مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا دھیر کوٹ کشمیر میں جلسہ عام سے خطاب


قائد جمعیۃ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا دھیر کوٹ کشمیر میں جلسہ عام سے خطاب

5 اگست 2024 

الحمدلله الحمدلله وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی لاسیما علی سید الرسل و خاتم الانبیاء وعلی آله وصحبه و من بھدیھم اھتدی، اما بعد فاعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم بسم الله الرحمٰن الرحیم 

یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ اللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ۔ صدق الله العظیم

جناب صدر محترم، سٹیج پر موجود علماء کرام، مشائخ عظام، خطہ کشمیر کے زعماء، علمائے دین، کشمیر کے مجاہدوں، کشمیر کے غازیوں، آپ کی اپنی ایک تاریخ ہے، قربانیوں کی ایک داستان ہے اور حصول آزادی کے لیے ہے۔ آزادی کی تحریکیں ضروری نہیں کہ ماہ و سال میں اپنی منزل پا سکے لیکن اگر تحریک کا نظریہ مستحکم ہے، تحریک میں شامل قومیں استقامت اور بلند عزم رکھتے ہیں، تو تحریک کی لہریں سمندر کی لہروں کی طرح نشیب و فراز کا شکار ہوتی ہیں مد و جزر کا شکار ہوتی ہے لیکن بالآخر وہ ساحل پر جا کر دم لیتی ہیں۔ آزادی کشمیر کی تحریک کشمیر کی آزادی پر منتش ہوگی اور ان شاءاللہ العزیز فتح و کامرانی مجاہدوں کے قدم چومتی ہے۔

میرے محترم دوستو آپ ایک مجاہد قوم ہیں لیکن آپ ایک مظلوم قوم بھی ہیں، ظلم کی داستان 75 سال کی نہیں صدیوں پر محیط ہے۔ برصغیر کی آزادی کی جنگ دو سو سال سے زیادہ عرصے سے لڑی گئی اور اس پورے دورانیے میں کشمیر کی آزادی کی جدوجہد بھی جاری رہی۔

حالات بدلتے رہتے ہیں جغرافیے بدلتے رہتے ہیں نئی نسلیں آتی ہیں انہیں ایک نیا ماحول ملتا ہے لیکن تمام تبدیلیوں کے باوجود ایک چیز نسل در نسل منتقل ہوتی ہے اور نئی نسل تک پہنچتی ہے اور وہ ہے آزادی کا نظریہ، مجھے یقین ہے کہ آج کی کشمیری نوجوان آج کی کشمیری نسل اس کو اپنی آزادی کا سبق یاد ہوگا اس کا درس یاد ہوگا اور اس کا جذبہ تر و تازہ ہوگا اور یہ آگے بڑھے گا اور ان شاءاللہ مودی ہو یا جو بھی ہو خشک و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گا۔

میرے محترم دوستو! اگر ہم کشمیر کی تاریخ پہ نظر ڈالتے ہیں یہاں سکھوں کی حکومتیں رہی یہاں ڈوگرہ کی حکومتیں رہی اور ہر ایک نے ظلم و جبر کے ذریعے اپنی گرفت کو مضبوط کرنے کی کوشش کی کشمیریوں کو کمزور کر کے اپنے اقتدار کو مضبوط بنانے کے لیے انہوں نے جبر کے تمام وسائل استعمال کیے لیکن اگر ان کا جبر ٹوٹا تو آج میں ہندوستان کو بھی پیغام دینا چاہتا ہوں کہ آپ بھی اپنے اس جبر پہ نازہ نہیں رہیے تاریخ نے جب توڑے ہیں اور تاریخ آگے بھی ان شاءاللہ تمہارا جبر توڑے گا تمہارا اقتدار توڑے گا اور کشمیر کے اندر آگے آنے والی نسلوں کو آزادی کی نوید دے رہی ہے کہ ہم اپنی تاریخ کو جاری و ساری رکھیں گے۔

