مولانا فضل الرحمن صاحب کا لکی مروت میں امن عوامی اسمبلی سے خطاب

قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب کا لکی مروت میں امن عوامی اسمبلی سے خطاب

 18 اگست 2024

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِیْنُهٗ وَنَسْتَغْفِرُهٗ وَنُؤْمِنُ بِهٖ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئاٰتِ اَعْمَالِنَا مَن یَّهْدِهِ اللهُ فَلاَ مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ یُّضْلِلْهُ فَلاَ هَادِیَ لَهُ ۞ وَنَشْهَدُ أَنْ لَآ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ وَحْدَهٗ لَا شَرِیْکَ لَهٗ ۞ وَنَشْهَدُ اَنَّ سَیِّدَنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُهٗ، اَرْسَلَهٗ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرَا ۞ وَدَاعِيًا إِلَى ٱللَّهِ بِإِذْنِهِۦ وَسِرَاجًا مُّنِيرًا ، صَلی الله تعالی عَلی خَیرِ خَلقِه مُحَمَّد وَعَلی اٰلِه وَصَحبِِه وَبَارَک وسَلَّم تَسلِیماً کثیراً کثیراً . أما بعد فأعوذ بالله من الشیطن الرجیم ، بسم الله الرحمن الرحیم

وَضَرَبَ ٱللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ ءَامِنَةً مُّطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّن كُلِّ مَكَانٍۢ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ ٱللَّهِ فَأَذَٰقَهَا ٱللَّهُ لِبَاسَ ٱلْجُوعِ وَٱلْخَوْفِ بِمَا كَانُواْ يَصْنَعُونَ. صدق الله العظيم

جناب صدر محترم، میرے بہت قدر مند اور عزت مند پشتونو، مسلمان بھائیوں، آج یہ عظیم الشان جلسہ اس علاقے کی آواز ہے، اور یہ علاقہ آج اس میدان میں کیا چاہتا ہے؟ حکومت سے کیا چاہتی ہے؟ فوج سے کیا چاہتی ہے؟ طالب سے کیا چاہتی ہے؟ امن چاہتا ہے! اور یاد رکھو اس غریب عوام کی آواز کو سمجھو! ان کی احساسات کو سمجھو، ان کی مطالبات کو سمجھو، ورنہ نہ دنیا کے رہوگے نہ آخرت کے! (پشتو سے اردو ترجمہ)

میرے محترم دوستو! آج یہ انسانوں کا سمندر، یہ بحر بے کنار، لکی مروت کی سرزمین پر، جنوبی اضلاع کے عوام، فاٹا کے عوام اس بات کے لیے اکٹھے ہیں کہ ہماری وہ سرزمین جو چار دہائیوں سے اس پر آگ لگی ہوئی ہے بدامنی کے شعلے ہیں کہ بجنے نہیں پا رہے، قتل و غارت گری ہے خون کا دریا ہے کہ تھم نہیں رہا ہے، یاد رکھو حکمرانو تم بھی سن لو ، اسٹیبلشمنٹ بھی سن لیں ، بیوروکریسی بھی سن لیں ، مسلح گروہ بھی سن لیں کہ تمہارے کردار سے قوم مطمئن نہیں ہے۔ آج میرا بچہ مطمئن نہیں، میرا محلہ مطمئن نہیں، میرے گھر میں سکون نہیں، میرے وطن میں سکون نہیں، صبح گھر سے نکلتے ہیں تو یہ اطمینان نہیں کہ شام کو گھر واپس آسکیں گے یا نہیں، یہ یقین نہیں کہ میں پیدل اپنے گھر واپس آؤں گا یا میری لاش واپس آئے گی، کیا میری سرزمین اس لیے پاکستان کا حصہ بنی تھی کیا یہ قبائل اس لیے پاکستان کا حصہ بنے تھے کہ یہاں انہیں یہ دن دیکھنا پڑے گا کہ نہ اس کا دن محفوظ ہو نہ اس کی رات محفوظ ہو۔

