حافظ مومن خان عثمانی
ہمارے ملک کی سیاست بھی عجیب ہے یہاں سیاست کی نرسری میں وہی پودا پھلتا پھولتا ہے جس کے پیچھے خفیہ ہاتھ ہوں، وہ خفیہ طاقت جب چاہتی ہے جس کو چاہتی ہے ملک کے مقبول ترین لیڈر کے طور پر سامنے لاکھڑا کر دیتی ہے، اس کے لئے عجیب وغریب نخرے بھی ایجاد کر دیتی ہے، جس کوکوئی گھاس ڈالنے کے لئے تیار نہ ہو وہ کچھ ہی عرصہ میں مقبولیت کی بلندترین سطح پر پہنچ جاتا ہے، ماضی قریب میں اس کی واضح مثال عمران خان کی صورت میں ہمارے سامنے ہے کہ 22 سال تک وہ تانگہ پارٹی سے آگے نہ بڑھ سکا مگر جب خفیہ ہاتھ اس کے ساتھ مل گئے اور اس کو گود لیا تو چند مہینوں میں اسے ملک کا مقبول ترین لیڈر بنا دیا گیا، الیکٹرانک میڈیا اس کی ایک ایک ادا کو عوام کے سامنے پیش کرتا رہا، کپڑوں کا رنگ، جوتوں کا ڈیزائن، چلنے کا انداز، میک اپ کی نزاکت، بالوں کا سٹائل، جس کی وجہ سے عوام اس پر لٹو ہوتی ہوگئی، خواتین بھرے جلسوں میں ببانگ دہل ”اسے آئی لویو“ کے پیغامات دیتی گئیں، اس طرح اس کی مقبولیت کا گراف روزبروز بڑھتا رہا، اس کو اس قدر بڑھا چڑھا کر پیش کیاگیا کہ اب سے کنٹرول کرنے میں جو دقتیں پیش آرہی ہیں وہ سب کے سامنے ہیں، لیکن کچھ سیاست دان اس ملک میں ایسے بھی ہیں جوان بیساکیوں کے بغیر اپنی جدوجہد، ذہانت، کارکردگی، کردار، جرات وبہادری، معاملہ فہمی، دوراندیشی اور عوامی طاقت پر اپنی سیاسی بصیرت کا لوہا منوا لیتے ہیں، خفیہ طاقتیں اگرچہ ان کے پر کاٹنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتی، ان کو جھوٹے الزامات کے ذریعے مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے، نت نئے بہتانوں کے ذریعے ان کی شخصیت کو داغدار کرنے کے حربے استعمال کئے جاتے ہیں، ان کو اپنے دربار میں جھکانے کے لئے گھٹیا سے گھٹیا قسم کے ہتھکنڈے بھی آزمائے جاتے ہیں، لیکن کردار کے مالک صاحب بصیرت لوگ ان خاردار جھاڑیوں سے مکمل طریقے پر آپنے آپ کو بچاتے ہوئے اپنا سیاسی سفر جاری رکھتے ہیں اور نہ صرف جاری رکھتے ہیں بلکہ ترقی کی سیڑھیوں پر چڑھ کر مخالفین کو اپنا شیدائی بنادیتے ہیں، ماضی میں ہم نے ایسی شخصیت نوابزادہ نصرا للہ خان کی صورت میں دیکھی تھی جن کے پاس صرف اپنی ایک سیٹ کے علاوہ کوئی بھیڑ نہیں ہوا کرتی تھی لیکن کردار کی عظمت نے انہیں بلندی کی اس سطح پر پہنچایا تھا کہ ملک کی تمام سیاست ان کی مٹھی میں ہوتی تھی، آج بھی ان کے کردار کو سراہا جاتا ہے، موجودہ دور میں نوابزادہ نصر اللہ خان کا نعم البدل قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن کی صورت میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں، 2008ء کے الیکشن سے لے کر 2024ء کے الیکشن تک مسلسل چار دفعہ عام انتخابات میں بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ اور عالمی قوتوں کو خوش کرنے کئے مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت جمعیت علماء اسلام کو پس منظر کی طرف دھکیلا گیا، ان کی قومی اور صوبائی سیٹیں محدود کی گئیں، قومی اور بین الاقوامی سطح پر یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ پاکستانی عوام نے مذہبی لوگوں کی سیاست کو مسترد کردیا