پاکستان کو سلام: حافظ مومن خان عثمانی


پاکستان کو سلام

      حافظ مومن خان عثمانی

مملکت خدا داد پاکستان مسلمانانِ ہند کی دو سو سالہ قربانیوں کے نتیجہ میں معرض وجود میں آیا ہے، جس کے لئے لاکھوں مسلمانوں نے جان ومال اور عزت وآبرو کی بے مثال قربانیاں دیکر سات سمندر پار سے آئے ہوئے غاصب، قابض اور ظالم وجابر حکمرانوں کو نکالا، حکیم الہند حضرت امام شاہ ولی اللہ ؒکی تحریک، نواب سراج الدولہؒ اور ٹیپو سلطانؒ کی شہادت، سراج الہند حضرت مولانا شاہ عبدالعزیزؒ کا فتوئی جہاد، سید احمد شہید ؒ، شاہ اسماعیل شہید ؒ اور ان کے سینکڑوں رفقاء کی قربانیاں، مولانا احمداللہ شاہ ؒ، حافظ رحمت خانؒ، مولانا امام بخش صہبائی،ؒ مولانا عبدالجلیلؒ، مولانا کفایت علی کافیؒ، مولانا وہاج الدینؒ، مولانا محمدباقرؒ، تیتو میرؒ اور ان کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں جہاد حریت کے پروانوں کی شہادتیں، مولانا احمداللہ صادق پوریؒ، مولانا یحی علی ؒ، مولانا عبدالرحیم ؒ، مولانا جعفر تھانیسریؒ اور مولانا فضل حق خیرآبادیؒ کی کالا پانی میں قید و بند کی صعوبتیں، شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ، شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ، مولانا عزیر گلؒ، مولانا وحید احمد مدنی ؒ کی مالٹا کے جیل کی سختیاں اور ان کے رفیق جیل مولانا حکیم نصرت حسین ؒ کا مالٹا میں پیوند خاک ہونا، مولانا محمد علی جوہرؒ، مولانا شوکت علی ؒ، مولانا حسرت موہانی ؒ، امام الہند مولانا ابوالکلام آزادؒ، رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ، چودھری افضل حقؒ، مولانا مظہر علی اظہرؒ، ماسٹر تاج الدین انصاریؒ، مولانا گل شیر شہیدؒ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ، مولانا داوٗدغزنویؒ، شیخ حسام الدینؒ، مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادی ؒ، مفتی عبد الرحیم پوپلزئیؒ، امیر شریعت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، آغاشورش کاشمیریؒ، مرزا غلام نبی جانبازؒ، مولانا محمد صادق،ؒ سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی ؒ، مولانا احمد علی لاہوریؒ، مفتی اعظم ہند مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ، مولانا محمد اسحاق مانسہروی ؒ اور ان کے علاوہ ہزاروں رہنمایانِ ہند کی بار بار جیلوں میں قید رہنا، امام انقلاب مولانا عبید اللہ سندھی ؒ اور ان کے رفقاء کی ربع صدی تک جلاوطنی، حاجی ترنگزئی ؒ اور کے دوستوں کے جہادی معرکے، آزادی وطن کے لئے ہزاروں حریت پسندوں کو توپوں سے اُڑایا جانا، خنزیر کی کھالوں میں بند کرکے جلایاجانا، 51 ہزار علماء کو سولیوں پر لٹکایاجانا، ہزاروں باپردہ خواتین کی عصمت دری، یہ دو سو سالہ طویل دورانیہ کی وہ بیش بہا قربانیاں ہیں جن کی بدولت آج ہمیں آزادی کی نعمت میسر ہے۔

ان ہزاروں واقعات میں سے 1947ء کے چند واقعات قارئین کی خدمت میں پیش کررہاہوں جن سے آزادی کے حصول کے لئے دی جانے والی قربانیوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ 14 اگست 1947ء کے بعد مسلمانوں پر کیا بیتی؟

