئلہ نہیں ہے ہم پرامن لوگ ہیں امن چاہتے ہیں ہمارے لوگ اگر نکلے ہیں امن کے لیے نکلے ہیں فساد کے لیے نہیں نکلے اور اگر میں امن چاہتا ہوں اور اس کے باوجود میرے اندر کوئی ایسا عنصر ہے تو پھر اس پر بھی ذرا سوچنا پڑے گا کہ یہ کس کا فیڈ کیا ہوا ہے کون ان کے پشت پر ہے کون ان کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں یہ ساری چیزیں ہمارے مدنظر ہیں اتنے بھولے بھالے ہم بھی نہیں ہیں عوام کو دھوکہ دینے کے لیے سادہ اور معصوم الفاظ استعمال کر کے آپ سمجھتے ہیں کہ ہم قوم کو مطمئن کر لیں گے ایسا نہیں ہے ہم فوج کو بھی مظبوط دیکھنا چاہتے ہیں لیکن صحیح راستے پر، مضبوط کر کے اپنی قوم کو مارے اپنے لوگوں کو ماریں اپنی قوم پر حکومت کریں جبر کی حکومت کریں مارشل لاء کی حکومت کریں ایمرجنسیاں لگوائیں نظام کو اپنے کنٹرول میں رکھیں الیکشنوں میں دھاندلیاں کرائیں اپنی مرضی کے پارلیمنٹ بنائیں اپنی مرضی کی سیاسی جماعتیں بنائیں یہ حق ہم ان کو دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

تو عوام میں جائیں گے عوام بھرپور مظاہرہ کریں گے ان شاءاللہ العزیز میں بذات خود شریک ہوں گا 10 اگست کو مردان میں کسان کنونشن میں،11 اگست کو پشاور میں تاجر کنونشن، 18 اگست کو لکی مروت میں، اور ان شاءاللہ تمام جنوبی اضلاع کا عوام کا ایک بڑا اجتماع ہوگا اور ہم آگے بڑھیں گے اور اس کو آگے لے جائیں گے ان شاءاللہ، اور اس میں کوئی پارٹی کا امتیاز نہیں ہوگا یہ پبلک کی بات ہوگی عوام اس کے اندر ہوگی۔

تو یہ ساری چیزیں ہیں ہم ان شاءاللہ العزیز پانچ اگست کو کشمیر میں یوم سیاہ بھی منائیں گے جب انڈیا نے آرٹیکل 370 کو ختم کر کے کشمیر کے سٹیٹس کو تحلیل کیا اور ان شاءاللہ پبلک میں ہم جائیں گے عوام کا اعتماد بحال کرنے کی کوشش کریں گے ورنہ یہ لوگ منفی سفر کرنا شروع کر دیں گے تو پھر اس کا سٹیٹ کو نقصان پہنچے گا ہم امن بھی چاہتے ہیں ہم سٹیٹ کی حفاظت بھی چاہتے ہیں سٹیٹ کو ہم خراب نہیں ہونے دینا چاہتے لیکن سٹیٹ کے جو مالک ہیں دعویدار ہیں وہ بھی تو سوچیں جو معاملات کو خراب کریں ہم تو غیر مؤثر ہو جائیں گے اور ہمیں غیر مؤثر بنایا ہے انہوں نے، جو ہمارے اندر استعداد اور صلاحیت ہے اس وطن کی خدمت کرنے کی ہمیں تو نہیں اس صلاحیت کا نہیں چھوڑا انہوں نے، یہ ہے ایک موضوع اور جس طرح بھی ہم زیادتی کی اجازت نہیں دیں گے جو گولیاں چلائیں لوگوں کے اوپر، بنوں میں گولی چلی آج صورتحال کیا ہے وہاں پر، اور یہ آگے بڑھے گی لیکن بہرحال ہم چاہتے ہیں کہ لوگوں کو آمن ملے تاکہ ان کو اطمینان آئے، عوام کی تو کسی سے دشمنی نہیں ہے وہ تو اپنے بچوں کا پیٹ پالنا چاہتے ہیں اپنا کاروبار کرنا چاہتے ہیں بیچارے نہ کاروبار کر سکتے ہیں نہ تجارت کر سکتے ہیں گاؤں کا دکان والا دکان نہیں چلا سکتا ہر وقت خطرے میں ہوتا ہے کہ ابھی کوئی جائے گا اور میری دکان پر قبضہ کر لے گا مجھے کوئی قتل کر دے گا دکان میں سودا بیچتے بیچتے بھاگ جاتا ہے کیونکہ کچھ لوگ آجاتے ہیں جو ان سے ان کو خطرہ ہوتا ہے اس حالت میں کوئی کیا کاروبار کرے گا کیا زندگی کا وہ کوئی انجوائے کر سکے گا زندگی زہر بنا دیا انہوں نے لوگوں کی، تو اس کا الزام صرف ایک فریق پر نہیں جو فساد پیدا کرنا چاہتا ہے اس کا ایجنڈا تو واضح ہے لیکن جس نے ملک کو امن دینا ہے اس نے 100 دفعہ سوچنا ہے کہ میرا کردار اور میری ذمہ داری کیا ہے، ہمارے اسٹیٹ کے ادارے ایک ذمہ دار سٹیٹ کا کردار ادا نہیں کر رہے ہیں اور پتہ نہیں کس کی سیاست کر رہے ہیں یہ ابھی تک ہمیں سمجھ میں نہیں آرہا۔