ہے، علماء کا ملکی سیاست میں کردار بہت ہی محدود ہے، لوگ علماء اور دینی جماعتوں کو اسمبلیوں میں نہیں بھیجنا چاہتے، لیکن مولانا فضل الرحمن مسلسل عوامی رابطہ میں رہے اور انہوں نے عوامی میدان میں ثابت کیا کہ جمعیت علماء اسلام کی قوت اتنی کمزور نہیں جتنا حصہ اس کو الیکشن میں دیاجاتا ہے، 8 فروری 2024 ء کے الیکشن میں تو اسٹبلشمنٹ نے جمعیت علماء اسلام کو بالکل دیوار سے لگانے کی مذموم کوشش کی تھی مگر الیکشن کے بعد قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن نے ایوان نہیں میدان کانعرہ لگایا اور عوام میں نکلے، پشین، کراچی، پشاور اور مظفر گڑھ کے میدانوں میں عوامی اسمبلی کے لاکھوں شرکاء نے مولانا فضل الرحمن پر جس طرح اعتماد کا اظہار کیا اس سے خفیہ قوتوں کے چودہ طبق روشن ہوگئے اور انہیں معلوم ہوگیا کہ مولانا فضل الرحمن اس طرح اوچھے ہتھکنڈوں سے مرعوب ہونے والے نہیں، نہ وہ اسٹبلشمنٹ کے سامنے جھکیں گے اور نہ ہی اس کی سازشوں کے سامنے ہتھیار ڈال کر گوشہ نشینی اختیار کریں گے، نہ ہی ان کے ہاتھ پر بیعت کریں گے، گزشتہ دنوں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی طرف سے مولانا فضل الرحمن کے در پر باربار جبہ سائی اسی لئے جاری رہی کہ دونوں نے مولانا صاحب کی سیاست کو ختم کرنے کے لئے زور لگا کر دیکھ لیا مگر مولاناکی سیاست باوجود اسمبلیوں میں کم حجم کے مسلسل بڑھ رہی ہے، 7 ستمبر کو مینار پاکستان میں ہونے والے تاریخی ختم نبوت کانفرنس نے تو دنیا کو دکھا دیا کہ مولانا فضل الرحمن اگر اپنے ابابیلوں کو حکم دیں تو وہ چندگھنٹوں کی کال پر ملک کے کسی کونے میں بھی پہنچ سکتے ہیں، مولانا صاحب کے موقف میں وہ طاقت ہے جو ہمارے ملک کے ایٹم بم اور اس کی رکھوالی کرنے والوں میں بھی نہیں، اس لئے تو وزیر داخلہ محسن نقوی بار بار مولانا کے در پر حاضریاں لگوا کر اس قوت کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے بے چین ہیں، نقوی صاحب کی پشت پناہی کرنے والوں کی بھی سب سے بڑی آرزو اور تمنا ہے کہ مولانا ان کی صف میں شامل ہوجائیں، عوامی طاقت رکھنے والا سب بڑا سیاست دان ان کا ہمنوا بن جائے، ان کے تمام نمائندے یکے بعد دیگرے مولانا فضل الرحمن کے گھر رال ٹپکاٹپکا کر حاضر ہوتے رہے، کسی نے پرانی دوستی کا واسطہ دیا تو کسی نے سابقہ اتحاد کا حوالہ دیا، کسی نے باپ کے تعلقات کی کہانیاں سنائی توکسی نے دست شفقت بڑھانے کی استدعا کی، دوسری طرف تحریک انصاف والے تو اس طرح نیازمندی کے ساتھ چکر لگالگا کر جھک جھک کر ملتے رہے ان کی عاجزانہ اور نیازمندانہ ملاقاتوں سے ایسا لگ رہاہے جیساکہ یہ تمام کے تمام بچپن سے مولانا کے پکے مرید رہ چکے ہوں، قیدی نمبر 804 کے مریدین تو ان دنوں اپنا آستانہ ہی بھول چکے ہیں، مولانا صاحب کا گھر انہیں اپنا مرشدخانہ لگ رہا ہے وہ تمام جنات جوکسی زمانہ میں ان کو بنی گالہ کے محل میں پیرنی صاحبہ کے ہاں نظر آتے تھے وہ عفریت بابا سمیت انہیں مولانا فضل الرحمن کے گھر نظر آنے لگے ہیں، مفتی ابرار بھی حیران وپریشان ہیں کہ میں تو ساری زندگی خدمت کرکے بھی مولانا صاحب سے اس طرح جھک کرکبھی نہیں ملاجس طرح یہ نئے مریدین آداب بجالاتے