پاکستان ہجرت کرنے والے ایک مسلمان محمد اقبال سہیل اپنی آپ بیتی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ہم ہوشیار پور میں رہتے تھے۔ وہ رات بے حد طویل تھی۔ چوک سراجاں پر حملے کی دوسری رات!…… حملہ آوروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا۔ پہلے روز پچاس نوجوان شہید ہوئے۔ دوسرے روز ساٹھ۔ شام ہونے سے پہلے دو چار ایسے دلدوز واقعات ہوئے کہ مسلمانوں کی غیرت اور جوش میں زبردست اضافہ ہوا۔ بزرگ اور نو عمر بھی میدان میں اترنے لگے۔ عصر کے وقت دست بدست لڑائی ہو رہی تھی۔ ایک مسلمان نوجوان گرا، خون کے فوارے نکل رہے تھے، اس نوجوان کا گھر لڑائی کے میدان کے بالکل سامنے تھا۔ گھر کا ایک چھوٹا بچہ یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ خواتین کو ہوش نہ رہا اور بچہ ابا ابا کہتے ہوئے دروازے سے نکل کر ہندوؤں اور سکھوں کی طرف بھاگا۔ سکھوں نے بچے کو پکڑ لیا اور چلا چلا کر اعلان کیا کہ دیکھو، ہم آج مسلے کے بچے کے ساتھ کیا کرتے ہیں؟ مسلمان دم بخود تھے کہ یہ بچہ وہاں کیسے پہنچ گیا۔ سکھوں نے بچے کو اوپر اچھالا اور نیچے سے نیزے پر اسے لے لیا۔ بچے کی چیخ اس قدر دلدوز تھی کہ آسمان تک لرز اٹھا۔ اس نے تڑپ تڑپ کر وہیں جان دے دی۔ ابھی مسلمان اس رنج و غم میں غلطاں و پیچاں تھے کہ یکایک ایک مسلمان نوجوان بجلی کی مانند جا نکلا اور جس سکھ نے بچے کو پکڑ کر اچھالا تھا، اسے گرایا، ٹانگوں سے پکڑا اور پوری قوت سے اپنے سر کے اوپر چاروں طرف گھمانا شروع کیا۔ چوتھے چکر پر اس نوجوان نے اللہ اکبر، پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگا کر اس سکھ کو ایک دیوار پر دے مارا۔ اس کا سر پھٹ گیا۔ اس مسلمان نوجوان نے ایک بڑا پتھر لیا، اس پر دے مارا اور برق رفتاری سے مسلمانوں میں آشامل ہوا۔ مسلمانوں کے جوش کی انتہا نہ تھی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ نوجوان اس گلی میں پھنس گیا جس کی ہندو سکھوں نے ناکہ بندی کی تھی۔

