منشورجمعیۃ علماء اسلام پاکستان
کل پاکستان جمعیۃ علماء اسلام کے اکابرین ؒ نے 26 ستمبر
1969ء کو جمعیۃ کے منشور کو مرتب کیا ۔ یہ اجلاس 28ستمبر تک جاری رہا ۔ اجلاس میں
مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے اکابرین ، علماء و مشائخ نے شرکت کی ۔ ذمہ
داران مرکزی عمومی نے منشور کو متفقہ طور پر منظور کیا ۔ 25/24 مارچ 1986ء میں کچھ
ترامیم اور اضافے کے لئے حضرت مولانا سید حامد میاں ؒ کی صدارت میں منعقد ہ اجلاس
نے منظوری دی ۔جسے26 مارچ مرکزی عمومی کے اجلاس میں حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب
مدظلہ (بطور ناظم عمومی ) جمعیۃ علماء اسلام نے پیش کیا ۔اسی طرح 13 دسمبر 2007ء
کو جمعیۃ علماء اسلام کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں چاروں صوبوں
کے امراء اور نظماء نے شرکت کی اجلاس میں مرکزی ناظم عمومی حضرت مولانا عبدالغفور
حیدری کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی گئی کہ وہ منشور کے حوالے سے وقت کے
تقاضوں کے مطابق ضروری ترامیم تجویز کریں ۔ کمیٹی سے بعض شقوںمیں رد و بدل تجویز
کیا ۔ ایک بار پھر جمعیۃ علماء اسلام کی مرکزی شوریٰ نے 10جون 2011ء کے اجلاس میں
منظور میں ترامیم یا اضافے کے لئے حضرت مولانا محمد خان شیرانی مدظلہ کی سربراہی
میں ایک کمیٹی قائم کی ۔ کمیٹی میں مولانا محمدیوسف ، مولانا ڈاکٹر خالد محمود
سومرو اور مولانا فضل علی حقانی شامل تھے ۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں منشور کو وقت
کے تمام تقاضوں کے عین مطابق قرار دیا ۔ جمعیۃ کے منشور کو طبع کروانے سے پہلے اس
بات کی کوشش کی گئی کہ اس کے ابتدائیہ میں ملک کو اسلامی ریاست بنانے کے لئے
اکابرینؒ کی کاوشوں کا مختصر ذکر کیا جائے ۔ اس حوالے سے حضرت مولانا محمد عبد
اللہ صاحب ؒ ، حضرت مولانا عبد الغفور حیدری صاحب مدظلہ اور محترم جناب ملک سکندر
خان صاحب مدظلہ ایڈوکیٹ سے وقتاٌ فوقتاٌ مشاورت کی جس سے جمعیۃ کا تاریخی کردار
مختصر الفاظ میں پڑھنے کو ملے گا۔ جمعیۃ علماء اسلام عزم رکھتی ہے وطن عزیز
پاکستان کو حقیقی اسلامی فلاحی ریاست بنانے اور غریب عوام ، کسانوں ، مزدوروں اور
معاشرے کے دیگر طبقات کو اسلام کے عطا کردہ بنیادی حقوق حاصل ہوں ۔منشور آپ کے
سامنے ہے ہمیں امید ہےکہ منشور کے مطالعہ کے بعد دینی اور عوامی حلقے اپنی رائے
اور تجزیہ سے ضرور آگاہ فرمائیں گے ۔ جمعیۃ علما ء اسلام ہر وہ تجویز قبول کرے کی
جو قرآن وسنت اور شریعت مطہرہ کی بنیاد پر دی جائے گی۔
مولانا محمد
امجد خان
مرکزی سیکرٹری اطلاعات جمعیۃ علماء اسلام
پاکستان
اسلام سب سےپہلے عقیدہ توحید جو اساس دین کی تعلیم دیتا
ہے ۔ فرمایا : اے ایمان والو ! اللہ پر ایمان لاؤ جیسا کہ ایمان لانے کا حق ہے ۔
یعنی اکی ذات صفات میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے ۔ اور اس کے رسول ﷺ پر اور قرآن
مجید اور دیگر آسمانی کتابوں پر اور تمام رسولوں پراور آخرت پر ایمان لاؤ اور
زمین میں فساد نہ کرو ۔ پھر قرآن مجید نے انسان کی تخلیق کے مقصد کو بیان فرمایا
کہ جن و انس کی تخلیق کا مقصد عبادت خداوندی ہے ۔ پھر انسان کو بہترین زندگی کے
حصول کی ترغیب میں فرمایا کہ جس نے اعمال صالحہ کئے خواہ وہ مرد ہو یا عورت حال یہ
کہ وہ مومن ہو پس ہم ان کو پاکیزہ زندگی سے نوازیں گے ۔ اللہ تعالیٰ کاآخری کلام
قرآن مجید امانت کو اس کے اہل اور ذمہ داری سے پورا کرنے کا حکم بھی دیتا ہے ۔
فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ اس بات کا حکم دیتے ہیں کہ امانتوں کوان کے اہل (حقدار )
لوگوں کے حوالےکیاجائے پھر رب کائنات مادیت اور دولت کے جائز تصرفات کا حکم دیتے
ہوئے فرماتےہیں اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہارے لئے پیدا کیا جو کچھ زمین میں ہے یعنی
زمین میں جتنے بھی خزانے ہیں وہ سب تمہارے لئے بنائے ہیں لیکن ان کا حصول اور
استعمال منشاء خداوندی کے مطابق ہو ۔
نوع انسانی کے لئے قرآن کا منشور
چنانچہ اس مقصد تخلیق کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب
قرآن مجید میں انسان کے لئے درج ذیل جامع منشور کاذکر فرمایا ہے ۔
وَ الْعَصْرِ ۞ إِنَّ
الْإِنْسَانَ لَفِی خُسْرٍ ۞ إِلاَّ
الَّذِینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَ تَوَا
صَوْا بِالصَّبْرِ۞
)ترجمہ ( زمانہ شہادت دے
رہا ہے کہ انسان ہر اعتبار سے خسارے میں ہے ، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ،
جنہوں نے نیک اعملی اختیار کی جو باہم ایک دوسرے کو حق اختیار کرنے کی تلقین کرتے
رہے اور جو آپس میںایک دوسرے کو صبر پر قائم رہنے کی وصیت کرتے رہے۔
قرآن مجید کا یہ چار نکاتی پروگرام پوری نوع انسانی کی
نجات وفلاح کا ضامن ہے اور اس پروگرام میں انسان کے لئے قیامت تک کے واسطے سامان
ہدایت جمع کر دیا ہے ۔ اسلام انسانوں میں اسی پروگرام کے مطابق انقلاب لانا چاہتا
ہے ۔
پاکستان کاقیام اور اسلام
چونکہ مملکت پاکستان کا قیام ہی اسلام کے نام پر عمل
میں آیا ہے ۔ اس لئے سب سے پہلی ذمہ داری پاکستان کی یہ ہے کہ وہ اپنی حدود میں
مکمل اسلامی نظام قائم کر کے پوری دنیا میں قرآن کے فرمودہ انسانی منشور کےقیام
کی راہ ہموار کرے ۔
جمعیۃ علماء اسلام
چنانچہ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان اس دینی ذمہ داری کی
تکمیل کی غرض سے ابتداء ہی سے جدوجہد کرتی چلی آ رہی ہے ۔
پاکستان کے قیام کا مقصد برصغیر کے مسلمان عوام کو
برطانوی دور کےغیر اسلامی اور ظالمانہ نظام وقوانین سے نجات دلا کر اسلامی نظریا ت
، اسلامی اخوت اور اسلامی مساوات پر مبنی نظام حکومت قائم کرنا اور اسلامی معاشرہ
تعمیر کرنا تھا ۔
اس لئے ضروری ہے کہ پاکستان کانظام حکومت خالص شریعت
اسلامیہ کے احکام پر قائم کیا جائے اور اس کی زمام کار پاکستان کے مسلمان عوام
معتمد ، منتخب اور اہل ترین افراد کے ہاتھ میں ہو ۔ تاکہ پاکستان دنیا میں ایک
مثالی اسلامی مملکت بن سکے ۔چنانچہ اس پاک اور عظیم مقصد کےحصول کےلئے کل پاکستان جمعیۃ
علماء اسلام کے منتخب اراکان مجلس عمومی مؤرخہ 14 رجب 1389ھ بمطابق 27 ستمبر