میں تو ہر طرح سے اسباب ہلاکت دیکھوں

اے وطن کاش تجھے اب کے سلامت دیکھوں

وہ جو بے ظرف تھے سب صاحب میخانہ ہوئے

اب بمشکل کوئی دستار سلامت دیکھوں

میرے محترم دوستو! اس طرح معاملات نہیں چلیں گے کہ صوبہ بلوچستان ہو یا صوبہ خیبر پختونخواہ ہو یا ہمارے قبائل ہوں اور وہ بارود کے ڈھیر پر بیٹھے ہوئے ہوں، بارود کی بارش میں بیٹھے ہوئے ہوں، ان کے بچے محفوظ نہ ہوں، ان کے خاندان محفوظ نہ ہوں، ان کی بہنیں محفوظ نہ ہوں، ان کی بیٹیاں محفوظ نہ ہوں، ان کی عزت محفوظ نہ ہوں، اب ہمیں بتاؤ ہمیں اسٹیبلشمنٹ بتائیں ہمیں فوج بتائے کہ اس سرزمین پر امن کیسے آسکتا ہے؟ ہم نے تو آپ کا ساتھ دیا، ہم نے تو اس خطے میں اور پاکستان کے لیے امن کی بھیک مانگی تھی، میں تو یہ مشن لے کر الیکشن سے پہلے افغانستان چلا گیا تھا، میں نے وہاں کی قیادت سے بات کی ہر طرف گفتگو کی، میں تو کامیاب ہو کر واپس آیا، آج وہ کامیابی جو میں لے کر آیا تھا اس کامیابی کو ناکامی میں کس نے بدل دیا ہے؟ تم نے الیکشن کرائے ہمیں یہ الیکشن قبول نہیں ہے، ہمیں اس کے نتائج قبول نہیں ہیں، ہم دھاندلی کی بنیاد پر منتخب لوگوں کو لوگوں کا نمائندہ تسلیم نہیں کر سکتے، لوگوں کے نمائندہ وہ قوت ہے جو جس کی دعوت پر آج تاحد نظر انسانوں کا سمندر اکٹھا ہو رہا ہے، تم نے اس قوت کو عوام کے ووٹ کے حق سے محروم رکھا ایسا نہیں چل سکتا! میرے وسائل ہیں، میرے قبائل کے وسائل ہیں، میرے حقوق ہیں، میرے صحرائیں میرے پہاڑ معدنی ذخائر سے بھرے ہوئے ہیں، بلوچستان ہو یا خیبر پختونخواہ یہ دنیا کے سب سے دولت مند علاقے ہیں لیکن ان کی دولت پر قبضہ کس کا ہے؟ ناراض نہ ہونا میں پوری سنجیدگی کے ساتھ اپنی اسٹیبلشمنٹ کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے کا یہ ڈھونگ اب ختم کر دو، تم صرف دہشت گردی کی بنیاد پر امریکہ کی تقلید کر رہے ہو، امریکہ کوئی دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں لڑ رہا وہ خود دہشت گردی کا خالق ہے اس نے پوری دنیا میں جنگ چھیڑی ہوئی ہے تاکہ اپنی فوجیں وہاں بھیجنے کا جواز پیدا کر سکے، تم امریکہ کی پیروی میں پاکستان کے اندر اور قبائل کے اندر جنگ کی کیفیت اس لیے پیدا کرنا چاہتے ہو تاکہ ہمارے مالی وسائل اور معدنی وسائل تک تمہاری رسائی ممکن ہو سکے اور میرے وسائل پر تم قبضہ کر سکو گے۔

میرے محترم دوستو! میں آپ کی نمائندگی پر آپ کی نمائندگی کے ساتھ آپ کی اجازت کے ساتھ اپنے حکمرانوں کو آواز پہنچانا چاہتا ہوں، اصل حکمرانوں کو بھی پہنچانا چاہتا ہوں اور نقلی حکمرانوں کو بھی پہنچانا چاہتا ہوں اور ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ اس سرزمین پر اس کے وسائل پر اس کے معدنی ذخائر پر حق صرف یہاں کے بچوں کا ہے یہاں کے نسلوں کا ہے تمہارا باپ بھی ہمارے وسائل پر قبضہ نہیں کر سکے گا! میں جانتا ہوں اس سرزمین پر پشتون کا کیا حق ہے، میں جانتا ہوں ہمارے اس علاقوں پر مظلوم علاقوں پر محکوم علاقوں پر مجبور علاقوں پر قبضہ کس کا ہے اور ان کے حقوق پر قبضہ کس نے کیا ہے ان کے وسائل پر قبضہ کس نے کیا ہے، ہم اپنے وسائل پر قبضہ نہیں ہونے دیں گے اور یہ حق ہمارے نسلوں کا ہے ہمارے آنے والے بچوں کا ہے کسی کا باپ بھی ہمارے بچوں کے حق کو اس پر قبضہ نہیں کر سکے گا! اور یہ میرے مذہب اسلام کا بھی تقاضا ہے، یہ جمعیت علماء کے منشور کا بھی تقاضہ ہے، ہماری قوم پرست جماعتیں بھی یہی بات کرتی ہیں اور ہم تمام لوگ خواہ جس جماعت کے ساتھ بھی اس کا تعلق ہے اس بات پر متفق ہے کہ میرے حقوق پر کسی کو قبضہ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی!

