مولانا فضل الرحمن کا مولانا قاضی عبدالرشید ؒ کی تعزیت کے موقع پر جامعہ دارالعلوم فاروقیہ میں خطاب

قائد جمعیۃ حضرت مولانا فضل الرحمن کا وفاق المدارس پنجاب کے ناظم مولانا قاضی عبدالرشید ؒ کی تعزیت کے موقع پر جامعہ دارالعلوم فاروقیہ میں خطاب

 30 اگست 2024

جو کچھ میں نے ایک طالب علم کے طور پر اخذ کیا ہے کسی بھی جماعت کو کسی بھی قوم کو شخصیات کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور قانون و نظام کی بھی ضرورت ہوتی ہے قانون نہ ہو نظام نہ ہو تو معاشرے میں نظم و ضبط نہیں ائے گا اور شخصیات نہ ہوں جو قیادت کریں اس قانون اور ضابطے کو منظم کریں اور اس پر معاشرے کو منظم کریں لیکن انحصار، امت کی بقا کا انحصار وہ عقیدے قانون و نظام کی بقا پر ہے شخصیات اہمیت اپنی جگہ رکھتے ہیں ان کی اہمیت کے بغیر تو معاشرہ چل ہی نہیں سکتا لیکن بہرحال انہوں نے بھی جانا ہوتا ہے دنیا سے، چنانچہ غزوہ احد میں جو تکلیف ہوئی اور فتح ایک جیسے شکست پر تبدیل ہو گئی بہت بڑا امتحان آ گیا بھتر صحابہ کرام یا ستر صحابہ کرام شہید ہو گئے اپ کے چچا کو جس طرح شہید کیا گیا آپ خود زخمی ہوئے آپ نے غار میں پناہ بھی لی پہاڑ میں جا کر اور بہت کڑے امتحان سے گزرے لشکر کفار کو یہ خیال ہوا کہ اب شاید ان کے پاس قیادت نہیں رہی اور ایک دفعہ افواہ بھی اڑ گئی کہ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ شہید ہو چکے ہیں کتنے صحابہ کرام تھے جلیل القدر صحابہ کرام بیٹھ گئے تلواریں توڑ دی جس کے سہارے ہم لڑ رہے تھے وہ نہیں رہا اب ہم نے کیا لڑنا ہے کس کے لیے لڑنا ہے ہم نے، تو اس پر بھی اللہ تعالی نے تعلیمات اتاری کہ ہر چند کے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حیات ہیں لیکن بالاخر پردہ تو کرنا ہی ہے انہوں نے،

قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُؕ اَفَاۡىٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْؕ

جب کبھی وہ دنیا میں نہیں رہیں گے تو تم مقصد سے پیچھے ہٹ جاؤ گے پسپائی اختیار کر لو گے اور جو پسپائی اختیار کر لے گا تو اللہ کو کیا نقصان پہنچائے گا

ومَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰى عَقِبَیْهِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰهَ شَیْأ

مفسرین بیچ میں نقطہ لکھ دیتے ہیں "بل یضر نفسا" اپنے آپ کو نقصان پہنچاتے ہیں یہ تعلیمات آنے کے بعد ابو سفیان جو اس وقت لشکر کفار کا سردار تھا اس نے آواز دی تم میں محمد زندہ ہے صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا جواب دیں فرمایا جواب مت دو پھر اس نے آواز بلند کی پھر رسول اللہ سے پوچھا گیا حضرت کیا جواب دیں فرمایا جواب مت دو پھر اس نے نعرہ لگایا ہر چند کے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے رہا نہ گیا لیکن رسول اللہ نے فرمایا جواب مت دو جب اس کا خیال ہوا کہ قیادت نہیں رہی پورے صحابہ کرام کی جماعت میں تین افراد کا نام لینا یہ خود امت کی قیادت پر دلالت کرتا تھا اور انہوں نے خیال کیا کہ شاید اب قیادت نہیں رہی تو اس نے فتح کا نعرہ بلند کیا صحابہ کرام نے پھر پوچھا یا رسول اللہ کیا جواب دیں فرمایا جواب دے دو اللہ اعلیٰ اجل پھر اس نے نعرہ لگایا پھر صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ کیا جواب دیں فرمایا ان کو جواب دے دو کہ اللہ مولانا ولا مولا لکم، اب شخصیات پر کہتے ہیں جواب مت دو نعرے پر کہتے ہیں جواب دو جن نعروں کا تعلق شخصیات سے تھا وہاں خاموشی جن نعروں کا تعلق عقیدے کے ساتھ تھا نظام کے ساتھ تھا وہاں فرمایا جواب دے دو، اب خاموشی اس بات کی دلیل ہے کہ شخصیات کی اہمیت کو تو رسول اللہ بھی مانتے تھے کہ ہے لیکن سکوت سے تعلیم ملتی ہے ہمیں وہ یہ کہ اگر وہ جواب دیتے کہ ہم زندہ ہیں اور پھر کہتے ہیں ہم زندہ ہیں اور پھر کہتے ہیں ہم زندہ ہیں تو پھر تعلیم امت کو یہ ملتی کہ شاید قیادت ہے تو ہم ہیں ورنہ پھر نہیں ہے یہ خاموش تعلیم تھی کہ آپ نے کچھ تبصرہ بھی نہیں کیا ان شخصیات کی اہمیت پر انکار بھی نہیں کیا اور جب عقیدے کا نعرہ آیا تو پھر آپ نے جواب دے دیا کہ ہم زندہ ہیں عقیدہ زندہ ہیں۔

تو یہ دونوں چیزیں ضروری بھی ہیں لیکن پھر انحصار عقیدے و ایمان پر ہے شریعت پر ہے شخصیات تو آج ہیں کل نہیں ہوں گے ہوں گے وہ تو چلے جائیں گے تو پھر ہم نے کام ہی چھوڑ دینا ہے جس مدرسے کی بنیاد حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ نے رکھی اور جس کا پہلا طالب علم تنہا محمود حسن تھا جس اخلاص کے ساتھ انہوں نے بنیاد رکھی اور ماشاءاللہ پوری دنیا میں مدارس مدارس جس جمعیت علماء کی بنیاد حضرت شیخ الہند نے رکھی آج پورے جوبن کے ساتھ الحمدللہ ایک قوت ہے آپ کی، تو ابتدا میں جو خشت رکھی جاتی ہے پہلی خشت اس کو دیکھا جاتا ہے اگر وہ اخلاص پر رکھی ہے تو پھر یہ سلسلے چلتے ہیں۔

تو ان اکابرین نے ہمارے لیے جو اساس اور ہمارے لیے جو بنیاد فراہم کیا ہے آج ان مدارس کی صورت میں جمعیت علماء کی صورت میں ہمارے خانقاہوں کی صورت میں آپ کو نظر آرہا ہے کہ وہ بنیادیں صحیح تھیں وہ خلوص نیت پر مبنی تھی اور آج بھی ہم اس سے پھل کو کھا رہے ہیں آج ہم ان چشموں سے پی رہے ہیں آج بھی ہم اس سے غذا حاصل کر رہے ہیں تو ان چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے جہاں ہم حضرت مولانا قاضی عبدالرشید صاحب ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں اور ان کی خدمات پر ان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ان کی زندگی بھر کے اعمال صالحہ کو آخرت میں عِیْشَةٍ رّاضِیَةٍ کا سبب بنا دے۔ امین

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب

ممبر مرکزی ڈیجیٹل میڈیا کونٹینٹ جنریٹرز/ رائٹرز ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، کوآرڈینیٹر تحصیل بریکوٹ

#teamjuiswat


0/Post a Comment/Comments