مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا رحمت کائنات سیمینار سے فکر انگیز خطاب


رحمت کائنات فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام رحمت کائنات سیمینار سے قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا فکر انگیز خطاب

10 ستمبر 2024

جناب صدر محترم حضرات علماء کرام بزرگان ملت میرے دوستو اور بھائیو! رحمت کائنات فاؤنڈیشن اور اس کے منتظم اعلی برادر مکرم مولانا اسعد محمود صاحب دامت برکاتہم کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ انہوں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے عنوان سے یہ خوبصورت، خوشبودار اور خوشگوار محفل سجائی ہے رب العزت ان کے ان کاوشوں کو قبول فرمائے اور ہمارے مرحوم برادر محترم حضرت شیخ مولانا عبد الحفیظ مکی رحمہ اللہ کی وصیت کا تقاضا ہے کہ جس پر آج رحمت کائنات فاؤنڈیشن قائم ہوئی اور اس کے زیر انتظام ملک کے مختلف اضلاع میں اس قسم کے پروگرام منعقد کرنے کا انتظام ہے اللہ تعالی تمام کاوشوں کو اپنے دربار میں قبول فرمائے۔

مجھ سے پہلے مقررین نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کے مختلف پہلوؤں پر بات کی ہے جس جہت سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کو زیر بحث لایا جائے ہر بحث ناتمام رہتی ہے ہم تو سیرت کی بات کرتے ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو حسن صورت اللہ نے عطا کی تھی علماء کرام اس بات پر متفق ہیں شوریٰ حدیث اس بات پر متفق ہیں کہ آپ کے ظاہری حسن صورت کا ادراک بھی قوت بشری سے باہر ہے۔ صحابہ کرام نے بھی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شمائل کا ذکر کیا ہے، آپ کے حسن ظاہری کو بیان کیا ہے لیکن جہاں تک ان کی نظر جاتی تھی جہاں تک ان کی نظر جاتی تھی وہی بیان کیا ہے، آپ کا حسن اس سے بھی آگے تھا،

حسنِ یوسف، دمِ عیسٰی، یدِ بیضا داری

آنچہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہا داری

لیکن بہرحال اس پر بھی اتفاق ہے کہ حسن ظاہری کا اتباع کسی بھی انسان کے لیے ناممکن ہے حسن صورت کی نقالی ہم کیسے کریں گے آپ کا رخ انور کہاں سے لائیں گے آپ کی جبین روشن جبین کہاں سے لائیں گے آپ کی بھنویں ہم کہاں سے لائیں گے آپ کے آبرو کی نقالی ہم کیسے کریں گے آپ کے قد کاٹ کی ہم کس طرح تابعداری کریں گے یہ تو قوت بشر سے باہر ہے لیکن با اعتبار سیرت کے آپ کا اتباع واجب ہے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی سیرت کے حوالے سے آپ کی تعلیمات کے حوالے سے آپ نے جو دین ہمیں پڑھایا اس حوالے سے رسول اللہ کو سمجھنا بھی واجب ہے اور رسول اللہ کی پیروی کرنا بھی واجب ہے اس لیے جھگڑے نہ کیا کرو با اعتبار رسالت کے اگر وہ ہر جگہ موجود ہے تو کوئی مسئلہ نہیں بنتا ان کو پہچاننا بھی تو ہے نہیں ہوگا تو کیسے پہچانے گے ایک نور تھا جو کائنات میں چمکا اور کائنات کے ذرے ذرے کو اپ نے روشنی عطا کی اس لیے اللہ تعالی نے نہ آپ کو سورج کہا نہ آپ کو چاند کہا، سورج ہے تو اپنی ذات میں ایک آگ ہے اور چاند ہے تو اس کے اپنی روشنی ہے ہی نہیں وہ تو اپنے روشنی کا اکتساب بھی سورج سے کرتا ہے اللہ تعالی نے آپ کو سراج منیرا کہا، چراغ ہے اور چراغ اگر ٹمٹماتا بھی ہے تب بھی اس سے بیسیوں اور شمع جلائی جا سکتی ہے اور چراغ جلایا جا سکتا ہے ہر طرف ان کی روشنی پھیل رہی ہوتی ہے اور ہمہ وقت اس سے استفادہ کیا جاتا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا اتباع اس کی مثال ایسی ہے جیسے امام کھڑا ہے اور اس کے پیچھے ایک ہزار صفیں بھی ہوں تب بھی ہر مقتدی پر بالکل بھی واجب نہیں کہ وہ یہ معلوم کر لے کہ میرا امام سفید ہے کالا ہے لمبا ہے ڈنگا ہے چھوٹے قد کا ہے موٹا ہے دبلا ہے پتلا ہے اس اعتبار سے امام کی شناخت کسی مقتدی پر واجب نہیں لیکن امام اگر کھڑا ہے تو اس کو کھڑا رہنا پڑے گا اگر وہ رکوع میں ہے تو رکوع میں جانا پڑے گا اگر وہ سجدے میں ہے تو سجدے میں جانا پڑے گا اگر وہ تحیہ پر ہے تو تحیہ میں جانا پڑے گا اور اگر امام کو غلطی ہو جائے آپ کا حق ہے اس کو بتائیں لیکن اگر وہ آپ کی بات کو قبول نہ کرے تب بھی اس کی غلطی کی بھی اتباع کرنی ہوگی اگر سجدہ سہو کر لیا تو ٹھیک نہیں تو جماعت کا اعادہ کرنا ہوگا سب کو، لیکن یہ نہیں کہ امام سجدے میں جائے اور آپ کھڑے رہے اس لیے کہ امام صاحب غلط ہو گیا۔

تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی واجب ہے آپ کی سیرت کی پیروی واجب ہے اور اس اعتبار سے ہر جگہ آپ کا موجود ہونا یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے جو ہم نے بنایا ہوا ہے لیکن جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سید الاولین اور سید الاخرین کا مقام حاصل ہے شب معراج کو جب آپ مسجد اقصی پہنچے تو تمام انبیاء کی آپ نے امامت کی تو جب انبیاء کے امام بنے تو ہر نبی کے پیروکاروں کے بھی امام بن گئے ہر نبی کی امتوں کو بھی امام بن گئے اور قیامت تک کے لیے آپ امام ہیں تو پچھلی امتوں کی بھی امام آپ اور قیامت تک آنے والے لوگوں کی امام بھی آپ اتنی بڑی امامت اتنی عظیم الشان امامت انسانیت میں کس کو حاصل ہے اور پھر اللہ رب العزت نے عالم ارواح میں انبیاء کرام سے عہد لیا تھا،

وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّهٗؕ- قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰى ذٰلِكُمْ اِصْرِیْؕ-قَالُوْۤا اَقْرَرْنَاؕ-قَالَ فَاشْهَدُوْا وَ اَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِیْنَ۔

جب اللہ تعالی نے تمام انبیاء سے میثاق لیا تھا اور یہ کہا تھا کہ اگر آپ اس کا زمانہ پائیں گے تو پھر آپ پر لازم ہوگا کہ ان پر ایمان بھی لاؤ گے اور ان کی مدد بھی کرو گے، لَتُؤْمِنُنَّ لام بھی تاکید کا ہے اور آخر میں نون مشدد بھی تاکید کا ہے دو تاکیدیں ابتدا بھی اور آخر بھی،

لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّهٗؕ

آپ پر اس پر ایمان لانا بھی لازم ہوگا اور اس کی مدد کرنی بھی لازم ہوگی۔ پھر اللہ تعالی نے دوبارہ پوچھا کہ تم نے میرے ساتھ یہ عہد کر لیا ہے سب نے کہا ہم نے عہد کر لیا ہے پھر اللہ نے فرمایا پھر تم گواہ رہو میں بھی آپ کے ساتھ اس بات پر گواہ ہوں کہ اقرار ہو گیا ہے اور تمام انبیاء پر ایمان لائیں گے اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میرے بعد حضرت موسیٰ بھی ہوتے لما وسعہ الاتباع ان کے لیے بھی میری پیروی کے علاوہ کوئی اور چارہ نہ ہوتا۔