1969ء بمقام سرگودھا جمع ہوئے ۔
نظام حکومت
پاکستان کو ایک صحیح اور مکمل اسلامی مملکت اور اسلامی
حکومت بنانے کے لئے مندرجہ ذیل امو ر عمل میں لائے جائیں گے ۔
سرکاری مذہب
1) مملکت کا سرکاری مذہب اسلام ہو گا ۔
22 اسلامی
نکات
2) تمام فرقوں کے نمائندہ جید علماء کے مرتب
کردہ 22۔ اسلامی نکات کی روشنی میں ملک کے دستور کو مکمل اسلامی بنایا جائے گا ۔
قرآن وسنت کےقوانین
3) صرف قرآن وسنت کے احکام ہی ملک کے اساسی
قوانین قرار پائیں گے ۔
4) ملک کے دستور اور قانون میں اسلام کے کامل
ومکمل دین ہونے اور محمدرسول اللہ ﷺ کے خاتم النبین ہونے کا دستوری وقانونی تحفظ
کیا جائے گا ۔
5)
خلفاء راشدین اور صحابہ کرام رضوان علیہم اجمعین کے ادوار حکومت وآثار کو
اسلامی نظام حکومت کے جزئیات متعین کرنے کے لئے معیار قرار دیا جائے ۔
کلیدی اسامیاں
6) ملک کی کلیدی اسامیاں غیر مسلموں کے لئے
ممنوع قرار دی جائیں گی ۔
صدر مملکت کے لئے اسلامی شرائط
7)
صدر
مملکت اور وزیر اعظم کا مسلمان مرد ہونا اور پاکستان کی غالب اکثریت اہل سنت کاہم
مسلک ہونا ضروری ہو گا ۔
مسلمان کی تعریف
8)
مسلمان
کی قانونی تعریف یہ ہو گی کہ ” وہ قرآن و حدیث پر ایمان رکھتا ہوئے ان کو صحابہ
کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و اسلاف رحمہم اللہ اجمعین کی تشریحات کی روشنی میں
حجت سمجھے اور سرور کائنات ﷺ کے بعد نہ کسی نبوت کا اور نہ کسی شریعت کا قائل ہو “۔
غیر اسلامی فرقے
9)
جو
فرقے اسلام کے کسی بنیادی عقیدہ ختم نبوت وغیرہ سے انحراف کے مرتکب ہو چکے ہیں
انہیں غیر اسلامی فرقے قرار دیا جائے گا اور آئندہ ا س قسم کے انحراف کو دستور
ممنوع او ر واجب التعزیر قرار دے دیا جائے گا ۔
اسلامی دفعات میں تبدیلی ممنوع
10)
دستور
کی اسلامی دفعات (قرآن و سنت کے اصولوں ) اور مملکت کی اسلامی حثیت میں کسی قسم
کی ترمیم یا تبدیلی کی اجازت نہیں ہو گی ۔
ممانعت
11) اسلام اور اس کے کسی بھی حکم و عقیدہ کے
خلاف کسی قسم کی تنقید و تبلیغ کی نہ تقریری اجازت ہوگی نہ تحریری ۔
عوامی براہ راست نمائندگی کی تصریح
12)
دستور میں مسلمان عوام کی براہ
راست نمائندگی واختیار کو صراحتا” تسلیم کیا جائے گا ۔
اللہ کی حاکمیت اور عوام کا اقتدار
13) دستوریں یہ بات قانونا واضح کر دی جائے گی
کہ ” حاکمیت صرف اللہ رب العالمین کی ہے اور اللہ کی مقرر کردہ حدود کے اندر
پاکستان کے مسلمان عو ام مملکت پاکستان کے اختیارات کے اصل مالک ہوں گے ۔
انتخابی طریق شخصی نہیں جماعتی
14) پاکستان کی مجالس شوریٰ (اسمبلیوں ) وغیرہ
میں نمائندگی کے لئے انتخابات کا نظام شخصی مقابلہ کی بجائے جماعتی مقابلہ پر قائم
کیا جائے گا اور افراد کے بجائے جماعتیں اپنے منشور و پروگرام کی اساس پر انتخابات
میں حصہ لیں گی اور فی صد کامیابی کے تناسب سے مجالس شوریٰ کی رکنیت کی حق دار
بنیں گی اور تشکیل کریں گی ۔
محکمہ احتساب
1)
قرآن
حکیم کے فرمان
الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ
أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآَتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ
وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ ۞
وہ لوگ کہ اگر ہم ان کو زمین پر حکومت عطا
کریں تو وہ نماز قائم کریں گے زکوٰۃ دیں گے نیکی کا حکم کریں گے اور برائی سے
روکیں گے ۔(الخ)
کے تحت ایک ” محکمہ احتساب “قائم کیا جائے گا ۔
)الف ( پابندی
نماز
ملک میں مسلمان عوام سے نماز باجماعت کی پابندی کرائے
گا بلا عذر شرعی قصدا” نماز تر ک کر دینے والوں کو شرعی سزائیں دے گا ۔
)ب( زکوٰۃ
وغیرہ کی وصولی اور خرچ
ہر صاحب نصاب مالدار کے مال سے مقررہ مقدار زکوٰۃ اور
پیداوار میں سے عشر و نصف عشر نکالنے اور اس کو مقررہ مصارف زکوٰۃ میں صرف کرنے ،
نیز صدقات واجبہ حکم شرعی کے مطابق نکالنے اور مستحقین میں تقسیم کرنے کی نگرانی
کرے گا ۔
)ج) شعائر
اسلامی کی پابندی
تمام عبادات ، احکام و شعائر اسلامی کی پابندی کرائے
گا۔
)د( دعوت
تبلیغ کاانتظام اور بندش منکرات
پورے ملک میں حکومتی سطح پر شعبئہ تبلیغ اور دعوت
وارشاد کے تحت تمام احکام شرعیہ کی پابندی اور محرکات و منکرات شرعیہ سے اجتناب کا
اہتمام کرے گا۔
)م(
شرعی سزائیں
زنا ، چوری ، رہزنی اور شراب خوری مسکرات کا استعمال
قابل دست اندازی پولیس اور ناقانل مصالحت جرائم ہوںگے۔ ان پر شرعی سزائیں ، حد زنا
، حد سرقہ ، حدرہزنی اور حد خمر و قذف وغیرہ جاری کرے گا ۔ غیر قانونی درآمد
برآمد ، ذخیرہ اندوزی اور چور بازاری پر شرعی سزائیں نافذ کرے گا ۔
)ز) اسلامی
اخلاق کا تحفظ
قانونی سطح پر ملک سے فحاشی ،عریانی ،بے حیائی اور
ثقافت کے نام پر کئے جانے والے رقص و سرور وغیرہ کی محافل ، نیز
اخبار ات ورسائل اور تجارتی اشتہارات وغیرہ میں شائع
کئے جانے والے مخرب اخلاق فوٹو مواد اور تصاویر کی اشاعت کو قابل سزا جرم قرار دے
گا ۔
نظام تعلیم
1) نظام تعلیم مکمل اسلامی ہو گا ۔
تعلیم کی بنیاد
2)
تعلیم
کی بنیاد اسلام پر اور اسلام کی تاریخ اور مادری زبان کی اساس پر رکھی جائے گی ۔
حصول تعلیم
3) دسویں (میٹرک) جماعت تک تعلیم بلکل مفت ہو
گی۔ اوپر کے درجات میں بھی تعلیم کو سستا اور سہل الحصول کر دیا جائےگا اور بتدریج
دس سال کے اندر تمام درجات میں مفت تعلیم کردینے کی کوشش کی جائےگی ۔
فنی تعلیم
4) فنی اور سائنسی تعلیم کے ادارے بکثرت اور
جگہ جگہ کھولے جائیں گے۔
حصول تعلیم میں رکاوٹ کا خاتمہ
5)
تعلیم
کا دروازہ سب کے لئے یکساں طور پر کھلا رکھا جائے گا اور داخلوں پر کسی قسم کی
رکاوٹ عائد نہیں رہنے دی جائے گی ۔
تعلیم بالغاں
6)
ان
پڑھ بالغاں کی تعلیم کابھی وسیع پیمانہ پر ایسا انتظام کیا جائے گا کہ 5سال کے
اندر کم ازکم ملک کی 4/1 بالغ آبادی بنیادی تعلیم سے بہرور ہو جائےگی اور بیس سال
کے اندر اندر ملک میں کوئی بالغ ان پڑھ نہ رہنے پائے ۔
کسانوں اور مزدوروں کےبچوں کے لئے تعلیم کا انتظام
7) دیہات میں کسان آبادی کی سہولت کے لئے اور
شہروں میں کارخانوں کی مزدور آبادی کی سہولت کے لئے ان کے قریب ہی ثانوی (میٹرک)
معیار تک تعلیم کا مفت انتظام کیا جائے گا ۔؎
