قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمان صاحب کا قومی اسمبلی اجلاس میں اہم خطاب 12 ستمبر 2024

قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمان کا قومی اسمبلی میں اہم خطاب

12 ستمبر 2024 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم 

جناب اسپیکر! چند روز قبل اس پارلیمنٹ میں پارلیمنٹ بلڈنگ کے اندر اس کے حدود میں جو معزز اراکین ایوان کے ساتھ نا خوشگوار واقعہ پیش آیا تھا میں شدید الفاظ میں اس کی مذمت کرتا ہوں ساتھ ہی آپ نے اپنے ایوان کے کولیگز کے حوالے سے جو اقدام کیا ہے اس پر میں آپ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں لیکن یہاں جو ہم تقریریں کر رہے ہیں اس کی مذمت کر رہے ہیں یہ صرف اپوزیشن ارکان کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ یہ بذاتِ خود پورے ایوان کے ساتھ ہوا ہے، ہر رکن اسمبلی کے ساتھ ایوان کا تقدس وابستہ ہوتا ہے اور جب اس کی عزت اس کے آبرو کو بریج کیا جاتا ہے تو پارلیمنٹ باقاعدہ اس پر ایک کمیٹی بناتی ہے اس کمیٹی میں معاملات جاتے ہیں اس کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے، حق تو یہ ہے جناب اسپیکر کہ آپ کی قیادت میں اس ایوان کو کم از کم تین دن تک بند کر دیا جاتا احتجاج کے طور پر کہ آئندہ اس ایوان کے ساتھ اراکین کے ساتھ اس قسم کے اقدامات نہیں ہوں۔ 

جناب والا فروری سے لے کر آج تک اس ایوان میں ہم ابھی تک اس صورتحال سے باہر نہیں نکلے، جب ایک رکن اسمبلی کو اپنی ذات اور اپنی ذات کی دفاع تک محدود کر دیا جاتا ہے تو پھر وہ ملک و قوم کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کر سکتا۔ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ ہمیں کچھ وقت پبلک کے لیے بھی دینا چاہیے میں نے خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کے امن و امان کے حوالے سے بات کی تھی شاید جناب سپیکر آپ کے علاقوں میں اس کی حساسیت کا ادراک نہیں ہو پا رہا ابھی تک، جن علاقوں میں ذرا امن ہے کچھ سکون ہے وہ اس کا ادراک نہیں کر پا رہے کہ جو صورتحال آج خیبر پختونخواہ میں ہے یا بلوچستان میں، اللہ تعالیٰ اس ملک کو سلامت رکھے، ہمیں اس وطن کی سلامتی، اس کی وحدت اور اس کی یکجہتی عزیز ہے، یہ ہمارا گھر ہے اور اگر کوئی ہمارے گھر کو اجاڑتا ہے تو ضرور ہم نے اپنے گھر کی حفاظت کے لیے کردار ادا کرنا ہے۔ 