تو یہ ہے ساری صورتحال، دوسری بات یہ ہے جی کہ جو پی ٹی ائی کے ساتھ ہماری بات چیت چل رہی تھی اور انہوں نے ایک کمیٹی اناؤنس کی مذاکرات کے لیے تو جمعیت علماء اسلام بھی ایک کمیٹی اناؤنس کر رہی ہے جو ان کے ساتھ بات چیت کرے گی اور اس کمیٹی کے کنوینر ہوں گے کامران مرتضی صاحب، ان کی جو اراکین ہوں گے وہ جمیعت علمائے اسلام کے صوبہ خیبر پختونخواہ اسمبلی کے پارلیمانی لیڈر مولانا لطف الرحمان صاحب ہوں گے ان کے ساتھ، ہمارے سابقہ ایم پی اے مولانا فضل غفور ہوں گے اور جمیعت کے جو مرکزی ترجمان ہیں اسلم غوری صاحب ہوں گے اور ہمارے جو مرکزی ناظم ہیں مولانا امجد خان صاحب لاہور سے ان پر مشتمل ہم نے کمیٹی اناؤنس کر دی ہے اور وہ ان شاءاللہ باہمی مشاورت سے مذاکرات کی حکمت عملی طے کریں گے اور پھر ان کا ایک باہمی ملاقات کا شیڈول طے کر لیا جائے گا ان شاءاللہ العزیز۔


سوال و جواب 

صحافی: جی بہت ساری دریا کو کوزے میں بند کیا ہے آپ کی باتوں میں دو چیزیں ائی ہیں اپ نے بہت دفعہ ایمرجنسی کا ذکر کیا آپ نے چار سے پانچ دفعہ وہ مارشل لاء کا ذکر کیا ملک کے معروضی سیاسی حالات جو ہیں اس کو آپ کیسے دیکھتے ہیں کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ حالات اس طرف وہاں پہنچ چکے ہیں؟

مولانا صاحب: یہ جو باتیں میڈیا میں اتی ہیں یہ اس لیے بھی اتی ہیں کہ وہ رائے عامہ معلوم کرنا چاہتے ہیں میں ایک بات وضاحت کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی مارشل لاء کا سوچ رہا ہے یا کوئی ایمرجنسی کا سوچ رہا ہے ماضی کے مارشل لاؤں پر قیاس نہ کریں ہم پھنس جائیں گے بہت بری طرح سے اور سٹیٹ اور زیادہ کمزور ہو جائے گا ادارے ختم ہو جائیں گے تو پھر ظاہر ہے جی کہ عوام جب لاتعلق ہو جاتے ہیں ایک نظام کے ساتھ تو پھر یہ فلسفہ تو کسی کام کا نہ رہے گا نا جی کہ قوم فوج کے ساتھ کھڑی ہو جائے یہ بات ختم ہو جائے گی تو ہم ریاست کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن ریاست کو بھی تو ذرا صحیح سلیقے کے پالیسی بنانے چاہیے۔

