مولانا فضل الرحمن صاحب کا ملتان آرٹس کونسل میں تحفظ ناموس رسالت ﷺ کانفرنس سے خطاب


ملتان آرٹس کونسل میں رحمت کائنات فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام تحفظ ناموس رسالت ﷺ کانفرنس سے خطاب

20 ستمبر 2024

الحمدلله الحمدلله وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی لاسیما علی سید الرسل و خاتم الانبیاء وعلی آله وصحبه و من بھدیھم اھتدی، اما بعد فاعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم بسم الله الرحمٰن الرحیم 

هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا۔ مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ۔ صدق الله العظيم

جناب صدر محترم، میرے انتہائی قابل احترام حضرت مولانا اسعد محمود مکی صاحب، سٹیج پر موجود تمام علمائے کرام، اکابرین امت، میرے بزرگوں، دوستوں اور بھائیوں! میں انتہائی شکر گزار ہوں رحمت کائنات فاؤنڈیشن اور ان کے منتظم اعلیٰ کا جنہوں نے ملک کے مختلف اضلاع میں سیرت کانفرنسز اور اس طرح کے سیمینارز کا اہتمام کیا تاکہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو عوام تک پہنچایا جائے اور آج کے اس پُر فِتن دور میں جب کہ امت اور امت کی نئی نسلیں اس صراطِ مستقیم سے تو دور ہوتی چلی نظر آرہی ہے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ مبارکہ سے اسوہ حسنہ سے روشناس کرایا جا سکے۔ یہ وقت کی ضرورت ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ پوری مغربی دنیا تمام وسائل استعمال کر رہی ہے کہ امت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے سے کیسے ہٹایا جائے لیکن یہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اعجاز ہے کہ آج 1400 سال گزر جانے کے باوجود بھی امت آپ سے محبت بھی کرتی ہے اور صرف محبت نہیں بلکہ آپ کی محبت پر مر مٹنے کے لیے بھی تیار ہے۔ کفار کا یہ خیال تھا، عرب معاشرہ تھا قبائلی معاشرہ اور اس قبائلی معاشرے میں اور آج بھی ہے کہ جس کے گھر میں جوان زیادہ ہو اسے طاقتور تصور کیا جاتا ہے، وہ اپنے آپ کو تسلی دیا کرتے تھے کہ چونکہ آپ کی نرینہ اولاد نہیں ہے اگر آپ دنیا سے چلے جائیں پردہ کر لیں تو اس کے بعد نہ آپ کا نام لینے والا کوئی ہوگا نہ آپ کے لیے لڑنے والا کوئی ہوگا لہٰذا ان کے حوالے سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اللہ رب العزت نے قیامت تک کہ تمام انسانیت کا آپ کو والد قرار دیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امت کے ایسے باپ ہیں کہ شاید اپنے باپ پر تو کوئی گستاخی برداشت کر لی جائے، اپنے استاد کے گستاخی کو لوگ برداشت کر لیتے ہیں لیکن آج بھی یہ گئی گزری امت بھی اپنے رسول اللہ پر کسی قسم کی گستاخی کو برداشت نہیں کر سکتے۔ مغربی دنیا ہماری تہذیب کے دشمن ہے اور اپنے اسلامی تہذیب سے لا تعلق کرنے کا ایک ہی ذریعہ ہے ان کے پاس کہ ہمیں اپنے پیغمبر سے لا تعلق کر دے، وہ سمجھتے ہیں کہ ہم بھی تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مانتے ہیں، یہودی بھی کہتے ہیں کہ ہم بھی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مانتے ہیں لیکن بس مانتے ہیں جس طرح اس سے آگے ہمارا تعلق نہیں ان کے ساتھ اس طرح مسلمان بھی اپنا تعلق اپنے پیغمبر سے توڑ دیے لیکن امت مسلمہ اپنے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا تعلق توڑنے کے لیے تیار نہیں، آپ کی نبوت و رسالت ہماری آخری حد ہے، اسی لیے آپ کی زوجات مطہرات کو امت کی مائیں کہا گیا قیامت تک کے لیے آپ کے ازواج مطہرات اب ہماری مائیں ہیں، کوئی امتی ان کے ساتھ نکاح نہیں کر سکتا، تو بنیادی جنگ یہی ہے کہ آج اس بات پر غور کرنا ہے کہ معاشرے کو ہم اسلام کی طرف قریب کریں اس کی تہذیب کی طرف قریب کریں ان کے اخلاق و اطوار کی طرف امت کو بلائیں ان کو دعوت دیں لیکن زمانوں کے ساتھ حالات بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں، آج ہمارا مقابلہ جن فتنوں کے ساتھ ہے وہ فتنہ مغرب کا فتنہ ہے، اپنی تہذیب ہم پر مسلط کرنا چاہتا ہے تاکہ مسلمان اگر اسلام کی بات کریں تو انہیں انتہا پسند کہا جائے انہیں شدت پسند کہا جائے لیکن کیسے شدت پسند ہم ہو سکتے ہیں دنیا میں ایک اقرار ہے اور ایک انکار، اقرار امن کا سبب بنتا ہے اور انکار فساد کا سبب بنتا ہے، ہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی مانتے ہیں ان کی نبوت کو بھی مانتے ہیں، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت کو بھی تسلیم کرتے ہیں ان کے دین کو بھی تسلیم کرتے ہیں، جب ہم ان کے دین کا بھی اقرار کرتے ہیں ان کی نبوت کا بھی اقرار کرتے ہیں، اقرار کرنے والا کیسے فسادی ہو سکتا ہے! کیسے شدت پسند ہو سکتا ہے! کیسے انتہا پسند ہو سکتا ہے! اور آپ ہیں کہ نہ ہمارے پیغمبر کو تسلیم کرتے ہیں نہ ان کے اوپر اتری ہوئی کتاب کو مانتے ہیں نہ ان کی دین اسلام کو مانتے ہیں، آپ ہر لحاظ سے ہمارا انکار کر رہے ہیں، ہم ہر لحاظ سے تمہارا اقرار کر رہے ہیں، تو اقرار کرنے والا کیسے فساد کا سبب ہے اور ہمارے دین کا اور ہمارے پیغمبر کا انکار کرنے والا کیوں کر فساد کا باعث نہیں ہوگا دنیا میں! تو بات سمجھنی چاہیے ہمیں کہ رسول اللہ کا انکار کرنا ان کے دین کا انکار کرنا یہ سبب ہے دنیا میں فساد کا انتہا پسندی کا اور انسانوں کے درمیان طبقاتی تقسیم کا، مذہبی تقسیم کا، تہذیبی تقسیم کا، یہ چیزیں ہمیں اپنے مذہب کے حوالے سے سمجھنے چاہیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو اللہ رب العزت نے مقام عطا کیا ہے، آپ تو انبیاء سابقین جتنے بھی ہیں ان کی بھی امام ہیں، جب شب معراج میں آپ کو مسجد اقصیٰ لے جایا گیا تمام انبیاء کے ارواح حاضر آپ کی امامت میں انہوں نے نماز پڑھی جب انبیاء آپ کی مقتدی ہو گئے تو انبیاء کی وساطت سے ان کی امتی بھی آپ کی مقتدی ہو گئیں، وہ بھی آپ کے پیروکار اور آنے والے بھی آپ کے پیروکار اور تمام انبیاء کے ارواح سے عہد لیا گیا تھا کہ اگر رسول اللہ کا زمانہ پاؤ گے تو پھر تمہارے اوپر لازم ہوگا کہ تم ان پر ایمان بھی لاؤ اور تم پر لازم ہوگا کہ تم ان کی مدد بھی کرو۔

وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ لَما آتَيْتُكُمْ مِنْ كِتابٍ وَحِكْمَةٍ

تمام انبیاء سے عہد میثاق لیا گیا

ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِۦ وَلَتَنصُرُنَّهُ

تمام انبیاء سے عہد و پیمان لیا گیا کہ اگر آپ نے رسول اللہ کا زمانہ پایا تو تم پر لازم ہوگا کہ ان کے اوپر ایمان بھی لاؤ گے اور ان کی مدد بھی کرو گے، پھر صرف اللہ نے ان پر لازم نہیں کیا پھر ان سے پوچھا بھی

قَالَ ءَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ إِصْرِى

 کیا تم نے میرے ساتھ یہ عہد کر لیا ہے؟

قَالُوٓاْ أَقْرَرْنَا

سب نے کہا ہم نے اقرار کر لیا ہے

قَالَ فَٱشْهَدُواْ وَأَنَا۠ مَعَكُم مِّنَ ٱلشَّٰهِدِينَ

پھر تم بھی گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ اس بات پر گواہ ہوں ایک پیغمبر آئے گا محمد اس کا نام ہوگا اللہ کا رسول کہلائے گا اور تم ان پر ایمان لاؤ گے اور ان کی مدد بھی کروگے۔ یہ ہے آپ کی وہ قدر منزلت اور اللہ رب العزت سے اگر کوئی محبت کرنا چاہتا ہے تو اللہ رب العزت تو نظر نہیں آتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور ان کی اتباع کو اللہ سے محبت کا معیار قرار دیا گیا،

قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ ٱللَّهَ فَٱتَّبِعُونِى يُحْبِبْكُمُ ٱللَّهُ

بس میری اطاعت کرو، میری پیروی کرو، میری پیروی معیار ہے اللہ سے محبت کا سو تم اللہ کے محبوب بن جاؤ گے اور یہ تو آپ کی تعلیمات ہیں باعتبار تعلیمات و احکامات کے آپ کامل اور مکمل ہیں،

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا

آج میں نے تمہارا دین تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور اسلام کو تمہارے لیے نظام زندگی کے طور پر پسند کر لیا ہے، علماء کرام فرماتے ہیں آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے یعنی دین کو کامل اور مکمل کرنا باعتبار تعلیمات احکامات کے ہیں تعلیم و احکام مکمل ہو گئے ہیں، اب یہ جو اسلام ہے جو ہمارے سامنے تعلیمات کی صورت میں موجود ہے احکامات کی صورت میں موجود ہے اگر آگے فرمایا

وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي

 اور میں نے اپنی نعمت تم پر تمام کر دی، اِتمام نعمت کے معانی کیا ہوں گے، ہر چیز نعمت ہے پانی بھی نعمت ہے روٹی بھی نعمت ہے گھر بھی نعمت ہے ٹھنڈ اور سردی کا انتظام اللہ کرتا ہے وہ بھی نعمتیں ہیں پھل فروٹ بھی نعمتیں ہیں خوشحال زندگی بھی نعمتیں ہیں لیکن کامل اور مکمل اور تمام نعمت کیا ہے؟ تو اتمام نعمت یہ اللہ کے اس کامل اور مکمل دین کا اقتدار ہے اس کی حاکمیت ہے جب اس کی حاکمیت ہو جائے گی تو اتمام نعمت کا تصور پیدا ہو جاتا ہے، آپ میں علماء کرام موجود ہیں جو چیز مطلق ذکر ہو جائے تو کہتے ہیں خارج میں اس کا فرد کامل مراد ہوتا ہے کہ جب لفظ نعمت قرآن نے استعمال کر لیا اور دین کو ایک نعمت کہہ دیا اور نعمت تمام کہہ دیا تو نعمت تمام کا جو خارج میں فرد کامل ہوگا وہ اس کا اقتدار ہوگا اس کی حاکمیت ہوگی، اب اللہ نے اتنی بڑی نعمت ہمیں عطاء کی اور ہم صرف آپ کا نام لے کر بس کچھ جلسے کر لیتے ہیں اور جلسے کر کے خوش ہو جاتے ہیں کہ ہم نے آج سیرت پر بیان کر دیا ہم نے آج سیرت پہ بیان سن لیا اور بیان کرنا اور بیان سن لینا اس کو کافی سمجھتے ہیں، حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کے بارے میں علمائے کرام فرماتے ہیں کہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ جو عالم دین محراب اور حجرے تک اپنی خدمات کو کافی تصور کرتا ہے اور اسی پر اپنی زندگی تمام کر دیتا ہے یہ دین کا خادم نہیں ہے بلکہ دین کے دامن پر ایک دھبہ ہے، ہم جن اکابر کی طرف منسوب ہیں جن سے ہم نسبت تعلق قائم کر کے اور اپنی نسبت ان کی طرف کر کے روٹیاں کماتے ہیں لقمے کماتے ہیں ان کے نام پر ہم کاروبار کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دینا تو بہت بعد کی بات ہے کیا ہم حضرت شیخ الہند کی روح کو بھی جواب دے سکیں گے؟ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ پاکستان حاصل کیا اس کے قیام کا پون صدی سے زیادہ عرصہ گزر گیا اور اب ہم صدی مکمل کرنے کی طرف آگے بڑھ رہے ہیں، کیا ہم نے اپنی قومی اور مملکتی زندگی پر نظر ڈالی ہے کہ 77 سالوں میں ہم نے لا الہ الا اللہ کا جو نعرہ لگایا تھا اس سے وفا کی ہے؟ ہمارے ملک میں آج لادینیت دندنا رہی ہے فحاشی اور عریانیت دندنا رہی ہے اور ہم ہیں کہ بس صرف کچھ اجتماعات اور دو چار اسباق پڑھانے پر اکتفا کر لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے دین حق کا حق ادا کر دیا ہے۔