غریبوں کے بچوں کے لئے حصول تعلیم کی سہولتیں
8)
غریب
عوام کے بچوں کے لئے خاص سکول ہوں گے ان میںنصاب کی کتابیں ، اسٹیشنری کا سامان
طالب علموں کو مفت دیا جائے گا اور ضروری سہولتیں بہم پہنچائی جائیں گی ۔
غریبوں کے بچوں کے لئے اعلی ٰ تعلیم کا انتظام
9) سکولوں سے کامیاب ہونے والے غریبوں کے بچوں کی
اعلیٰ فنی تعلیم کا مفت انتظام کیا جائے گا۔
اعلی ٰ تعلیمی اداروں کی حثیت
10) اعلیٰ تعلیمی ادارے ادارے بااختیار اور
منتخب انتظامیہ کی نگرانی میں کام کریں گے ۔
پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی حیثیت
11) پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی حوصلہ افزائی کی
جائے گی اور حکومت ان کے انتظامات کی اس طرح نگرانی کرے کہ ان اداروں کی تعلیمی
آزادی اور خودمختاری متاثر نہ ہو نے پائے۔
دینی تعلیمی ادارے
12) دینی مدارس کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے
ان کی ترقی میں زیادہ سے زیادہ مدد دی جائے گی ۔ ان کی اسناد سرکاری درسگاہوں کی
اسناد کے برابر شمار ہوں گی اور ان مدارس کی ہر مشکل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے
گی ۔
نصاب تعلیم میں
13)
نصاب تعلیم میں ابتدائی
درجات سے آخر تک قرآن مجید بامعنی و تفسیر ، سنت رسول ﷺ تاریخ صحابہ و اسلاف اور
ضروری و بنیادی مسائل شرعیہ کو لازما شامل کیا جائے گا ۔
نصاب تعلیم سے خارج
14) نصاب تعلیم میں اسلامی عقائد ، عقیدہ ختم
نبوت اور قرآن و سنت کے خلاف کوئی بات شامل نہیں ہونے دی جائے گی ۔
تعلیم گاہوں میں احترام دینی کا انتظام
15) تعلیم گاہوں میں ارکان دین کی آدائیگی اور
آحترام دین کی پابندی لازمی ہوگی ۔
بیرونی غیر مسلم مشنریز کے ادارے
16)
بیرونی
عیسائیوں مشنوں و دیگر غیر مسلموں کے تعلیمی اداروںمیں سرکاری نصاب پڑھانا لازمی
ہو گا ۔
ملک کی غیر مسلم اقلیت کے تعلیمی ادارے
17) ملکی غیر مسلم اقلیتوں کی اپنی مذہبی تعلیم
کے ادارہ جات کھولنےکا حق ہو گا لیکن ان میں مسلمان بچے بچیوں کا داخلہ ممنوع ہو
گا ۔
اسلامی تعلیم عام تعلیمی اداروں میں
18) عام تعلیمی اداروں میں اسلامی تعلیم لازمی
ہوگی لیکن غیر مسلم اقلیتوں کے بچوں کے لئے لازم نہ ہوگی ۔
مخلوط تعلیم کی ممانعت
19) مخلوط تعلیم کو ممنوع قرار دے دیا جائے گا۔
عورتوں کی تعلیم کاانتظام
20) عورتوں کی تعلیم کے لئے اسلامی اصولوں کے
مطابق الگ انتظام کیا جائے گا ۔
انگریزی زبان کی تعلیم
21)
انگریزی
زبان کی تعلیم کو اختیاری مضمون کی حثیت میںرکھا جائے گا۔
عربی زبان کی تعلیم
22) عربی زبان کو تعلیمی اداروں میں لازمی زبان
کا مقام حاصل ہو گا ۔
علاقائی زبانیں
23)
علاقائی زبانوں کو ترقی
دی جائے گی ۔
فنی وغیر فنی تعلیمی اداروں میں اضافہ و وسعت
24)
ملک
میں تعلیمی ادارے ، اعلیٰ تعلیم کے ادارے ، فنی وسائنسی تعلیم کے ادارے ، زرعی و
صنعتی تعلیم کے ادارے جگہ جگہ اور وسیع پیمانے پر کھولے جائیں گے اور ان کی حوصلہ
افزائی اور سرپر ستی کی جائے گی۔
داخلہ کی پابندی ختم
25)
تعلیمی اداروں میں داخلہ
اہلیت کی بنیاد پر ہو گا اور ان میں مقامی لوگوں کو شہری اور دیہی آبادی کے تناسب
سے نمائندگی دی جائے گی ۔
ذریعہ تعلیم
26) ملکی سطح پر ذریعہ تعلیم اردو ہوگا ۔
حفظان صحت اور علاج کا وسیع انتظام
1) ملک میں اعلیٰ پیمانہ پر حفظان صحت اور علاج
کا ایک وسیع ترین ادارہ تشکیل دیا جائے گا جس کے منصوبہ میں دیہات کی کسان
آبادیوں اور کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں اور شہر کے غریبوں کا خاص خیال
رکھا جائے گا ۔
جگہ جگہ علاج کے مراکز
2)
ہر
علاقہ میں مناسب طبی امداد کے مراکز ، زچہ خانے اور صفائی کا باقاعدہ انتظام کیا
جائے گا ۔
معالجین کا تعین
3)
ان
مراکز میں مستند و ماہر معالج متعین کئے جائیں گے ۔
علاج کی سہولتیں بلامعاوضہ
4) علاج کی تمام سہولتیں بلا معاوضہ مہیا کی
جائیں گی ۔
بڑے ہسپتالوں کا قیام
5) پر تحصیل میں ایک بڑا ہسپتال قائم کیا جائے گا
جس میں تشخیص و علاج کا جدید انتظام ہو گا اور غریب عوام کو علاج کی خصوصی سہولتیں
وہاں حاصل ہوں گی ۔ ہر یونین کونسل کی سطح پر ایک ہیلتھ سینٹر قائم کیا جائے گا جس
میں زچہ و بچہ کے لئے خصوصی اہتمام ہو گا ۔ تمام ہسپتالوں میں مردوں کے لئےمردانہ
اور عورتوں کے لئے زنانہ سٹاف مہیا کیا جائے گا۔
نرسنگ کالجوں کا قیام
6)
ہر
ضلع میں کم از کم ایک نرسنگ کالج قائم کیا جائے گا ۔ جس میں مڈوائفری ، ابتدائی
طبی امداد اور نرسنگ کی تعلیم و تربیت کا مکمل انتظام ہو گا تاکہ ان کالجوں سے
تربیت یافتہ افراد اپنے قریبی علاقہ میںرہ کر عوام کی زیادہ سے زیادہ علاج ومعالجہ
کی خدمت انجام دے سکیں ۔
ملک میں دوا سازی کا اہتمام
7) ملک میں ہر قسم کی دوا سازی کا اعلیٰ پیمانے
پر انتظام کیا جائے گا اور دواؤ ں کے سلسلہ میں ملک کو خود کفیل بنایا جائے
گا۔دوا سازی میں شرعی امور کا لحاظ رکھا جائے گا اور ریسرچ سنٹر قائم کئے جائیں گے
۔
یونانی ، ہومیوپیتھک اور آرویورویدک طریقہ ہائے علاج
8) ملک میں دیسی یونانی ، ہومیوپیتھک اور
آریورویدک طب کو فروغ دیا جائے گا ۔ ان طریق ہائے علاج کے ماہر ایلوپیتھک معالجین
کے برابر حقوق دئے جائیں گے اور ان طریقہ ہائے علاج کے کالج و شفاخانے اور دوا ساز
ادارے قائم کئے جائیں گے ۔
طبی تعلیم کے ادارے
9)
ملک
میں صوبے کی سطح پر میڈیکل یونیورسٹی اور ڈویژن کی سطح پر میڈیکل کالج قائم کئے
جائیں گے ۔
حصول معاش کے مواقع
1)
پاکستان
کے ہر شہری کو حصول معاش (روزگار ) کے باعزت مواقع مہیا کئے جائیں گے اور عورتوں
کو اپنے مخصوص شعبوں میں شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے ملازمت کے مواقع مہیا کئے
جائیں گے۔
بے زمین کسانوں کے لئے معاش کا انتظام
2)
دیہات
میں کاشت کا کام کرنے والے بے زمین افراد کو ایک کنبہ (فیملی )کی باسہولت گزار
اوقات کےلئے حسب گذارہ زرعی کا قطعہ مفت دیا جائے گا ۔
بلا سود زرعی قرضہ
3) ضرورت کی صورت میں بلا سود زرعی قرضہ بھی
مہیا کیا جائے گا
مالیہ سے مستثنیٰ
4) حسب گذارہ ملنے الا قطعہ زمین ہر قسم کے
مالیہ سے مستثنیٰ ہو گا ۔