دوسرا واقعہ زیادہ جگر خراش تھا۔ مغرب کی نماز سے ذرا پہلے مسلمانوں کے مورچوں میں زبردست ہلچل ہوئی۔ بڑے زور زور سے اللہ اکبر اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگ رہے تھے۔ والد صاحب قبلہ رائفل لے کر نکلے اور مورچوں پر پہنچ گئے۔ کچھ دیر کے لئے خاموشی چھا گئی۔ والدہ ماجدہ جائے نماز پر تھیں۔ محلے کی بعض خواتین ہمارے ہاں جمع تھیں۔ نو عمر لڑکوں نے چھتوں پر ائر گنوں، بڑے بڑے پتھروں، غلیلوں اور گرم پانی سے مورچہ بنا رکھا تھا۔ تھوڑی دیر بعد پھر نعرے لگنے شروع ہوئے۔ پورا محلہ اللہ اکبر اور پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا۔ اتنے میں والد صاحب قبلہ کے ساتھ دو بزرگ اور تین نوجوان ایک چارپائی پر خون میں لت پت انتہائی خستہ حالت میں ایک مسلمان نوجوان لڑکی کو لئے گھر پہنچے۔ یہ لڑکی اپنے بھائیوں کے ساتھ لدھیانے سے ہوشیار پور آئی تھی اور اپنی نانی سے ملنے چوک سراجاں جا رہی تھی۔ یہ نوجوان لڑکی ابھی نئی نئی لاہور سے بی اے کر کے لدھیانے آئی تھی۔ سکھوں اور ہندوؤں نے اس کے بھائی اس کے سامنے قتل کئے۔ پھر اس کا سینہ کاٹ لیا اور چوک سراجاں کی طرف پھینک دیا۔ والدہ ماجدہ نے لڑکی کو سنبھالا، وہ زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھی۔ والد صاحب قبلہ فوراً سجدے میں گر گئے اور رو رو کر اللہ سے دعا کی کہ مسلمان خواتین کی عزت کسی طرح محفوظ فرما۔ محلے کے بزرگ بھی آگئے تھے۔ والدہ ماجدہ نے لڑکی کی سرعت سے مرہم پٹی کی۔ تھوڑی دیر بعد اس کی آنکھیں کھلیں۔ اپنے بھائیوں کے نام پکارتی رہی اور پھر بے ہوش ہو گئی اور آدھی رات تک بے ہوش رہی۔ جب دوبارہ ہوش میں آئی، والدہ ماجدہ نے اسے پانی پلایا، قرآن مجید پڑھا، وہ سنتی رہی۔ پھر…… اسے ہچکی آئی اور ہمیشہ کے لئے سو گئی۔ ہم مہاجر کیمپ میں تھے کہ ہمیں اطلاع ملی کہ ہندوؤں اور سکھوں نے سارے ہوشیار پور کی مساجد سے قرآن مجید لے کر سڑکوں پر پھینک دئیے ہیں اور بدمست ہو کر اغوا شدہ مسلمان خواتین کی بے حرمتی کر رہے ہیں۔ ہمارے ابا جان نے قرآن مجید کی بے حرمتی کا واقعہ سنا تو بے حد متاثر ہوئے۔ بڑی دیر تک روتے رہے، پھر اٹھے اور انہوں نے اپنی رائفل سنبھال کر بلوچ رجمنٹ کے سربراہ سے بات کی۔ اس رجمنٹ کے کچھ نوجوان کانوائے لے کر آئے تھے۔ تاریخ میں ان کی شجاعت اور بہادری کی مثالیں لکھی جائیں گی۔ ابا جان نے کہا کہ میں جا کر سڑکوں سے قرآن مجید اٹھاتا ہوں اور پھر کانوائے کے ساتھ آجاؤں گا۔ اس پر بلوچ رجمنٹ کے جوانوں نے کہا کہ شیخ صاحب! پاکستان بنا ہی قرآن مجید کی وجہ سے ہے، ہم اسے سڑکوں پر کیسے چھوڑ سکتے ہیں؟ ادھر والدہ نے بھی یہی کہا، چنانچہ دوسرے اور تیسرے روز بلوچ رجمنٹ کے جوانوں کے ساتھ مل کر ہم سب سڑکوں اور گلیوں سے قرآن مجید اٹھاتے رہے۔ مرہٹہ فوج نے اس مرحلے پر اتنا ساتھ دیا کہ ہم پر حملہ نہ ہوا۔ کوئی پچاس بوریاں بھری گئیں جنہیں ایک کنویں میں دفن کر دیا گیا۔ کچھ ساتھ لے آئے۔ قرآن مجید کی جس طرح بے حرمتی کی گئی تھی، اس کا بڑا ہی المناک اثر سب پر ہوا تھا۔ قرآن مجید اٹھاتے وقت مختلف محلوں اور گلیوں میں ہمیں مسلمان عورتیں بڑی دردناک حالت میں ملیں۔ ان بلوچی مجاہدین نے انہیں احترام سے ایک جگہ دفن کر دیا۔ بعض محلوں میں مجھے یاد ہے کہ خون ہی خون تھا۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کی لاشیں بھی دیکھیں، انہیں بھی دفن کیا۔ پھر بلوچ رجمنٹ کے جوانوں کی حفاظت میں ہوشیار پور سے رخصت ہو گئے۔ راستے میں اکا دکا مسلمان عورتیں ملتی گئیں، انہیں بھی ساتھ لیتے رہے۔ سکھوں اور ہندوؤں نے اپنی درندگی کا جی بھر مظاہرہ کیا تھا۔ ہوشیار پور سے نکلتے وقت ایک عورت زخمی حالت میں پڑی ملی۔ والد صاحب نے اٹھایا تو اس کی ٹانگیں اور سینہ کٹے ہوئے تھے۔ وہ ایک مشہور خاندان کی نوجوان خاتون تھی۔ ابا جی کو معلوم ہوا تو ضبط نہ کر سکے۔ اس خاتون نے صرف اتنا کہا: آپ جائیے چا چا جی! غم نہ کریں۔ اتنا سب کچھ ہو جانے پر پاکستان تو بن گیا۔ مجھے خوشی ہے کہ میں امت کے کسی کام تو آئی…… اس خاتون کے کلمات نے بلوچ رجمنٹ کے جوانوں کو رلا دیا۔ ہجرت کے سفر کے دوران ایک نہر عبور کر کے ہم سب شدت تاثر سے کانپ رہے تھے کہ ایک طرف سے کراہنے کی آواز آئی۔ ایک بزرگ ڈاکٹر نصیب الدین آگے بڑھے۔ انہوں نے پوچھا، کون ہے؟ ایک نسوانی آواز تھی۔ وہ فوراً لپکے۔ ایک خاتون خون میں لت پت پڑی تھی۔ پانی پلا کر مرہم پٹی کرنے کی کوشش کی گئی، مگر کچھ فائدہ نہ ہوا۔ اس خاتون نے مرتے وقت صرف اتنا کہا: شام چوراسی کی جنگ میں میرے والد، سات بھائی، چچا اور ان کے چار لڑکے شہید ہو گئے، تین بہنیں لڑتے لڑتے نہر میں ڈوب گئیں۔ والدہ کو انہوں نے قتل کر دیا۔ میں چھپ گئی، لیکن انہوں نے مجھے ڈھونڈ نکالا۔ جب قریب آئے تو میں نے چھرے اور ٹوکے سے دو کو زخمی کر دیا۔ انہوں نے جھلا کر میرا یہ حشر کر دیا۔ آخری سانس لینے سے پہلے خاتون نے کہا: ”پاکستان کو میرا سلام پہنچا دیجئے!“۔