میرے محترم دوستو! ہم نے کچھ فیصلے کرنے ہوں گے کہ اگر ہم نے پاکستان کو برقرار رکھنا ہے پاکستان کو مستحکم بنانا ہے تو ہم نے دین اسلام کے اصولوں کو اپنانا ہوگا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کر اگر ہم نے یہ ملک حاصل کیا ہے تو پھر ہم نے مکے اور مدینے کی طرف دیکھنا ہے جبکہ کہ ہم تو امریکہ اور برطانیہ کی طرف دیکھتے ہیں، کہاں سے ہم نے اپنے امیدیں وابستہ کر لیے ہیں 

لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِى رَسُولِ ٱللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُواْ ٱللَّهَ وَٱلْيَوْمَ ٱلْاٰخِرَ

اللہ سے امیدیں وابستہ کرو، یوم آخرت کو سامنے رکھو اور پھر اس دنیا کی زندگی کو اس پر استوار کرو، ان خطوط پر استوار کرو کہ جہاں اگر مبادا آپ کا خوشحال ہے تو پھر معاد بھی آپ کا خوشحال ہو سکے گا۔

ہم تو رسول اللہ کی سیرت کی بات کرتے ہیں رسول اللہ کی صورت اس کے حسن کا بھی کوئی اندازہ نہیں، ذاتی حسن جب ہم کتابیں پڑھاتے ہیں اور رسول اللہ کے شمائل لوگوں کو بتاتے ہیں تو آپ کا جو ذاتی حسن صورت تھا اس کا ادراک بھی علماء کہتے ہیں کہ قوت بشری سے باہر ہے، صحابہ کرام نے جو آپ کا حسن بیان کیا ہے یہ ان کی ادراک کا حد ہے، آپ کا حسن اس سے بھی آگے ہے، جس کو اللہ نے ذات حسن اتنا عظیم دیا ہو لیکن ہمارے پاس اس کی اطاعت ہمارے بس سے باہر ہے، کیا ہم آپ کی طرح کا قد کاٹ پیدا کر سکتے ہیں؟ کیسے پیدا کریں گے کہاں سے آپ کی قد کاٹ کی اطاعت و اتباع کریں گے، تو ہم تو آپ کے حسن ذاتی کے اتباع کر بھی نہیں سکتے آپ جیسا خوبصورت چہرہ کہاں سے لائیں گے، آپ جیسے منور جبیں کہاں سے لائیں گے، آپ جیسے خوبصورت ہونٹ کہاں سے لائیں گے، آپ جیسے روشن آنکھیں کہاں سے لائیں گے، آپ کا حسن ظاہری اس کا تو ہم اتباع ہی نہیں کر سکتے وہ تو ہمارے قوت سے بھی باہر ہے لیکن سیرت کا ہمیں پابند بنایا گیا ہے کہ آپ نے سیرت کی اتباع کو لازم کرنا ہے اپنے اوپر، اس حوالے سے ہم نے ان تحریکوں کے ساتھ وابستہ ہونا ہے کہ جو تحریکیں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور ان کی سیرت کو اور ان کے نظام کو ملک پر مسلط کرنا چاہتے ہیں، یہ آپ کی محبت کا ہمارے اوپر قرض ہے۔ 