میرے محترم دوستو! آج عالمی قوتیں میرے ملک کی مذہبی شناخت کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں، عالمی قوتیں اپنا معاشی جنگ پاکستان کی سرزمین پر لڑنا چاہتے ہیں اور جب میرے صوبے سے اور بلوچستان کے صوبے سے سی پیک عالمی شاہراہ تجارت کا گزر رہا ہے تو آپ کس عالمی قوت کے اشارے پر چین کی اتنی بڑی سرمایہ کاری کو ضائع کر رہے ہیں؟ آپ نے اپنے دوستوں کو گنوایا، آج چین ہم پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں، آج سعودی عرب جیسا دوست ہم پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں، آج امارات ہم پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں، کوئی ہمیں پیسہ دینا نہیں چاہتا اور پاکستان کی اقتصاد کس کے ہاتھ میں ہے؟ یہ بد اعتمادی کیوں پیدا ہوئی؟ ہم نے دنیا کو اپنے سے کیوں دور رکھا ہے اور ہم عالمی برادری کی تائید و حمایت کیوں حاصل نہیں کر سکے؟

ہندوستان وہ ہندوستان جو آج پانچ سو ارب ڈالر اپنے ساتھ ذخیرہ رکھتا ہے اور میرا نہیں معلوم کہ میرے ساتھ دس ارب ڈالر ہے بھی کہ نہیں! دن رات ایک کردیا ہے ہندوستان کو برا بھلا کہتے ہیں، ہندوستان کی دشمنی پر گزارہ کرینگے، اس کو ہم نہیں دیکھتے کہ ہندوستان کیوں معاشی ترقی کررہا ہے اور میں کیوں پیچھے کی طرف جارہا ہوں؟ صرف ہندوستان نہیں، افغانستان جو ابھی تین سال ہوگئے کہ آزاد ہوا ہے اور وہاں امارت اسلامیہ کی حکومت ہے، تین سال میں ان کا ڈالر مستحکم ہے اور ہمارا روپیہ نیچے گر رہا ہے، ڈالر کے مقابلے میں اپنا قیمت گرا رہا ہے۔

میرے محترم دوستو! ایران بھی دیکھتا ہے اور ملکوں کی بھی نظریں ہم پر ہیں کہ پاکستان ڈوب رہا ہے، آج ہم نکلے ہیں اپنا وطن بچانے کے لیے، اپنے وطن کے لیے اور اس کی بقاء کے لئے ہم نے پہلے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے اور آج بھی ادا کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن یہ لوگ تو پہلے اپنے آپ کو وطن کے حوالے سے خود کو سنجیدہ تو کرے!

کرسی پر قبضہ ہے، اختیار اس کے اپنے ہاتھ میں ہے، اتھارٹی پر قبضہ ہے لیکن اس کا وطن ویران ہے جیسا بغیر ماں باپ کا گھر ویران ہوتا ہے۔ ایک ویران وطن میرے صوبے سے بنایا گیا ہے، غریب صوبوں سے بنایا گیا ہے، میرے وسائل سے مجھے محروم رکھا گیا ہے، بین الاقوامی دنیا کی سرمایہ کاری آج نہیں ہے، آپ کس کو دھوکا دینا چاہتے ہیں! طالب کو راستہ دیا گیا، سی پیک کے علاقوں کو قبضہ کیا گیا ہے، لوگوں کو راستوں میں ڈراتا ہے، مسافروں کو تنگ کیا جاتا ہے، اور امریکہ کو بتایا جاتا ہے کہ مطمئن رہے علاقہ میں امن نہیں ہے چین سرمایہ کاری نہیں کرے گا، اور چین کو بولا جاتا ہے کہ ڈالر دے ڈو کہ میں آپ کی چوکیداری کرسکوں، ایک سے بھی جھوٹ بولا جاتا ہے اور دوسرے کے ساتھ بھی۔

