جمعیۃ علماء کی ضرورت و اہمیت۔ مولانا جرجیس کریمی


جمعیۃ علماء کی ضرورت و اہمیت 

مولانا جرجیس کریمی


 اسلام میں اجتماعیت کی اہمیت، مقاصد اور بنیادیں

قرآن و حدیث میں اجتماعیت کا تصور جتنا ابھرا ہوا ہے اور جتنی تاکید سے مسلمانوں کے ایک ایک فرد کو اجتماعیت سے جڑے رہنے کی تعلیم دی گئی ہے افسوس ہے کہ مسلمانوں کے اندر اس پہلو سے کافی تساہل موجود ہے۔ قرآن مجید میں ایک سے زائد مقامات پر کہا گیا ہے کہ مسلمان اللہ کی رسی کو مل جل کر پکڑے رہیں اور آپس میں تفرقہ بازی اور گروہ سازی نہ کریں (آل عمران 103)

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے ایک قول سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی رسّی سے مراد جماعت اور اجتماعیت ہے۔ رسول اللہ کے مختلف ارشادات میں جماعت و اجتماعیت کو لازم پکڑنے کی بات کہی گئی ہے۔ رسول اللہ کا ارشاد گرامی ہے:

’’تمہارے اوپر واجب ہے کہ تم جماعت کو لازم پکڑے رہو اور تفرقہ بازی سے بچو کیونکہ شیطان ایک کے ساتھ ہوتاہے اور 2 لوگوں کے ساتھ دو رہتا ہے۔‘‘ (الترمذی،باب الفتن)۔

جماعت کی اہمیت کے پیش نظر سفر کی حالت میں بھی اس کو لازم پکڑنے کی بات کہی گئی ہے۔ جماعت اگر قائم ہوتو اس سے الگ ہونے کی سخت مذمت کی گئی ہے بلکہ ایسے شخص کو جسکی گردن پر کسی امام یا امیر سے بیعت کا قلادہ نہ ہو اور اسی حالت میں اسکی موت ہوجائے تو اسے جاہلیت کی موت قرار دیاگیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے:

’’جس شخص نے امیر کی طاعت سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا تو قیامت کے دن وہ اللہ سے ایسے ملے گا کہ اس کے پاس کوئی حجت نہیں ہوگی اور وہ شخص جس کی گردن میں کسی امیر کی بیعت کا قلادہ نہیں اور اسی حالت میں اس کی موت ہوجائے تو گویا اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی۔‘‘ (مسلم، کتاب الامارہ)۔

ایک دوسری حدیث میں وضاحت کی گئی ہے کہ اگر امیر غلام حبشی اور ناک اور کان کٹا ہو تب بھی اس کی سمع و طاعت کی جائے۔ حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں:

’’میرے خلیل نے مجھے وصیت کی کہ میں سمع و طاعت بجا لاؤں چاہے امیر غلام حبشی اور ناک کان کٹا ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ (مسلم، کتاب الامارہ)۔

بعض احادیث میں اطاعت امیر کو اطاعت الٰہی قرار دیاگیا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اس سے اجتماعیت قائم رہتی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:

’’جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔‘‘ (مسلم، کتاب الامارہ)۔

جہاں عام لوگوں کو امیر کی اطاعت کا حکم ہے وہیں پر امیر کو اپنی رعایا کیساتھ عدل و انصاف کرنے اور ان کو ظلم و زیادتی سے بچانے کی تاکید کی گئی ہے، دوسری صورت میں اس کے خلاف سخت وعید وارد ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:

’’اے اللہ! میری امت میں جو شخص امیر یا ذمہ دار بنایاگیا اور اس نے لوگوں کو مشقت میں مبتلا کیا تُوبھی اس پر مشقت ڈال دے اور جس نے نرمی برتی تُو بھی اس سے نرمی برت۔‘‘ (مسلم، کتاب الامارہ)۔

ایک دوسری روایت میں ہے :

  ’’اللہ تعالیٰ نے جس شخص کو امیر بنایا اور اس نے اپنی رعیت کے ساتھ دھوکہ کیا تو اس پر جنت حرام ہوگی۔‘‘ (حوالہ سابق)۔

اس مضمون کی اور بھی صحیح روایات ہیں۔ ان کا مقصد بھی یہی ہے تاکہ اجتماعیت میں امراء اور حاکموں کے مظالم سے بدامنی اور بے چینی پیدا نہ ہو، اجتماعیت میں دراڑ پیدا نہ ہو اور لوگوں کا شیرازہ بکھر نہ جائے۔