آج کل لوگ بات کرتے ہیں نا کہ حضرت عیسی علیہ السلام بھی تو آئیں گے نا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عیسیٰ آگئے تو تم بھی تو اس کا اقرار کر رہے ہو تو ختم نبوت کے عقیدے پر سوال اٹھاتے ہیں بھائی یہ تو بڑی آسان بات ہے اللہ تعالی کسی سے بھی نبوت دینے کے بعد اس سے واپس نہیں چھینتا اللہ دی ہوئی نعمت کو چھینتا نہیں ہے عام آدمی سے بھی نہیں چھینتا، قوموں سے بھی نہیں چھینتا، پھر انبیاء سے کیسے چھینے،

ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَى قَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ۔

اللہ تعالی جب کسی قوم کو انعام دیتا ہے تو اس انعام کو واپس نہیں لیتا تھا تاوقتیکہ قوم خود اپنے آپ کو اس کا مستحق نہ بنا دے یہ جو ہم لوگ کبھی ایک ایت کا معنی کرتے ہیں نا کہ

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

اس ترجمے میں سہو ہوا ہے اس شعر میں سہوا ہے اس میں بھی تصور یوں ابھرتا ہے کہ اللہ ترقی اس وقت دیتا ہے جب آپ اپنے اپ کو مستحق بنائیں اللہ نعمت اس وقت دے گا آپ کو اگر آپ اپنے آپ کو اس کا مستحق بنائے جبکہ نعمت دینے کے لیے کوئی ضابطہ موجود نہیں ہے اللہ کا، اللہ جس کو چاہے جتنا چاہے نعمتوں سے نواز دیتا ہے لیکن نعمت جب سلب کرتا ہے تو بلا وجہ سلب نہیں کرتا بلکہ

ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَى قَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ۔

اسی ایت کے ساتھ مشابہہ ہے کہ جب تک انسان خود اس کا حقدار نہ بن جائے اللہ اپنی نعمت کو واپس نہیں کرتا۔

وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِنْ كُلِّ مَكَانٍ۔

ہر طرف سے رزق کچ کچ کے ارہا تھا اس ابادی کے اندر،

فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ۔

تب جاکر عذاب دیا جب کفران نعمت کیا اور وہ بھی بھوک کا اور خوف کا، جس طرح آج کل ہم ہیں معیشت بھی تباہ امن بھی تباہ، اس لیے کہ ہم نے اس کی نعمت کی قدر نہیں کی ہم نے جس کلمے کے سہارے پر وطن حاصل کیا ہم نے اس کلمے کے ساتھ بے انصافی کی ہے ہم نے اس کلمے کے ساتھ غدر کیا ہے تو اللہ کے کلمے کے ساتھ غدر کرو گے اور وہ تم پر نعمت کرے گا پھر یہی حالت کرے گا۔

تو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نظام حیات عطا کیا اور جس کی بنیاد پر آپ رحمت اللعالمین بنے پورے کائنات نے آپ سے استفادہ کیا غیر مسلموں نے بھی آپ سے رہنمائی لی اور ہم نے تو وطن عزیز ہی ان کے نام پہ حاصل کیا تو من حیث القوم ہمیں سوچنا ہوگا ہمیشہ دو چیزیں ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اور اللہ رب العزت نے بھی اکثر مقامات پر ان دونوں چیزوں کو اکٹھے ذکر کیا ہے ایک اپ کا عقیدہ آپ کا فیت اور دوسرا اپ کا کردار اور آپ کا کریکٹر، اگر عقیدے اور کردار میں موافقت ہے عقیدہ بھی ٹھیک ہے کردار بھی اس کے موافق ہے،