میرے محترم دوستو! حکمرانوں سے غلطیاں ہوتی ہیں اور حکمرانوں کی غلطیاں قومیں بھگتی ہیں، یہ قوم پر ہے کہ وہ حکمرانوں کی غلط فیصلوں کو قبول کرتی ہے یا اس کو رد کرتی ہے۔ اگر ہندوستان نے غلط فیصلہ کیا کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کیا ان کے سپیشل سٹیٹس کو انہوں نے آئینی طور پر ختم کیا اور یہاں پاکستان کے حکمرانوں نے دوسری غلطی کی کہ اس پر خاموشی اختیار کی، سو ان کا اقدام ہو یا ان کی خاموشی ہو قوم کے جذبات اور قوم کی تحریک پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا، ان شاءاللہ پاکستان کے عوام آپ کے ساتھ ہے پاکستان کے جوان آپ کے ساتھ ہے پاکستانی قوم آپ کے ساتھ ہے اور ان شاءاللہ کبھی ہم آپ کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔

میرے محترم دوستو! یہ فلسفہ انگریز کا ہے، آج فلسطین کی سرزمین کی ایک دستوری حیثیت تھی کہ فلسطین کی سرزمین پر کوئی اپنی بستیاں نہیں قائم کر سکتا، فلسطینیوں کی زمین کو نہیں خریدا جا سکتا لیکن انگریز نے 1917 میں ایک غلط معاہدے کے تحت یہودیوں کو وہاں زمین خریدنے اور وہاں پر بستیاں بنانے کی اجازت دے دی، میں آپ کو ایک بات بتانا چاہتا ہوں یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ قیام پاکستان کی قرارداد 1940 میں لاہور میں منظور ہوئی تھی لیکن اسی قرارداد میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ فلسطین کی سرزمین پر یہودیوں کی آباد کاری اور ان کی نئی بستیاں یہ ناجائز عمل ہے اور پاکستان فلسطینیوں کے حق کی حمایت کرتا ہے یہی صورتحال آج مقبوضہ کشمیر میں ہے اور ہندوستان کو یہ گھمنڈ ہے کہ ہم وہاں پر ہندو آبادی کو بڑھائیں گے اور وہاں کی ڈیموگرافی کو چینج کریں گے وہاں پر سرمایہ کاری کریں گے، یہی خواب یہودیوں کا تھا یہی خواب صہیونیوں کا تھا آج اسے اپنا خطہ اسرائیل بچانے کی فکر پڑ گئی ہے، آج فلسطینیوں نے قربانیاں ضرور دی لیکن وہ دنیا جو عالمی قوتوں کے دباؤ میں آ کر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کیا کرتی تھی، فلسطین کی آزادی کی بنیادی اور اساسی اور حق پر مبنی موقف کو نظر انداز کر کے اسرائیل کے ناجائز وجود کو تسلیم کر رہی تھی، فلسطینیوں نے نو مہینوں کی قربانیوں سے مسئلہ فلسطین کی نوعیت تبدیل کردی اور آج دنیا کا کوئی ملک اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات زبان پر نہیں لا سکتا اور ہر جگہ فلسطین کی حمایت میں بات ہو رہی ہے، میں مودی جی کو بھی کہنا چاہتا ہوں آپ وہاں پر آبادیاں بڑھائیں آپ وہاں پر اپنا سرمایہ کاری کریں جتنے بلڈنگیں آپ بنائیں جتنے کارخانے آپ بنائیں یہ بالآخر کشمیریوں کی ملکیت ہوگی تمہارے ہندوستان کا پیسہ یہ کشمیریوں کے قبضے میں آئے گا اور تم کبھی بھی وہاں پر اپنا قبضہ مضبوط نہیں رکھ سکو گے۔