کوئی بھی صاحب عقل اس بات سے انکار نہیں کرسکتاکہ انسان ایک سماجی مخلوق ہے اور اس کی ضروریات دوسروں سے اسقدر مربوط ہیں کہ وہ تنہا زندگی گزارنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا لہٰذا اجتماعیت اسکی ایک فطری ضرورت ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے چلانے کیلئے لازماً ایک نظام ہونا چاہیئے۔ اسی وجہ سے شریعت اسلامیہ میں اجتماعیت کے تعلق سے واضح احکام اور تعلیمات دی گئی ہیں اور اس کو واجبات دین میں شمار کیاگیا ہے۔ علمائے اسلام نے سیاست شرعیہ کے موضوع پر بیش بہا کتابیں تصنیف کی ہیں۔ ذیل میں چند موقر علمائے اسلام کی آراء پیش کی جاتی ہیں جس سے اندازہ ہوگاکہ اسلامی اجتماعیت پر علماء کا اتفاق ہے اور فی زمانہ امت کا اس سے تغافل شریعت کے ایک حکم سے تغافل ہے۔ 

۰علامہ ابن حزم اندلسی اپنی تصنیف’’کتاب الفصل‘‘ میں فرماتے ہیں:تمام اہل سنت، شیعہ اور خوارج اس بات پر متفق ہیں کہ امامت کا قیام واجب ہے اور امت پر واجب ہے کہ وہ ایسے امامِ عادل کی اطاعت کرے جو احکام الٰہی کو نافذ کررہا ہو اور لوگوں کو شریعت محمدی کے مطابق چلا رہا ہو۔ 

۰علامہ نسفی شرح عقائد نسفیہ میں لکھتے ہیں:مسلمانوں کے لئے واجب ہے کہ ان کا کوئی امام ہو جو احکام نافذ کرے، حدود جاری کرے، سرحدوں کی حفاظت کرے، زکوٰۃ وصول کرے، باغیوں کو سزا دے اور چوروں اور ڈاکوؤں پر حد جاری کرے۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ؒ امامت کو واجباتِ دین میں شمار کرتے ہیں، وہ لکھتے ہیں:یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ امورِ رعایا کا والی و نگران ہونا واجبات دین میں سے ایک بڑا واجب ہے بلکہ اس کے بغیر نہ تو دین کا قیام ممکن ہے اور نہ دنیا کا۔ چونکہ انسانوں کو اپنی حاجات میں ایک دوسرے سے سابقہ پڑتا ہے اور اجتماع کے بغیر بنی آدم اپنی حاجتیں اور مصلحتیں پوری نہیں کرسکتے اسلئے ضروری ہے کہ اجتماع کی حالت میں ان پر کوئی حاکم ہو۔ یہاں تک کہ نبی کریم ے فرمایا:جب 3 آدمی بھی سفر کو نکلیں تو ان کو چاہیئے کہ اپنے میں سے ایک کو امیر بنالیں۔

  پس نبی کریم نے اس مختصر جماعت کیلئے بھی جو سفر میں عارض ہوتی ہے ایک کو امیر بنانا واجب کردیا تو عام زندگی میں یہ کیوں واجب نہ ہوگی۔ اس وجوب کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امربالمعروف و نہی عن المنکر کو واجب کردیا ہے اور یہ کام قوت و امارت کے بغیر انجام نہیں پاسکتا۔ اسی طرح جہاد، عدل و انصاف ، حج، جمعہ، عیدین کا قیام، مظلوم کی امداد، حدود کی اقامت اور بہت سے فرائض پر واجبات بھی قوت وامارت کے بغیر ظہور پذیر نہیں ہوسکتے۔‘‘ (السیاسۃ الشرعیۃ فی اصلاح الراعی و الرعیہ لابن تیمیہ)۔


اسلامی اجتماعیت کے مقاصد:

علمائے اسلام اور فقہائے عظام نے اسلامی اجتماعیت کا مقصد دین کی حفاظت اور دنیا کی سیاست بتایا ہے۔ (الاحکام السلطانیہ للماوردی دارالکتاب العربی)۔

بعض علماء نے اس کا مقصد عام دینی و دنیاوی مصالح کا حصول، مفاسد کا دفعیہ، احکام الٰہی کے مطابق فیصلے کرنا اور امت کی شیرازہ بندی قرار دیا ہے۔ (التمہید لابن عبد البر القُرطبی)۔

ذیل میں ان کی مختصر تشریح کی جاتی ہے:

٭ عام دین و دنیاوی مصالح کا حصول اسلامی اجتماعیت یا خلافت کا اولین مقصد ہے اس لئے امام پر لازم ہوگاکہ وہ عیدین اور جمعہ کی نمازیں قائم کرے، لوگوں کے معاملات کی نگرانی کرے ، عدالتیں قائم کرے، مظلوم کی فریاد رسی کرے اور اگر کوئی لاوارث ہے تو اس کی سرپرستی کرے۔ اس طرح دین کے اکثر احکام تقاضا کرتے ہیں کہ اجتماعیت قائم ہو، اس کے بغیر آدھی شریعت متروک ہوجاتی ہے اور صرف آدھی شریعت پر عمل ممکن رہ جاتا ہے۔

٭ اس دنیا میں صرف اچھائیاں نہیں بلکہ یہاں مفاسد بھی ہیں جن کا ازالہ اور دفعیہ انفرادی ضرورت کے ساتھ اجتماعی ضرورت بھی ہے، فتنہ و فساد کا انسداد، سرحدوں کی حفاظت اور دشمنوں کا مقابلہ اجتماعیت کے بغیر ممکن نہیں۔

٭ اللہ تعالیٰ نے مختلف احکام نازل کیے ہیں، ان کاتعلق فرد سے بھی ہے اور معاشرہ سے بھی۔ اجتماعی احکام کا نفاذ ایک نظم کے بغیر ممکن نہیں لہٰذا اسلامی اجتماعیت کا ایک مقصد یہ قرار پاتاہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کیاجائے اور انفرادی اور اجتماعی زندگی میں وہ نافذ ہوں، اسلام ساری انسانیت کا دین ہے۔ اس کا مطمحٔ نظر (مقصود) انسانیت کی شیرازہ بندی بھی ہے چنانچہ اسلامی اجتماعیت کاایک مقصد یہ قرار دیا جاتاہے کہ لوگ الگ الگ گروہوں کی شکل میں زندگی گزارنے کے بجائے ایک وحدت بن کر زندگی گزاریں۔ یہی وجہ ہے کہ دین میں اختلاف و نزاع کو ناپسند کیا گیا ہے اور اتحاد واتفاق پر بہت زور دیاگیا ہے۔


اسلامی اجتماعیت کی بنیادیں

کسی بھی صالح اجتماعیت کا قیام محض لوگوں کے جمع ہو جانے یا کسی وقتی دنیاوی اور مادی ضرورت کی تکمیل کی غرض سے ممکن نہیں اس کیلئے مضبوط بنیادوں کی ضرورت ہے۔ اسلامی شریعت میں اس کی چند بنیادوں کا ذکر کیاگیا ہے۔ ذیل میں ان کی وضاحت کی جاتی ہے:


  بیعت :

بیعت کے معنیٰ عہدو پیمان کے ہیں جو عوام اور حکمراں کے درمیان ہوتی ہے۔ یہ بیعت سمع و طاعت اور نصح و خیرخواہی پر مبنی ہوتی ہے۔ علامہ ابن عبدالبر فرماتے ہیں :

’’رسول اللہ نے اور آپ کے بعد حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور دیگر خلفائے راشدین ؓنے بیعت لی۔ اس کی کیفیت یہ ہوتی تھی کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر سمع وطاعت کا عہد لیا جاتا تھا اوریہ عہد تنگی و کشادگی اور ناسازگاری ہر حال کے لئے ہوتا تھا۔ (التمہید لابن عبدالبرالقُرطبی)۔

حضرت عبادہ ؓ سے مروی ہے کہ ہم لوگ بیعت کرنے کے لئے کھڑے ہوتے اور یہ عہد کرتے تھے کہ ہر حال میں حق بات کہیں گے اور اس بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہیں کریںگے۔ رسول اللہ ایسے موقع پر فرماتے تھے کہ حسب استطاعت تم پر عہد کی پابندی لازم ہے کیونکہ اللہ نے کسی پر طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا۔ (حوالہ سابق)۔

عام قسم کا عہد طرفین کی رضامندی سے منسوخ ہوسکتا ہے لیکن بیعت منسوخ نہیں ہوسکتی۔ اس کا ثبوت اس دیہاتی کے واقعہ سے ملتاہے جس نے ایمان قبول کیا اور مدینہ میں آکر بودو باش اختیار کرلی، مگر اس کو یہاں کی آب و ہوا راس نہیں آئی، اس نے حضور سے بیعت کے فسخ کا مطالبہ کیا مگر آپ نے اسے منظور نہ کیا، اس نے اصرار کیا مگر اس کے باوجود آپنے اس کو منظور نہیں فرمایا (التمہید لابن عبدالبرالقُرطبی)۔