میرے محترم بھائیو! میری معیشت بھی تباہ کردی، میرا مذہب بھی آپ تباہ کر رہے ہیں، میری تہذیب کو بھی تباہ کر رہے ہیں، دینی مدرسے نے کون سا گناہ کیا ہے کہ آپ روزانہ مدارس کے اوپر چڑھائی کر دیتے ہیں، مدارس کے طلباء قرآن پڑھنے والے حدیث پڑھنے والے، تمہاری بندوقیں ان کی سروں پر نشانہ بنائے ہوئے ہیں تم ان کو قتل کی دھمکیاں دیتے ہو تم نے مدارس کے رجسٹریشن بند کی ہوئی ہے اور کہتے ہیں کہ مدارس رجسٹریشن نہیں کرا رہے ہیں، جھوٹ کیوں بولتے ہو! دینی مدارس پاکستان میں اسلامی علوم کے محافظ ہیں، اسلامی ماحول کے محافظ ہیں اور پاکستان میں اسلامی تہذیب کے محافظ ہیں۔

میرے محترم دوستو! کیا پاکستان اس لیے بنا تھا کہ اس میں مرد و زن کا فرق ختم ہو جائے گا اور ہمیشہ پاکستان کے اندر باہر کے این جی اوز ہماری تہذیب اور ہمارے حیا کی چادر ہم سے نوچنے کے لیے باہر کا فنڈ لیتے ہیں اور پاکستان میں کہتے ہیں یہاں اقلیتوں کے حقوق نہیں ہے ہم اقلیتوں کے لیے مارچ کریں گے، لعنت ہو تمہارے اس نعرے پر تمہاری اس خواہش پر، یہ تحریک نہیں ہے یہ مارچ جو کبھی عورت مارچ کے نام پر ہے کبھی مورت مارچ کے نام پر ہے ہم جن پرستی کو فروغ دیتے ہیں اور پتہ نہیں کیا کیا بے حیائی پھیلانے کے لیے، یہ تحریکیں نہیں ہیں یہ این جی اوز کا دھندہ ہے اور اس دھندے کی بنیاد پر مغرب سے پیسے وصول کر رہا ہے۔ میں ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں تمام اقلیتیں محفوظ ہیں جمعیت علماء ان کی حفاظت کرے گی۔ یہاں پر صوبے میں جب میرے والد کی حکومت قائم ہوئی تو ان کا خیال یہ تھا کہ اب مسیحیوں کی تمام سکولز اور ان کے مدرسے بند کر دیے جائیں گے، مولوی اشتعال میں آجائے گا ان کا معیار تعلیم اونچا ہے ہمارا معیار تعلیم نیچے ہے، مجھے خود ایک بیوروکریٹ نے کہا کہ ہم نے جب رپورٹ پیش کی کہ ان کا معیار تعلیم اونچا ہے اور ہمارا معیار تعلیم نیچے ہے تو ہمارا یہ خیال تھا کہ مفتی صاحب کہیں گے کہ مسیحیوں کی مدارس بند کر دو لیکن مفتی صاحب نے کہا نہیں اپنے مدارس کے معیار کو اٹھاؤ اپنا معیار بلند کرو اپنی تعلیم کو تحفظ دو، ہم اگر عصری علوم کے دشمن ہوتے تو ہم اس صوبے میں مزید یونیورسٹیاں بنانے کو فروغ نہ دیتے، مزید کالجز بنانے کو فروغ نہ دیتے اور ہم سکولوں میں شرح تعلیم کو اس میں اضافہ نہ کرواتے، ہم نے تو یہاں ہر قسم کے علوم کو تحفظ دیا ہے ہم تو سکولوں کو بھی تحفظ دیں گے ہم تو کالجز کو بھی تحفظ دیں گے ہم تو یونیورسٹی کو بھی تحفظ دیں گے لیکن آپ ہیں جو دینی مدارس کو غیر محفوظ دیکھنا چاہتے ہیں، کیوں دیکھنا چاہتے ہیں؟ تم بھی تو اسی مدرسے میں قرآن پڑھے ہوئے ہو لیکن امریکہ آقا کو تم ناراض نہیں کر سکتے، میں بتانا چاہتا ہوں کہ جس طرح ہم سکول کی حفاظت کرنا جانتے ہیں ہم دینی مدرسے کی حفاظت کرنا بھی جانتے ہیں۔ اور تم لگا لو اپنا زور، لگا لو اپنے زور، میرا دینی مدرسہ کل بھی تھا آج بھی ہے اور ان شاءاللہ آئندہ بھی رہے گا اور تم چیختے چلاتے آنسو بہاتے کُڑ کُڑ کرتے کرتے مر جاؤ گے لیکن مدرسہ زندہ رہے گا۔ 