صحافی: حضرت پہلی دفعہ ہو رہا ہے کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک نیا ایلیمنٹ ایک نئی قوت جو ہے وہ اپنا اثرورسوخ دکھا رہی ہے وہ عدلیہ کی، اس سے پہلے پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ایکٹیو وہ طریقے سے بالکل وہ ون سائیڈ وہ فیصلہ کیا جائے جو تاثر کے ماحول بن رہا ہے آپ کا بڑا تجربہ ہے آپ بڑا بہتر یہ سارے معاملے کو آپ کو دیکھتے ہیں تو یہ جو محاذ آرائی ہے یہ والی شروع ہوئی ہے اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟

مولانا صاحب: ابھی اس وقت کوئی ہم حتمی رائے نہیں دے سکتے اور سی اینڈ ویٹ کی پالیسی ہماری تحریک ہے۔

صحافی: مولانا صاحب آپ بار بار ریاست ریاستی اداروں کی بات کرتے ہیں پولیٹیکل حکومت موجود ہے نون لیگ پیپلز پارٹی وغیرہ اپ سمجھتے ہیں کہ یہ بے بس ہے؟

مولانا صاحب: بے بس تو ہے پھر اس میں بحث کرنے کی کیا ضرورت ہے یعنی ان بیچاروں کے پاس ہے کیا، تو میں تو اسی لیے خیر خواہی میں کہتا تھا کہ بھئی مسلم لیگ والوں آپ کر کیا رہے ہیں ان حالات میں، آپ کیوں حکومت لے رہے ہیں آپ کو اپوزیشن میں بیٹھنا چاہیے تو پس وہ شاید اپنے حالات کے تحت سمجھ رہے تھے کہ ہمیں ذمہ داری لینی چاہیے لیکن وہ ذمہ داری راست نہیں آرہی ان کو، مشکلات میں پڑھ گئے۔

صحافی: اچھا مولانا صاحب آپ نے کے پی کے اور بلوچستان کی بات کی وہاں پہ دو جمہوری حکومتیں موجود ہیں تو ان سارے حالات میں ان دونوں حکومتوں کا کردار کیا ہے آپ کیا سمجھتے ہیں وہ دونوں ناکام ہو گئی ہیں؟

مولانا صاحب: دیکھیے میں آپ سے عرض کروں یہ لفظ حکومت جو ہے نا جی بہت بڑا لفظ ہے اور جب آپ اس پر بحث کرتے ہیں تو لفظ حکومت کو ایک بہت بڑی قوت سے تعبیر کرتے ہیں میں پورے ملک کے الیکشن کی بات کرتا ہوں بشمول خیبر پختونخوا کے، مینڈیٹ وہاں بھی نہیں ہے ایک مثبت بات جو پی ٹی آئی کی طرف سے ائی ہے جس کو میں شیئر کر رہا ہوں اپ کے ساتھ، پیپلز پارٹی کی حکومت تھی سندھ میں اور سندھ حکومت کے لیے وہ کسی قیمت پر اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کی تجویز قبول نہیں کر رہے تھے لیکن پی ٹی آئی ہر چند کی ان کی حکومت کے پی میں ہے تبھی وہ استعفوں کی بات پر آگئے اور برملا کہہ رہے ہیں کہ ہاں نیا الیکشن ہونے چاہیئے اور اسمبلیاں تحلیل کر لی جائے تو یہ اس وقت ان کی طرف سے ملکی سیاست میں میں اس کو ایک مثبت پیش رفت سمجھتا ہوں کہ انہوں نے ہمت کی ہے کہ اپنی ایک حکومت ہونے کے باوجود کہتے ہیں کہ ازسرنو الیکشن ہونے چاہیے۔

صحافی: مولانا صاحب اپ کا ماضی میں نون لیگ کے ساتھ خصوصا بہت زیادہ قربت رہی ہے یہ جو ابھی پی ٹی آئی پر پابندی کی ایک بات سامنے ائی اور اس کے اوپر بہت سی باتیں آرہی ہیں آپ خود ایک بڑا اثر رسوخ رکھتے ہیں سیاسی جماعتوں کے اندر بھی خصوصا قائدین کے ساتھ، کیا اپ کی طرف سے یہ بات میاں صاحب تک پہنچی ہے کہ اس طرح کا جو فیصلہ ہے یہ غیر سیاسی ہے یہ سیاسی قوتوں کو مزید کمزور کرے گا یا اس طرح کی کوئی بات اور دوسرا کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر اس تناظر میں صورتحال میں نیا الیکشن ہوتے ہیں تو وہ نئے الیکشن جو ہے واقعی مسائل کا حل بنیں گے یا پھر مزید مسائل پیدا ہوں گے؟