علمائے کرام نے بیعت کے متعدد لوازم کابھی تذکرہ کیا ہے۔ ان میں سے سمع و طاعت اذیت اور ناگواری پر صبر اور امام کی طرف سے رعایا کے لئے نصح و خیرخواہی خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔


   سمع وطاعت: 

سمع و طاعت بیعت کالازمہ ہے، لیکن ساتھ ہی اسلامی اجتماعیت کی بنیاد بھی ہے، کیونکہ اگر سمع و طاعت نہ ہوتو تنہا امیرامورِ امارت انجام نہیں دے سکتا۔ اس کے لئے لازماً مامورین کی طرف سے سمع و طاعت ضروری ہے۔ سمع وطاعت کے ضمن میں یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ یہ مطلق نہیں بلکہ معروف کے ساتھ مشروط ہے یعنی اگر امام منکر یا معصیت کا حکم دے تو سمع و طاعت واجب نہیں ہوگی اور امیر کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ علامہ ابن عبدالبر فرماتے ہیں:

’’امام اگر معروف مباح کا حکم دے تو اسکی اطاعت واجب ہوتی ہے چاہے بذات خود امام فاسق و فاجر کیوں نہ ہو۔‘‘ (حوالہ سابق)۔


   نصح وخیر خواہی:

اسلامی اجتماعیت جن بنیادوں پر قائم ہوتی ہے ان میں سے ایک بنیاد نصح و خیرخواہی ہے اور اس کاتعلق امیر اور مامور دونوں سے ہے۔ امیر پر لازم ہے کہ وہ اپنی امارت کو لوگوں پر ظلم و ستم کا ذریعہ نہ بنائے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:

’’کوئی بھی امیر چاہے اس کی امارت میں صرف 10 لوگ ہی کیوں نہ ہوں، قیامت کے دن اس سے ان کے بارے میں سوال ہوگا۔‘‘ (الطبرانی فی الکبیر)۔

ایک دوسری روایت میں حضرت معقل ؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:

’’اللہ نے کسی کو ذمہ دار بنایا اور اس نے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں جان بوجھ کر کوتاہی کی تو جنت اس پر حرام ہوگی۔‘‘ (بخاری کتاب الاحکام )۔

نصح و خیرخواہی جس طرح امام کیلئے اپنی رعایا کے حق میں واجب ہے اسی طرح رعایا کیلئے اپنے امام کے حق میں بھی لازم ہے۔ امام کی خیرخواہی کا سادہ مفہوم یہ ہے کہ پورے اخلاص کے ساتھ اس کی سمع و اطاعت کی جائے لیکن اس کا وسیع مفہوم یہ ہے کہ اگر امام کے اندر بعض کمزوریاں یا خامیاں موجود ہوں تو ان کو حکمت کے ساتھ دور کرنے کی کوشش کی جائے اس لئے کہ ہر حال میں شریعت میں حق بات کہنے کاحکم دیاگیا ہے۔ علامہ ابن عبداللہؒ فرماتے ہیں:

’’امت کا اس پر اتفاق ہے کہ بْرائی سے روکنا واجب ہے۔ اگر ہاتھ سے اس کو روک سکے تو ہاتھ سے روک دے، اگر زبان سے روک سکے تو اس سے روکے اور اگر اس کا امکان نہ ہوتو دل سے بْرائی کو بْرائی جانے۔‘‘ (التمہید لابن عبد البر القُرطبی)۔


عدل کا قیام:

اسلامی اجتماعیت کی ایک بنیادعدل کا قیام ہے، کسی بھی اجتماعیت کو باقی رکھنے کیلئے عدل ایک بنیادی پتھر ہے، اس کے بغیر کوئی اجتماعیت وجود میں آسکتی ہے نہ دیر تک قائم رہ سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اس کو انتہائی اہمیت دی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’بے شک اللہ عدل و احسان کا حکم دیتا ہے۔‘ (النحل90)۔

  حضرت علی بن ابی طالبؓ ایک خطبے میں ارشاد فرماتے ہیں :

’’اے حاکمو! تمہارے اوپر رعایا کے بہت سے حقوق ہیں، ان میں اولین حق عدل کے مطابق فیصلہ کرنا اور مساوات قائم کرنا ہے، اللہ تعالیٰ کو امام عادل کا مبنی برانصاف فیصلہ سب سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘ (الاستذکار)



0/Post a Comment/Comments