ایک جلسے کو کافی مت سمجھیں، اللہ تعالی نے ہم سے یہ نہیں پوچھنا کہ تم نے پھر اسلام نافذ کیا یا نہیں کیا وہ آپ کی قدرت میں تھا یا نہیں تھا یہ اللہ کا مسئلہ ہے لیکن یہ ضرور پوچھے گا کہ تم نے میرے دین کو نافذ کرنے کے لیے اور رسول اللہ کے دین پر نافذ کرنے کے لیے محنت بھی کی تھی یا نہیں اس کے ہم مکلف ہیں اس کی طرف ہم نے توجہ دینی ہے، ہمارے ہاں مختلف محاذوں پر کام ہو رہا ہے، دعوت کے محاذ پر بھی کام ہو رہا ہے، تعلیم کے محاذ پر بھی کام ہو رہا ہے، خانقاہی نظام بھی چل رہے ہیں اللہ اللہ کی ضربیں بھی لگ رہی ہیں، لیکن یہ طے کرنا ہے کہ ہمارے پاس شریعت بھی ہونی چاہیے کہ وہ راستہ ہے اس کے بغیر ہمیں کچھ پتہ نہیں کہ ہمارے سفر کا رخ کیا ہوگا، ہمارے پاس طریقت بھی ہونی چاہیے کہ یہ اس راستے پہ چلنے کا اسلوب سکھاتا ہے اور ہمارے پاس سیاست بھی ہونی چاہیے کہ وہ سچے راستے پر چلنے کی مشکل کو عبور کرتا ہے، یہ مشکل راستہ ہے سیاست مشکل چیز ہے آسان کام نہیں ہے، جب آپ راستے پہ جاتے ہیں تو آپ کے لیے راستے میں مشکلات بھی آتی ہیں 

فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ۔ وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْعَقَبَةُ

اللہ تعالی شریعت کے راستے پہ چلنے کو گھاٹی سے تعبیر کرتا ہے تو گھاٹی ہمیشہ مشکل گزرگاہ کو کہتے ہیں، اس میں پتھریلی زمین بھی آتی ہے اس میں جھاڑیاں بھی آتی ہیں پانی بھی راستے میں آجاتا ہے، اس مشکل راستے کو عبور کیسے کیا جائے تو جہاں مشکل آئے گی اس مشکل کو آسان بنانے کے لیے آپ کے ساتھ کچھ اوزار بھی ہونی چاہیے جو بھاری پتھر کو بھی ہٹا سکے جو جھاڑیوں کو بھی کاٹ سکے اور مشکل کو آسان بنا سکے لیکن شریعت کو جو اللہ تعالی نے گھاٹی سے تعبیر کیا کہ جب تم اس مشکل راستے پہ مشکل گزرگاہ میں داخل ہو جاؤ تو اس کے مقاصد بھی آپ کو بتا دیے پہلا مقصد ہے 

فَكُّ رَقَبَةٍ

گردن کو آزاد کرنا، ہمارے علماء صرف غلام کو آزاد کرنے کی بات کرتے ہیں، غلام تو آج کل وہ تصور ہے بھی نہیں جو اس زمانے میں تھا تو آج اگر ہم نے اس تعبیر پر عمل کرنا ہے تو 

فَكُّ رَقَبَةٍ

قوم کو غلامی سے نکالنا، عالمی قوتوں کے غلامی سے قوم کو آزاد کرنا یہ قرآن کے الفاظ ہیں اس کو ہم ایک فرد تک محدود نہیں رکھ سکتے، گھر میں رکھے ہوئے ایک غلام یا باندی تک ہم اس کو محدود نہیں رکھ سکتے وہاں سے اٹھا کر ہم نے پوری دنیا پر اس کو نافذ کرنا ہے اور غلام قوموں کو غلامی سے آزاد کرنا یہی اس کی تعبیر آج ہو سکتی ہے۔ تو سب سے پہلی چیز شریعت کا اولین تقاضہ یہ آزادی ہے

أَوْ إِطْعَامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ

اور بھوک میں ایک بھوکے کو کھانا کھلانا، تو ایک فرد سے لے کر محلے کے ایک غریب سے لے کر آپ پوری قوم اور امت کے معاشی اصلاحات کرنا چاہتے ہیں، قوم کو آپ معاشی خوشحالی دینا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے آزادی اور اس کے بعد خوشحال معیشت، قوم کی غربت اور ان کی بھوک کو ختم کرنا اور پھر اس کے بعد جو ہمارے مفلوق الحال طبقے ہوتے ہیں ان طبقوں کی طرف توجہ دینی ہوگی 