دیہات میں چھوٹی چھوٹی صنعتوں کا قیام
5) دیہات میں جگہ جگہ مقامی چھوٹی چھوٹی صنعتیں
(لوکل سمال انڈسٹری ) قائم کی جائیں گی جیسے پھلوں، سبزیوں ،مچھلیوں کو ڈبوں میں
پیک کرنے کی صنعت ،چھوٹے چھوٹے زرعی آلات ہل وغیرہ بنانے کی صنعت ،ڈیری فارم،
پولٹری فارم اور دستکاری کے مراکز کا قیام تاکہ دیہات کی آبادی کو روزگار مہیا ہو
سکے اور وہ دیہات کو چھوڑ کر شہر منتقل ہونے پر مجبور نہ ہوں۔
بلاسود امداد باہمی کے اسٹور
6)
دیہات
میں بلا سود امدادی باہمی کے اصولوں پر اجناس و ضروریات کی خریدوفروخت کے اسٹور
کھولے جائیں گے ۔
شہروں میں صنعتوں و کارخانوںکا قیام
7)
شہروں
میں صنعتوں اور کارخانوں کا وسیع جال پھیلایا جائے گا جن میں زیادہ سے زیادہ مقامی
افراد کو روزگار مہیا ہو سکے گا ۔
بے روزگاری کا کلیتہ خاتمہ
8)
غرضیکہ
دیہات اور شہروں سے بے روزگاری کا کلیتہ ” خاتمہ کر دیا جائے گا۔
گذارہ الاؤنس
9)
اس
سب کے باوجود اگر کوئی شخص بے روزگار رہ جائے گا تو اس کا گذارہ الاؤنس مقرر کر
دیا جائے گا ۔
سرپرستی سے محروم اور معذور افراد کی معاش کا انتظام
10) معذور ہو جانے والے افراد کسی وجہ سے روزگار
کے قابل نہ رہنے والے افراد سرپرست کے فوت ہو جانے سے یتیم ، بیوہ اور بے سہارا رہ
جانے والے افراد کے گذارہ کا فورا معقو ل انتظام کیا جائے گا۔
ملکی دولت پر اجارہ داری کا خاتمہ
1)
قرآنی
ہدایت کی لَا یَكُوْنَ دُوْلَةًۢ بَیْنَ الْاَغْنِیَآءِ
مِنْكُمْ
)ترجمہ) اغنیاء کے درمیان دولت (محصور ) نہ رہنے
پائے ۔
کے مطابق ملکی دولت کو چند خاندانوں اور مخصوص طبقہ میں
سمٹ آنے کے تمام ذرائع کو بند کر دیا جائے گا ۔
ناجائز اور غیر شرعی ذرائع کا خاتمہ
2)
سودی
کا روبار ، سٹہ بازی ، بینک کاری اور انشوروغیرہ جیسے کاروبار جن کے ذریعہ عوام کا
استحصال کیا جاتا ہے اور ملکی دولت ایک خاص طبقہ کے اندر سمیٹی جاتی رہتی ہے ۔ ان
کی بیخ کنی کر کے یا ان کی شرعی احکام کے مطابق اصلاح کرکے ملکی دولت کو ملک بھر
کے عوام میں دائر و سائر رکھنے کے وسائل بروئے کار لائے جائیں گے ۔
سود اور سودی کاروبار کی ممانعت
3)
سودی
کاروبار اور سودی لین دین کی ہر شکل کو ہر شبہ سے بلکل خارج کر دیا جائے گا اور
آئندہ کے لئے سودی کاروبار ممنوع اور سخت تعزیر کا موجب قرار دیا جائے گا ۔
بینکوں اور مالیاتی اداروں کا جدید انتظام
4) تمام سرکاری وغیرسرکاری بینکوں اور اداروں
کو مضاربت اور شراکت کے اصول پر مشترک سرمایہ سے چلنے والی عوامی صنعتیں اور
تجارتی کمپنیوں کی شکل میں تبدیل کر دیا جائے گا۔
ناجائز طور پر حاصل کردہ دولت
5)
جن
لوگوں نے ناجائز اور حرام طریقوں سے مثلا” جوہ ، سٹہ ، قمار ، رشوت ، چور بازاری ،
سمگلنک ، ناجائز اور غیر اور قانونی اشیاء کی در آمد برآمد یا ناجائززرمبادلہ کے
ذریعہ دولت حاصل اور جمع کی ہے ان کی ایسی تمام دولت واپس لےکر اولا” کوشش کی جائے
گی کہ جن لوگوںسے انہوں نے یہ دولت حاصل کی تھی انہیں واپس کر دی جائے ، ورنہ ملک
کے محتاج اور مفلس طبقوں میں حسب ضرورت تقسیم کر دی جائے ۔ (جیسا کہ اس کا محاسبہ
سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں عام طور سے کیا جاتا رہا ہے )
ملک کے قدرتی وسائل عوام کی ملکیت ہوں گے
6)
ملک
کے قدرتی وسائل معیشت ، معدنیات ، گیس ، پانی ، جنگلات ، تیل وغیرہ کسی ایک فرد
خاندان یا ادارہ کی ملکیت و اجارہ داری میں نہیں رہنے دیئے جائیں گے ۔ وہ شریعت کی
رو سے حکومت کی ملکیت ہوں گے ۔ آمدنی بیت المال میں جائے گی ۔ ان پر تصرف کا حق
صوبائی حکومتوں کو ہو گا اور محاصل حکومتیں اپنے اپنے صوبوں میں شریعت کے مطابق
بروئے کار لائیں گے ۔
سرکاری اخراجات میں تخفیف
7) حکومت کے اخراجات میں اندرون ملک اور بیرون
ملک زیادہ سے زیادہ تخفیف کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔سرکاری تقریبات کے اخراجات ،
سفارت خانوں کے خراجات ، صدر اور وزیر اعظم کے اخراجات ، حکام بالا کے اخراجات ،
ممبران شوری ٰ کے اخراجات سرکاری و نیم سرکاری اور خود مختار اداروں کے اخراجات
اور تمام محکمہ جات کے اخراجات کی چھان بین کے لئے اعلیٰ کمیشن قائم کیا جائے
گا۔جو نمائشی ، غیر ضروری اخراجات کی نشاندہی کرے گا اور صرف نہایت ضروری اخراجات
کا تعین کرے گا ۔
اس کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں تمام فاضل ، غیر
ضروری اور نمائشی اخراجات ختم کردئے جائیں گے اور صر ف ضروری اخراجات قائم و باقی
رکھے جائیں گے ۔
اجارہ داری اور سٹہ بازی کی ممانعت
1) تجارت میں اجارہ داری اور سٹہ بازی کو بالکل
ممنوع قرار دے دیا جائے گا۔
تجارت سے سود کا اخراج
2) قرآنی حکم : وَأَحَلَّ
اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا
۞
ترجمہ : اللہ تعالی نے بیع کو حلال کیا ہے اور سود کو
حرام کردیا ہے ۔
کے تحت تجارت کو سود کی ہر قسم سے پاک کر دیا جائے گا ۔
چھوٹے تاجروں کے لئے زیادہ سہولت اور مواقع
3) چھوٹے تاجروں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں بہم
پہنچائی جائیں گی ۔
اشیاء کی قیمتیں
4)
ملک
بھر میں اشیاء کی قیمتیں غریب عوام کی قوت خرید کے مطابق مقرر کی جائیں گی ۔
ذخیرہ اندوزی ، چور بازاری اور ملاوٹ
5) ذخیرہ اندوزی ، چور بازاری اور ملاوٹ کی
قطعا” اجازت نہیں ہو گی ۔ اس کے مرتکبین کو سخت ترین سزا دی جائے گی ۔
تجارت میں ناجائز نفع اندوزی کے رحجان کا خاتمہ
6) تجارت میں زیاہ سے زیادہ نفع اندوزی کے رحجان
کو ختم کر کے کم سے کم نفع کا اصول رائج کیا جائے گا۔
در آمدی اور بر آمدی تجارت پر سے اجارہ داری کا خاتمہ
7) درآمدی اور برآمدی تجارت پر کسی کی اجارہ
داری قائم نہیں ہونے دی جائے گی ۔
ملکی مصنوعات و پیداوار کی برآمدگی
8) ملکی مصنوعات وفاضل پیداوار کی برآمدی
تجارت کو وسیع تر بنایا جائے گا۔
درآمدگی تجارت
9)
درآمدگی
تجارت کو نہایت ضروری اور بنیادی اشیاء تک محدود کرایا جائے گا۔
تجارت میں کی جانے والی تمام بدعنوانیوںکا خاتمہ
10) تجارت سے ہر قسم کی بدعنوانیوں کا خاتمہ کیا
جائے گا ۔
صنعتیں
کلیدی صنعتیں قومی ملکیت ہوں گی
1)
بنیادی
اور کلیدی صنعتیں جن کا براہ راست تعلق ملک کے تمام عوام یا اکثریتی عوام کے مفاد