جس وقت میں اس سے قبل یہاں گفتگو کر رہا تھا ایک ہفتہ پہلے آج وہاں کی صورتحال مختلف ہو گئی ہے، پہلے تو یہ مسئلہ تھا کہ پولیس کے بارے میں میں نے کہا کہ سورج غروب ہونے سے پہلے وہ تھانوں میں محدود ہو جاتے ہیں انہیں باہر نکلنے سے منع کر دیا گیا ہے ساری رات صبح تک مسلح گروہوں کے قبضے میں ہوتی ہے، سڑکیں ان کے قبضے میں ہیں، دیہاتیں ان کے قبضے میں ہیں، دیہاتوں کی مسجدیں ان کے قبضے میں ہیں، لوگوں کے بیٹھکیں ان کے قبضے میں ہیں اور اس صورتحال میں آپ مجھے بتائیں کہ پھر ریاست کی رِٹ کہاں ہے؟ فوج کہاں ہے؟ ریاست کے دفاع کی قوت کدھر ہے؟ کیا اس کا فرض صرف اس اسلام آباد تک محدود ہے کہ وہ اپنے مخالفین پر دھاوا بول دیں اور کہیں کہ ہم ریاست کا تحفظ کر رہے ہیں۔ کیا عوام کی کوئی حقوق نہیں ہے! آج وہاں پر پولیس نے دھرنے دیے ہوئے ہیں، لکی مروت سے دھرنا شروع ہوا ہے اور اب یہ ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی بڑھ رہا ہے، صورتحال وہاں بھی پھیل رہی ہے، باجوڑ میں بھی چلا گیا ہے، بنوں میں بھی چلا گیا ہے اور مختلف اضلاع میں اگر پولیس نے دھرنا دے دیا بائیکاٹ کر دیا اپنے فرض کے انجام دہی سے پیچھے ہٹ گئے آپ مجھے بتائیں کہ کیا صورتحال ہوگی ہماری نہ سنی جائے کم از کم اپنے ریاستی ادارے پولیس کی تو سنی جائے۔ کہاں ہم کھڑے ہیں! کیوں اس چیز کا احساس نہیں ہو رہا ہمارے ہاں! ہم لگے ہوئے ہیں کہ صاحب ہمارے ہاں آئینی ترامیم کئیں جائیں، ہمارے ہاں ادارے اور اداروں کے بڑے وہ اپنی ایکسٹینشن کے لیے فکر مند ہیں اپنے اداروں کی اصلاح اور تقویت کے لیے فکر مند نہیں ہے۔ ایکسٹینشن کا عمل اگر فوج کے اندر ہے تب بھی غلط ہے، اگر عدلیہ کے اندر ہے تب بھی غلط ہے، اگر سول بیوروکریسی کے اندر ہے تب بھی غلط ہے۔ یہ تو کب پارلیمنٹ بھی مطالبہ کر سکتا ہے کہ پانچ سال کے بعد ہمیں بھی پانچ سال کی ایکسٹینشن دے دی جائے، اگر کورٹ کو حق حاصل ہے، اگر فوج کو حق حاصل ہے، اگر بیوروکریسی کو حق حاصل ہے، پارلیمنٹ تو سپریم ہے اس کو تو بدرجہ اولی حق حاصل ہوگا (قہقہ)۔ یہ روایتیں حضرت کوئی اچھی روایات نہیں ہیں اور میں برملا اس بات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ اس حوالے سے ہماری پوزیشن بالکل واضح ہے، ہم اپوزیشن ہیں اس پر اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے اور کبھی ہم اس ملک کے اندر ایک غلط روایت کی بنیاد نہیں ڈالنے دینگے۔ 

جناب اسپیکر ہم ان مراحل سے گزر چکے ہیں، جنرل مشرف کا زمانہ تھا ہم اپوزیشن میں تھے ایل ایف او کے ذریعے انہوں نے سپریم کورٹ کے چیف کے جج کی عمر 68 سال کر دی تھی اور ہم نے لڑ کر اس کی عمر کو پینسٹھ پہ لے آئے بڑے مشکل کے ساتھ، ایک فوجی حکومت میں فوج کے فیصلے کو ریڈیوس کیا جہاں تک ہم سے ہو سکتا تھا، میری اپنی ذاتی رائے یہی تھی کہ ان کو باسٹھ سال تک رکھا جائے لیکن بہرحال دوستوں کی اجتماعی رائے پہ پینسٹھ سال ہوئی، اس 65 سال کے فیصلے پر ہمارے بھائی ہیں ہمارے محترم ہیں پاکستان پیپلز پارٹی اس وقت اپوزیشن میں بیٹھی تھی اپوزیشن میں بیٹھ کر انہوں نے میرے اوپر تنقید کی تھی، ایم ایم اے پر تنقید کی تھی کہ آپ نے پینسٹھ سال کیوں دیے ہیں! ان کو آج آپ ان کی عمر کے اضافے میں وہاں اس بیچ میں بیٹھ کر اس کی تائید کریں گے، کیسے کریں گے کیوں کریں گے میرے بھائی! اصول اصول ہوتا ہے ہمیں کچھ اصولوں کی پیروی کی طرف جانا چاہیے۔