میرے محترم دوستو! اللہ کی آپ پر نظر ہے، جلسے کا اعلان ہوا جلسے کی تیاری ہوئی بارش نے مایوسی پھیلائی لیکن اللہ حکیم ذات ہے اس نے موسم کو خوشگوار بھی بنایا آپ کے لیے اور جلسہ بھی پہلے سے کہیں زیادہ دگنا نظر آرہا ہے، یہ دل کے اندر یہ روشنی کس نے جلائی ہے یہ شمع کس نے جلائی ہے، اللہ کی ذات نے اور جس طرح ہم نے اللہ سے کہا کہ یا اللہ ماحول بنا دے بارش روک دے اور اللہ نے ہماری بات سن لی یقین جانیے اسی طرح اللہ پر اعتماد رکھو اور اپنی تاریخ کو دیکھو دین اسلام دنیا میں پھیلا، صحابہ کرام جہاں جہاں تک پہنچے جہاد کے ذریعے پہنچے یا دعوت کے ذریعے، افریقہ میں پہنچے یا یورپ میں، مشرقی وسطیٰ میں پہنچے یا وسطی ایشیا میں، مشرقی ایشیا میں پہنچے یا جنوبی ایشیا میں، آج بھی 1400 سال 1500 سال ہونے کو ہے اسی کو عالم اسلام کہا جاتا ہے، یعنی مطلب یہ کہ انہی علاقوں اور انہیں خطوں کے مسلمانوں کی اولاد نے اپنی سرزمین کی اسلامی حیثیت کو زندہ رکھا، اپنی اسلامی قومیت کو زندہ رکھا اور آج بھی عالم اسلام وہی ہے جس کو صحابہ کرام نے فتح کیا تھا، تو جس طرح دین نسل در نسل منتقل ہوتا ہے اور نئی نسلیں اس کو زندہ و تابندہ رکھتی ہیں، جس وقت مسلمانوں کی فوج جنگ قادسیہ میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ کی قیادت میں کسری فارس کے پاس پہنچا تو رستم جو ان کے فوج کا سربراہ تھا اس نے کہا آپ ہمارے پاس اپنا ایک نمائندہ بھیج دے، ایک فقیر آدمی ربیع ابن عامر کو بھیجا اس نے خیال کیا کہ مسلمانوں کی بہت بڑی فوج اور بہت بڑی طاقت کا نمائندہ ریڈ کارپٹ بچھائے اور جو ان سے ہو سکا اپنے محل کے نمائش کی، ایک غریب آدمی پھٹے پرانے کپڑوں میں اپنے چھوٹے سے گھوڑے پر سوار نیزہ زمین پر ٹیکتے ہوئے اور ان کے قالینوں کو چیرتے ہوئے محل میں داخل ہوا اور جب ان کے لوگوں نے روکا تو اس نے کہا کہ میں خود نہیں آیا آپ نے بلایا ہے مجھے، اور پھر اتنی جرات کے ساتھ کہا کہ ہمیں اللہ تعالی نے بھیجا ہے ساری دنیا کے لیے 

لنخرج العباد من عبادة العباد إلى عبادة رب العباد

 کہ ہم انسانیت کو بندوں کی بندگی سے نکال کر اللہ کی بندگی کی طرف لے جائے اور یہ آزادی کا معنی ہے، انسانوں کی غلامی سے نکل کر، انسانوں کی غلامی سے نکل کر اللہ کی بندگی کی طرف جانا یہ قوموں کی آزادی کی علامت ہوا کرتی ہے۔ آج ہم امریکہ کے غلامی میں اپنی آزادی ڈھونڈ رہے ہیں، آج ہم یورپ کی غلامی میں اپنی آزادی ڈھونڈ رہے ہیں، ہمیں اپنی تاریخ یاد رکھنی چاہیے۔ انسانیت کو آزادی کا درس جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا اور آزادی کا درس ہمارا قرآن پاک ہے اس کے علاوہ کوئی مذہب اس آزادی کی بات نہیں کر رہا، ہم نے اس پیغام کو زندہ رکھنا ہے۔ جہاد وہی ہے کہ جو آزادی کے لیے ہو اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے ہو اللہ کے کلمے کو سر بلند کرنے کے لیے ہو۔ کشمیریو! اپنی آزادی جو آپ کا سب سے پہلا انسانی حق ہے اور پھر اس سرزمین پر اللہ کے کلمے کو سر بلند رکھنا جب یہ مقاصد ہوں گے تو یہ اللہ کے حضور میں قابل قبول جہاد ہوا کرتا ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ جب اس کے گورنر نے کسی کو تھپڑ مار دیا تھا آپ کو شکایت پہنچی، آپ نے اپنے گورنر کی سرزنش کی اور فرمایا 

