مولانا فضل الرحمان صاحب کا ڈیرہ اسماعیل خان میں صحافیوں سے گفتگو

 جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ چین کے ساتھ سفارتی و معاشی تعلقات ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی سنگ میل ہے، مغربی دنیا کی طرف سے پڑوسی ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات پہ اعتراضات ہماری حاکمیت اعلیٰ کے منافی ہیں۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اس وقت ملک میں پائے جانے والے سیاسی عدم استحکام کی بنیادی وجہ فروری 2024 کے انتخابات کے نتائج پہ جے یو آئی اور پی ٹی آئی سمیت ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے عدم اعتماد کیا ، انہوں نے کہا کہ حالیہ الیکشن میں دھاندلی کے ذریعے مذہبی قوتوں اور قوم پرستوں جماعتوں کو پارلیمنٹ سے باہر کرکے ملک کا سیاسی توازن بگاڑ دیا گیا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارے پیش نظر قومی سلامتی اولین ترجیحی ہے، اس لئے پی ٹی ایم کے منظور پشتین سمیت تمام سیاسی قوتوں کو توازن و اعتدال کی طرف لانے کی کوشش کریں گے اور خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے مظلوم طبقات کے حقوق کے لئے ملکی جغرافیہ اور ملکی آئین کے اندر رہ کر جدوجہد کے تلویثی بیانیہ کو فروغ دیں گے۔ مولانا نے کہا مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت کسی کے ساتھ ذاتی دشمنی نہیں بلکہ ہم ملک کی بنیادی پالیسوں کے حوالے سے اپنا ایک الگ موقف رکھتے ہیں ، مجھے منانے کی کوشش کرنے کی بجائے ہمیں دلائل سے قائل کریں۔ انہوں نے کہا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی استعمار کمزور اور ترقی پذیر ملکوں پہ براہ راست حکمرانی کرنے کی بجائے ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے ذریعے ان کی پالیسیوں کو کنٹرول اور وسائل کو لوٹتے ہیں ، ہمارا بجٹ اب وزیر خزانہ نہیں بلکہ آئی ایم ایف والے بناتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ جامع سیاسی اتحاد کی بجائے ایشو ٹو ایشو بات چیت چل رہی ہے ، جے یو آئی کا سیاسی اتحادوں کا تلخ تجربے ہے اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے ساتھ تلخیاں کم کرنے کے علاؤہ شفاف اور منصفانہ انتخابات، آئین کا تحفظ اور ملک کے سویلین امور میں فوجی مداخلت کی راہ روکنے کے لئے پُرامن اصلاحات کی وکالت کرتے ہیں۔

 مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ سیاست میں دوستی اور دشمنی مستقل نہیں ہوتی بلکہ جمہوری معاشروں میں یہی متنوع عمل فکری اور سیاسی ارتقاء کا زینہ بنتا ہے۔ 

 ان خیالات کا اظہار انہوں نے ڈیرہ اسماعیل خان میں اپنی رہائشگاہ پہ مقامی دانشوروں، شاعروں اور ادیبوں کے ساتھ نشست میں سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کیا۔ مولانا نے کہا کہ ماضی قریب میں ذولفقار علی بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک میں ملک کی تمام مذہبی ، سیکولر اور قوم پرست جماعتیں اپنی نظریاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر بھٹو رجیم سے نجات کے لئے مشترکہ جدوجہد میں شریک تھیں لیکن بعدازاں ضیاء الحق کے مارشل لاء سے نجات کے لئے ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم پر پیپلز پارٹی انہی جماعتوں کے ساتھ کھڑی دیکھائی دیتی تھی جنہوں نے بھٹو حکومت کو گرایا تھا۔

انہوں نے کہا جمہوری معاشروں میں تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے نصب العین پہ قائم رہنے کے باوجود بسا اوقات بڑے قومی ایشوز پہ یکساں مؤقف اختیار کرکے ملکر جدوجہد پہ اتفاق کر لیتی ہیں اور یہی دراصل جمہوریت کی روح اور قومی بقاء کا تقاضا بھی ہے کہ ہر جماعت اپنے اپنے منشور کے مطابق کام کرے مگر ملکی آئین اور قومی سلامتی جیسے اجتماعی مقاصد کے حصول کے لئے متحد و مربوط رہے۔ مولانا نے کہا کہ تحریک انصاف کے ساتھ ہمارے گہرے نظریاتی اختلافات تھے اور اب بھی ہیں لیکن بعض ایشوز پہ ہمارا موقف یکساں ہے لیکن بدقسمتی سے ملک میں جاری نامطلوب سیاسی کشمکش کے باعث پی ٹی آئی کے ساتھ سیاسی اختلافات رفتہ رفتہ زیادہ پیچیدہ ہو کر تنازعات میں ڈھلتے گئے جو بلآخر دونوں جماعتوں کے کارکنوں کے مابین تلخیوں کا سبب بن گئے لیکن اب وقت کی صرف ایک کروڑ نے دونوں جماعتوں کو ایک ہی مقام پر لا کھڑا کیا ہے، آج ہم بھی ملک میں منصفانہ اور شفاف انتخابات ، آئین کے تحفظ اور سویلین امور میں فوجی مداخلت کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں اور پی ٹی آئی بھی انہی مقاصد کے لئے مزاحمتی تحریک چلا رہی ہے لہذا دونوں جماعتیں اپنے اپنے سیاسی منشور اور اپنے اپنے نصب العین پہ قائم رہتے ہوئے بھی قوم کے اجتماعی مفاد میں منصفانہ انتخابات اور آئین کے تحفظ کے ایشو پہ مشترکہ موقف کے سکتے آگے بڑھ سکتی ہیں، اس اور نہیں تو ملک دو بڑی جماعتوں جے یو آئی اور پی ٹی آئی کے مابین تلخیاں تو کم ہوئی ہیں۔

 مولانا نے کہا کہ سیکولر جماعتیں ملک میں لبرل ڈیموکریسی جبکہ مذہبی جماعتیں ملک میں اسلامی نظام کے قیام کے لئے کوشاں ہیں لیکن میرے خیال میں آئین کا تحفظ، منصفانہ انتخابات ، جس میں قوم کو آزادانہ طور پر اپنے نمائندے منتخب کرنے کا حق ملے، اور قومی سلامتی جیسے ایشوز پہ اصولی اور عملی طور پر سب جماعتوں کو متفق و متحدہ رہنا چاہئے۔


0/Post a Comment/Comments