میرے محترم دوستو! یہ کیا عدالتوں کا کام ہے کہ ہماری عدالتوں نے اب ختم نبوت کے عقیدے پہ وار کر دیا ہے، ہم نے ملک میں تحریکیں چلائی ایک لاہور کے اندر 1953 میں 10 ہزار ختم نبوت کے پروانوں نے قربانی دی ہے۔ سن 1974 میں ہم نے آئین میں ترمیم کرائی سن 1984 میں ہم نے نئے قوانین لگوائے اور یہاں پر واضح کر دیا کہ یہ آئین ہے اور اس آئین کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ میرے بھائیو تعجب کی بات ہے کہ قادیانی جو پارلیمنٹ کے ذریعے سے غیر مسلم ہیں، علماء نے تو تمام مکاتب فکر نے اس پر اتفاق کیا کہ یہ غیر مسلم ہیں لیکن پارلیمنٹ نے بھی کہا کہ یہ غیر مسلم ہیں، اب دنیا کہتی ہے تم ان کو غیر مسلم کیوں کہتے ہو؟ میں انہیں کہنا چاہتا ہوں کہ وہ ہمارے پورے امت مسلمہ کو کافر کہتے ہیں، امت مسلمہ کو اگر کوئی کافر کہے اس کو تو آپ یہ نہیں کہتے کہ آپ پوری امت کو کافر کیوں کہہ رہے ہیں لیکن جو کافر ہے ان کے بارے میں کہتے ہو کہ آپ ان کو کافر کیوں کہہ رہے ہو۔ اسمبلی میں جب بحث ہو رہی تھی تو میرے والد صاحب نے سوال کیا کہ مرزا صاحب اگر کوئی غلام احمد قادیانی پر ایمان نہ لائے تو کیا وہ مسلمان ہے یا کافر؟ تو اس نے کہا کافر۔ مفتی صاحب نے پوچھا کہ اگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ آج تک زندہ ہوتے اور وہ اس پر ایمان نہ لاتے اس کے بارے میں کیا کہتے ہو تو کہا پھر وہ بھی کافر ہوتا۔ مفتی صاحب نے حضرت عمر کا نام لیا حضرت عثمان کا نام لیا حضرت علی کا نام لیا حضرت حسن کا نام لیا حضرت حسین کا نام لیا اور کہا کہ اگر آج یہ سب زندہ ہوتے اور قادیانی کے اوپر ایمان نہ لاتے تو آپ کی کیا رائے ہے؟ انہوں نے کہا یہ سب کافر ہوتے! آپ بتائیں مجھے کہ اس قسم کے فتنے کو ہم پر دوبارہ مسلط کیا جا رہا ہے اور ہماری عدلیہ ان کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ تو میرے محترم دوستو ابھی جو تازہ فیصلہ ان کا آیا ہے اس پر ہم نے آل پارٹیز کانفرنس بلائی میری صدارت میں ہوا اور طے ہوا کہ کورٹ میں دوبارہ جائیں، حکومت جائیں اور حکومت جا کر نظر ثانی کی اپیل کرے لیکن میں حکومت کو کہنا چاہتا ہوں پنجاب حکومت کو بھی کہنا چاہتا ہوں کہ تم نے جو نظر ثانی کی اپیل دائر کی ہے اس وقت تک تمہاری اپیل ہمارے لیے قابل قبول نہیں جب تک تمام مذہبی جماعتوں کی رائے کے ساتھ آپ نظر ثانی نہیں کرائیں گے۔