متى استعبدتم الناس وقد ولدتهم أمهاتهم أحرارا

تم نے انسانوں کو اپنا غلام کب سمجھا ہے جبکہ ان کی ماؤں نے ان کو آزاد جنا ہے۔ یہ میرے دین اسلام کا طرز ہے یہ اسلام کے صحابہ کرام کا اور خلافت راشدہ کا طرز ہے، ہمیں اس پہلو کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ہمارے سامنے مفادات رکھے جاتے ہیں، دنیاوی مفادات رکھے جاتے ہیں سن لو اگر آپ آزاد ہیں اور آپ کا سہارا اللہ کی ذات ہے تو دنیا کی ساری نعمتیں بھی آپ کی، اللہ رب العزت خود فرماتے ہیں 

قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ

یہ جو دنیا میں اللہ تعالی نے خوبصورتی پیدا کی ہے نعمتیں پیدا کی ہیں پاک رزق پیدا کیا ہے کس نے تم پر حرام کیا ہوا ہے کون تمہیں کہتا ہے کہ دنیا کی نعمتوں کو استعمال نہ کرو 

قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آَمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ

دنیا میں بھی یہ نعمتیں تمہارے لیے ہے البتہ دنیا میں کافر بھی تمہارے ساتھ حصہ لے سکتا ہے اور آخرت میں تو صرف اور صرف آپ کا ہے۔ اس کے لیے بھی کسی مطالبوں کی ضرورت نہیں ہے آزادی اور حریت چاہیے، اللہ کی بندگی چاہیے، اللہ کا نظام چاہیے، اللہ پر اعتماد چاہیے، یہ ساری نعمتیں سب آپ کے لیے ہیں، کوئی آپ کی نعمتوں پر قبضہ نہیں کر سکتا کوئی آپ کے وسائل پر قبضہ نہیں کر سکتا۔

آج امریکہ انسانی حقوق کی بات کرتا ہے، کس انسانی حقوق کی بات کرتا ہے؟ جب کشمیری انڈیا کے درندوں کے ہاتھوں ذبح ہو رہے ہیں، ماؤں بہنوں کی عزتیں لوٹی جاتی ہیں، انسانی حقوق کو پامال کیا جاتا ہے، تو امریکہ مودی کے ساتھ کھڑا ہے کہاں گئے وہ انسانی حقوق جس کے تم اپنے آپ کو محافظ سمجھتے ہو! آج آٹھ نو ماہ کے اندر 40 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جس میں اکثریت بچوں کی اور خواتین کی ہیں، اور 10 ہزار کے قریب اندازہ ہے کہ اس وقت بھی ملبوں کے نیچے دبی ہوئیں ہیں، اس کے باوجود امریکہ اس درندہ ناجائز اسرائیل کا ساتھ دے رہا ہے، فلسطینیوں کی نسل کشی ہو رہی ہے اور امریکہ اس کی حمایت کر رہا ہے امریکہ کس منہ سے انسانی حقوق کی بات کرتا ہے! افغانستان میں ہو، عراق میں ہو، لیبیا میں ہو، ہمارے مسلمانوں کا خون امریکہ کے ہاتھوں سے ٹپک رہا ہے، امریکہ کی کہنیوں سے ٹپک رہا ہے اور اس کے باوجود وہ اپنے آپ کو انسانی حقوق کا علمبردار سمجھتا ہے، میں کہتا ہوں اور آپ کے اس عظیم الشان جلسے کی وساطت سے کہتا ہوں اور آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ امریکہ انسانی حقوق کا محافظ نہیں وہ انسانی حقوق کا قاتل ہے! لیکن تعجب اس بات پر ہے جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو پوری امت مسلمہ ایک طرف لیکن امت مسلمہ کے حکمران امریکہ کے سامنے جھک گئے، آج پوری امت مسلمہ فلسطینیوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے لیکن اسلامی دنیا کا حکمران وہ امریکہ کے سامنے جھکا ہوا ہے، مصلحتوں کا شکار ہیں، کشمیری قربانی دیتے ہیں پوری امت مسلمہ آپ کے بھائیوں کے ساتھ کھڑی ہے لیکن حکمران مصلحتوں کا شکار ہیں، اللہ رب العزت تو مسلمانوں کو مسلمان کا بھائی کہتا ہے