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ۔

ایمان بھی لائے عقیدہ بھی ٹھیک ہو گیا اور عمل صالح بھی کیا، کردار بھی اچھا، وہ کردار جو اسی عقیدے کے متقاضی ہے لیکن انسان کی کامیابی کہ یہ چار اصول جو اللہ رب العزت نے بیان کیے اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سب سے پہلا جو کامیابی کی کا راز ہے وہ ایمان میں ہے، عقیدہ ٹھیک ہونا چاہیے دوسرا کامیابی کا راستہ اور راز وہ اعمال صالحہ ہے یعنی وہ اعمال وہ کردار وہ کریکٹر جو آپ کہ اس عقیدے اور فیت کے بالکل تابع ہے اور تیسرا وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ کہ آپ حق کا پرچار کریں اب حق کے معنی کیا ہے ہم تو کسی غریب کو اپنے سے کمزور آدمی کو کوئی سچی بات کہہ دے تو ہم نے حق کہہ دیا صافی صاحب میرا دوست ہے میں اس کو سنا دیتا ہوں دو چار یہ حق ہے ہمارے علماء کرام کتابوں میں ہمیں پڑھاتے ہیں تو جو چیز مطلق ذکر ہو خارج میں اس کا مراد فرد کامل ہوا کرتا ہے ایسا ہی ہے نا، یہاں حق مطلقا ذکر ہوا ہے اس حق کا خارج میں فرد کامل مراد ہوگا اور فرد کامل کیسے معلوم کرو گے حق کا فرد کامل کیا ہے کیسے معلوم کرو گے تو کبھی چیزیں پہچانی جاتی ہیں اس کی ضد کی بنیاد پر، وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ یعنی پہلے ہم باطل کو سمجھیں گے کہ خارج میں باطل کا فرد کامل کیا ہے تو اس کے مقابلے میں پھر حق کا فرد کامل بھی سمجھ سکیں گے اور خارج میں باطل کا فرد کامل ایک ظالم اور ظالم حکمران ہوا کرتا ہے سب سے طاقتور ملک کی نظام اس کے ہاتھ میں وسائل اس کے ہاتھ میں، جبر کرتا ہے ظلم کرتا ہے۔

تو جب ایک دفعہ ہم نے باطل کو سمجھ لیا کہ باطل کا خارج میں فرد کامل وہ ایک ظالم اور جابر حکمران کی شکل میں سامنے اتا ہے تو پھر حق کا فرد کامل یہ ہوگا کہ آپ اس جابر اور ظالم حکمران کے مقابلے میں حق کا کلمہ بلند کرے۔ جب یہ کیفیت پیدا ہوگی تو پھر اپ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ پر عمل کرنے والے ہو جائیں اور اس کی دلیل یہ ہے میں نے جو یہ معنی کیا ہے اس کی دلیل کیا ہے اس کی دلیل یہ ہے وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ کیوں کہ ظالم جابر حکمران کے مقابلے میں جب کلمہ حق کہیں گے تو آزمائشیں آئیں گی تکلیفیں آئیں گی مصیبتیں آئیں گی اور ان مصیبتوں کے لیے کہہ دیا کہ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ آپ نے صبر و استقلال کے ساتھ ان کو برداشت بھی کرنا ہے ورنہ چھوٹا موٹا حق ہے اس کے مقابلے میں صبر کی کیا ضرورت ہے۔

ہم جیسا کمزور آدمی کسی کو سچی بات کہہ دے اس کی کیا حیثیت ہے اصل بنیاد یہ ہے کہ ہم قرآن کریم کو اس انداز سے سمجھیں جس طرح جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل کے ذریعے سے دکھایا جیسے انبیاء کرام نے دکھایا حضرت موسیٰ کا مقابلہ فرعون سے تھا حضرت ابراہیم کا مقابلہ نمرود سے تھا بڑے بڑے جواب راہ کے ساتھ ان کا مقابلہ تھا نبی علیہ الصلواۃ والسلام کا مقابلہ ابو جہل اور اس قسم کی مخلوق کے ساتھ تھا طاقتور ترین قوتوں کے سامنے کلمہ حق کہہ دیا یہ وہ آپ کی سیرت ہے اب اس نظام کی ابتدا تمام انسانیت اس پر متفق ہے کہ انسانی معاشرے کے جو مدنی طبع ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر زندگی گزارنے کی مزاج اور طبیعت رکھتے ہیں جب مل جل کر رہو گے تو کوئی نظام ہوگا جو اپ کے حقوق کا تعین کرے گا اپ کو ایک دوسرے سے وابستہ کرے گا اور اس کا اغاز قانون سے نہیں ہوتا اخلاق سے ہوتا ہے پہلے اخلاق اور رویے ٹھیک ہونی چاہیے اپ نے اگر کسی قرض دیا اب وہ قرض ادا نہیں کر رہا تو آپ سے کہتا ہے کہ مہلت دے دو فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَیْسَرَةٍؕ

اگر آپ مہلت بھی دے رہے ہیں اور پھر بھی ادا نہیں کرتا پھر اللہ کہتا ہے معاف کر دو تو پہلے اس سے کہتا ہے کہ وقت پہ ادا کرو، نہیں ادا کر سکتا تو مہلت دے دو، مہلت سے بھی کام نہیں بنتا تو معاف کر دو اب ایک ادا نہیں کر رہا اور دوسرا معاف نہیں کر رہا تو یہاں سے قانون شروع ہو جاتا ہے پھر عدالت کی طرف رجوع کرنا پڑے گا پھر تھانے جانا پڑے گا ایف آئی ار کرانا پڑے گا کہ میرا حق مجھے نہیں دے رہا ورنہ آغاز تمام تعلیمات آپ دیکھیں آغاز ابتدا دونوں طرف کے لیے اخلاقیات کے ساتھ ہے۔

تو بنیادی چیز اعلیٰ اخلاق ہیں جو ہم اپنے اندر پیدا کرے، انسان کے اپنے اندر ذات میں دیانت ہونی چاہیے اور امانت ہونی چاہیے،

وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ۔

ہم نے جن و انس کو صرف اور صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے تو اولین چیز انسان کے اندر بندگی ہے اور امانت ہے کہ بس یہ امانت مجھے حاصل ہو گئی ہے اب یہ اس سینے میں محفوظ رہے گی لیکن جب بندگی بھی حاصل ہو گئی ایمان بھی اپ کو مل گیا امانت بھی مل گئی اس کے بعد،

اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ؕ۔

آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور اسلام کو بطور نظام تمہارے لیے پسند کر لیا ہے اب میں نے آج تمہارے لیے دین مکمل کر دیا ہے دین کا مکمل ہونا بہ اعتبار تعلیمات و احکامات کے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللّٰہ کی طرف سے بھیجے گئے دین کو یعنی دین میں جو آپ نے زندگی گزارنی ہے اس کی تعلیمات کیا ہے اس کے احکامات کیا ہیں وہ سارے کے سارے بتا دیے ہیں کیوں کہ قرآن کا شارح اول رسول اللہ خود ہے۔

وَاَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے نعمت مطلقا ذکر ہوا ہے خارج فرد کامل مراد ہوگا فرد کامل اس دین کامل کے اقتدار کا نام ہے میں نے اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے یعنی میں نے تمہیں اس دین کا اقتدار حوالے کر دیا ہے لہذا اقتدار کے بغیر نعمت سمجھنا یہ کمزور فرد کی بنیاد پر آپ کا ایمان ہے اگر مکمل فرد کی بنیاد پر آپ کا ایمان ہوگا تو وہ پھر اس کی اقتدار کی صورت میں ہوگا لہٰذا اسلام پر ایمان لانا اس کو دین سمجھنا اور اس کو کامل اور مکمل دین سمجھنا اس کا تقاضا یہ ہوگا کہ اس کا اقتدار بھی ہونا چاہیے۔