سے ہے یا ملک کے دفاعی وعمومی نضام سے ہے ، جیسے اسلحہ سازی کی صنعت ، فولاد سازی
، پیٹرول کی صنعت ، معدنیات ، طیارہ سازی وغیرہ وغیرہ ان کو قومی تحویل میں لے لیا
جائے گا ۔
صنعتوں میں مزدوروں کا حصہ
2)
مشترکہ
و نجی سرمائے سے چلنے والی بڑی صنعتوں میں بونس کے عوض مزدوروں کا بھی حصہ رکھا
جائے گا ۔
انتظام میں مزدوروں کی شمولیت
3)
ان
صنعتوں کے انتظام اور بورڈ آف ڈائر کٹران میں پچاس فیصد مزدور کو بھی نمائندگی دی
جائے گی ۔
گھریلو اور چھوٹی صنعتیں
4) گھریلو اور چھوٹی چھوٹی صنعتوں کی انفرادی
ملکیت و حثیت برقرار رکھی جائے گی اور ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہے گی ۔
کارخانے
صنعت کا پیشہ اختیار کرنے کا حق
1) ہر باشندہ ملک کو صنعت وحرفت کا پیشہ اختیار
کرنے کا حق ہو گا اور کارخانہ بھی قائم کر سکے گا لیکن
ناجائز طور پر قائم کردہ کارخانے قومی ملکیت میں لے لئے
جائیں گے
2)
جو
کارخانے ناجائز سیاسی رشوتوں ، بیرونی قرضہ جات سے حاصل شدہ رقوم اور ناجائز ذرائع
سے کام لےکر قائم کئے گئے ہیں انہیں بلامعاوضہ قومی ملکیت میں لے لیا جائے گا۔
کارخانوں کا آئندہ قیام
3) آئندہ خصوصی مراعات و مواقع کے ذریعہ
انفرادی کارخانے بنانے کی اجازت نہیں ہوگی۔
کارخانوں میں عوام اور مزدوروں کا حصہ
4)
حتیٰ
الامکان بڑے کارخانے عوامی حصص کی شراکت کے اصول پر قائم کئے جائیں گے جن کے منافع
میں کارخانے کے مزدور و ملازمین کو بھی بقدر حصہ شامل کیا جائے گا۔
1) مزدور
کو حسب لیاقت و کارگزاری پوری پوری اجرت دی جائے گی ۔
تنخواہ
2)
بحالات
موجودہ کسی مزدور کی ماہانہ تنخواہ ایک تولہ سونا کی قیمت کے برابر ہو گی ۔
سکونت ، تعلیم اور علاج کا معقول انتظام
3) مزدوروں اور ملازموں کے لئے
الف) بہتر سکونتی
مکانات کا انتظام کیا جائے گا ۔
ب ) ان کے بچوں کی تعلیم کا مفت انتظام
کیا جائے گا ۔
ج
) ان کے اور ان کے متعلقین کے علاج و معالجہ کے لئے شفاخانوں کا
بہتر انتظام کیا جائے گا ۔
تنخواہوں میں غیر معمولی تفاوت کا خاتمہ
4)
مزدوروں اور ملازموں کی
تنخواہوں کا غیر معمولی فرق وتفاوت مٹاکر فوری طور پر ایک اور پانچ کی نسبت قائم
کر دی جائے گی ۔
ملازمتیں
ملازموں کے حقوق
1) تمام سرکاری ملازمین کے حقوق یکساں ہوں گے ۔
تنخواہوں میں تفاوت کا خاتمہ
2)
تنخواہوں
میں تفاوت کم کرکے فورا” ایک اور پانچ کی نسبت قائم کر دی جائے گی۔
ملازمین کے لئے دوسری سہولتیں
3)
کم
درجوں کے ملازمین کی رہائش ، وسائل سفر ، علاج ، بچو ں کی تعلیم وغیرہ کا انتظام
سرکاری طور پر اور مفت کیا جائے گا۔
ملازمین کی دوسری مشکلات کا حل
4)
ملازمین
کو عام اور ضروری رخصتوں ، بیماری کے دوران چھٹیوں ، معذوری اور بڑھاپے کی پنشن
اور حادثات کے معاوضہ کی مکمل سہولتیں دی جائیں گی ۔ ملازمت کے دوران فوت ہو جانے
کی ‘صورت میں پسماندگان کے گزارہ کا معقول انتظام کیا جائے گا۔
تعطیلات
ہفتہ وار تعطیل
1) پاکستان میں ہفتہ وار تعطیل جمعہ کو ہوا کرے
گی ۔
دوسری تعطیلات
2) عیدین اور ضروری تاریخی دنوں کی تعطیل کا
تعین دینی تقاضوں کے مطابق کیا جائے گا۔
اوقات کار
کم سے کم اوقات
1) ملازموں اور مزدوروں کے اوقات کار کم سے کم
رکھے جائیں گے ۔
آٹھ گھنٹے سے زیادہ وقت نہیں
2) اوقات کار کی مدت 8 گھنٹے سے زیادہ نہیں
ہوگی ۔
خطرناک کاموں کے اوقات میں مزید کمی
3)
خطرناک
کاموں کے اوقات کار بہت کم کر دیئے جائیں گے ۔
نماز ، آرام و طعام کا وقفہ
4)
اوقات
کار میں نمازوں کے لئے وقفہ ، آرام اور کھانے اور چائے کا وقفہ بھی دیا جائے گا ۔
اوور ٹائم
5)
اوور
ٹائم جبری نہیں لیا جائے گا ۔
اوور ٹائم کامعاوضہ
6) اوور ٹائم کا معاوضہ کم سے کم دو گناہوگا ۔
زمین کا اصل مالک
مَن
أحيا أرضًا ميتةً فَهيَ لَهُ ، وليسَ لعِرقِ ظالمٍ حقٌّ ۞
” جس
نے بھی بے آباد زمین کو آباد کیا وہ اس کے لئے ہے اور جابر ظالم کا اس میں کوئی
حق نہیں “
1)
پیغمبر
علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فرمان کے مطابق جس نے افتادہ زمین کو آباد کیا وہی اس کا
مالک قرار دیا جائے گا۔
دوسرے جائز مالکان زمین
2)
پھر وہ لوگ مالک سمجھے
جائیں گے جن کو یہ زمین وراثت میں ، ببہ میں ، وقف میں یا فروختگی میں جائز طور پر
منتقل ہوگی ۔
ناجائز طور پر حاصل کردہ زمینوں کی واپسی
3) سیاسی رشوت کے طور پر ، دھوکہ اور فریب کے
ذریعہ ، جبر اور ناجائز طور پر سے جو زمینیں و جاگیریں حاصل کی گئی ہیں وہ بغیر
معاوضہ واپس لے لی جائیں گی او ر اس علاقے کے مستحق کاشتکار وں میں تقسیم کر دی
جائیں گی ۔
اراضی کی تحدید ملکیت
4) اراضی ملکیت کی کم یا زیادہ کو ئی حد شریعت
نے مقرر نہیں کی لیکن اگر بڑی زمینداریاں ملکی نظام معیشت اور اجتماعی معاشی نظم و
نسق کو فاسد کرنے کا سبب بن گئی ہیں اور شدید تر مذہبی ملی و ملکی مفاسد اور خطرات
نمودار ہو رہے ہیں تو حکومت شریعت کے اصولوں کی ہی روشنی میں اراضی کی ملکیت کی
مناسب تحدید کرے گی ۔ مزید وضاحت کے لئے ضمیمہ نمبر 1دیکھئے ۔
اراضی پر مالکانہ تصرف کا حق اور مزارعی
5)
مالک اراضی کو اپنی زمین
میں ہر طرح کے تصرف کا حق حاصل ہو گا مگر ظلمااور بلا شرعی وجہ کے مزارع کو بے دخل
نہیں کیا جاسکے گا ۔
مزارعین کی بے دخلی
6)
جن مزارعین نے زمینوں میں
ترقی کا م کئے ہیں ان کا پورا پورا معاوضہ دیئے بغیر بے دخل نہیں کیا جاسکتا ۔
مزارعین کی ذمہ داری
7) مزارعین کو کسی مالک اراضی کو تقصان پہنچانے
کی اجازت نہیں ہو گی ۔
مزارعت کی شرعی حثیت
8) حضرت امام ابو یوسف ؒ اور حضرت امام محمد ؒ
نے زمین کو بٹائی پر دینے کی اجازت دی ہے لیکن اگر ملک کا زرعی نظام مندرجہ بالا
اصلاحات کے باوجود درست نہ ہوسکے تو حکومت کو حق حاصل ہےکہ وہ حضرت امام ابوحنیفہ
ؒ ، حضرت امام شافعی ؒ اور حضرت امام مالک ؒ کے مسلک کے مطابق بٹائی پر زمین دینے
پر پابندی لگادے اورمالک اراضی کو حکم دے کہ یا تو اپنی ارضی خود کاشت کرے یا
کرایہ یا اجارہ پر اٹھائے۔
چھوٹے قطعات کے مالک زمین کی مشکلات کا حل
9) زمین کے چھوٹے قطعات کے مالکان کو بڑے قطعات
کے مالکان کے دباؤ کے اثر سے نجات دلائی جائے گی اور انہیں اپنی زمینوں پرغیر