میرے محترم دوستو! آپ کو یہ بھی معلوم ہے جس طرح آج یہ سماں آپ نے باندھ رکھا ہے اور دور دور تک انسانیت نظر آرہی ہے میں آپ سب سے اپیل کرتا ہوں کہ 7 ستمبر پر 1974 کے فیصلے پر یوم الفتح منایا جائے گا، گولڈن جوبلی منائی جائی گی، 50 سال پورے ہورہے ہیں، اور 7 سمتبر 2024 پر مینار پاکستان لاہور میں تمام پاکستانی جمع ہونگے، اس عقیدے کی تحفظ کے لیے سب جائیں گے کہ نہیں؟ یہ اپیل میرا اس صوبے کو ہے، اس جلسے کو بھی ہے، بلوچستان کو بھی ہے، فاٹا عوام کو بھی ہے، پنجاب کو بھی ہے، سندھ کو بھی ہے، گلگت اور بلتستان کو بھی ہے، کشمیر کو بھی ہے کہ یہ سب لوگ اس دن لاہور کی طرف روانہ ہو۔ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ختم نبوت کا اختیار ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں دے سکتے! ان شاءاللہ ہم خود ان کی حفاظت کرینگے، اور 7 سمتبر 2024 جب لاہور میں پورا پاکستان اکٹھا ہوگا تو قادیانی کیا ان کے تمام ہمنوا ان کی کمر توڑ کر کے رکھ دینگے۔

میرے محترم دوستو! آج یہودی دنیا اسرائیل کے صہیونی انہوں نے ہمارے بیت المقدس پہ قبضہ کیا مسجد اقصیٰ پہ قبضہ کیا ہے اور اکتوبر سے لے کر آج تک 40 ہزار سے زیادہ فلسطینی بے گناہ فلسطینی جو جنگ نہیں لڑ رہے وہ شہید ہو چکے ہیں جس میں اکثریت بچوں کی ہے ہمارے ماؤں بہنوں کی ہے بوڑھوں کی ہے اور 40 ہزار تو وہ ہے جن کو فلسطینی اپنے ہاتھ سے دفنا چکے ہیں، 10 ہزار سے زیادہ شہداء آج بھی ملبوں کے نیچے دبے ہوئے ہیں جن کو نہ کفن نصیب ہو رہا ہے اور نہ قبر نصیب ہو رہی ہے۔

میرے محترم دوستو! آئیں ہم عہد کریں اور کھل کر علی الاعلان کہیں امریکہ کو بھی بتائیں یورپ کو بھی بتائیں اور اسلامی دنیا کے خاموش حکمرانوں کو بھی بتائے، جو مسلمانوں کے ان قربانیوں پر خاموش اور گونگے بنے ہوئے ہیں جن کی زبانیں گنگ ہو چکی ہیں جن کی غیرت و حمیت اب مر چکی ہے ان کو بھی بتائیں کہ امت مسلمہ اپنے فلسطینی بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ ہم ان کے لیے اور کچھ نہیں کر سکتے ہم جا کر ان کے شانہ بشانہ نہیں لڑ سکتے لیکن یہاں سے ان کی حمایت میں آواز تو بلند کر سکتے ہیں اور اگر کوئی خیر خواہ وہ مالی مدد کرنا چاہتا ہے وہ بھی ہمارے بس میں ہے، آپ سے اپیل ہے ان کے لیے کیونکہ ان کی مدد کیجئے جو آپ سے ہوسکتا ہے، ہماری سیاسی حمایت ان کے ساتھ ہیں، ہماری اخلاقی حمایت ان کے ساتھ اور اگر مالی مدد کی بس پڑے تو اس میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ 

