10 اگست 2024
الحمدلله الحمدلله وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی لاسیما علی سید الرسل و خاتم الانبیاء وعلی آله وصحبه و من بھدیھم اھتدی، اما بعد
جناب صدر محترم، حضرات علمائے کرام ، اس علاقے کے تمام زعماء، زمینداروں، کسانوں اور میرے پیارے بھائیو! آج اس کسان کنونشن میں آپ نے جس شوق سے شرکت کی ہے میں اس کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور یہ حقیقت میں سارے پاکستان کے کسانوں کے ساتھ جمعیت علماء اسلام کی دوستی کی علامت ہے۔ آپ اس طبقے کی نمائندگی کر رہے ہیں جمعیت علماء اسلام پہلے دن سے جب اس نے اپنا منشور تیار کیا اور جماعت نے اپنا عقیدہ اور نظریہ دنیا کے سامنے پیش کیا اس میں کسانوں کے سر پر ہاتھ رکھا گیا، محنت کشوں کے سر پر ہاتھ رکھا گیا، اسلام کی رہنمائی میں ان کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی اور وہ طبقہ جو ان محنت کشوں، کسانوں اور مزدوروں پر جبر کرتے تھے اس طبقے کے مقابلے کے لیے ہم نکلیں ہم آج پھر اسی انداز میں آپ سے بات کر رہے ہیں کہ ہم نے بہت کامیابیاں حاصل کیں ہیں۔ اب مولانا فضل علی صاحب نے اپنے دورِ حکومت کے حوالے سے ان تمام اقدامات کا ذکر کیا کہ زراعت کے شعبے میں کسانوں کے ساتھ تعاون کے جو اقدامات کیے گئے تھے وہ بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کی، تعلیم کے شعبے میں وہ تمام اقدامات جو غریب قوم اور ان کے بچوں کے لیے لازمی اور ضروری اقدامات تھیں اور وہ جمعیت علماء اسلام کے منشور کا حصہ تھا ان پر عمل درآمد کیا گیا۔
بھائیو! آج پھر ملک کی معیشت تباہ ہے ہمارے وزیراعظم آرمی چیف کے ساتھ چائنہ گئے اور ظاہری بات ہے کہ اسی ایشیا میں اور دنیا میں چین پاکستان کا ایک مظبوط اور قریبی دوست ہے، ستر سال کی دوستی جب اقتصادی دوستی میں تبدیل ہو گئی تو سرمایہ دار دنیا آگے آگئی مغربی قوتوں نے پاکستان کے راستے چین کے تجارت کو روکنے کے لیے اقدامات کیے اور یہاں ایسی قوتوں کو متحرک کیا گیا تاکہ پاکستان کی ترقی کا راستہ روک سکے اور آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ ملکی معیشت زمین بوس ہو چکی ہے۔ ہماری ستر فیصد معشیت کا دارومدار اور انحصار وہ زراعت سے وابستہ ہے اور مجھے خود چائنہ والوں نے کہا ہے کہ ہم پاکستان کے ہر شعبے میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں پاکستان کے ساتھ تعاون چاہتے ہیں اور ہماری سب سے بڑی ترجیح وہ زراعت کا شعبہ ہے کیوں کہ یہ پاکستانی معیشت کا سب سے بڑا میدان ہے پاکستان کی معیشت کا دارومدار اسی پر ہے لیکن دنیا نے ایک جنگ شروع کی بدقسمتی سے ہمارے ملک میں وہ اپنے ساتھی تیار کرتے ہیں جو اپنے ہی وطن کی ترقی کا راستہ روکتے ہیں۔