ہم صرف چھ باتوں پہ گزارا کر لیتے ہیں اور اس کو پورا دین کہہ دیتے ہیں میں جو کچھ کر رہا ہوں میں اس کو پورا دین کیوں کہتا ہوں میرے اندر وہ چیز نہیں ہے مجھے اعتراف کر لینا چاہیے، نہیں کہ میں دین کو محصور کر لوں کہ جو میں کہہ رہا ہوں حق وہی ہے حق کو اپنے اندر حسر کرنا تنگ نظری کی دلیل ہے دین کی صرف ہم خادم نہیں ہیں اللہ تعالی ہماری خدمت کو قبول فرمائے پتہ نہیں ہماری نیتوں کا کیا حال ہوگا کس درجے میں ہماری خدمات ہوں گی ہم تو یہ بھی نہیں کہہ سکتے لیکن پوری دنیا ہے جہاں جہاں اسلام ہے وہاں وہاں اسلام کا خادم بھی موجود ہے اور وہ اپنے اپنے انداز سے دین کی خدمت کر رہا ہے جنوبی افریقہ سے ائے ہیں وہاں پر بھی دین کی خدمت ہو رہی ہے جس طرح کا ماحول ملتا ہے اس ماحول کے اندر جتنا جتنا اس کے بس میں ہے وہ کر رہے ہیں افریقہ ہے یورپ ہے ایشیا ہے وسط ایشیا ہے مشرقی وسطیٰ ہے ساری دنیا ہے اسلام ہے اور ہر جگہ پر دین کی خدمت کرنے والے اپنے انداز سے کام کر رہے ہیں سب کی قدر کرنی چاہیے سب لوگ اپنے اپنے انداز سے کام کر رہے ہیں لیکن اصول ایک ہونا چاہیے طریقہ کار مختلف ہو سکتے ہیں مدارس بھی کام کر رہے ہیں لیکن مدارس والے اگر کہیں کہ صرف یہی دین کا کام ہے جو ہم کر رہے ہیں ایسا بھی نہیں ہے اس کے علاوہ بھی دین ہے اس کے علاوہ بھی اس کی خدمت ہے۔

تو بنیادی چیز یہی ہے کہ پہلے اپنے اندر دین آئے پھر دین کامل جو آپ کو ملا ہے اس کا اقتدار ملے اور وہ نظام حیات بنے آپ کے لیے جب نظام حیات بن جاتا ہے تو پھر اس کی سرحدات کا تحفظ کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے فوجیں اس لیے نہیں رکھی جاتی اسی لیے رکھی جاتی ہے کہ وہ سرحدات کا تحفظ کرے تاکہ باہر سے کوئی حملہ اور اس نظام کے اقتدار کا خاتمہ نہ کر سکے اسی لیے فرمایا،

وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَ عَدُوَّكُمْ۔

جتنا تمہارے بس میں ہو طاقت بڑھاؤ، تیار کرو اپنی طاقت کو اور طاقت بڑھاؤ، زمانے جب مختلف ہو جاتے ہیں تو نظام میں مختلف ہو جاتے ہیں قوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس کو قوت سے تعبیر کیا گیا آج دنیا بدل گئی ہے نظم و ضبط میں فرق اگیا ہے ہم تو اب ایک چھری وغیرہ لائسنس کے بغیر نہیں رکھ سکتے تو پھر قوت کو جو معطوف علیہ ہے اس کو اپ عام کر دیں قوت عام ہے وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ جنگی ساز و سامان یہ معطوف ہے تو معطوف معطوف علیہ جو غیرت ہوتی ہے وہ خصوص کی ہو گئی نا، تو قوت کو عام معنوں میں لے لے اور میرے کو خاص معنوں میں لے لے عام معنوں میں عوام کے لیے جو آپ کی طاقت بن سکتی ہے سیاسی بنے علمی بنے تصنیفی بنے تبلیغی بنے جو قوت آپ حاصل کر سکیں ہمت کرو اور قوت حاصل کرو اور جو حکمرانوں کا فریضہ آتا ہے تو طاقت اور بڑھاؤ اور ایٹم بم بنا کے دکھاؤ دنیا کو دکھاؤ صرف اس لیے نہیں کہ تم لڑو اس سے، اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ تقاتلون بہ ترھبون بہ تمہارا دھاک رہے۔