 ایک دوسرے مہاجر گوہر صدیقی اپنی آپ بیتی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ہمارا گھر پٹیالہ میں تھا۔ چھ ستمبر کا دن میرے لئے چھ ستمبر ۵۶ء کے دن کی طرح ایک یاد گار ہے۔ 14 اگست کے اعلان آزادی کے بعد پٹیالہ کے مسلمان ظلم و استبداد کی چکی میں اس بری طرح پیسے گئے کہ اس کی یاد دلوں سے محو نہ ہو سکے گی۔ میرے والد صاحب پولیس افسر ہونے کے باوجود مسلمانوں کی جدوجہد آزادی میں پوری طرح ساتھ تھے۔ چنانچہ ہندوؤں میں انہیں مسلم لیگی کہا جاتا تھا۔ فسادات شروع ہوئے تو مسلمان پولیس کو غیر مسلح کر دیا گیا۔ گردونواح میں قتل و غارت کا بازار تو دیر سے گرم تھا لیکن پٹیالہ شہر کی باری آخر میں آئی۔ شہر میں کرفیو لگا ہوا تھا اور سکھ فوج مسلمانوں کے محلوں میں گھس کر گھر گھر گولیاں چلانے لگی۔ ڈیڑھ ہفتے میں شہر کے اندر کشتوں کے پشتے لگ گئے۔ ہم ایک گھر سے نکل کر دوسرے اور تیسرے میں پناہ لیتے ہوئے بالآخر ایک ایسے مکان میں پہنچے جہاں تقریباً دو سو مرد اور عورتیں پہلے سے موجود تھے۔ چھ ستمبر کی صبح آٹھ بجے اس مکان پر حملہ ہوا۔ سکھ ملٹری نے افسر کے حکم پر مشین گن سے فائر کیا۔ نہتے لوگ چند منٹ میں خاک و خون میں لوٹنے لگے۔ میرے بازو میں گولی لگی تو میں لاشوں کے درمیان ہی چپکے سے لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد فضا میں گولیوں کی سنسناہٹ تھم گئی۔ اب صرف تڑپنے والوں کی آہیں سنائی دے رہی تھیں۔ والد صاحب کی لاش مجھ سے چند فٹ کے فاصلے پر تھی۔ میں سمجھا کہ وہ ختم ہو چکے ہیں لیکن تھوڑی دیر بعد انہوں نے پانی مانگا۔ مکان کے اس کونے سے جہاں پٹرول چھڑک کر آگ لگانے کی کوشش کی گئی تھی مگر آگ نہ لگ سکی تھی، والدہ کراہتے ہوئے اٹھیں اور ابا جان کو پانی دیا۔ میں خاموشی سے سن رہا تھا۔ مجھے اپنی تکلیف کا احساس تک نہ تھا۔ والد صاحب امی سے کہہ رہے تھے:دیکھنا، اپنے آپ کو سکھ درندوں کے حوالے نہ کرنا، اس سے بہتر ہے کہ خود کو ہلاک کر لینا اور دیکھو، موت کی کوئی تکلیف نہیں ہوتی، میری جان بڑی آسانی سے نکل رہی ہے۔ یہ بھی سن لو کہ یہ ظالم کتنے ہی ظلم کر لیں، پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ پاکستان میں ان شاء اللہ لا الہ الا اللہ کی حکومت قائم ہو کر رہے گی۔ اور ہاں …… بچے کہاں گئے؟…… پاکستان زندہ باد…… لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ عام حالات ہوتے تو شاید قیامت برپا ہو جاتی۔ لیکن اس وقت نہ والدہ روئیں نہ میری آنکھ سے آنسو ٹپکا۔ بس یہ ہوا کہ اس کے بعد مجھے خود اپنی تکلیف کا بھی احساس ہونے لگا۔ گویا میں اب زخمی ہوا ہوں۔ اسی حالت میں لاشوں کے درمیان ایک رات بسر کرنے کے بعد دوسرے دن بمشکل اٹھا اور مکان سے باہر بازار میں نکل آیا۔ قلعے کا چوک سامنے تھا۔ چوک کے عین درمیان کسی مسلمان دوشیزہ کی عریاں لاش چند لمبے بانسوں کے سہارے الٹی لٹکی ہوئی تھی اور اس کی رانوں کے درمیان بڑے سے کاغذ پر سرخ الفاظ میں پاکستان زندہ باد لکھا تھا۔ یہ منظر کبھی بھی میرے ذہن سے محو نہیں ہو سکتا“۔ کاش! پاکستانی حکمرانوں اور مقتدر حلقوں نے ان لاکھوں مسلمانوں کے قربانیوں اور ان کے پاکیزہ جذبات و خواہشات کی لاج رکھ کر ملک میں اسلامی نظام رائج کیا ہوتا۔


0/Post a Comment/Comments