جناب اسپیکر! ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہمارا جو عدالتی نظام ہے وہ فرسودہ ہو چکا ہے، ہمارے عدالتوں کے سامنے جتھے بیٹھے ہوتے ہیں اور وہ فریقین کو اطمینان دلاتے ہیں کہ آپ کا فیصلہ یوں ہوگا اور آپ کا فیصلہ یوں ہوگا، ان جتھوں کو ختم کریں اور عدالت کو طاقتور بنائیں تاکہ اس پر اعتماد ہو، آپ بھی واقف ہیں اس سے اور میں بھی اس سے واقف ہوں، باتیں سچ ہوتی ہیں کوئی کہتا نہیں ہے اور اگر کہنے پڑ جاتی ہے تو ہمارے گلے لگ جاتے ہیں۔ آج بھی حضرت جناب اسپیکر ہماری عدالتیں لابیوں میں تقسیم ہو چکی ہیں، اور وہ باہمی طور پر عدلیہ کے سامنے لائے جائیں اس پر کمیٹی بنائی جائے اور بتایا جائے کہ ہمارے عدالت کا نظام کیا ہونا چاہیے، چیف جسٹس کے لیے ہائی کورٹس کے معیارات اور ہیں اور سپریم کورٹ کے اور ہیں، فوج میں چیف کے لیے معیارات اور ہیں اور عدلیہ میں چیف کے لیے معیارات اور ہیں، کہیں پر آپ کچھ کر رہے ہیں تو کہیں پر آپ کچھ کر رہے ہیں، کسی کو کوئی رعایت دے رہے ہیں اور جب آپ ایکسٹینشن میں مشکل محسوس کرتے ہیں تو مجھے یاد ہے کس طرح ہمارے ہاتھ مروڑ کر ہم سے جبری طور پر ایک چیف آف آرمی سٹاف اس ایوان کے اندر قانون سازی کرائی، آپ کو بھی یاد ہے مجھے بھی یاد ہے جو ایوان اس پر یہ چھاپ لگ جائے کہ یہ عوام کے نمائندہ کم اور اسٹیبلشمنٹ کے نمائندہ زیادہ ہے پھر آپ کو بحیثیت ایوان کے اسٹیبلیشمنٹ کی نوکری کرنی پڑے گی عوام کی خدمت آپ نہیں کر سکتے۔ آج ساٹھ ہزار سے زیادہ مقدمات سپریم کورٹ میں پینڈنگ پڑے ہیں، ان لوگوں کا کیا قصور ہے جن کے مقدمات نسل در نسل چلتے رہتے ہیں، ایک نسل میں مقدمے کا فیصلہ نہیں ہوتا اور ہم پر ایمرجنسی لاگو ہوتی ہے، ہم نے آج ایک قانون پاس کرنا ہے، دوسرا قانون پاس کرنا ہے، سیاست دانوں کو یہ کرنا ہے، سیاستدانوں کو وہ کرنا ہے، اس چیز میں ہم لگے ہوئے ہیں کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ آئینی معاملات کے لیے ایک مستقل عدالت ہی بنا دی جائے تاکہ عام عدالتیں ہماری وہ غریبوں کے معاملات کو طے کریں، عام آدمی کے معاملات کو طے کریں اور فیصلہ کریں کہ جلد جلد انصاف مہیا کیا جائے، ہمارے ملک کے اندر انگریز کے دور کا وہ نظام عدل موجود ہے کہ جو صدیوں تک مقدمات چلتے ہیں اور طے نہیں ہو سکتے، آج بھی ہم اسی روِش پہ چل رہے ہیں ہمیں پاکستان بنانے کے بعد آج عدلیہ کے حوالے سے بھی انقلابی فیصلے کرنے ہوں گے تاکہ ہمارے غریب آدمی کو جلد از جلد انصاف مہیا ہو سکے۔

