مینار پاکستان پر ختم نبوت گولڈن جوبلی کانفرنس کا آنکھوں دیکھا حال۔ حافظ مومن خان عثمانی

مینار پاکستان پر ختم نبوت گولڈن جوبلی کانفرنس کا آنکھوں دیکھا حال 

حافظ مومن خان عثمانی

7 ستمبر کو مینار پاکستان لاہور کے وسیع عریض میدان میں پچاس سالہ گولڈن جوبلی کانفرنس بڑے جوش وجذبے کے ساتھ منعقد ہوئی، یہ تاریخی کانفرنس تھی جس نے واقعی تاریخ رقم کرڈالی، تحصیل اوگی میں گزشتہ چھ سال جمعیت علماء اسلام جمود کا شکار تھی ابھی حالیہ جماعتی الیکشن میں قاری صدیق احمد اور حاجی عبدالرزاق گل اور ان کی ٹیم کی صورت میں ایک متحرک اور فعال جماعت وجود میں آئی جس نے ختم نبوت گولڈن جوبلی کانفرنس میں بھرپور شرکت کرنے کا فیصلہ کیا، مہنگائی اور بے روزگاری کے شدید مسائل کے باوجود دو تین دنوں کی تیاری کے نتیجہ میں اچھا خاصا قافلہ تیار ہوا، جمعہ کے دن عشاء کے وقت جب ہم اوگی سے نکلے تو آسمان پر بادل استقبال کے لئے موجود تھے جو اپنی گرج چمک سے مسلسل سفر کو خوشگوار بناتے رہے، راولپنڈی سے موسلادھار بارش اور تیز ہواؤں نے سلامی دینا شروع کی اور پھر زوردار بارش کایہ سلسلہ ہمارے ساتھ آخر تک شریک سفر رہا،مینار پاکستان تک بارش کی جل تھل نے ہمارے ساتھ چند لمحات کے لئے بھی بے وفائی نہیں کی،بادامی باغ پہنچ کر بارش نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا جس پر ہمیں بھی خوشی کا سانس لینا پڑا، بادامی باغ اور اس کے اردگرد تلاش بسیار کے باوجود ہمیں کسی ہوٹل میں آرام کے لئے جگہ نہ ملی، وہاں سے ہم ریلوے اسٹیشن چلے گئے، وہاں ہوٹلوں میں آرام کرنے کے لئے جگہ تلاش کرتے کرتے ہم آسڑیلیا مسجد پہنچ گئے جہاں 1993ء سے 1998ء تک تبلیغی جماعت کے ساتھ اسفار میں اکثر ہمارا سٹے ہوتا تھا 26سال بعد آسڑیلیا مسجد میں جانا نصیب ہوا، تھوڑی دیر سستانے کے بعد مینار پاکستان پہنچے،مینار پاکستان میں قافلوں کی آمد جاری تھی، میں ایک ضروری کام کے لئے اردوبازار گیا واپسی پر جب گیٹ نمبر 5 کے قریب پہنچا تو عوام کاایک جم غفیر گیٹ کے چاروں طرف اُمڈ آیا تھا اور اندر جانے کی کوشش میں تھا، مینار پاکستان میں داخل ہونے کا یہی ایک راستہ تھا اس لئے دل پر پتھر رکھ کرمیں بھی موت اس کنویں میں کودپڑا، وقت کے ضیاع کے ساتھ ساتھ جس مشکل، پریشانی اوردھکم پیل کے ساتھ اندرداخل ہوا اس کاسامنا مجھے زندگی میں پہلی بار ہوا،جب موت کے کنویں سے صحیح سلامت اندر پہنچا تو مغرب کا وقت قریب تھا اس لئے سیدھا بادشاہی مسجد پہنچا تاکہ سکون سے مغرب کی نماز ادا کرسکوں، نماز کی ادائیگی کے بعد بادشاہی مسجد کے خطیب مولانا عبد الخیر آزادنے اعلان کیا کہ تمام لوگ جلسہ گاہ میں پہنچ کر اکابرین کی تقاریر سے مستفید ہوں، وہاں سے مینار پاکستان کے سبزہ زار میں داخل ہوا اور بڑی مشکل سے مغرب کی طرف آخری گوشہ میں بیٹھنے کی جگہ تلاش کرنے میں کامیاب ہوگیا قافلہ تو پہلے ہی بکھر چکاتھا، مقررین کی پرجوش تقاریر کے ساتھ قافلوں کی آمد کا سلسلہ بڑی تیزی کے ساتھ جاری تھا،مغرب کی نماز کے ساتھ ہی مینار پاکستان کاوسیع وعریض میدان مکمل بھر چکا تھا، بہت سے لوگوں کے لئے بیٹھنے کی جگہ نہیں تھی اطراف میں ہزاروں لوگ کھڑے ہوکر تقاریر سنتے رہے،دلچسپ بات یہ تھی کہ پورے جلسہ گاہ میں سوائے سٹیج کے کوئی ایک کرسی بھی نہیں تھی تمام شرکاء زمین پر بیٹھے ہوئے ختم نبوت اور صاحب ختم نبوت ﷺ سے اپنی وفاداری اور عقیدت ومحبت کا ثبوت پیش کررہے تھے،مینار پاکستان میں تو پہلے سے ہی تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی مگر قافلوں کی آمد کاسلسلہ جاری تھا مینار پاکستان سے باہر