مشروط مالکانہ حقوق حاصل ہو گی ۔
زراعت کی جدید سہولتوں کا عام استعمال
10) زراعت کی جدید سہولتیں دیہات میں عام کی
جائیں گی جدید زرعی آلات کا استعمال قومی سطح پر وسیع تر بنایا جائے گا۔
زرعی زمینوں کا تحفظ
11)
زرعی زمینوں کا سیم تھور سے
تحفظ کیا جائے گا۔
زمینوں کا سیلاب سے تحفظ
12) زرعی زمینوں کو سیلاب سے محفوظ کرنےکا مستقل
بندوبست کیا جائے گا ۔
زرعی پیداوار کی فروخت میں کاشتکاروں کا حق
13) زرعی پیدا ور کی فروخت کا ایسا انتظام کیا
جائے گا کہ ا س کا زیادہ سے زیادہ فائدہ آڑھتیوں ، سٹاک ہولڈر وں ، اسٹاک
ایکسچینجوں ، بینکوں ، سٹہ بازوں ، دلالوں وغیرہ کی جیب میں جانے کی بجائے
کاشتکاروں اور کھیت مزدوروں کو پہنچے ۔
نئی آبادی کی جانے والی زمینیں
14) نئی آبادی کی جانے والی زمینوں کو آسان
شرائط پر صرف خود کاشت کرنے والوں کو دیا جائے گا ۔ اس میں اولیت اور فوقیت مقامی
کاشت کاروں اور کھیت مزدوروں کو ہوگی ۔
خود کاشت کے لئے زمین کا قطعہ
15) جن لوگوں سے ناجائز زمینیں واپس لی جائیں گی
اگر ان کا ذریعہ معاش کوئی دوسرانہ ہوا یا ناکافی ہواتوگزارہ کے مطابق خود کاشت کے
لئے انہیں قطعہ زمین دیا جائے گا ۔
مالیہ کی وصولی کا نظام
16)
زرعی زمینوں پر سے مالیہ
وصول کرنے کے طریقوں کی شریعت کےاصولوں کی روشنی میں اصلاح کی جائے گی ۔اور بد
عنوانیوں اور بے جا مداخلتوں کا مکمل سد باب کیا جائے گا ۔
صنعتی مقاصد کے لئے قابل زراعت زمین استعمال کرنے کی
ممانعت
17)
صنعتی ضروریات کے لئے قابل
زراعت اراضی کو استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا ۔
نظام آبپاشی
18)
زرعی ارازی کی آبپاشی کے لئے نہروں کاجال
بچھایا جائے گا ۔ ڈیم تعمیر کئے جائیں گے اور ٹیوب ویل نصب کئے جائیں گے ۔
19)
اراضیات کو سیلاب سے بچانے
اور پانی کو زرعی استعمال میں لانے کے لئے سمال ڈیمز تعمیر کئے جائیں گے ۔
20) تمام نہروں کو پختہ کیا جائے گا ۔
آزاد انہ عدلیہ
1) عدلیہ مکمل طور پر انتظامیہ سے آزاد ہو گی
۔
آسان ترین حصول انصاف
2)
حصول
انصاف کے طریقے بالکل آسان بنائے جائیں گے ۔
مفت انصاف
3)
عدالتوں
سے انصاف کا حصول مفت ہو گا ۔
تقرر کی اہلیت اسلام ہوگی
4) ججوں اور منصفوں کا تقرر کتاب وسنت و شریعت
اسلامیہ کی مکمل واقفیت اور اسلامی سیر ت کے معیار و اہلیت پر ہوا کرے گا ۔
قوانین اسلامی ہوں گے
5)
ملک کے دیوانی و فوجداری
قوانین میں شریعت کے مطابق تبدیلیاں کی جائیں گی ۔
انتظامیہ کو عدالت میں چیلنج کیا جائے گا
6) انتطامیہ کے کسی بھی ادارے اور اس کے ہر
چھوٹے بڑے افسر اور ملازم کے کسی بھی فعل کو عدالت میں چیلنج کرنے کا حق ہر شہری
کو حاصل ہو گا ۔
سول سروس کے نظام کا خاتمہ
1) انگریزوں کے زمانہ کی سول سروس کے غیر ملکی
نظام میںانقلابی تبدیلیاں کی جائیں گی ۔
انتظامیہ کی حثیت
2)
انتظامیہ کے ادنیٰ واعلیٰ
سب ہی ارکان کی حثیت ملک و ملت کے خادم و نگہبان کی ہو گی ۔
نمود و نمائش اور پرسٹیج کاخاتمہ
3) تمام نمود و نمائش ، ٹھاٹ باٹ ، مصنوعی رعب
و داب اور سٹیج کے طریقے ختم کر دیئے جائیں گے ۔
انتظامیہ کے رکن کا کردار
4) انتظامیہ کا کوئی رکن دوران ملازمت کوئی
دوسرا کاروبار کرنے کا مجاز نہیں ہوگا ۔
حسن سلوک کی شرط
5) عوام کی حاجت مند افراد کے ساتھ حسن سلوک
انتظامیہ کا اولین اصول ہو گا ۔
ترقی کا دار مدار
6)
دیانت دار کارکردگی پر ہی
ترقی مل سکے گی
بدعنوانی اور رشوت پر سخت گرفت
7) رشوت اور بدعنوانی کے ارتکاب پر بر طرفی کے
علاوہ سخت ترین سزادی جائے گی ۔
عہدوں سے فائدہ اٹھانے پر سزا
8) عہدہ اور ملازمت سے ناجائز فائدہ اٹھانے پر
برطرفی کےساتھ سخت سزا دبھی دی جائے گی ۔
انتظامیہ عدالت کے روبرو
9)
انتظامیہ کی تمام کاروائی
کو عدالت میں چیلنج کیا جاسکے گا ۔
اسلامی اصولوں کی برتری
10) انتظامیہ کی تمام کارگزاریوں میں اسلامی
نظام اور اسلامی عظمت کے خطوط نمایاں رکھے جائیں گے ۔
غیر شرعی ٹیکس کا خاتمہ
1) مخالف شریعت تمام ٹیکس ختم کر دیئے جائیں گے
۔
ٹیکس ناقابل برداشت نہیں ہوں گے
2)
عوام کی برداشت سے باہر
کوئی ٹیکس نہیں لیا جائے گا ۔
بنیادی ضروریات ٹیکس سے مستثنیٰ
3) بنیادی ضروریات کی ہر چیز ٹیکس سے مستثنیٰ
ہوگی۔
ٹیکس عائد کرنے میں مفادعامہ کی شرط
4)
ٹیکس مفاد عامہ کو پیش نظر رکھتےہوئے لگائے
جائیں گے ۔
پریس آزاد ہو گا
1) اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کو مکمل آزادی
حاصل ہو گی ۔
نشرواشاعت میں اسلام وعوام کا مفاد مقدم ہو گا
2) نشرواشاعت کےتمام وسائل اسلام کی تبلیغ
وتشہیر وطن عزیز پاکستان کے استحکام وسالمیت اور عوام کے نقطئہ نظر کے اظہار کے
لئے استعمال کئے جائیں گے ۔
حکومت وغیرہ کی اجارہ داری سے آزادی
3)
اخبارات اور الیکٹرانک
میڈیا حکومت کے کسی گروہ کی یا کسی فرد کی اجارہ داری میں نہیں رہنے دیئے جائیں گے
۔
حقوق
1)
پاکستان کی موجودہ غیر
مسلم اقلیت کو اسلام کی طرف سے عطاکردہ مذہبی آزادی ، شہری حقوق اور حصول انصاف
کے مواقع بلاامتیاز اور یکساں طور پر حاصل رہیں گے ۔
ختم نبوت کے منکرین
2) کسی بھی مسلمان کے ختم نبوت کے عقیدے سے انحراف
کو ارتداد قرار دیا جائے گا۔
ارتداد کی ممانعت
3) مسلمانوں میں آئندہ نئی فرقہ بندی اور
ارتداد کی اجازت نہیں ہو گی اور ارتداد کی شرعی سزا نافذ کی جائے گی۔
محکمہ اوقاف
1) محکمہ اوقاف قائم رکھا جائے گا ۔
اوقاف کے نظام میں اصلاح
2) لیکن اوقاف کانظام ازسرنو خالص شریعت کی
بنیاد پر قائم کیا جائے گا ۔
وقف کے مصارف
3) وقف کی آمدنی صرف واقف کی وصیت ومنشاء کے
مطابق ہی خرچ کی جائے گی ۔
آزاد وغیر جانبدار
1)
اسلامی عظمت کے اظہار پر
مبنی آزادانہ وغیر جانبدارانہ ہو گی ۔
بیرونی اثرات سے پاک
2) مغربی سامراج اور اشتراکی بلاکوں کے اثرات
سے پاک ہو گی ۔
مسلمان ملکوں سے اشتراک
3) مسلمان ملکوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ اشتراک
پر مبنی ہو گی ۔
امن عالم
4) نوع انسانی کی فلاح وبہبود اور امن عالم کو
برقرار رکھنے میں معاون ہو گی ۔
اسلامی اقتدار
5) تمام بین الاقوامی معاملات میں اسلامی نقطئہ
نظر کے اظہار کو مقدم رکھا جائے گا ۔
جدوجہد آزادی کی حمایت
