29 مئی سے 7 ستمبر تک (سو دنوں کی تحریک) تحریر: حافظ یحی احمد


29 مئی سے 7 ستمبر تک (سو دنوں کی تحریک)

تحریر: حافظ یحی احمد 


سات ستمبر 1974 کو رات 8 بجے ریڈیو پاکستان سے یہ خوشخبری نشر کی گئی کہ پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ نے قادیانی و لاہوری دونوں گروہوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔

اس عظیم خوشخبری کے پیچھے ایک تحریک کار فرما تھی یہ تحریک تھی ختم نبوت کے تحفظ کیلئے ، یہ تحریک تھی عاشقان مصطفی کی خون کو قیمتی بنانے کیلئے ، یہ تحریک تھی قادیانیت کی تابوت میں کیل ٹھوکنے کیلئے ، بدمعاشی ختم کرنے کیلیے یہ تحریک تھی ارض پاکستان میں قادیانیت کی اثر ورسوخ اور بدمعاشی ختم کرنے کیلیے اس تحریک کا آغاز 29 مئی 1974 کے دن ہوا۔

اس تحریک کا پس منظر یہ ہے۔

کہ 22 مئی 1974  کو نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلبہ سوات اور شمالی علاقہ جات کے سیر و تفریح کیلئے ملتان سے بذریعہ ٹرین راوانہ ہوئے ، راستہ میں ٹرین چناب نگر (ربوہ) ریلوے اسٹیشن چند منٹ کیلئے رکی اس دوران قادیانی مبلغین ٹرین میں داخل ہو گئے اور قادیانی عقائد پر مبنی لٹریچر لوگوں میں تقسیم کرتے رہے۔

  کچھ قادیانی مبلغین طلبہ کے بوگی میں بھی داخل ہو گئے اور ان کو بھی قادیانی عقائد پر مشتمل لٹریچر ز دئے جس میں ملعون مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی لکھا گیا تھا اس کی بیوی کو ام المومنین اور اس کے ساتھیوں کو صحابہ لکھا تھا ، جب کالج کے طلبہ ان لٹریچر ز میں ان کی غلیظ عقائد کو دیکھا تو ان سے رہا نہ گیا اور قادیانیت کے اس مرکز میں جہاں قادیانیت کا راج تھا، میں ختم نبوت زندہ باد مرزائیت مردہ باد کے نعرے لگا دئیے، وقت مختصر تھا ٹرین راوانہ ہو گیا لیکن کالج کے طلبہ کے نعروں نے قادیانیت کے ایوانوں کو ہلا دیا اور اسی وقت سے قادیانیوں نے انتقام لینے کا منصوبہ بنالیا ادھر طلبہ نے اپنا ٹور مکمل کر لیا اور واپس آرہے تھے کہ جناب نگر (ریونی) کی قادیانیوں کو ان کی آمد کی اطلاع دی گئی اور ان کے پہنچنے سے پہلے ہزاروں قادیانی چناب نگر کے ریلوے سٹیشن پر موجود تھے جن میں سے تقریباً 500 قادیانی ڈنڈوں، تو اپنی مکوں ، زنجیروں ، دور چھریوں اور خنجروں سے لیس تھے 

یہ 29 مئی 1974 کا اندوہناک دن تھا جب ٹرین چناب نگر سٹیشن پہنچا۔ تو قادیانی غنڈوں نے طلبہ کے بوگی پر حملہ کیا ان کو بوگی سے نکالا ، مارا پیٹا خون بہایا نہ ان کے مدد کیلئے پولیس آگئے نہ عوام آگئے بس سارے لوگ تماشا دیکھتے رہے اور طلبہ مار کھا رہے تھے۔

یہی وقت تھا جب عاشقان مصطفیٰ خدایان مصطفی کا خون بہایا گیا جس کے بعد قادیانیت کی الٹی گنتی شروع ہوگئی۔ قادیانیوں کی اس غنڈہ گردی کی خبر سے سب سے پہلے فیصل اباد ریلوے اسٹیشن کو دے دی گئی تاکہ طلبہ کے علاج ومعالجہ کا انتظام کیا جاسکے اور پھر پورے ملک میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ زخمی طلبہ کو اٹھائے ہوئے ٹرین جب فیصل آباد ریلوے اسٹیشن پر پہنچ گیا تو وہاں پر جرنیل ختم نبوت مولانا تاج محمود صاحب ان کے استقبال کیلئے سینکڑوں علماء ، طلبہ اور عوام کے ساتھ موجود تھے انہوں نے طلبہ کا علاج کیا اور ان کی ہر قسم ضروریات کا خیال رکھا گیا ریلوے اسٹیشن پر جب مولانا تاج سے محمو رحمہ اللہ سے آگے کے لائحہ عمل کے بارے میں سوال کیا گیا کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم آگے کے لائحہ عمل کے بارے میں آج ہی اعلان کرینگے اس وقت ختم نبوت کے امیر مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ تعالٰی تھا۔ شام پانچ بجے مولانا تاج محمود نے مولانا یوسف بنوری رحمہ اللہ کی اجازت سے ملک بھر میں قادیانیت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کر دیا تحریک کا اعلان ہوتے ہی ملک بھر میں غلامان محمد باہر نکلے جلسے ، جلوس ، ہڑتال مظاہرے شروع ہوئے اور اس کے ساتھ ساتھ لوگوں نے قادیانیت کے ساتھ ہر قسم کا بائیکاٹ کر دیا قادیانی دکانوں سے نہ کوئی کچھ خریدتے تھے اور نہ ان پر کوئی چیز بیچتے تھے ، دن بدن مظاہروں ، جلسے جلوس شدت اختیار کر رہے تھے جگہ جگہ پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہور ہی تھی پولیس کی طرف سے گرفتاریاں بھی شروع کی گئی ، لاٹھی چارج بھی ہوتا رہا آنسو گیس کا بے دریغ استعمال کیا گیا ٹرکوں اور کنٹینروں میں فدایان ختم نبوت کو پکڑ پکڑ کر جیل پہنچا دئے گئے حکومت وقت نے تحریک کو کچلنے کی بھر پور کوشش کی طرح طرح کے حربے آزمائے گئے لیکن سب ناکام ہوگئے اور عاشقان ختم نبوت کا جزبہ روز بروز بڑھتا جارہا تھا۔ 

بالآخر تحریک کے دباؤ میں آکر وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار بھٹو نے 13 جون 1974 کو مسئلہ قومی اسمبلی میں حل کرنے کا اعلان کیا اور پھر 30 جون کو قومی اسمبلی میں ایک متفقہ قرار داد پیش کی گئی جس پر غور اور فکر اور فیصلہ کیلئے پوری قومی اسمبلی کو خصوصی کمیٹی کی حیثیت دے دی گئی۔

قومی اسمبلی میں بحث سے پہلے قادیانیوں کے سربراہ نے وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو کے نام خط لکھ دیا جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ جب ہمارے خلاف فیصلہ کرنے کیلئے قومی اسمبلی میں بحث ہو رہی ہے تو ہمیں بھی اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیا جانے وزیر اعظم نے اپوزیشن لیڈر مولانا معنی محمود رحمہ اللہ کی اجازت کے بعد قادیانیوں کے دونوں گروہوں کو اسمبلی میں طلب کیا۔ اور ان کے موقف سنا گیا اور ان پر جرح کی گئی۔ 

اللہ رب العزت نے ان کے علاج کیلیے فرزند دیوبند مفتی محمود رحمہ اللہ کو پیدا کیا تھا جنہوں نے اپنی سیاسی بصیرت ،علمی اور فقہی دلائیل سے مرزا ناصر کو چاروں شانے چت کیا۔ اس مسئلہ پر قومی اسمبلی میں ڈھائی ماہ میں 28 اجلاس بلائے گئے اور مجموعی طور پر قریباً 96 گھنٹے نشستیں ہوگئی جس میں 5 اگست سے 23 اگست 1974 تک وقفوں کے ساتھ 11 دن تک مرزا ناصر محمود پر  نیشنل اسمبلی میں جرح ہوئی پھر 27 ، 28 اگست 1974 کو لاہوری گروپ پر قومی اسمبلی میں جرح ہوئی۔