تو ایک ہے قوت کا حصول اور ایک ہے قوت کا استعمال، قوت کے حصول میں تو آپ کو اجازت دے دی جتنی طاقت ہو آپ استعمال کریں کسی قسم کی پرواہ مت کیا کریں لیکن اس کا استعمال بھی احتیاط کی بات کی ہے یہ نہیں فرمایا کہ طاقت آگئی آپ کے ہاتھ میں فوراً لڑائی شروع کر دو اور خون بہانا شروع کر دو بس سیدھا کہا کہ تمہاری دھاک بیٹھی رہے گی دشمن کے اوپر، تو وہ آپ کی طرف رخ نہ کر سکے وہ آپ کے سرحدات پر حملہ نہ کر سکے، وہ آپ کے اسلام کی اقتدار کا خاتمہ نہ کر سکے۔

یہ ساری چیزیں بالترتیب قرآن کریم نے ہمیں سکھائی ہے اور جناب رسول اللہ نے اس پر عمل کیا ہے اپنے دور نبوت میں اس پر عمل ہوا، خلافت راشدہ میں بھی اسی پہ عمل ہوا ارتقائی طور پر چیزیں منظم ہوتی رہے اور آگے بڑھتی رہی اور چودہ سو سال گزر گئے ہیں اور آج ہم نے دین کو صرف عبادت تک محدود کر دیا ہے عبادت تو انسان کا انفرادی عمل ہے وہ تو گھر میں آپ ہاتھ بھی دھو سکتے ہیں گھر میں آپ وضو بھی کر سکتے ہیں اور غسل بھی کر سکتے ہیں آپ کے گھر کی ضرورتیں جو ہے وہ آپ پوری کرتے رہتے ہیں آپ کی ذاتی معاملات ہیں لیکن جب مملکت کی بات آئے گی تو وہاں پر بھی تو شریعت ہے وہ تو ہم نے بھلا ہی دیا ہم تو ان لوگوں کو مذاق اڑاتے ہیں ہم جب بات کرتے ہیں مسلم لیگ پیپلز پارٹی پی ٹی آئی جے یو آئی ایک جیسی ہے کوئی فرق ہی نہیں ہے نہ کاسٹ کا، نہ نظریے کا، نہ عقیدے کا، نہ مقاصد کا، نہ نصب العین کا، وہ بھی ووٹ مانگتا ہے وہ بھی ووٹ مانگتا ہے ووٹ مانگتا ہے تو وہ بھی ووٹ مانگتا ہے تو وہ بھی ووٹ مانگتا ہے برابر برابر ہوگئے وہ بھی ہتھیار بناتا ہے یہ بھی ہتھیار بناتا ہے کافر بھی ہتھیار بناتا ہے مسلمان بھی ہتھیار بناتا ہے تو وہ بھی ہتھیار بناتا ہے تو یہ بھی ہتھیار تو برابر ہو گئے۔ تو ہتھیار تو ہمارا ہے ووٹ، اب یہ ووٹ آپ کس نظریے کو دینا چاہتے ہیں یہاں سوال پیدا ہوگا آپ سے، تو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی بن جانا یقیناً بہت بڑی نعمت ہے لیکن صرف امتی بن کر اپنی زندگی کو ان کے درود و سلام تک محدود کر دینا صرف نماز تک محدود کر دینا یہ رسول اللہ کے دین کا مقام نہیں ہے دین کا مقام بہت بلند ہے اور جب آپ دین کا نام مطلقاً استعمال کریں گے تو پھر بصورت اقتدار اس کا فرد کامل ہوگا اس کے علاوہ کوئی ہو نہیں سکتا۔

تو یہ ساری چیزیں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ہیں اللہ تعالی ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب

،ممبر مرکزی ڈیجیٹل میڈیا کونٹینٹ جنریٹرز/ رائٹرز ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، کوآرڈینیٹر تحصیل بریکوٹ

#teamjuiswat


اسلام آباد: رحمت کائنات فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام سیرت کانفرنس سے قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کا فکر انگیز خطاب

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Tuesday, September 10, 2024


0/Post a Comment/Comments