(پہلا حصہ پشتو سے اردو ترجمہ)
آج ملک کی معیشت زمین بوس ہو چکی ہے، چین کی 70 سالہ دوستی جب معاشی دوستی میں تبدیل ہونے لگی اور چائنہ نے جب دنیا سے تجارت کرنے کے لیے پاکستان کو اپنا گزرگاہ بنایا، پاکستان کے راستے سے تجارت کرنے کا فیصلہ کیا، تو میرے دوستو ہم ہیں بڑے چھوٹے لوگ غریب لوگ لیکن میں ہمیشہ حکمرانوں سے کہتا ہوں یہ جو بہت بڑی خوبصورت بلڈنگ آپ کو نظر آرہی ہے عظیم الشان عمارت ہے جس کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ تو زرداری صاحب نے بنائی ہے یہ تو میاں نواز شریف صاحب نے بنائی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ چین کے ساتھ تجارتی تعلق یہ پاکستان میں غیر متنازعہ مسئلہ تھا اس پر اپنے اپنے دور حکومت میں سب نے پیش رفت کی، لیکن 1995 میں جب میں فارن کمیٹی کا چیئرمین تھا اور چین کی دعوت پر میں نے اپنی کمیٹی کو وہاں چین لے گیا پاکستان کے راستے سے تجارت کے لیے میں نے ان کو سات دلائل دیے اور آج بھی وہ ریکارڈ پر ہیں اور پھر اسی پہ اتفاق رائے ہوا اور آج یہ بہت بڑی بلڈنگ جو نظر آرہی ہے اس کی تہہ میں جو روڑا اور سریہ ہے وہ یہ فقیر فضل الرحمن آپ کے سامنے ہے۔
ہم نے پاکستان کو اپنا گھر سمجھا اس گھر کو خوشحال رکھنا اس کو اپنا عقیدہ بنایا اس کو اپنا نظریہ بنایا لیکن مجھے یاد ہے جمعیت علماء اسلام کے پشاور، صوبے کے مرکز میں ایک کنونشن تھا، 2017 میں میں نے یہ بات کہی تھی آپ میں سے بہت سے دوست شاید اس وقت موجود بھی ہوں اگر ان کو یاد نہ ہو میں یاد دلانا چاہتا ہوں، کہ میں نے کہا کہ امریکہ اور مغربی دنیا کی اس وقت ترجیحات یہ ہیں کہ دنیا میں ایک نئی جغرافیائی تقسیم پیدا کرے، ملکوں کو توڑیں اور یہ صدی ان کے اسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ہے، میں نے کہا پاکستان بھی وہ بڑا ملک ہے کہ جس کے لیے ان کی نیتیں اور ان کی ارادے ٹھیک نہیں ہے، اور جب چائنہ کے ساتھ ہم تجارتی تعلق بنائیں گے تو پھر یہاں پر ملک کو نقصان پہنچانے کا آغاز سیاسی عدم استحکام کے ساتھ ہوگا، ملک کے سیاسی نظام کو مستحکم رکھو اسے نقصان مت پہنچاؤ ورنہ اس کے بعد معاشی عدم استحکام کا دور آئے گا، ہماری بات کو صدا بصحرا کی حیثیت دی گئی، پھر معاشی عدم استحکام کا دور چلا پھر میں نے آپ کو یہ بھی کہا تھا کہ معیشت اس حد تک گر چکی ہے کہ آنے والی کوئی حکومت اب اٹھا بھی نہیں سکے گی، میاں شہباز شریف صاحب نے فرمایا کہ میں نے بطور چیلنج قبول کیا ہے میں ملک کی معیشت کو اٹھاؤں گا لیکن وہ نہیں اٹھا سکے، چائنہ گئے آرمی چیف کو بھی ساتھ لے کر گئے اور پاکستان میں چائنا کی سفارت کاری کو بحال کرنے کے لیے انہوں نے چین کی حکومت کو آمادہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے ایک ہی بات کہی کہ آپ کے ہاں سیاسی استحکام نہیں ہے اور آپ کے ہاں امن و امان کی صورتحال خراب ہے، جب امن و امان کی صورتحال خراب ہوگی تو یقیناً آپ کی معیشت بھی تباہ ہوگی، اور جب آپ نے سیاسی طور پر ملک کو کمزور کر دیا پہلے بھی ہماری سرمایہ کاری ضائع ہوئی اور اب دوبارہ ہم کیسے آئیں پہلے اپنے حالات تو ٹھیک کرو! یہ ایسی بات نہیں جو میں یہاں آپ کے سامنے پبلک میں بات کر رہا ہوں میں نے پرائم منسٹر کی موجودگی میں قومی اسمبلی کے اندر ان کے سامنے یہ بات کہی اور میں نے ان سے کہا بصد احترام، میں نے ان سے کہا بصد احترام آپ دونوں چائنا گئے لیکن آپ تسلیم کریں کہ آپ کامیاب ہو کر واپس نہیں آئے، وہاں پر چین کے صدر نے جس پیرائے میں گفتگو کی تھی اس کے بعد چین کے ایک منسٹر آئے اور یہاں اسلام آباد میں تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں سے بات کی، اس میں بھی ہم نے پاکستان کے اندر ان کی سرمایہ کاری کو خوش امدید کہا ان کے مضبوط تعلق کا تذکرہ کیا انہوں نے اس کی نفی نہیں کی لیکن یہ بات ضرور کہی کہ آپ کے ہاں سیاسی عدم استحکام بھی ہے اور آپ کے ہاں معاشی طور پر بھی استحکام نہیں ہے امن و امان کی صورتحال بھی خراب ہے پہلے ان کو ٹھیک تو کرو تاکہ ہم آسکیں۔
میرے محترم دوستو! اب ان مشکلات میں ظاہر ہے کہ ہم نے ملک کو بھی بچانا ہے، اس ملک کو طاقتور دیکھنا ہے اور ظاہر ہے جمعیت علماء اسلام جب تک اپنے کسانوں سے رابطہ نہیں کرے گی اپنے تاجروں سے رابطہ نہیں کرے گی اپنے مزدوروں سے رابطہ نہیں کرے گی ان کو اعتماد نہیں دلائے گی ان کا اعتماد بحال نہیں کرے گی، آپ نے دیکھا اس سال ابھی ہم نے فصل نہیں اٹھائی تھی، غیر ضروری طور پر باہر سے گندم کیوں منگوایا گیا؟ اور اتنا گندم منگوایا گیا کہ یہاں کے کسان کی فصل ان کے گھر میں رہ گئی وہ فصل بک نہیں سکی، پاکستان کے پاس پہلے سے گندم کا ذخیرہ موجود تھا پھر غیر ضروری طور پر باہر سے گندم کیوں منگوائی گئی اور سنا یہی ہے کہ وہ بھی غیر معیاری گندم تھا اور اپنے ملک کی اسی سال کی گندم زمینداروں کے گھر میں پڑی ہوئی ہے، کیوں؟ اگر اس کا گندم نہیں بکے گا وہ اگلے سال گندم کیوں کاشت کرے گا، یہ ہوتی ہیں ملک کی معیشت پر کلہاڑا چلانا اور ملک کی معیشت کو سہارا دینے والے کسان کی کمر توڑنا ہمارے ملک کے اندر حکمرانوں کی ان پالیسیوں نے ملک کی معیشت کا بیڑا غرق کیا ہوا ہے۔ تو اس حوالے سے آج ہم نے مردان سے اس بات کا آغاز کیا، یہ زرعی علاقہ ہے صوابی زرعی علاقہ ہے چارسدہ زرعی علاقہ ہے ملاکنڈ زرعی علاقہ ہے اس پورے علاقے کی نمائندگی کرتے ہوئے آج ہم نے پورے ملک کے کسان کو آواز دی ہے آپ کے اس اجتماع سے اور یہ اجتماع پورے پاکستان کے کسانوں کی نمائندہ اجتماع ہے۔ تو میں یہ بات کرنا چاہتا ہوں یہاں تو آوے کا آوا خراب ہے، پارلیمنٹ ہے تو اس پر عوام کا اعتماد نہیں ہے عوام نے ووٹ کس کو دیا اور اسمبلی میں کون پہنچا اس کا کوئی حساب کتاب نہیں، اگر پارلیمنٹ پر لوگوں کا اعتماد نہیں ہوگا تو پھر وہ پارلیمنٹ ملک کی مسائل کو حل نہیں کر سکے گی، مذہب کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جب کسی حکمران سے نہ ہو سکا تو اب وہ کام عدالتوں سے لیا جا رہا ہے، ختم نبوت کے مسئلے کو چھیڑا گیا اگر کوئی سمجھتا ہے چاہے وہ جج ہو چاہے وہ سیاستدان ہو چاہے وہ جرنیل ہو چاہے وہ حکمران ہو کہ وہ پاکستان میں قادیانیوں کی پرانی حیثیت کو بحال کرے گا اور ان کو مسلمان کا سٹیٹس دوبارہ دے گا ان شاءاللہ ہماری لاشوں پر یہ ہو سکتا ہے ہماری زندہ انسانوں کے اوپر یہ فیصلے نہیں ہو سکیں گے۔ ان شاءاللہ اگر یہی جذبہ رہا یہی شوق رہا دنیا کی کوئی طاقت آپ کو شکست نہیں دے سکتی۔ انہوں نے مدارس پہ ہاتھ ڈالا ہے، قانون سازی کی ہے اور اپنے ناپاک ارادے پبلک کے سامنے رکھے ہیں کس لیے رکھے ہیں پاکستانی مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیے پاکستانی مسلمان اور عوام ان کی ہمارے مقتدر قوتوں کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں وہ اپنے آقاؤں کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم آپ کے غلام ہیں، یہاں قرآن و حدیث کے علوم کا خاتمہ کیا جائے گا یہاں اسلامی تہذیب کا خاتمہ کیا جائے گا، تم نے امریکہ سے عہد و پیمان کیا کہ تم قرآن و حدیث کے علوم کا خاتمہ کرو گے، ان کے مدارس کا خاتمہ کرو گے، اسلامی تہذیب کا خاتمہ کرو گے اور میں نے مدینہ منورہ میں آقائے نامدار سے وعدہ کیا ہے۔ ان شاءاللہ ہم پاکستان میں علوم اسلامیہ و قرآن و حدیث اور ان کے مراکز، مدارس اور اسلامی تہذیب ان کے تحفظ کے لیے جان دے دیں گے لیکن تمہارے ایجنڈے کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ دینی مدارس کے خلاف اپنا ایجنڈا اور اپنی ذہنی غلاظت اگر تم پبلک کے سامنے رکھ سکتے ہو اور ان کے خلاف اعلان جنگ کر سکتے ہو امریکہ کی پشت پناہی میں تو آقائے نامدار کی پشت پناہی میں ہم بھی آپ کے خلاف اعلان جنگ کر سکتے ہیں مقابلہ ہوگا جہاد ہوگا دیکھا جائے گا کہ تم کس طرح دین کو ختم کر سکتے ہو اور مدارس کو ختم کر سکتے ہو!