میرے محترم دوستو! آج امت مسلمہ کا مسئلہ ہے، ساری امت مسلمہ پہ آگ برس رہی ہے، فلسطین سے لے کر برما تک جہاں مسلمان آباد ہے وہاں پر آگ ہے بارود ہے اور اس کا اندازہ آپ اپنی سرزمین سے لگا سکتے ہیں، آپ کی اپنی سرزمین بھی اسی میں لپٹی ہوئی ہے، تو میرے محترم دوستو! آئے ہم پوری دنیا کے لیے امن کا مطالبہ کریں، میرے محترم دوستو یہ ہمارا اور آپ کا متفقہ فیصلہ ہے یا نہیں؟ لیکن ایک بات یہ طے کرنا ہے ہاتھ کھڑے کر کے طے کرنا ہے عہد و پیمان کے ساتھ طے کرنا ہے کہ یہ سب کچھ ہم حاصل کریں گے امن حاصل کریں گے اور اپنے وسائل پر قبضہ حاصل کریں گے، اپنے حقوق حاصل کریں گے لیکن پاکستان کی سلامتی کے ساتھ، پاکستان کے اندر رہتے ہوئے، پاکستان کو توڑنے کی سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گے ان شاءاللہ العزیز۔ ہم حقوق کے مسئلے پر بلوچوں کے ساتھ کھڑے ہیں، بلوچوں کے وسائل کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم سندھ کے غریبوں کے وسائل کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم جنوبی پنجاب میں پنجاب کے وسائل کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم گلگت بلتستان کے وسائل کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم پختونخواہ کے وسائل کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم حق مانگیں گے اور ہر صوبے کے لوگوں کو اپنے وسائل پر حق حاصل ہے ان کے مالک وہی ہیں ان سے وہی فائدہ حاصل کریں گے اور پاکستان کے اندر حاصل کریں گے پاکستان کے اندر لڑیں گے پاکستان کو چھوڑ کر نہیں لڑیں گے، اس ملک میں رہ کر لڑیں گے اس ملک کی وحدت کے ساتھ لڑیں گے ان شاءاللہ العزیز، اس پر اتفاق ہے؟ یہ عوامی اسمبلی ہے میں نے قرارداد پیش کر دی ہے آپ نے قرارداد منظور کر لی ہے، اب یہ پوری قوم کا فیصلہ ہے پوری قوم کا فیصلہ ہے یہ چھوٹے موٹے جرگوں کا مسئلہ نہیں رہا اب اس طرح عوامی جرگے بٹھائے جائیں گے۔ ان شاءاللہ حق مانگے گے اور زبردستی سے مانگے گے، آپ سے مانگے گے اور آپ کے باپ سے بھی مانگے گے، میں اپنی مٹی اور اپنی مٹی کا حق کبھی آپ کو حوالہ نہیں کرسکتا! میرے مٹی کے وسائل پر میرا حق ہوگا، میرے بچوں کا حق ہوگا، بلوچوں کے بچوں کا حق ہوگا، پنجاب کے بچوں کا حق ہوگا، سندھ کے بچوں کا حق ہوگا، گلگت بلتستان کے بچوں کا حق ہوگا اور ان شاءاللہ العزیز ہم اس اژدھے کا سر کچلے گے جس نے ان وسائل کو گیرا ہوا ہے! میں اپنی فوج کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں، اپنی حکومت کو بھی یہ پیغام دینا چاہتا ہوں اور ان عام مسلح قوتوں طالبان کو بھی یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اس قوم کی یہ آرزو پورا کرے ان کا یہ مطالبہ مان لے اور اس قوم پر رحم کرے، ظالموں آخرت میں اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دینگے! جہاد کا مسئلہ ہو تو یہ علماء کے بغیر حل نہیں ہوتا!

اللہ تعالیٰ آپ سب کو آباد رکھیں، ان شاءاللہ آباد رہیں گے اگر اسی طرح وحدت رہی، قوم ایک تھی اور ایک آواز پر تھی، ایک میدان پر تھی تو دنیا کی کوئی طاقت نہ اسلام کو شکست دے سکتی ہے نہ پاکستان کو شکست دے سکتی ہے اور نہ ہمارے حقوق پر قبضہ کرسکتی ہیں۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ میں ایک بار پھر آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ آپ سب کو ہمیشہ خوشحال رکھیں اور اپنے حفظ و امان میں رکھیں۔ جیسے خیریت سے آئے ہو اللہ ایسے ہی خیریت سے گھروں کو واپس لوٹائے۔

واٰخر دعوانا ان الحمدلله رب العالمین

نوٹ: رنگ شدہ لکھائی پشتو بیان سے اردو ترجمہ ہے

ضبط تحریر: #محمدریاض

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات

#teamJUIswat 


لکی مروت امن عوامی اسمبلی سے قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان کا ولولہ انگیز خطاب

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Sunday, August 18, 2024

 

0/Post a Comment/Comments