24 اگست کو وزیراعظم ذوالفقار بھٹو نےسات ستمبر کو فیصلے کا دن مقرر کیا۔ 5، 6 ستمبر کو اٹارنی جنرل یحی بختیار معانی نے قومی اسمبلی میں مرزائیوں پر کی گئی جرح کا خلاصہ پیش کیا۔ اس حوالے سے قومی اسمبلی میں مجموعی طور پر 6 بل پیش کے گئے تھے ، لیکن فیصلہ سے ایک دن پہلے حکومت نے اپوزیشن لیڈر مولانا مفتی محمود سے مشاورت کیا۔ جس میں طے پایا گیا کہ فیصلہ چھ بلوں میں سے کسی ایک پر ہوگا جس پر ہوگا باقی پانچ والوں کیطرف سے اعتراض ہوسکتا ہے، ہماری تجویز ہے کہ کہ ایک نیا بل تیار کیاجائے جو کسی ایک فرد یا پارٹی کے بجائے پورے ہاؤس کیطرف سے قومی اسمبلی میں پیش کیاجائے اور اپوزیشن لیڈر مفتی محمود رحمہ اللہ اس کی تائید کریں۔

، 7 ستمبر کو سپیکر قومی اسمبلی صاحبزادہ فاروق علی جان علی جان نے قومی اسمبلی کے اس تاریخ ساز اجلاس کا آغاز کیا۔ سپیکر صاحب نے وزیر قانون عبد الحفیظ پیر زادہ سے بل پیش کرنے کو کہا۔ وزیر قانون عبد الحفیظ پیرزادہ نے بل پیش کیا اور اس کے بعد سپیکر نے مفتی محمود رحمہ اللہ سے بل کی تائید کرنے کا مطالبہ کیا مفتی محمود رحمہ اللہ نے م بل کی تائید کی اس کے بعد سپیکر قومی اسمبلی نے بل پر ووٹنگ کرائی جو کہ ہاؤس کے تمام 130 ممبر ان نے حمایت میں ہاتھ کھڑے کئے اور کوئی ہاتھ مخالفت میں کھڑا نہیں ہوا اور یوں قادیانیت کو قانونی ہو اور سرکاری طور پر کا فر ڈکلیئر کیا کیا گیا جس کے نتیجے میں آئیں پاکستان کی دفعہ 106 میں قادیانی و لاہوری ہر دو گروہوں غیر مسلم اقلیت کی فہرست میں شامل کیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ آئین پاکستان میں آرٹیکل 260 میں ایک شق بی کا اضافہ کیا گیا۔ جس میں مسلمان کی درجہ ذیل تعریف لکھی گئی۔

"A person who does not believe in the absolute and unqualified finality of the prophethood of Muhammad (peace. be upon him), the last of the prophets of claims to be of the word or a prophet in any Sense of any description whatsoeven. Muhammad (peace be upon him after recognizes such a claimant as a prophet or religious for the purposes of The Constitution or law"

سات ستمبر 1974 کے شام پانچ بجکر 52 منٹ پر بل منظور کیا گیا۔

سات ستمبر ہی کو ساڑھے سات بجے سینیٹ کا اجلاس ہوا۔ اور وزیر کانوں نے وہاں بھی قومی اسمبلی سے منظور شدہ بل وہاں پیش کیا اور وہاں بھی اتفاق رائے سے منتقل ہوا اور بالاخر وہی لمحہ آیا جس کا سب کو انتظار تھا۔ سات ستمبر 1974 رات 8:00 بجے ریڈیو پاکستان امت مسلمہ کے اس عظیم فتح کی خبر نشر کی گئی۔ نیشنل اسمبلی آف پاکستان اور سینیٹ آف پاکستان نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا اس حوالے سے سات ستمبر کو یوم الفتح کہتے ہیں۔

اس تحریک میں مرکزی کردار مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ، مولانا سید یوسف بنوری رحمہ اللہ، شیخ عبد الحق حقانی، مولانا غلام غوث ہزاروی رحمہ اللہ، مولانا تاج محمود، مولانا شاہ احمد نورانی ، پروفیسر غفور احمد نے ادا کیا تھا۔

خدا ہر اس شخص اور کردار پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے جس نے عقیدہ ختم نبوت کے لیے معمولی کردار بھی ادا کیا ہو۔۔۔۔۔۔

حافظ یحی احمد

ممبر ٹیم جے یوآئی سوات



0/Post a Comment/Comments