6) محکوم ملکوں کی جدوجہد آزادی کی حمایت
ومعاونت کی جائے گی ۔
عوامی حقوق کی جدوجہد
7) بین الاقوامی معاملات میں بحالی حقوق کی
جدوجہد کی حمایت کی جائے گی ۔
غیر مسلم ملکوں کی مسلمان اقلیت
8) دنیا کے جن ملکوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں
وہاں ان کی اسلامی حثیت ، اسلامی وحدت ، باعزت رہائش اور روزگار اور مال جان کے
تحفظ کے لئے زبردست کوشش جاری رکھی جائے گی ۔
خارجہ پالیسی کے اہم معاملات
9) فلسطین ، بیت المقدس اور تمام عرب علاقوں سے
یہودی ، امریکی اور برطانوی سامراجی تسلط کے حاتمہ ،افغانستان میں غیر ملکی جارحیت
کے خاتمہ ، کشمیر کی آزادی ، بھارت کے مسلمانوں کی جان ومال ، آبرو ، دین ، معاش
، رہائش وغیرہ کے تحفظ کی کوشش کو پاکستان کی خارجہ پالیسی میں اولین وبنیادی
اہمیت حاصل ہو گی ۔
1)
صوبوں کے حقوق کا تحفظ کیا
جائے گا ۔
نمائندگی
2) اسمبلیوں وقومی اداروں میں نمائندگی تناسب
آبادی کے مطابق مقرر کی جائے گی ۔ سینٹ میں نمائندگی برابری کی بنیاد پر براہ
راست انتخاب کے ذریعے ہوگی۔
مرکزی محکمے
3)
امور خارجہ ، دفاع ، کرنسی
اور بین الصوبائی مواصلات کے محکمے ، مرکز کے پاس رہیں گے ۔ بیرونی تجارت صوبوں
کےپاس رہے گی جب کہ پالیسی وفاقی حکومت طے کرےگی ۔
صوبوں کے اختیارات
4)
بقیہ معاملات میں صوبوں کو خود مختاری رہے گی ۔
ملک کی وحد وسالمیت مقدم ہو گی
5) ملک کی سالمیت و وحدت کے پیش نظر وہ تمام
وسائل بروئے کار لائے جائیں گے جس سے تمام صوبوں کے درمیان عدم مساوات وتفاوت کا
خاتمہ ہو جائے ۔
پسماندہ علاقوں کی ترقی
6)
صوبوں کے پسماندہ علاقوں
کی ترقی پر خصوصی توجہ دی جائے گی اور صوبائی ملازمتوں میں وہیں کے باشندے کا تقرر
کیا جائے گا ۔
ملازمتوں میں صوبوں کی نمائندگی
7)
فوجی اور مرکزی ملازمتوں
میں صوبوں کو آبادی کے تناسب سے نمائندگی دی جائے گی ۔
پانی کی تقسیم
8)
ملک بھر میں پانی کی تقسیم
شرعی اصولوں کے تحت کی جائے گی ۔
ایٹمی توانائی کا فروغ
9) ایٹمی اور شمسی توانائی کو فروغ دے کر
توانائی کے بحران کو ختم کیا جائے گا ۔
پانی اور بجلی کی فراہمی
10) ہر گاؤں اور ہر شہر میں پینے کے لئے صاف
پانی اور بجلی مہیا کی جائے گی ۔
رہائش
11)
ہر انسان کا بنیادی حق ہےکہ اسے رہائش کے لئے
حسب ضرورت جکہ اور مکان میسر ہو ۔
حکومت کی ذمہ داری
12) اور یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ باقاعدہ
منصوبہ بندی کےساتھ ہر ضرورت مند کو رہائش کے لئے جگہ اور مکان مہیا کرے ۔
ہر شہر ی کے لئے رہائش کا انتظام
13) چنانچہ ایسا انتظام کیا جائے گا کہ پاکستان
میں کوئی شہری بھی رہائش سے محروم نہ رہے۔
سڑکیں
1)
ملک بھر میں پختہ سڑکوں کا
جال بچھایا جائے گا تاکہ تمام دیہات ایک دوسرے سے مربوط ہو جائیں اور اپنے مرکزی
شہر سے سڑکوں کے ذریعہ ملحق ہو جائیں ۔
رسل ورسائل کی سہولتیں
2) مواصلات رسل ورسائل کے تمام جدید ذرائع
شہروں میں اور دیہاتوں میں عام کئے جائیں گے ۔
پسماندہ علاقوں میں مواصلات
3)
مواصلات کو ترقی دینے میں
اولیت پسماندہ علاقوں کو حاصل ہو گی ۔
وضو اور نماز کا اہتمام
4)
ریلوں ، بسوں ، جہازوں
وغیرہ میں سفر کے دوران وضو اورنماز کیلئے خصوصی انتظام ہو گا ۔
درجات کا امتیاز کم اور ختم کیا جائے گا
5) سفر کے تمام ذرائع ، وسیع ، محفوظ اور ارزاں
کردئیےجائیں گے اور ان میں درجات کا تفاوت ختم کر دیا جائے گا ۔
جہاد کی تربیت
1) ہر بالغ مسلمان کو جہاد کی تربیت دی جائے گی
۔
مجاہد دستے
2) ہر جگہ مقامی مجاہد دستے حکومت کی سرپرستی
میں قائم کیے جائیں گے ۔
ملک کا دفاع
3) ملک کو دفاع میں خود کفیل بنایا جائے گا ۔
اسلحہ ساز فیکٹریاں
4)
ملک میں جدید اسلحہ ساز فیکٹریاں قائم کی جائیں
گی ۔
سامان جنگ کی تیاری
5)
کوشش کی جائے گی کہ ملک
جنگی سامان کی ہر چیز بنانے میں باہر کا محتاج نہ رہے
خطرہ کا مقابلہ
6) کسی بھی خطرہ کا مقابلہ کرنے کیلئے تمام ملک
میں باقاعدہ فوج کے ساتھ ملک کی تمام بالغ آبادی کو بھی دفاع میں بھر پور حصہ
لینےکے قابل بنا دیا جائے گا ۔
معیار میں ترقی
7)
پاکستانی افواج کے معیار
کو بلند سے بلند تر کیا جاتا رہے گا ۔
اسلامی احکامات پر عمل
8)
فوجی تربیت میں اسلامی
احکام پر عمل کی طرف خصوصی توجہ دی جائے گی اور عسکری قوانین شرعی ہوں گے۔
فوج اور عوام میں رابطہ
9) پاکستانی افواج اور پاکستانی عوام کے درمیان
براہ راست ربط و تعاون کو بڑھایا اور مظبوط کیا جائے گا اور انگریزوں کے دور کے
امتیاز اور علیحدگی پسندی کے طریق کو ختم کر دیا جائے گا ۔
لائسنس پر پابندی کا خاتمہ
10) اسلحہ لائسنس پر پابندی ختم کی جائے گی ، اس
کا اندراج ڈاکخانہ میں کیا جائے گا ۔
22 اسلامی نکات
درج ذیل نکات وہ ہیں جنہیں 1952ء میں پاکستان کے جید
علماء اور تمام مسلم فرقوں کے نمائندگان نے مرتب کرکے دستور پاکستان کی اساس بنانے
کیلئے پیش کیا تھا ۔
جمعیۃ علماء اسلام نے اپنے منشور میں بھی ان نکات کو
شامل کیا ہے اور وہ شروع سے ہی ان نکات کو پاکستان کے دستور میں شامل کرنے کا
مطالبہ کرتی چلی آرہی ہے ۔
1) اصل حاکم تشریعی وتکوینی حثیت سے اللہ رب
العالمین ہے ۔
2) ملک کا قانون کتاب و سنت پر مبنی ہو گا اور
کوئی ایسا قانون نہ بنایا جاسکے گا ، نہ ایسا حکم دیا جاسکے گا جو کتاب وسنت کے
خلاف ہو ۔
(تشریحی نوٹ) اگر
ملک میں پہلے سے کچھ ایسے قوانین جاری ہوں جو کتاب وسنت کے خلاف ہوں تو اس کی
تصدیق بھی ضروری ہے کہ وہ بتدریج ایک معینہ مدت کے اندر ممنوع یا شریعت کے مطابق
تبدیل کر دئے جائیں گے ۔
3) مملکت کسی جغرافیائی ، نسلی ، لسانی یا کسی
اور تصور پر ، بلکہ ان اصول اور مقاصد پر مبنی ہو گی جن کی اساس اسلام کا پیش کیا
ہو ضابطہ حیات ہے ۔
4)
اسلامی مملکت کا یہ فرض ہو
گا کہ کتاب و سنت کے بتائے ہوئےمعروضات کو قائم کرے ، منکرات کو مٹائے اور شعائر
اسلام کے احیاء واعلاء اور متعلقہ اسلامی فرقوں کیلئے ان کے اپنے مذہب کے مطابق
ضروری اسلامی تعلیم کا انتظام کرے ۔
5)
اسلامی مملکت کا یہ فرض ہو
گا کہ وہ مسلمانان عالم کے رشتہ اتحاد واخوت کو قوی سے قوی تر کرنے اور ریاست کے
مسلم باشندوں کے درمیان عصبیت جاہلیہ کی بنیادوں پر نسلی ، لسانی ، علاقائی یا