آٹھ دس کلومیٹر تک چاروں طرف لاہور کی گلی کوچے تنگئی داماں کی شکایت کرتے رہے،بہت سارے لوگ دور دور گاڑیوں میں پھنس کر پیدل مینار پاکستان کی طرف بڑھنے لگے،مگر کیسے بڑھتے آگے انسانوں کا سمندر پہلے سے موجود تھا، جس کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کی جلسہ گاہ تک رسائی ممکن ہی نہ ہوئی، راقم الحروف 1986ء سے مینار پاکستان پر ہونے والے جلسوں میں شریک ہوتا رہاہے، جن میں جمعیت علماء اسلام کے علاوہ متحدہ مجلس عمل اور پی ڈی ایم کے جلسے بھی شامل ہیں مگر جو منظر اس دفعہ دیکھنے کو ملا پہلے کبھی وہم وخیال میں بھی نہیں آیاتھا،مینار پاکستان نے بھی یہ منظر پہلی دفعہ دیکھا کہ اس کی تمام تروسعتیں اور کشادگیاں ایسی تنگ پڑگئیں کہ قدم بڑھانے کے لئے بھی کوئی گنجائش نہیں دکھائی دی،یہ ایک تاریخی جلسہ تھا جس میں میری طرح لوگوں نے اس لئے شرکت ضروری سمجھی کہ 1973ء کا تاریخی منظر ہم نے نہیں دیکھا،یہ ختم نبوت کے حوالے سے ہماری زندگی پہلا تاریخی منظر تھا جس میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ وفاداری،عشق ومحبت اور ختم نبوت کی تحریک کی کامیابی کے پچاس سالہ یوم الفتح اور یوم تشکر کے موقع پر اپنے ایمانی جذبات کا اظہار کرنا تھا، بانئی تحریک ختم نبوت امام المحدثین حضرت علامہ انورشاہ کشمیری، امیر شریعت حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری، رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی،حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی، امام الاولیاء مولانا احمد علی لاہوری، خطیب پاکستان قاضی احسان احمد شجاع آبادی، مجاہد ملت مولانا محمد علی جالندھری، فاتح قادیان مولانا محمد حیات، مناظر اسلام مولانالال حسین اختر، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری، مفکر اسلام مولانامفتی محمود، مجاہد ملت مولانا غلام غوث ہزاروی، شیخ الحدیث مولانا عبدالحق، شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان، مولانا ابوالحسنات، مولانا شاہ احمدنورانی، پروفیسر غفور احمد، شورش کاشمیری، مولانا خواجہ خان محمد، ذوالفقار علی بھٹو اور ان جیسے بے شمار مجاہدین ختم نبوت کے قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا جاسکے اور ان کے متبرک قافلے میں اپنے آپ کو شمار کیا جاسکے، ایسے تاریخی مواقع کبھی کبھی آتے ہیں جن سے محرومیت سالہاسال تک انسان کے ضمیر کو شرمندہ کرتی ہے اور اس غفلت و کوتاہی پر اس کو ہمیشہ جھنجھوڑتی رہتی ہے، اس قسم کے تاریخی مواقع میں شرکت آدمی کو تاریخ کیساتھ وابستہ رکھتی ہے، بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ دینی شعائر اور خصوصاً تحفظ ختم نبوت اور ناموس رسالت کے لئے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اور جمعیت علماء اسلام کی مشترکہ کاوشوں کی ایک طویل اور شاندار تاریخ ہے، امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری، امام الاولیاء حضرت مولانا احمد علی لاہوری سے لے کر حضرت مولانا حافظ ناصر الدین خاکوانی، شاہین ختم نبوت حضرت مولانا اللہ وسایا اور قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن تک تمام قیادت یک جان رہی ہے اور امید ہے کہ آئندہ بھی یہ تعلق اسی طرح برقرار رہے گا، گولڈن جوبلی کانفرنس میں جن علماء کرام اور عمائدین نے خطاب کیا ان میں کچھ مشہور اور موثر ناموں میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مبلغ قاضی احسان احمد،مفتی فضل غفور،مولانا فضل علی حقانی، صاحبزادہ مولانا احمد یوسف بنوری، سابق صوبائی