کیا کر رہے ہیں آپ لوگ؟ نظام کو تبدیل کرنا ہے تبدیلی لانی ہے تو پھر صحیح معنوں میں تبدیلی لائے، میرے حق میں ہو تو وہ تبدیلی اور آپ کے حق میں ہو تو وہ تبدیلی نہیں، اس کو تبدیلی نہیں کہا جاتا، اب جو ہے اس روِش کو تبدیل کرنا پڑے گا، اپنے اعتماد کو بحال کرنا پڑے گا اور اس پارلیمنٹ کو سپریم بنانا ہوگا۔ پارلیمنٹ میں اگر پارلیمنٹ سپریم ہے تو ہر ممبر یہاں پر بات کر سکتا ہے، یہاں پر عدلیہ کی بھی بات ہو سکتی ہے ہم اس سے بھی سپریم ہیں، یہاں پر فوج پہ بھی بات ہو سکتی ہے ہم اس سے بھی سپریم ہے لیکن سب ہمیں اپنا ماتحت سمجھتے ہیں، آج یہاں بات کرو توہین عدالت کا مقدمہ آجائے گا ہمارے پیچھے، اور یہاں فوج کے کردار پر بات کرے ریاست کے کردار پر آپ تنقید کریں، آپ بلوچستان میں کیا کر رہے ہیں، آپ کے پی میں کیا کر رہے ہیں، آپ نے پورے ملک کو اپنے قبضے میں لیا ہوا ہے، امن و امان کا کوئی نام و نشان نہیں ہے، اس پر آپ بحث کریں ایجنسیاں آجاتی ہیں آپ کو ایوان سے پکڑ کر لے جاتی ہیں۔ (اسپیکر: وہ تو آپ کی آئین میں لکھا ہوا ہے کہ ہم عدلیہ اور فوج کے خلاف نہیں بات کر سکتے تو اس لیے) ان کی اصلاح کے لیے تو بات کر سکتے ہیں (اسپیکر: جی اصلاح کے لیے تو بات کرسکتے ہیں) میں تو اصلاح کی بات کر رہا ہوں، میں ان پر تنقید تو نہیں کررہا، سر آنکھوں پر، عدالتیں فوج کے، جنرل سر آنکھوں پہ، ججز ہمارے سر آنکھوں، لیکن اس کا نظام کو تو ٹھیک کریں، تاکہ وہ جبر تو نہ کریں، آئین سے تجاوز تو نہ کریں، اخلاق سے تجاوز تو نہ کریں، پارلیمنٹ کا تقدس تو خراب نہ کریں، ہم ان کے خلاف نہیں بولیں گے میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں لیکن میرے اراکین کو اس طرح گرفتار کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جا سکتی! آپ کسٹوڈین ہیں آپ نے صحیح کردار ادا کیا ہے اور صرف ایوان کی بلڈنگ نہیں لاجز بھی آپ کے انڈر ہیں وہاں پر بھی پولیس کو جانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے آپ کی اجازت کے بغیر۔ 

(اسپیکر: مولانا صاحب آپ کو یاد ہے کہ ایک دفعہ جب ہوا تھا اس کے بعد سب نے مل کے ڈلوایا تاکہ لاجز بھی پارلیمنٹ کا حصہ گنا جائے گا تو وہاں بھی آپ صحیح کہہ رہے ہیں کہ وہاں بھی جانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اور ہے بھی نہیں)۔