دیگر مادری امتیازات کے ابھرنے کی راہیں مسدود کرکے ملت اسلامیہ کی وحدت کے تحفظ و
استحکام کا انتظام کرے ۔
6)
مملکت بلا امتیاز مذہب
ونسل وغیرہ تمام ایسے لوگوںکی لابدی انسانی ضروریات یعنی غذا ، لباس ، مسکن ،
معالجہ اور قیام کی کفیل ہوگی جو اکتساب رزق کے قابل نہ ہوں یا نہ رہے ہوں عارضی
طور پر بے روزگار ہوں ، بیماری یا دوسرے وجوہ سے فی الحال سعی اکتساب پر قادرنہ ہوں
۔
7) باشندگان ملک کو وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے
جو شریعت اسلامیہ نے ان کو عطا کیے ہیں یعنی حدود قانون کے اندر تحفظ جان و مال
وآبرو ، آزادی مذہب ومسلک ، آزادی عبادات ، آزادی ذات ، آزادی اکتساب رزق،
ترقی کے مواقع میں یکسانی اور رفاہی ادارات سے استفادہ کا حق۔
8)
مذکورہ بالا حقوق میں سے
کسی شہر کا کوئی حق اسلامی قانون کی سند جواز کے بغیر کسی وقت سلب نہ کیا جائے گا
اور کسی مجرم کے الزام میں کسی کو بغیر فراہمی موقع صفائی و فیصلہ عدالت کوئی سزا
نہ دی جائے گی ۔
9) مسلمہ اسلامی فرقوں کو حدود قانون کے اندر
پوری مذہبی آزادی حاصل ہو گی ۔انہیں اپنے پیروؤں کو اپنے مذہب کی تعلیم دینے کا
حق حاصل ہو گا ۔ وہ اپنے خیالات کی آزادی کے ساتھ اشاعت کر سکیں گے ۔ ان کے شخصی
معاملات کے فیصلے ان کے اپنے فقہی مذہب کےمطابق ہوں گے اور ایسا انتظام کرنا مناسب
ہوگا کہ انہیں کے قاضی یہ فیصلہ کریں گے ،
10)
غیر مسلم باشندگان مملکت کو حدود قانون کے اندر
مذہب و عبادت ، تہذیب و ثقافت اور مذہبی تعلیم کی پوری آزادی ہوگی اور انہیں اپنے
شخصی معاملات کا فیصلہ اپنے مذہبی قانون یا رسم ورواج کے مطابق کر انے کا حق حاصل
ہوگا ۔
11)
غیر مسلم باشندگان مملکت سے
حدود شریعت کے اندر جو معاہدات کئے گئے ہیں ان کی پابندی لازمی ہو گی اور جن حقوق
شہری کا ذکر دفعہ نمبر7 میں کیا گیا ہے ان میں غیر مسلم باشندگان ملک برابر شریک
ہوں گے ۔
12)
رئیس مملکت کا مسلمان مرد
ہونا ضروری ہے جس کے تدین ، صلاحیت اور اصابت رائے پرجمہور یا ان کے منتخب
نمائندوں کو اعتماد ہو ۔
13)
رئیس مملکت ہی نظم مملکت کا
اصل ذمہ دار ہوگا ، البتہ وہ اپنے اختیارات کا کوئی جزو کسی فرد یا جماعت کو تفویض
کر سکتا ہے ۔
14)
رئیس مملکت کی حکومت
مستبدانہ نہیں ، بلکہ شوارئی ہو گی یعنی وہ ارکا ن حکومت اور منتخب نمائندگان
جمہور سے مشورہ لے کر اپنے فرائض سر انجام دے گا۔
15)
رئیس مملکت کو یہ حق حاصل نہ
ہو گا کہ وہ دستور کو کلا ٌ یا جزواٌ معطل کر کے شوریٰ کے بغیر حکومت کرنے لگے ۔
16)
جو جماعت رئیس مملکت کے انتخاب کی مجاز ہو گی ،
وہ کثرت آراء سے اسے معزول کرنے کی بھی مجاز ہو گی ۔
17)
رئیس مملکت شہری حقوق میں
عامتہ المسلمین کے برابر ہو گا اور قانونی مواخذہ سے بالاتر نہ ہوگا ۔
18)
ارکان وعمال حکومت اور عام
شہریوں کے لئے ایسا ہی قانون و ضابطہ ہو گا اور دونوں پر عام عدالتیں ہی اس کو
نافذ کریں گی۔
19)
محکمہ عدلیہ ، محکمہ
انتظامیہ سے علیحدہ اور آزاد ہو گا تاکہ عدلیہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں ہیئت
انتظامیہ سے اثر پذیر نہ ہو۔
20) ایسے افکار ونظریات کی تبلیغ و اشاعت ممنوع
ہو گی جو مملکت اسلامی کے اساسی اصول و مبادی کے انہدام کا باعث ہوں ۔
21) ملک کے مختلف ولایات و اقطاع مملکت واحدہ کے
اجزاء انتظامی متصور ہوں گے ،ان کی حثیت نسلی ، لسانی یا قبائلی واحدہ جات کی نہیں
، بلکہ مخص انتظامی علاقوں کی ہو گی ، جنہیں انتظامی اختیارات کے پیش نظر مرکز کی
سیادت کے تابع انتظامی اختیارات سپرد کرنا جائز ہوگا ، انہیں مرکز سے علیحدگی کا
حق حاصل نہ ہو گا ۔
22) دستور کی کوئی ایسی تعبیر معتبر نہ ہو گی جو
کتاب وسنت کے خلاف ہو ۔
نوٹ
مندرجہ بالا 22 اسلامی نکات کی ترتیب کے لئے
15/14/13/12 ربیع الثانی 1370ھ بمطابق 24/23/22/21 جنوری 1951ء کو کراچی میں
مولانا سید سلیمان ندوی مرحوم رحمتہ اللہ علیہ کی زیرصدارت میں درج ذیل علماء و
دیگر حضرات کا اجتماع منعقد ہوا تھا اور بالا اتفاق مذکورہ بالا 22 نکات طے ہوئے
تھے ۔
جمعیۃ علماء اسلام کے ناظم عمومی حضرت مولانا مفتی
محمود نوراللہ مرقدہ نے مارچ 1969ء میں گول میز کانفرنس منعقدہ راولپنڈی میں انہیں
باقاعدہ طور پر ارباب اقتدار اور سیاسی لیڈروں کے سامنے پیش کر دیا تھا ۔
ان 22 نکات پر دستخط کرنے والوں کے اسماء
گرامی درج ذیل ہیں ۔
1)
مولانا سید سلیمان ندوی
مرحوم
2)
مولاناشمس الحق افغانی
مرحوم
3)
مولانا بدرعالم صاحب مرحوم
4)
مولانا احتشام الحق صاحب
تھانوی مرحوم
5) مولانا عبد الحامد صاحب قادری بدایونی مرحوم
6) مولانا مفتی محمدشفیع صاحب کراچی مرحوم
7) مولانا محمد ادریس کاندھلوی مرحوم
8) مولانا خیر محمد صاحب مرحوم مہتمم خیر المدارس
ملتان
9)
مولانا مفتی محمد حسن صاحب
مرحوم جامعہ اشرفیہ لاہور
10) پیر امین الحسنات صاحب مرحوم مانکی شریف
11) مولانا محمد یوسف بنوری مرحوم کراچی
12)
حاجی خادم الاسلام صاحب
(خلیفہ حاجی ترنگزئی )
13)
قاضی عبدالصمد صاحب سربازی (بلوچستان)
14) مولانا اطہر علی مرحوم (مشرقی پاکستان )
15)
مولانا ابو جعفر محمد صالح
صاحب مرحوم (مشرقی پاکستان)
16)
مولانا راغب احسن صاحب مرحوم
(مشرقی پاکستان)
17) مولانا حبیب الرحمٰن صاحب مرحوم (مشرقی
پاکستان)
18) مولانا محمد علی صاحب جالندھری مرحوم ملتان
19)
مولانا داؤد غزنوی صاحب مرحوم
20)
مفتی جعفر حسین مرحوم مجتہد
(شیعہ حضرات میں سے )
21) مفتی کفایت حسین مرحوم مجتہد (شیعہ حضرات میں
سے )
22)
مولانا محمد اسماعیل صاحب
مرحوم گوجرانوالہ (اہل حدیث )
23)
مولانا حبیب اللہ صاحب مرحوم
تھیڑی خیرپوری
24) مولانا احمد علی صاحب لاہوری مرحوم (انجمن
خدام الدین شیرانوالہ گیٹ لاہور)
25) مولانا محمد صادق صاحب (مدرسہ مظہر العلوم
کھڈ ہ کراچی )
26) پروفیسر عبدالخالق صاحب
27) مولانا شمس الحق صاحب فرید پوری مرحوم (مشرقی
پاکستان )
28)
مفتی محمد صاحب داد مرحوم
کراچی
29)
پیر محمد ہاشم صاحب مجددی مرحوم سندھ
30)
سید ابو الاعلیٰ صاحب مودودی
مرحوم
31) محمد ظفر احمد صاحب انصاری مرحوم
پی ڈی ایف میں یہاں سے ڈاؤن لوڈ کریں
ایک تبصرہ شائع کریں