مولانا صاحب: بالکل فوج لاتعلق ہو جائے خیر خیریت ہو جائے گی ایک عوام کی حقیقی معنوں میں نمائندہ حکومت ہو پبلک سمجھے کہ اسمبلی میں جو بیٹھا ہوا ہے میرا نمائندہ ہے اور اگر عوام سمجھتے ہیں کہ یہ میرا نمائندہ نہیں ہے تو پھر وہ کیسے نظام کو چلائے گا عوام ان پر اعتماد نہیں کر رہے تو یہ چیزیں ہونی چاہیے کہ پبلک جو ہے اس کو اپنے نمائندوں پہ اعتماد ہونا چاہیے اپنے پارلیمان پہ اعتماد ہونا چاہیے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی پہ اعتماد ہونا چاہیے اور میں ایک اور بات بھی عرض کرنا چاہوں گا آج آپ کی گفتگو میں کہ الیکشن ایک دن ہونا چاہیے چاہے وہ قومی صوبائی اسمبلی کا ہو چاہے بلدیات کا ہو بلدیات کو اسی دن ووٹ ہونا چاہیے۔ یہ جو ہمارے ہاں بلدیاتی حکومتیں بن جاتی ہیں پھر وہ جو جس کی حکومت ہوتی ہے اس کی تابع چلتی ہیں تو اس کو بھی ہمیں اس لائن میں لانا چاہیے کہ کوئی اس پر اثر انداز نہ ہو اور دوسری میری ایک تجویز ہوگی جو شائد ابھی تک اس کو اتنی پختگی نہیں ہوگی لیکن ہونی چاہیے اس پر بات ہونی چاہیے کہ یہ جو ہمارے ہاں نگران حکومت کا تصور ہے اس کو ختم ہو جانا چاہیے جیسے انڈیا میں ہوتا ہے پوری دنیا میں ہوتا ہے اور یہ بات حضرت میں آپ کو بتا دوں کہ 1977 میں جب ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے ساتھ پی این اے کہ قیادت کی گفتگو ہو رہی تھی تو اس اصول پر انہوں نے بھی اس ان پہ اصرار نہیں کیا تھا کہ اپ مستعفی ہو جائیں اور عبوری حکومت وہ ہے وہ الیکشن کرائے جی انہوں نے فیصلہ نہیں کیا اور بلکہ یہ مطالبہ واپس لے لیا تھا آئین کا تقاضہ جو ہے اس کے مطابق چلنا چاہیے اگر ہم وقتی ضرورت کے لیے کہیں کہ ائین میں ترمیم کرو تو یہ شاید پھر ایک عجیب سا مثال بن جائے گی اس کے لیے، اب تو آئین کو مذاق بنایا گیا ہے جی

صحافی: حضرت اپ نے بڑی زبردست بات کی اور یہ بہت بڑی خبر ہے کہ پی ٹی ائی جو ہے اس نے اپ کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ صوبائی اور قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کے لیے تیار ہے تو آپ کی بات چیت دوسری طرف بھی تو چل رہی ہے اپ کے ساتھ ن لیگ والے بھی رابطے میں ہیں آپ کے ساتھ دیگر جو ادارے ہیں وہ بھی 