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں 

المسلمُ أخو المسلمِ لا يظلِمُه ولا يُسلِمُه

مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ خود اس پر ظلم کرتا ہے نہ کسی دوسرے کے ظلم کی سپرد کرتا ہے۔ اسلامی دنیا کے حکمرانوں نے مظلوم قوموں کو ظالموں کے جبر اور قہر کے حوالے کر دیا ہے۔ میں پوری دنیا کے اسلامی حکمرانوں کو کہنا چاہتا ہوں اور ان کو کہنا پڑے گا ان کو یہ آواز پہنچانی پڑے گی کہ آج اگر کشمیری اپنی سرزمین سے ہاتھ دھو رہا ہے آج اگر کشمیر کی حیثیت ختم کی جا رہی ہے آج اگر کشمیر پر ہندوستان قبضہ کر رہا ہے خدا نہ کرے خدا نہ کرے کل کلاں اسرائیل خطے پہ قبضہ کر لیتا ہے فلسطینیوں کو نقصان ہو جاتا ہے اس کا ذمہ دار نہ کشمیری ہوگا نہ فلسطینی ہوگا، اس کا ذمہ دار اسلامی دنیا کا حکمران ہوا کرے گا، اور کشمیر کی سرزمین سے یہ آواز پوری دنیا تک پہنچنی چاہیے، ہم سب اس بات پر متفق ہیں؟ 

میرے محترم دوستو! اب اگر ہم یہ بات اپنے لوگوں سے کہتے ہیں کہ آپ اپنی آئینی ذمہ داری پوری کریں تو اس پر بھی وہ ناراض ہوتے ہیں یہ تو ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے یہ تو ملک کی مفاد میں مشورہ ہے ملک کو طاقتور بنانے کے علامت ہے یہ بات، بری کیوں لگے؟ اس لیے ہمیں ایک صف ہو کر آگے بڑھنا ہے ان شاءاللہ اور اپنی اس تحریک کو آگے بڑھانا ہے، اپنی قوت کو متحد کرنا ہے۔

میں شکر گزار ہوں کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں کا کہ جن کے نمائندوں نے آج اس سٹیج پر اکٹھے ہو کر مسئلے کشمیر پر یکجہتی کا اظہار کیا۔ مظفرآباد میں مصروفیت کی وجہ سے اگر قیادت نہیں آ سکی کوئی مسئلہ نہیں مصروفیتیں آجاتی ہیں لیکن جب ان کی آواز ہمارے ساتھ شریک ہیں جب ان کے نمائندے ہمارے ساتھ موجود ہیں تو اس کا نام ہے مسئلے کشمیر پر یکجہتی کا اور پانچ اگست پوری پاکستانی قوم اور کشمیری قوم ہر سال بطور یوم سیاہ کے منایا کریں گے۔ ہم کسی حکمرانوں کے رویوں سے متاثر نہیں ہوں گے، وہ جانے ان کا کام جانے، ہماری جدوجہد جاری رہے گی اور اللہ تعالیٰ سے ہم نے مدد مانگنی ہے جب اللہ ہمارے ساتھ ہو تو کوئی حکمران بھی ساتھ نہ ہو فتح ہماری ہوگی ان شاءاللہ العزیز۔ تو اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرمائے اور آپ کی اس جدوجہد کو اور قربانیوں کو اور آپ کے آباؤ اجداد کی قربانیوں کو اللہ تعالیٰ قبول و منظور فرمائے اور فتح مبین سے اللہ ہمیں سرفراز فرمائے۔

و اٰخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین

ضبط تحریر: #محمدریاض 

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات

#teamJUIswat

مولانا کا دھیر کوٹ کشمیر مکمل خطاب

Posted by Jamiat Ulama-e-Islam Pakistan on Monday, August 5, 2024



0/Post a Comment/Comments