سانحہ باجوڑ ، اسباب و محرکات۔ اشفاق اللہ جان ڈاگیوال


سانحہ باجوڑ ، اسباب و محرکات

اشفاق اللہ جان ڈاگیوال


شندائی موڑ، باجوڑ کا وہ علاقہ ہے جہاں 30 جولائی 2023 اتوار کو جمعیت علماء اسلام کا عظیم الشان کنونشن پوری عروج پر تھا۔ اس کنونشن میں جمعیت علمائے اسلام سے تعلق رکھنے والے قائدین، علماء و شیوخ، ائمہ کرام و حفاظ اور ذمہ داروں کا جم غفیر تھا۔ سٹیج اکابرین سے سجا ہوا تھا اور کارکنوں کی بڑی تعداد پنڈال میں موجود تھی۔ بعض کارکن تو اپنے ننھے بچوں کو بھی ساتھ لائے ہوئے تھے، والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے بچپن سے ہی ایسا ماحول دیکھیں تاکہ وہ بڑے ہوکر اہل حق کا ساتھ دینے والوں میں سے بن جائیں۔ پنڈال فلک شگاف نعروں سے گونج رہا تھا۔ ایمان افروز اور ولولہ انگیز تقاریر کا سلسلہ جاری تھا، پورے پنڈال میں ایک روحانیت کا سا سماں تھا کیونکہ یہ روایتی سیاسی جماعت کا اجتماع تھا نہ ہی اس میں روایتی سیاسی کارکن شریک تھے۔ یہ اس عظیم دینی سیاسی جماعت کا اجتماع تھا جو اپنی سو سالہ درخشندہ و تابندہ تاریخ رکھتی ہے، جس نے ہر دور میں اللہ کی دھرتی پر اللہ کے نظام کے لیے عملی جدوجہد کی، اور ہر جابر کے سامنے کلمہ حق بلند کیا ہے۔ اسی لیے اس جماعت کے ہر اجتماع میں ناچ گانوں اور ڈھول ڈھمکوں کے بجائے اللہ کی کبریائی کے نعرے لگتے ہیں، درود و سلام کے گلدستے پیش کیے جاتے ہیں۔ کنونشن جاری تھا اس دران جونہی جمعیت علماء اسلام کے جنرل سیکرٹری سینیٹر مولانا عبد الرشید پنڈال پہنچے ان کے استقبال کے لیے فلک شگاف نعرے لگائے جا رہے تھے اس دوران ایک بدبخت بارودی جیکٹ پہنے آگے بڑھا اور خود کو اسٹیج کے قریب لاکر دھماکا کر دیا۔ دار دھماکے کے بعد ہر طرف آگ اور دھوئیں کے بادل نظر آرہے تھے۔ ہر طرف لاشیں اور انسانی اعضاء بکھرے پڑے تھے۔ ایک عظیم سانحہ رونما ہوچکا تھا۔ اس خود کش دھماکے میں 65 سے زیادہ علماء کرام، ذمے داران اور کارکنان کی شہادتیں ہوئیں، سینکڑوں زخمی اسپتالوں میں زیر علاج رہے۔ اس دھماکے میں جمعیت علماء اسلام تحصیل خار کے امیر مولانا ضیاء اللہ جان سمیت جمعیت کے بہت سارے مقامی ذمے داران بھی شہید ہوئے۔اسی طرح جمعیت کے ایک ذمے دار اپنے کم سن بیٹے کو کنونشن میں اپنے ساتھ لائے لیکن دونوں باپ بیٹے دہشت گردوں کی سفاکیت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ کئی معصوم بچے اس سانحے میں شہید ہوئے۔ امدادی کارکن ایک شہید کا خون میں لت پت جسد خاکی اسٹریچر پر ڈال کر لے جارہے تھے، جب وہ تصویر نظر سے گزری تو بے اختیار آنسو چھلک پڑے، یہ جذبہ تو کسی سیاسی جماعت کے کارکن کا نہیں ہوگا، شہید اسٹریچر پر موجود ہے اس کا ایک ہاتھ نیچے لٹکا ہوا ہے اور اس کے ہاتھ میں ایک ڈوری نظر آرہی ہے جسے اس نے مضبوطی سے تھام رکھا ہے۔ اس ڈوری پر جے یو آئی کا پرچم بنا ہوا ہے، بارود نے اس کے جسم کو چھلنی کردیا، خون کے فوارے پھوٹ پڑے، لہو کی بوند بوند بہہ گئی، سانسیں ختم ہوگئیں، دل دھڑکنا بند ہو گیا لیکن اس نے وہ ڈوری نہیں چھوڑی۔ اسے کہتے ہیں اعتقاد، اسے کہتے ہیں اعتماد۔ اس حادثے میں اللہ رب العزت نے میرے جگری دوست اور جمعیت علمائے اسلام خیبر پختونخوا کے ایک مدبر راہنما علامہ محمد صدیق صاحب کو معجزانہ طور پر بچا لیا، وہ باجوڑ کے ہر دل عزیز راہنما سینیٹر مولانا عبد الرشید صاحب کے ساتھ بیٹھے تھے۔ شاید اللہ رب العزت نے ان دونوں سے کوئی بڑا کام لینا ہے، اس لیے ان کو چاروں طرف شہداء کی لاشوں کے بیچ محفوظ رکھا۔ اس المناک حادثے پر پورا علاقہ سکتے کے عالم میں رہا مگر ایک ننھے پھول جیسے یتیم 10 سالہ ابوذر کی شہادت اور لاش کو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے جو اپنے گھر کا چولہا جلانے کے واسطے جلسہ گاہ میں پاپڑ بیچنے آیا تھا۔ جمعیت علماء اسلام کے خلاف باجوڑ میں یہ دہشت گردی کا کوئی پہلا واقعہ نہیں، اس سے پہلے بھی کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ گزشتہ دو سال میں جے یو آئی کے 30 سے زائد مقامی علماء ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں شہید ہوچکے ہیں اور آج تو ظالموں نے حد ہی کردی۔ سافٹ ٹارگٹ سمجھ کر پورے کنونشن کو ہی اڑا دیا۔ کس کی داعش نے خود کش دھماکے کی ذمے داری قبول کرلی ہے، اس سے پہلے واقعات میں بھی مبینہ طور پر داعش کا ہی ہاتھ بتایا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جمعیت علماء اسلام کو ہی ٹارگٹ کیوں کیا جا رہا ہے؟ اس کی دو بنیادی وجہ ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ جمعیت علمائے اسلام کے علماء کھل کر داعش کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جمعیت علماء اسلام قومی دھارے میں واحد سیاسی جماعت ہے جو پاکستان میں نفاذ اسلام کے لیے عملی جدوجہد کر رہی ہے۔ گو کہ جس رفتار سے کام ہونا چاہیے اس رفتار سے نہیں ہورہا لیکن اس ملک میں اسلامی اقدار کے تحفظ کے لیے جتنا بھی کام ہورہا ہے اس کا سہرا جمعیت کے سر ہے۔ پاکستان دشمن قوتوں کو یہ بات گوارا نہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان دشمن قوتوں نے بالعموم وطن عزیز اور بالخصوص صوبہ خیبرپختونخوا کو مذہب سے دور کرنے کے لیے جو جماعت اور جس شخصیت کو میدان میں اتارا تھا، سب سے پہلے اس سازش سے پردہ مولانا فضل الرحمن نے اٹھایا تھا۔ مولانا اور ان کی جماعت ڈٹ کر کھڑے ہوگئے کہ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں جو دینی ماحول موجود ہے اس پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ پھر پوری قوم نے دیکھا کہ کس طرح انھوں نے مادر پدر آزاد و مخلوط رقص و سرود پر مشتمل جلسے نما کلچرل پروگراموں کا انعقاد کرکے پاکستان کے اسلامی تشخص کو مجروح کیا۔ نسل نو کی اخلاقیات پر حملے کیے گئے۔ یہ سب ایک بیرونی ایجنڈے کے تحت ہورہا تھا اس ایجنڈے کے حوالے سے ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم اور حکیم محمد سعید شہید نے بھی خبردار کیا تھا لیکن میدان عمل میں صرف مولانا فضل الرحمٰن ہی اترے۔ انھوں نے ناصرف اس طوفان بدتمیزی کے آگے بند باندھا بلکہ پی ٹی آئی کی حکومت کا تختہ بھی دھڑن کیا۔ یہ بات پاکستان دشمن قوتیں کیسے ہضم کرسکتی تھیں۔ ان کی تو برسوں کی محنت پر پانی پھر گیا، لگایا ہوا سرمایہ ڈوب گیا۔ اسی لیے وہ اپنی آلہ کار دہشت گرد تنظیموں کے ذریعے دہشت گردی کا راستہ اختیار کرتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ حملہ جمعیت علماء اسلام پر نہیں بلکہ پاکستان پر حملہ ہے، حملہ آوروں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ عرصہ دراز سے ہمارے حکمران اور کسی حد تک قوم بےحسی کا ثبوت دے کر خواب غفلت میں مبتلا ہے۔ جی ایچ کیو سے لےکر گلی کوچوں تک، اور اعلیٰ ترین شخصیات سے لے کر عام شہریوں تک دہشت گردی کا شکار بنے ہیں۔ یہاں تک کہ ستر ہزار افراد اس دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے، جب تک مصلحتوں سے آزاد ہوکر صرف وطن عزیز کی خاطر متفقہ حکمت عملی نہیں بنے گی دہشت گرد اسی طرح کھل کر کھیلتے رہیں گے، آج جے یو آئی کی باری تھی تو کل کسی اور سیاسی جماعت کی بھی ہوسکتی ہے اس لیے ہوش کے ناخن لیں۔



0/Post a Comment/Comments