مولانا صاحب: یہ ایک اچھا سوال ہے عمومی طور پر یہ سوال ہوتے رہتے ہیں میں اپ کے اس سوال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ دیکھیے اپ باقی پارٹیوں کی بات نہ کریں باقی پارٹیوں ان کے ساتھ ہمارے تعلقات اس طرح نارمل تعلقات ہوتے ہیں چلتے رہتے ہیں کسی زمانے میں پی این اے اور پیپل پارٹی کے درمیان تلخ پیدا ہوئے اور وہ کوئی 73 کے بعد سے لے کر ستتر اٹھہتر تک چلتے رہے اس کے بعد یا اس سے پہلے سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں منشور الگ ہوتے ہیں اختلاف رائے ہوتا ہے لیکن تعلقات نارمل ہوتے ہیں اب مسلم لیگ ہیں پیپلز پارٹی ہے ہم الگ پارٹی ہے اے این پی ہے وہ الگ پارٹی ہے ہم الگ پارٹی ہے محمود خان ہے اب وہ الگ پارٹی ہے لیکن کوئی تلخیاں نہیں ہیں اپس میں تلخیاں نہیں ہے پی ٹی آئی کے حوالے سے یہ سوچے کہ ان کے درمیان اور ہمارے درمیان تلخ تعلقات ہیں ان کو صرف نارملائز کرنا ہے معمول پہ لانے والے تعلقات کوئی معمول پر لانا کے اختلاف بھی ہو لیکن اس میں جو شدت ہے تو اس کے لیے ہم یہ سوچتے ہیں کہ جو جمعیت علماء اسلام کے تحفظات تھے ہم نے جس وجہ سے اختلاف رائے کیا تھا ان تحفظات کو دور کیا جائے اور اس پر انہوں نے امادگی ظاہر کر لی ہے دیکھیں اس کے وجود کا تعین جو ہے وہ مذاکرات کے ذریعے کر لیا جائے گا ہم بھی اپنے تحفظات پیش کریں گے اور پھر ان کو ایک بڑے باعزت باوقار انداز کے ساتھ اگر یہ مرحلہ ہمارا گفتگو کے ذریعے سے مذاکرات کے ذریعے سے طے ہو جاتا ہے تو پھر وہ پی ٹی ائی ہے کہ ہم جے یو آئی رہیں گے لیکن وہ جو شدت اور تلخی والا ایک ماحول تھا اس سے ہم نکل سکیں گے ان شاءاللہ العزیز۔

صحافی: مولانا صاحب عمران خان کے اوپر جو مقدمات بنائے گئے تھے ان سب میں ضمانت پہ ہو گئے یا تو مقدمات ختم اب ان کا سٹیٹس قیدی سے حوالات کا ہو گیا ہے۔

مولانا صاحب: میں حضرت کسی سیاستدان کے اوپر مقدمے دائر کرنا ان کو جیلوں میں رکھنا قید و بند کر کے میں تو الیکشن سے پہلے اپ کو یاد ہے کہتا رہا کہ عمران خان کے ساتھ میں اس لیے بھی لڑنا نہیں چاہتا کہ میرا وہ مخالف ہے وہ جیل میں ہے میں باہر ہوں تو میں تو سیاستدان ہوں سیاسی ادمی ہوں جو مراعات اپنے لیے پسند کرتا ہوں وہ ایک دوسرے سیاستدان کے لیے پسند کرتا ہوں تو یہ جو شدت کا عنصر جب آجاتا ہے تو یہ تو ملک کو نقصان پہنچاتا ہے جی اب بعض چیزیں جب عدالت میں ہوتی ہیں تو میں عدالت کو نہیں چھیڑتا، میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ یہ موضوع چوں کے عدالت میں ہیں میری خواہش یہ ہو سکتی ہے لیکن اپ فیصلہ تو عدالت نے کرنا ہے جی اب عدالت کے فیصلے سے ہمیں اتفاق بھی ہوگا اختلاف رائے بھی ہوگا ۔ تو یہ چیزیں ذرا ہمیں کرنے ہوں گے اور اخری بات میں یہ کروں گا کہ ہم بار بار یہ کہہ چکے ہیں کہ غزہ کے فلسطینی مسلمانوں کے لیے عالمی سطح پر امداد کی ضرورت ہیں اور اس وقت بڑی مشکل میں جا رہے ہیں ان کی استقامت کو سلام، ان کی قربانیوں کو سلام لیکن پھر بھی انسان ہے ضرورتیں رکھتے ہیں تو اس کے لیے پوری قوم سے ایک بار پھر اپیل ہے کہ ان کی مالی مدد کے لیے حرکت میں آئیں اور ہم وہاں جا کر تو ایسا ماحول نہیں ہے کہ ان کے ساتھ میدان میں جہاد میں شریک ہو جائیں لیکن ہم اگر سیاسی سپورٹ دے سکیں مالی سپورٹ دے سکیں تو ان کا ہمارے اوپر حق ہے اور ہم اس طرح ان کے جہاد میں شریک ہو سکتے ہیں

بہت بہت شکریہ


ضبط تحریر: #سہیل_سہراب

ممبر مرکزی ڈیجیٹل میڈیا کونٹینٹ جنریٹرز/رائٹرز

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، کوآرڈینیٹر تحصیل بریکوٹ 

#teamjuiswat



0/Post a Comment/Comments