تو یہ ساری صورتحال ہے، ٹھیک ہے ایک کرائٹیریا ہے کہ سینیارٹی کی بنیاد پر فیصلے ہونے چاہیے لیکن صرف سینیارٹی بھی تو کافی نہیں ہوتی، ذرا ریکارڈ دیکھا جائے اہلیت کتنی ہے اس کی، ذرا دیکھا جائے فٹنس کیا ہے اس کی، فالج زدہ معزور آدمی کو بھی آپ کہہ دیں کہ وہ چیف جسٹس ہو چیف آف آرمی سٹاف بن جائے، وہ کیسا ہو سکتا ہے؟ تو یہ سارے چیزوں کو دیکھ کر اصلاحات کی طرف جانا چاہیے اور اس کے لیے میں تو یہ سوچتا ہوں اور میری تجویز ہوگی کہ چیف جسٹس کے لیے جوڈیشل کونسل اور پارلیمانی کمیٹی کا مشترکہ اجلاس ہو اور یہ فیصلہ کرے کہ کس کے حق میں فیصلہ کیا جاتا ہے، پینل لائے جائیں تین کے لائے جائیں یا پانچ کے لائے جائیں لیکن اصلاح کی طرف تو جائے! ممکن ہے میری رائے غلط ہو میں کوئی ایسی بات نہیں کہہ رہا ہوں کہ خدانخواستہ کوئی حتمی بات ہے لیکن اس پارلیمنٹ پر اعتماد کیا جائے اس کی کمیٹی بیٹھے ان کے ساتھ بیٹھے سوچیں اس بات پر کہ ہم نے عدلیہ کے اندر اصلاحات کیسے لانے ہیں اور ایوان میں پیش کیے جائیں۔

تو ان چیزوں پر ہمیں فوکس کرنا چاہیے میری جماعت اس کے لیے سنجیدہ ہے اور شاید ہم اپنے وکلاء کے مشورے کے ساتھ اس حوالے سے کچھ تجاویز ایوان میں لائیں گے بھی اور کوشش کریں گے کہ ہم اس ملک کے اداروں کی اصلاحات کی طرف جائیں اور اداروں کو اپنے حدود سے تجاوز کرنے کے راستے ہم بند کر دیں چاہے وہ فوج کا ادارہ ہو چاہے وہ عدلیہ ہو چاہے وہ بیروکریسی ہو۔ آپ بھی ابھی مجھے کہہ رہے تھے کہ ہم نے طے کیا ہے کہ ہم نے یہ تنقید نہیں کرنی اگر میں پارلیمنٹ ہوتے ہوئے اپنے حدود کا احترام کرتا ہوں تو فوج کو بھی اپنے حدود کا احترام کرنا ہوگا اور ججز کو بھی اپنے حدود کا احترام کرنا ہوگا یہ اصول ہونا چاہیے، تو ان کے تقرری کے لیے بھی ایک میکنزم ہونا چاہیے، عدالتی اصلاحات ہونے چاہیے آئینی امور پہ کون غور کرے گا، عام آدمی کے مقدمات پر کون غور کرے گا، ساٹھ ہزار پینڈنگ کیس جو ہے وہ کس طرح طے ہوں گے، یہ ساری چیزیں وہ ہیں کہ ہمیں ان کی اصلاحات کی طرف بڑھنا ہوگا۔ میں اس وقت حکومت کو خاص طور پر اور بنچوں پہ بیٹھے ہوئے معزز اراکین کو خاص طور پر اس طرف متوجہ کروں گا کہ سب سے پہلے ذمہ داری آپ کی بنتی ہے آپ کو اس بارے میں اقدامات کرنے چاہیے اپوزیشن کو اعتماد میں لیں ہمیں اعتماد ملے ورنہ پھر ہم خود اصلاحات کی تجویز اپوزیشن کے دوستوں کے مشاورت کے ساتھ پیش کریں گے اور ان شاءاللہ العزیز اس کام کو آگے بڑھانا ہے اللہ تعالی ہماری مدد فرمائے۔ 

و اٰخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین


ضبط تحریر: #محمدریاض

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات

#teamJUIswat



0/Post a Comment/Comments