وزیر حافظ حسین احمد شرودی، ڈاکٹر نصیرالدین سواتی، مولانا توصف احمد، حاجی جلیل جان، مولانا صفی اللہ، مولانا امتیاز احمد عباسی، قاری محمد عثمان، مولاناناصرمحمود سومرو، ایم پی اے مولانا الیاس چنیوٹی، ڈاکٹر عتیق الرحمن، مولانا امجد خان، مولانا عبدالغفور حیدری، مفتی شہاب الدین پوپلزئی، قاری اکرام الحق، مولانا عبدالخبیر آزاد، ڈاکٹر ضیاء الرحمن، مفتی اسعد محمود، مولانا سعید یوسف، قاضی ظہور حسین، مولانا منظور احمد مینگل، جامعہ اشرفیہ کے مہتمم حضرت مولانا فضل الرحیم، نواسہ امیر شریعت حضرت مولانا سید کفیل شاہ بخاری شامل تھے، بریلوی مکتبہ فکر کی نمائندگی سابق ایم این اے مولانا ابوالخیر محمد زبیر اور اہل حدیث مکتبہ فکر کی نمائندگی پروفیسر ساجد میر، علامہ ابتسام الہٰی ظہیر اور علامہ ضیاء اللہ شاہ بخاری نے کی، ضیاء اللہ شاہ بخاری نے ختم نبوت کے مسئلے پر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے اکابرین اور سیاسی میدان میں شعائر اسلام کے تحفظ کے لئے جس طرح کھل کر قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا یہ ان کی وسعت ظرفی کا واضح ثبوت ہے، جماعت اسلامی کی نمائندگی جناب لیاقت بلوچ نے کی جبکہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی حمیدگل مرحوم کے بیٹے جناب عبداللہ گل نے اپنے خطاب میں کہا ”مجھے پہلے مولانا فضل الرحمن سے محبت تھی اور اب عشق ہوگیا آئی لویو مولانا“ مولانا شاہد عمران عارفی، قاسم گجر، مولانا فضل امین شاہ، سید سلمان گیلانی اور دیگر نے نعتوں اور نظموں سے اس فقید المثال اجتماع کے شرکاء کے جوش وجذبے کو خوب گرمایا، مولانا عزیز الرحمن ثانی، قاضی احسان احمد، مولانا راشد محمود سومرو اور حافظ نصیر احمد احرار نے سٹیج سیکرٹری کے فرائض انجام دئے، سٹیج پر جلوہ افروز علماء و اکابر میں حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی، شیخ المشائخ مفتی محمد حسن، مولانا اللہ وسایا، خواجہ عزیزاحمد، خواجہ خلیل احمد، مفتی کفایت اللہ، مولانا محمود میاں، مولانا عبدالواسع، مولانا عطاء الرحمن، مولانا عبد القیوم  ہالیجوی، مولانا عطاء الحق درویش اور مولانالطف الرحمن کے علاوہ بہت سارے علماء ومشائخ جلوہ افروز تھے، میں چونکہ سٹیج سے بہت دور آخری کونے میں بیٹھا ہوا تھا وہی نام لکھے جن کے بارہ میں سنا اگر کسی بزرگ کانام رہ گیا ہو تواس کو تعصب کے زمرے میں شمارنہ کیاجائے۔

قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن نے اپنے کلیدی خطاب میں قومی اور بین الاقوامی ایشوز پر کھل کر گفتگو کی، آپ نے اپنے خطاب میں قادیانیت کی سازشوں اور ان کے مستقبل کے بارہ میں کہاکہ آج کے اس اجتماع نے قادیانیت کی کمر توڑ کر رکھ دی اب ان کونہ امریکہ سیدھا کھڑا کرسکتا ہے نہ اسرائیل ان کی کمر سیدھی کرسکتا ہے، فلسطینی مسلمانوں کی مظلومیت کاتذکرہ کرتے ہوئے مولانا صاحب نے کہا جہاں پوری اسلامی دنیا اور یورپ میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے گانے بج رہے تھے آج چھ سات مہینوں میں پچاس ہزار شہداء کی قربانیوں کے نتیجے میں اب کوئی اسلامی ملک اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا،امریکہ کی دہشت گردی پر گفتگو کرتے ہوئے مولانا صاحب نے کہاکہ امریکہ انسانی حقوق کا قاتل تو ہوسکتا ہے انسانی حقوق کا علمبردار نہیں ہوسکتا،سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پر آپ نے چیف جسٹس کو خبردار کیا کہ اس کیس کا تفصیلی فیصلہ جلد آنا چاہئے اور مختصر فیصلے کے مطابق آنا چاہئے تفصیلی فیصلہ دیتے ہوئے علماء کرام کی رائے