يَتِيمًا ذَا مَقْرَبَةٍ ۔ أَوْ مِسْكِينًا ذَا مَتْرَبَةٍ

یہ وہ مخلوق الحال طبقے ہیں کہ یتیم بھی ہو اور آپ کا قرابتدار بھی ہو مسکین بھی ہو اور وہ خاک آلود ہو اس کے جسم پر کپڑا نہیں ہے کپڑا ہے تو پھٹا پرانا ہے وہ لباس سے محروم ہے آپ نے ان طبقوں کو بھی خیال رکھنا ہے یتیم طبقہ مسکین طبقہ معیشت کے حوالے سے بھوکا پیاسا طبقہ یہ آپ کے مدنظر ہو کہ ہم نے اس طبقوں کو خوشحال بنانا ہے اور پھر اس کے بعد ایمانیات کی بات اللہ کرتا ہے 

ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ

تو صبر کو عام کرنا برداشت کو عام کرنا امت کی ایسی تربیت کرنا کہ اس کے اندر استقامت آجائے اور یہ کس مرحلے میں ہوتا ہے جب آپ حق کی بات کرتے ہیں 

وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ

اور جب آپ حق کی بات کریں گے تو حق سے کیا مراد ہوگا، ہم تو اپنے کمزور کے سامنے جب کوئی سچی بات کہہ دیتے ہیں اس کو حق سے تعبیر کرتے ہیں کمزوروں کے سامنے حق بات کہنا وہ تو ہر عام آدمی کر سکتا ہے اللہ جو فرما دیا 

وَتَوَاصَوْا بِالْحَق

کہ حق کو پھیلاؤ تو یہاں پر حق سے مراد کیا ہوگا، 

تُعْرَفُ اَلاَشْیاءُ بِاَضْدادِھا

پہلے ضد کی طرف جائیں گے ہم اس کا ضد ڈھونڈیں گے تو حق کا فرد کامل ہمیں معلوم ہوگا اور حق کا مقابل باطل ہے، باطل کس کو کہتے ہیں ہمارے سامنے ہمارے سوسائٹی میں جب ہم باطل کو دیکھتے ہیں اس کا تعین کرتے ہیں تو وہ وقت کا جابر حکمران ہوا کرتا ہے، جب آپ نے وقت کے جابر حکمران کو دیکھ لیا اس کے سامنے جب آپ حق کی بات کریں گے تو اس حق کو وَتَوَاصَوْا بِالْحَق سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، کیونکہ آزمائشیں ہمیشہ حکمرانوں کی طرف سے آتی ہیں، غریب آدمی آپ کے برابر کا آدمی جب آپ اس کے سامنے سچی بات کہتے ہیں وہ آپ پر کوئی آزمائش مسلط نہیں کر سکتا لیکن باطل حکمران جابر حکمران آپ پر آزمائشیں مسلط کرتا ہے اس لیے حق سے یہی تعبیر ہوگا کہ ایک جابر حکمران کے سامنے آپ نے کلمہ حق کہہ دیا اور پھر اس کے مقابلے میں جب آزمائشیں آتی ہیں تو اللہ آپ سے کہتا ہے وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ پھر اپنے اندر صبر اور استقامت بھی پیدا کیا کرو۔ کیا ہمارے اکابر سے ہم زیادہ عبادت گزار ہیں؟ کیا وہ تنہائیوں میں اللہ سے مناجات نہیں کیا کرتے تھے؟ کیا وہ تنہائیوں میں اللہ کے سامنے نہیں رویا کرتے تھے؟ کیا ہم اپنی عبادات کا مقابلہ ان کی عبادات سے کر سکتے ہیں؟ کیا ہم اپنے مناجات کا مقابلہ ان کے مناجات سے کر سکتے ہیں؟ کیا اللہ سے اپنے تعلق کے وہ دعوے کر سکتے ہیں جس تعلق کو ہم ان کے لیے ثابت کیا کرتے ہیں؟ تو پھر صاف ظاہر ہے کہ ہمیں اس بات کو طے کرنا ہوگا کہ دنیا میں جو جابر سے جابر حکمران ہیں حق اسے کہتے ہیں کہ اس جابر کے سامنے بیان کیا جائے گا، آج اگر امریکہ دنیا کی بڑی طاقت ہے اور وہ سب سے بڑا جابر حکمران ہے تو اس کے سامنے کلمہ حق کہنا وَتَوَاصَوْا بِالْحَق کی تعبیر ہو سکتی ہے اس سے کم پہ ہم اکتفا نہیں کر سکتے۔ آج اگر ہمارے ملک میں کوئی جابر ہم پر مسلط ہوتا ہے اور اللہ کے دیے ہوئے دین کے مقابلے میں ہمیں اپنی مرضی کا نظام دینے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے سامنے کلمہ حق کہو گے تب وَتَوَاصَوْا بِالْحَق کی تعبیر بن سکتے ہو ورنہ پھر ہمیں خواہ مخواہ دھوکے نہ دیا کرو۔ یہ ہمیں اپنے اکابر نے سکھایا ہے جن کی اتباع سنت کی ہم قسمیں کھاتے ہیں ان کی اتباع سنت کو ہم اپنے لیے معیار سمجھتے ہیں تو پھر ان کی طرح بننے کے لیے تو پھر آپ کو 

وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ

تو رحمت کائنات بھی ہیں آپ، تو اس میں رحمت کا تصور بھی وہی ہوگا جو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کے لیے ہمیں عطاء کیا ہے اس نظام کو ہمیں اپنانا ہوگا۔

تو میرے محترم دوستو! یہ اجتماعات اس لحاظ سے نہایت مفید اجتماعات ہیں کہ ہم اس میں مقصد حیات کو سمجھ سکیں، اس کے اعلیٰ معیار کو سمجھ سکے، اس اعلیٰ معیار کو اجاگر کرنے کے لیے ہم جدوجہد کر سکے اور پھر جا کر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے دعویدار بن سکتے ہیں۔ تو یہ مہینہ بھی ربیع الاول کا مہینہ ہے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نور کائنات میں چمکا اور آپ نے کائنات کے ہر ذرے ذرے کو روشنی بخشی، ہم اس پیغمبر کے دعویدار ہیں ہم اس پیغمبر کے محبت کے دعویدار ہیں، تو عملی زندگی میں ہمیں اس کا معیار بھی بننا چاہیے، اس لحاظ سے قوم کے اندر اجتماعیت کی ضرورت ہے، نئی نسلوں کے اصلاح کی ضرورت ہے ان کو صحیح راستہ دکھانے کی ضرورت ہے اور اسی حوالے سے ہمیں معاشرے میں پھیلنا ہوگا ان شاءاللہ، ہمارا تو ماحول جذباتی ہوتا ہے، آج میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہا تھا میں نے کہا ہم نے تو کچھ تھوڑا پڑھا ہے، آئینی ترمیم کا مسودہ پڑھا بھی ہے اور ہم پڑھ کر کہتے ہیں کہ غلط ہے عوام نے تو پڑھا ہی نہیں ہے سرے سے اور اس کے باوجود ہمیں میسج پہ میسج آرہے ہیں خبردار اس ترمیم کی حمایت نہیں کرنی، بابا تمہیں ترمیم کا پتہ ہے؟ پہلے معلوم تو کرو کہ مسئلہ کہاں بگڑا ہوا ہے لیکن ہم ایک بات بڑے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اگر ہم سیاست میں ہیں اگر ہم پارلیمنٹ میں ہیں تو عوام کے حقوق کو اور اس کے معیار کو تحفظ دینا یہ اپنے لیے امانت سمجھتے ہیں۔ تو ان شاءاللہ ہم نے یہ سفر جاری رکھنا ہے ایک قومی وحدت کے ساتھ آگے بڑھنا ہے، نئی نسلوں کی اصلاح کرنی ہے، رسول اللہ کا اسوہ حسنہ ان کے سامنے پیش کرنا ہے اور آنے والی نسلوں کو اسوہ حسنہ سے وابستہ کرنا ہے، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع اللہ ہمیں اس پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ 

واٰخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین 

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب #محمدریاض

ممبرز ٹیم جے یو آئی سوات

#teamJUIswat 

ملتان: قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کا سیرت النبی ﷺ کانفرنس سے خطاب

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Friday, September 20, 2024

 

0/Post a Comment/Comments