ہیں، چاروں طاقتور دستوں نے مولانا صاحب کے گھر کا بار بار طواف کیا، مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور محسن نقوی گروپ نے تو دو تین دن مولانا صاحب سے ملاقات کے لئے نمبر لگا رکھا تھا ایک دوسرے پر نگاہ رکھے ہوئے تھے ایک نکلتا تو دوسرا فوراً پہنچ جاتا وہ مولانا صاحب کو صرف سیاسی رہنما اور مرشد نہیں مانے بلکہ عملی طور پر امام بھی بناگئے، مگر مولانا فضل الرحمن نے کسی ایک کو بھی یہ نہیں کہا میں تمہارے ساتھ ہوں انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہہ دیاہے کہ میں ملک اور اس کے آئین کے ساتھ ہوں، جن ترامیم میں ملک وقوم کی بھلائی ہوگی ان کو تسلیم کروں گا لیکن جن ترامیم سے کسی فرد واحد، کسی پارٹی یاکسی ایک ادارے کا فائدہ ہوگا ان ترامیم کی کسی صورت بھی حمایت نہیں کروں گا، مولانا فضل الرحمن کی بعض باتیں وقت کے ساتھ ساتھ اس طرح سچی ثابت ہوتی ہیں گویا کہ پتھر کی لکیر ہیں، ان کا یہ کلپ بہت زیادہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا ہے ”سیاست سیکھنی ہے تو اس کے لئے ہماری شاگردی اختیار کرنی ہوگی ہماری شاگردی کے بغیر تمہیں سیاست نہیں آئے گی، مولانا صاحب کے گھر بار بار تمام سیاسی پارٹیوں کے چکر کاٹنے سے پتہ چل گیا کہ ان تمام سیاست دانوں کو مولانا کی شاگردی کئے بغیر کچھ ہاتھ نہیں آئے گا، بارہواں کھلاڑی کا طعنہ دینے والے اب یہ مان گئے کہ پچ پر اب ہرطرف مولانا ہی چھائے ہوئے ہیں، صرف پچ پر نہیں بلکہ سیاست کے گراؤنڈ میں اب چاروں طرف مولانا کا مکمل راج ہے، مولانا فضل الرحمن چند سیٹوں کے ساتھ سیاست کے محور اور مرکز بنے ہوئے ہیں، کیونکہ مولانا صاحب نے پاکستان اور آئین پاکستان کو تاریخ کے بدترین کھلواڑ سے بچا کر ملک وقوم پروہ عظیم احسان کیا ہے جس کا بدلہ کئی نسلیں بھی نہیں چکا سکیں گی، کچھ صحافی اب بھی آنکھیں بند کرکے حقائق سے یکسر منہ چھپاکر یہ لکھنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتے کہ مولانا پی ٹی آئی سے کے پی کے میں سینٹ کی دو سیٹیں مانگ رہے ہیں اگر پی ٹی آئی والے یہ مان گئے تو مولانا پی ٹی آئی کا ساتھ دیں گے یا مولانا کے پی کے کی گورنری کا مطالبہ کرچکے ہیں اگر ان کو گورنری مل گئی تو وہ حکومت کا ساتھ دیں گے، اگر مولانا مفادات حاصل کرتے تو اس موقع پر ایک گورنری کیا ان کی ہر بات ماننے کے لئے حکومت تیارتھی، ان کی ہر مراد پوری کی جاسکتی تھی، ان کا ہر مطالبہ مانا جاسکتا تھا، ان کو ہر عہدہ دیا جاسکتا تھا لیکن مولانا صاحب کا دامن ان چیزوں ہمیشہ پاک رہاہے، ان صحافیوں کی صحافت پر ماتم کرنے کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے، مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت نے کبھی عہدوں کی سیاست نہیں بلکہ ہمیشہ اصولوں کی سیاست کی ہے، حق، سچ، آئین، پاکستان، اسلامی اقدار اور عوامی مفاد کا ساتھ دیا ہے، جنرل ضیاء الحق سے لے کر جنرل مشرف تک وزیراعظم اور ڈپٹی وزیر اعظم کے عہدوں کی پیش کش کو لات مارنے والے مولانا فضل الرحمن کیا ایک گورنری یا سینٹ کی دو سیٹوں پر اپنے ضمیر کا سودا کرلیں گے؟ ایں خیال است و محال است و جنوں۔
ایک تبصرہ شائع کریں