نظر انداز کرکے سابقہ غلطی کو نہ دہرائیں، آپ نے ملک کے اصل حکمرانوں یعنی اسٹبلشمنٹ کو پیغام دیا کہ اب تمہاری اسمبلیوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے اب اگر اہمیت ہے تو اس عوامی اسمبلی کی اہمیت ہے اب فیصلے یہاں پرہوں گے، قوانین یہاں پاس ہوں گے،قراردادیں یہاں منظور ہوں گی اگر تم نے امریکہ کی غلامی میں پاکستان کے مفاد کو نظر انداز کیا تو یہ سیلاب اور طوفان تمہیں تنکے کی طرح بہا کرلے جائے گا، قائد جمعیت کا خطاب انتہائی پر مغز اور فکر انگیز خطاب تھا جس کی گن گرج سے مینار پاکستان کے علاوہ بادشاہی مسجد کے چاروں مینار جھوم رہے تھے، آج سے سو سال پہلے امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد نے جمعیت علماء ہندکے تیسرے سالانہ اجلاس کے دوران بادشاہی مسجد میں جمعہ کا خطبہ دیاتھا اور اپنی گرجدار آواز میں انگریز اور اس کے نظام سے بغاوت کا جرات مندانہ اعلان کیا تھا آج اسی بادشاہی مسجد کے میناروں کے سائے تلے قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن اپنی گرجدار آواز میں انگریز کی باقیات کو للکار رہے تھے اور اس فرسودہ نظام سے بغاوت کا اعلان کرہے تھے، مولانا صاحب نے ببانگ دہل حکمرانوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ ”سنو! تم میرے مدرسے کی ایک اینٹ گراؤ گے تو میں تمہارے اقتدار کی پوری عمارت کوزمین بوس کردوں گا“ قائد جمعیت نے حکمرانوں کو سودی نظام ختم کرنے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ہماری اگلی تحریک سودی نظام کے خلاف ہوگی، قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن کا یہ تاریخی خطاب رات پونے ایک بجے ختم ہوا، اس کے بعد عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی امیر حضرت مولانا حافظ ناصر الدین خان خاکوانی کی مختصر دعا پر پچاس سالہ گولڈن جوبلی کانفرنس اختتام پذیر ہوئی، اس تاریخی اجتماع میں چند بزرگوں کی کمی شدت سے محسوس کی گئی،شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صدر وفاق المدارس العربیہ،مفکر اسلام شیخ الحدیث حضرت مولانا زاہد الراشدی، علامہ اویس نورانی، شاہین جمعیت محافظ ختم نبوت سابق سینیٹر حافظ حمداللہ کے خطابات سے اس کانفرنس کو مزید چار چاند لگ جاتے، مگر شیخ الحدیث مولانا زاہد الراشدی مدظلہ کے بارہ میں تو وہیں ان کے نائب خطیب، استاذ حدیث جامعہ نصرۃ العلوم برادرم مولانا فضل ہادی کی زبانی معلوم ہوا کہ حضرت طبیعت کی ناسازی اور ضعف کی وجہ تشریف نہیں لائے اور انہوں نے شرکت سے معذرت کردی تھی، شیخ الاسلام صاحب کی عدم شرکت کی بھی یہی وجوہات تھیں، حافظ حمداللہ کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ جلسہ گاہ میں لیٹ پہنچے تھے جس کی وجہ سے ان کا خطاب نہ ہوسکا البتہ علامہ شاہ اویس نورانی دعوت کے باوجود کیوں حاضر نہ ہوسکے اس کے بارے میں کوئی معلومات نہ ہوسکیں، ان کی حاضری اس لئے ضروری تھی کہ ان کے والد گرامی علامہ شاہ احمد نورانی کا 1974ء کی تحریک ختم نبوت میں کلیدی کردار تھا، البتہ اسیر ختم نبوت مفتی کفایت اللہ جو شروع سے آخر تک سٹیج پر موجود تھے مگر اس کے باوجود ان کو خطاب کاموقع شاید سٹیج پر براجمان کچھ لوگوں کی وجہ سے نہ دیا جاسکا جو انتہائی افسوسناک ہے، ایک چیز جو شرکاء کانفرنس کے لئے اذیت، پریشانی اور مصیبت کاسبب بنی وہ گیٹ نمبر پانچ کی دھکم پیل تھی لاکھوں لوگوں کے لئے صرف ایک ہی گیٹ سے داخل ہونا بہت ہی مضحکہ خیز بات تھی جس کی وجہ سے کئی معمر، ضعیف اور کمزر حضرات بے ہوش ہوئے۔


 

0/Post a Comment/Comments