میرے محترم دوستو! میرے کسانوں، اسلام، علماء اور دین کے ساتھ آپ کے رشتے کو توڑا جا رہا ہے، آج عہد کریں کہ ہم اس رشتے کو مضبوط بنائیں گے، ہم زراعت کے شعبے کو بھی ترقی دیں گے، ہم ملک کی معیشت کو بھی مستحکم کریں گے لیکن دین اسلام کا جھنڈا بھی بلند کریں گے جمعیت علماء اسلام کو بھی طاقتور بنائیں گے تاکہ اس محاذ پر ہم ہر جنگ کامیابی کے ساتھ لڑ سکیں۔ ہم نے بندوق نہیں اٹھانی ہم نے سیاسی جدوجہد کرنی ہے، اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے ہر جدوجہد جہاد کہلاتا ہے، ان شاءاللہ یہ راستہ ہم سب کا راستہ ہے، ہم نے جاگیرداروں کا مقابلہ کیا ہے، ہم نے جابر قوتوں کا مقابلہ کیا ہے، ہم ان کے پشت پناہوں امریکہ اور مغربی دنیا کا مقابلہ کیا ہے۔ آج روس کو کس نے شکست دی ہے روس کو ہم نے شکست دی ہے روس کو افغانوں نے شکست دی ہے اپنے خون سے ان کو شکست دی ہے امریکہ سمجھتا ہے کہ اب میری بالادستی آگئی سو آپ نے بھی آزما لیا آپ نے بھی افغانستان پر حملہ کیا، 20 سال تک اپنا قبضہ رکھا لیکن افغانوں نے آپ کے خلاف بھی جرات کے ساتھ اپنے خون کے نذرانہ پیش کر کے تمہیں اس سرزمین سے نکالا ہے، اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ تم پاکستان میں آکر مدارس کا خاتمہ کر سکو گے خاطر جمع رکھو تمہارا باپ بھی یہ مشن پورا نہیں کر سکے گا۔
(آخری جملے پشتو سے اردو ترجمہ)
اگر آپ دھاندلی کے راستے اسمبلیوں پر قبضہ کرو گے، اقتدار کی کرسی پر قبضہ کرو گے تو سن لو میدان ہمارے ہاتھ میں ہے یہ لوگ میدان میں نکلیں گے اور پھر تم اپنے حکومت کو نہیں بچا سکو گے۔ ایوان اگر یہی ہے تو پھر نہیں اؤر ان شاءاللہ میدان میں ہم کھڑے ہیں اور اسی ایوان کو قبضہ کریں گے میدان بھی ہو گا اور ایوان بھی ہو گا ان شاءاللہ۔
دو ہزار اٹھارہ میں ایوان بنا ہم نے ناکام بنا دیا اب پھر وہی کھیل کھیلا گیا لیکن ہم ان شاءاللہ اسے چلنے نہیں دیں گے، ملک کے نظام کو ٹھیک کرو، آئین کے مطابق ملک کو چلائیں، ہم ملک کی وحدت چاہتے ہیں اپنے مطالبات کے اساس کی بنیاد پر ملک کو مستحکم کرنا یہ ہمارا ایجنڈا ہے ملک کے خلاف سازشوں کو نہیں مانتے، جو بھی ہو چاہے کتنے ہی خوبصورت لباس میں ملک توڑنے کی سازشیں کرتا ہو جمعیت علماء اسلام ان کے مقابلے میں کھڑا ہوگا، یہ وطن پاکستان ہمارا گھر ہے اس کو آباد کریں گے مظبوط بنائیں گے اس کو استحکام دیں گے اور ان شاءاللہ اس وطن کا ایک اسلامی نام ہوگا اور اس کے اسلامی شناخت کو بحال کریں گے ان شاءاللہ۔
ضلع مردان کے غیرت مند زمینداروں، کسانوں اور پختونوں ایک آواز بنو، جمعیت کے پرچم تلے ایک ہو جاؤ، ان شاءاللہ پاکستان میں انقلاب آئے گا اسلامی انقلاب ہو گا، خوشحالی کا انقلاب ہو گا، کسان کا انقلاب ہو گا، مزدور کا انقلاب ہو گا، تاجر کا انقلاب ہو گا، غریب کا انقلاب ہو گا، وقت نے ثابت کردیا ہے کہ جمعیت علماء اسلام نے اپنے منشور پر عمل کیا ہے اور اسے آگے بھی ثابت کریں گے۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
و اٰخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین
ضبط تحریر: #محمدریاض
پشتو سے اردو ترجمہ: #سہیل_سہراب
ممبرز ٹیم جے یو آئی سوات
#teamJUIswat
قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن کا مردان میں کنونشن سے خطاب/ اُردو حصہ
Posted by Jamiat Ulama-e-Islam Pakistan on Saturday, August 10, 2024
ایک تبصرہ شائع کریں